محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ان واقعات واجتہادات سے یہ معلوم ہوا کہ:
٭… اگر اجتہادی خطا کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا ازالہ فوری ہونا چاہئے جیسا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کیا۔ اور اگرناممکن ہو توپھر وہ اجتہاد نافذ العمل رہے گا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا۔ عدالت بھی اپنے فیصلہ کی اجتہادی غلطی معلوم ہونے پر اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔
٭… سیدنا داؤد علیہ السلام کی موجودگی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اجتہاد کیا اور جناب رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں شیخین محترمین نے اجتہاد کیا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام اور جناب عمرؓ کا اجتہاد درست تھا جب کہ دونوں دوسروں کی نسبت چھوٹے تھے۔ داؤدعلیہ السلام والد اور سلیمان علیہ السلام ان کے بیٹے تھے ۔علم میں داؤدعلیہ السلام اپنے بیٹے سے بڑھ کر تھے مگر جزوی فہم میں سلیمان علیہ السلام اپنے والد سے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ہر لحاظ سے سیدنا عمرؓ سے بڑھ کر تھے اور ابو بکر ؓ بھی۔ مگر اجتہادی معاملہ میں چھوٹے لوگوں کی رائے مبنی بر صواب ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے امام کی رائے بھی بڑی ہو اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مقابل کسی چھوٹے کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔
٭… امام ابوحنیفہؒ مجموعی فہم میں قاضی ابویوسفؒ سے برتر ہیں اسی طرح امام شافعیؒ اپنے شاگرد امام مزنیؒ سے۔ مگر ہر ایک کے فقہی مسائل کو دیکھا جائے تو بیشتر مسائل میں ان شاگردوں کا فہم اپنے اساتذہ کے فہم سے زیادہ صائب نظر آتا ہے۔ مثلا قاضی ابویوسفؒ اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:
مال غنیمت کی تقسیم میں امام محترم جناب ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو مجاہد گھوڑے پر سوار ہو اسے دو حصے ملیں گے ایک اس مجاہد کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑ سوار کو تین حصے دئیے۔ ایک حصہ مجاہد کا اور دو حصے گھوڑے کے۔ امام ابوحنیفہؒ نے یہ حدیث سن کرمسترد کردی اور فرمایا: لاَ أُفَضِّلُ بَہِیْمَۃً عَلَی رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ میں کسی چوپائے کو مسلمان مرد پر فضیلت اور برتری نہیں دے سکتا۔ قاضی ابویوسفؒ لکھتے ہیں: خود ہمارے شیخ محترم نے بھی تو چوپائے اور مجاہد کو برابر کا درجہ دے دیا ہے۔
٭… بعینہ امام شافعیؒ نے اپنے شیخ محترم امام مالکؒ کے کئی مسائل کی تغلیط کی ہے۔ یہ جزوی فہم کا اختلاف ہے جو فقہی کتب میں جا بجا آیا ہے۔ اور بعض اوقات مجموعی فہم پر اہمیت حاصل کرلیتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اپنے اجتہاد کو شریعت قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کوئی مجتہد نہیں جانتا کہ اس کی اجتہادی رائے عین اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا کہ نہیں ہے ۔ان کے اقوال اس بارے میں شاہد ہیں۔
٭۔ اس لئے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری کی اسی معنی میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کہ وہ عین شریعت ہے۔ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تضاد نہیں جب کہ فقہی اجتہادات میں تضادات نہ صرف قولی ہیں بلکہ اصولی ہیں۔ ایک چیز اگر فقہ حنفی میں حرام ہے تو فقہ شافعی میں وہ حلال ہے۔ فقہ حنفی میں ایک عمل نکاح ہے یا زنا، تو فقہ شافعی میں وہ زنا ہے یا نکاح۔ اگر ان اجتہادات کو شریعت مانا جائے تو خدانخواستہ شریعت تضادات کا مجموعہ ہوئی جو بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ شریعت مطہرہ میں ایک چیز بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ نکاح بھی ہو اور زنا بھی۔ لہٰذا یہ فقہی مذاہب مختلف آراء کا مجموعہ توہیںمگر شریعت نہیں۔
