• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ان واقعات واجتہادات سے یہ معلوم ہوا کہ:

٭… اگر اجتہادی خطا کا ازالہ ممکن ہو تو اس کا ازالہ فوری ہونا چاہئے جیسا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کیا۔ اور اگرناممکن ہو توپھر وہ اجتہاد نافذ العمل رہے گا جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا۔ عدالت بھی اپنے فیصلہ کی اجتہادی غلطی معلوم ہونے پر اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔

٭… سیدنا داؤد علیہ السلام کی موجودگی میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اجتہاد کیا اور جناب رسول اکرم ﷺ کی موجودگی میں شیخین محترمین نے اجتہاد کیا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام اور جناب عمرؓ کا اجتہاد درست تھا جب کہ دونوں دوسروں کی نسبت چھوٹے تھے۔ داؤدعلیہ السلام والد اور سلیمان علیہ السلام ان کے بیٹے تھے ۔علم میں داؤدعلیہ السلام اپنے بیٹے سے بڑھ کر تھے مگر جزوی فہم میں سلیمان علیہ السلام اپنے والد سے بڑھ گئے۔ رسول اللہ ﷺ ہر لحاظ سے سیدنا عمرؓ سے بڑھ کر تھے اور ابو بکر ؓ بھی۔ مگر اجتہادی معاملہ میں چھوٹے لوگوں کی رائے مبنی بر صواب ثابت ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ بڑے امام کی رائے بھی بڑی ہو اور صرف نام کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے مقابل کسی چھوٹے کی رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔

٭… امام ابوحنیفہؒ مجموعی فہم میں قاضی ابویوسفؒ سے برتر ہیں اسی طرح امام شافعیؒ اپنے شاگرد امام مزنیؒ سے۔ مگر ہر ایک کے فقہی مسائل کو دیکھا جائے تو بیشتر مسائل میں ان شاگردوں کا فہم اپنے اساتذہ کے فہم سے زیادہ صائب نظر آتا ہے۔ مثلا قاضی ابویوسفؒ اپنی کتاب الخراج میں لکھتے ہیں:

مال غنیمت کی تقسیم میں امام محترم جناب ابوحنیفہؒ نے فرمایا کہ جو مجاہد گھوڑے پر سوار ہو اسے دو حصے ملیں گے ایک اس مجاہد کا اور دوسرا اس کے گھوڑے کا۔ اس کے بعد قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھڑ سوار کو تین حصے دئیے۔ ایک حصہ مجاہد کا اور دو حصے گھوڑے کے۔ امام ابوحنیفہؒ نے یہ حدیث سن کرمسترد کردی اور فرمایا: لاَ أُفَضِّلُ بَہِیْمَۃً عَلَی رَجُلٍ مُسْلِمٍ۔ میں کسی چوپائے کو مسلمان مرد پر فضیلت اور برتری نہیں دے سکتا۔ قاضی ابویوسفؒ لکھتے ہیں: خود ہمارے شیخ محترم نے بھی تو چوپائے اور مجاہد کو برابر کا درجہ دے دیا ہے۔

٭… بعینہ امام شافعیؒ نے اپنے شیخ محترم امام مالکؒ کے کئی مسائل کی تغلیط کی ہے۔ یہ جزوی فہم کا اختلاف ہے جو فقہی کتب میں جا بجا آیا ہے۔ اور بعض اوقات مجموعی فہم پر اہمیت حاصل کرلیتا ہے اور اسے ماننا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اپنے اجتہاد کو شریعت قرار نہیں دیا ہے کیونکہ کوئی مجتہد نہیں جانتا کہ اس کی اجتہادی رائے عین اللہ کی رضا کے مطابق ہے یا کہ نہیں ہے ۔ان کے اقوال اس بارے میں شاہد ہیں۔

٭۔ اس لئے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی، فقہ حنبلی اور فقہ جعفری کی اسی معنی میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے کہ وہ عین شریعت ہے۔ اسلامی شریعت کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تضاد نہیں جب کہ فقہی اجتہادات میں تضادات نہ صرف قولی ہیں بلکہ اصولی ہیں۔ ایک چیز اگر فقہ حنفی میں حرام ہے تو فقہ شافعی میں وہ حلال ہے۔ فقہ حنفی میں ایک عمل نکاح ہے یا زنا، تو فقہ شافعی میں وہ زنا ہے یا نکاح۔ اگر ان اجتہادات کو شریعت مانا جائے تو خدانخواستہ شریعت تضادات کا مجموعہ ہوئی جو بالکل غلط ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ شریعت مطہرہ میں ایک چیز بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ نکاح بھی ہو اور زنا بھی۔ لہٰذا یہ فقہی مذاہب مختلف آراء کا مجموعہ توہیںمگر شریعت نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دیگر شرائط اجتہاد ومجتہد:


۳۔ مجتہد کو عربی زبان کا اتنا علم ہو کہ وہ عبارات ، الفاظ اور کلام میں وارد مختلف اسالیب کو سمجھ سکتا ہو۔ کیونکہ قرآن مجید شریعت کا اصل منبع ہے، اور سنت رسول اس کی شارح، دونوں عربی زبان میں ہیں۔

۴۔ اسے کتاب وسنت کی نصوص جیسے آیات احکام وناسخ ومنسوخ کا اتنا علم ہو کہ ان سے احکام کو اخذ کرسکتا ہو۔ اگر کوئی مسئلہ در پیش آجائے تو وہ اس سے متعلق قرآن میں جتنی آیات اور سنت میں جتنی احادیث ہیں ان سب کو اپنے ذہن میں تازہ کرسکتا ہو۔ اگر اسے قرآن وسنت کا اتنا علم نہ ہو تو وہ مجتہد نہیں ہوسکتا اور نہ اسے اجتہاد کرنا چاہئے۔

۵۔ صحیح اور ضعیف حدیث کی پہچان کا اسے علم ہو جیسے اسناد کی معرفت اور علم رجال وغیرہ۔

۶۔ اجماع اور مواقع اجماع کا علم ہو مبادا کہ وہ کسی ایسے مسئلہ میں فتوی دے بیٹھے جس پر اجماع موجود ہو۔

۷۔ اسے صحابہ کرام ، تابعین اور بعد کے فقہاء کے مابین مسائل میں اختلاف، اس کے اسباب اور دلائل کا علم ہو تاکہ وہ ان میں صحیح کو غیر صحیح سے اور کتاب وسنت سے قریب تر کو غیر قریب سے الگ پہچان سکے۔

۸۔ اسے اصول فقہ اور ان کے مابین اختلاف کا اور شریعت کے مآخذ سے احکام کو صحیح طور پر اخذ کرنے کے طریقے کا علم ہو۔وجوہ قیاس ، اس کی معتبر شرائط اور فقہی قواعد کی بھی اسے معرفت ہو۔مقاصد شریعہ کا بھی صحیح ادراک اسے ہو

۹۔ اسے شریعت کے مقاصد، اس کے احکام کی علتوں اور ان کے پیچھے کار فرما حکمتوں کا علم ہو اور وہ یہ جان سکتا ہو کہ لوگوں کے مفادات میں سے کون سے شریعت کی نگاہ میں معتبر ہیں اور کون سے غیر معتبر؟۔

۱۰۔ اجتہاد کرتے وقت وہ کسی مخصوص فکر ، شخصیت سے متاثر یا تعصب مذہبی کا شکار نہ ہو۔