٭… اگر اجتہادی خطا کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا ازالہ فوری ہونا چاہئے جیسا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کیا۔ اور اگرناممکن ہو توپھر وہ اجتہاد نافذ العمل رہے گا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا۔ عدالت بھی اپنے فیصلہ کی اجتہادی غلطی معلوم ہونے پر اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔
٭… سیدنا داؤد علیہ السلام کی موجودگی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اجتہاد کیا اور جناب رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں شیخین محترمین نے اجتہاد کیا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام اور جناب عمرؓ کا اجتہاد درست تھا جب کہ دونوں دوسروں کی نسبت چھوٹے تھے۔ داؤدعلیہ السلام والد اور سلیمان علیہ السلام ان کے بیٹے تھے ۔علم میں داؤدعلیہ السلام اپنے بیٹے سے بڑھ کر تھے مگر جزوی فہم میں سلیمان علیہ السلام اپنے والد سے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ہر لحاظ سے سیدنا عمرؓ سے بڑھ کر تھے اور ابو بکر ؓ بھی۔ مگر اجتہادی معاملہ میں چھوٹے لوگوں کی رائے مبنی بر صواب ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے امام کی رائے بھی بڑی ہو اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مقابل کسی چھوٹے کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔
٭… امام ابوحنیفہؒ مجموعی فہم میں قاضی ابویوسفؒ سے برتر ہیں اسی طرح امام شافعیؒ اپنے شاگرد امام مزنیؒ سے۔ مگر ہر ایک کے فقہی مسائل کو دیکھا جائے تو بیشتر مسائل میں ان شاگردوں کا فہم اپنے اساتذہ کے فہم سے زیادہ صائب نظر آتا ہے۔ مثلا قاضی ابویوسفؒ اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:
مال غنیمت کی تقسیم میں امام محترم جناب ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو مجاہد گھوڑے پر سوار ہو اسے دو حصے ملیں گے ایک اس مجاہد کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑ سوار کو تین حصے دئیے۔ ایک حصہ مجاہد کا اور دو حصے گھوڑے کے۔ امام ابوحنیفہؒ نے یہ حدیث سن کرمسترد کردی اور فرمایا: لاَ أُفَضِّلُ بَہِیْمَۃً عَلَی رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ میں کسی چوپائے کو مسلمان مرد پر فضیلت اور برتری نہیں دے سکتا۔ قاضی ابویوسفؒ لکھتے ہیں: خود ہمارے شیخ محترم نے بھی تو چوپائے اور مجاہد کو برابر کا درجہ دے دیا ہے۔
٭… بعینہ امام شافعیؒ نے اپنے شیخ محترم امام مالکؒ کے کئی مسائل کی تغلیط کی ہے۔ یہ جزوی فہم کا اختلاف ہے جو فقہی کتب میں جا بجا آیا ہے۔ اور بعض اوقات مجموعی فہم پر اہمیت حاصل کرلیتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اپنے اجتہاد کو شریعت قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کوئی مجتہد نہیں جانتا کہ اس کی اجتہادی رائے عین اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا کہ نہیں ہے ۔ان کے اقوال اس بارے میں شاہد ہیں۔
٭۔ اس لئے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری کی اسی معنی میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کہ وہ عین شریعت ہے۔ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تضاد نہیں جب کہ فقہی اجتہادات میں تضادات نہ صرف قولی ہیں بلکہ اصولی ہیں۔ ایک چیز اگر فقہ حنفی میں حرام ہے تو فقہ شافعی میں وہ حلال ہے۔ فقہ حنفی میں ایک عمل نکاح ہے یا زنا، تو فقہ شافعی میں وہ زنا ہے یا نکاح۔ اگر ان اجتہادات کو شریعت مانا جائے تو خدانخواستہ شریعت تضادات کا مجموعہ ہوئی جو بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ شریعت مطہرہ میں ایک چیز بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ نکاح بھی ہو اور زنا بھی۔ لہٰذا یہ فقہی مذاہب مختلف آراء کا مجموعہ توہیںمگر شریعت نہیں۔