درجہ بالا شروط بعض علماء کے ہاں مقید اجتہاد کی ہیں۔ مثلاً مسئلہ مسح علی الخفین کی جو رعایت شریعت میں رکھی گئی ہے کیا وہ رعایت آج کے صنعتی موزوں کے لئے بھی ہے ؟ یا انجکشن کی سوئی جسم میں داخل ہونے سے وضوء ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ تو ایسے مسائل کے حل کے لئے اور اجتہاد کے لئے مذکورہ پانچ علوم کافی ہیں۔ایسا آدمی اپنے علم کی بنیاد پر قدیم فقہی ذخیرہ میں ایک ایسا جزئیہ پا سکتا ہے جس میں فقیہ نے یہ فتوی دیا ہو کہ بچھو کسی کے جسم میں ڈنک داخل کردے تو اس کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹے گا یا نہیں۔ مگر غیر مقید اجتہاد کے لئے یہ شروط کافی نہیں۔ ایسے اجتہاد کے لئے ان شروط کے علاوہ ایک مزید شرط بھی حدیث میں آئی ہے وہ یہ کہ: وعَلَی الْعَاقِلِ أَنْ یَکُونَ بَصِیرًا بِزَمَانِہِ(جامع العلوم والحکم از ابن رجب حنبلی ص: ۹۸) عقل مند ودانا کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کو خوب جاننے والا ہو۔ یعنی حالات زمانہ سے واقفیت رکھتا ہو اور ملکہ اجتہاد رکھتا ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اختلاف ہو تو حق ایک کے ساتھ ہوگا: بعض فقہاء کہتے ہیں اجتہاد کرنے والوں کے جتنے اقوال ہیں وہ سب درست اور صحیح ہیں۔ ان کا استدلال یہ حدیث ہے : أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیِّہِمْ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ یہ حدیث محدثین کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی ناقابل تسلیم ۔کیونکہ اگر اختلاف رحمت ہوتا تو پھر اتفاق ایک زحمت ہی ٹھہرتا۔ اس بارے میں صحیح مسلک امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ اور دیگر جمہور فقہاء کا ہے اور وہ یہ کہ مختلف اقوال میں سے حق صرف ایک قول میں ہے۔ جو اگرچہ ہمارے لئے غیر متعین ہے لیکن اللہ تعالی کے ہاں متعین ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک چیز کسی شخص کے لئے بیک وقت حلال بھی ہو اور حرام بھی۔ صحابہ کرام اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کی غلطی واضح کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے پر اعتراض بھی کیا کرتے تھے۔ اگر ہر مجتہد کا اجتہاد صحیح اور برحق ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کو غلط ٹھہراتے اور آپس میں اعتراضات کرتے۔مسلک اعتدال والی بات یہی ہے نہ کہ سب کو حق پرست کہہ کر سیاسی بات کہنا یا عوامی بننا۔

شیخ لکھنویؒ کا فیصلہ:
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ مسلم علماء فقہاء کے ہاں ہر دور میں اجتہاد ہوا ہے۔ ان اجتہادی کوششوں میں آپس میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔اس لئے فتویٰ دینے میں فقہاء کے مختلف اقوال اجتہادات مفتی کے سامنے آجائیں تو ایسی صورت میں مفتی کو کیا کرنا چائیے؟ مولانا عبد الحی لکھنوی ؐ امام الکلام میں فرماتے ہیں:

جو نظر انصاف رکھتا ہے اور کتب فقہ و اصول کے سمندروں میں غوطہ زن ہوتا ہے وہ یقینا جان لے گا کہ بیشتر فروعی و اصولی مسائل میں علماء کا اختلاف ہے۔ لہٰذا محدثین کرام کا نکتہ نظر ہی اوروں کے نقطئہ نظر سے قوی تر ہوتاہے۔ میں جب بھی اختلافی مسائل سے گزرتا ہوں تو مجھے محدثین کا فیصلہ ہی انصاف کے قریب ترین نظر آتا ہے۔ بخدا ان کا کیا کہنا ، اللہ ہی ان کو جزا دے گا۔ وہ کیوں نہ دے یہی تو سچے وارث نبی ہیں اور شریعت کے کھرے نمائندے۔ اللہ ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے اور ان کی محبت وسیرت پر ہی ہمیں دنیا سے اٹھائے۔

اس لئے بقول بعض کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے غیر تحقیقی بات ہے۔ علماء نے اسے مستقل ایک عمل سمجھا ہے اور امت میں روز اول سے ہی جاری ہے اور جاری رہے گا۔ مولانا بحر العلوم عبد العلی حنفیؒ نے ایسے لوگوں کے بارے میں لکھا ہے جو کہتے ہیں کہ اجتہاد مطلق ائمہ اربعہ تک تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے: یہ سب محض بے عقلی کی باتیں ہیں جس پر وہ کوئی دلیل نہیں دے سکے۔ ہٰذَا کُلُّہُ ہَوَسٌ مِنْ ہَوَسَاتِہِمْ، لَمْ یَأتُوا بِدَلِیْلٍ وَلاَ یَعْبَأُ بِکَلَامِہِمْ (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، جلد ۲)۔ ہمارے ایک معاصر دانش ور لکھتے ہیں: عجیب بات ہے کہ دور عباسی کے جن علماء کے نام پر کچھ لوگ اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہْوں نے خود کبھی صراحۃً یا کنایۃً ایسی بات نہیں کہی۔ بلاتشبیہ میں کہوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہم نبی آخر الزمان مانتے ہیں کیوں کہ آپ ﷺ نے خود اپنی زبان سے یہ اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ مگر فقہاء اربعہ یا اس دور کے کسی بھی بڑے فقیہ نے کبھی ایسی بات نہ کہی اور نہ لکھی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یاد رکھئے!
عالی دماغ انسانوں کی پیدائش کبھی بند نہیں ہوتی وہ ہمیشہ جاری رہتی ہے۔چنانچہ خود نظام فطرت کے تحت اسلام کے بعد کی تاریخ میں بار بار اعلی صلاحیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امام الغزالی (م: ۱۱۱۱ء) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ(م: ۱۳۲۸ء) شاہ ولی اللہ دہلوی(م:۱۷۶۲ء) وغیرہ۔ یہ کہنا امت کی تصغیر ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد اس صلاحیت کے لوگ امت میں پیدا نہیں ہوئے حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر صدی میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اپنے وسیع مطالعہ، اپنی اعلی ذہنی استعداد اور اپنی بے داغ اسلامیت کے ساتھ اس قابل تھے کہ وہ مجتہد مطلق کا کردار ادا کرسکیں۔چونکہ یہ دین بہتے چشمے کی طرح ہے اس لئے کسی بھی مجتہد وقت کے اجتہاد کو اس زمانہ وحالات میں تو اہمیت ہوگی مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کی وفات کے بعد حالات بدلنے پر بھی اس کے اجتہادات من وعن قبول کئے جائیں۔ہاں مجتہد کے نہیں بلکہ مجتہدین کے اجتہادات اگر مفید ہوں تو ان سے فائدہ ضرور اٹھایا جاسکتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک غلط فہمی:

تمام مسالک یا دینی مسائل کا احاطہ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس لئے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا اسے کسی نہ کسی کی تقلید بہر حا ل کرنی چاہئے۔ ورنہ وہ خواہش نفس کے مطابق اپنی پسندیدہ چیز کا انتخاب کرسکتا ہے ۔نیز وہ تقوی و دیانت داری کے اس اعلی مقام کو بھی نہیں پاسکتا جس پر ہمارے بزرگ تھے۔

ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ آٹھ سالہ درس نظامی پڑھنے کے بعد بھی ایک عالم صرف ایک ہی مسلک کو بمشکل جان پاتا ہے اسے کیا علم کہ دیگر مذاہب کے علماء کے اصول فقہ اور استنباطات کے استدلال کیا ہیں؟ ہاںاگر وہ تمام ائمہ فقہاء کو پڑھتا تو شاید اس کی آنکھیں ان سب کے ادب واحترام میں جھک جاتیں اورکتب میں جو لے دے ہوئی ہے وہ ان کے بارے میں نہ صرف معذرت کرتا بلکہ ان سے اجتناب بھی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قائم مدارس مسالک کی بنیاد پر بنے ہیںجن میں صرف اپنی فقہ اس لئے پڑھائی جاتی ہے تاکہ چند مخصوص مسائل میں دوسروں کے اعتراضات کے جواب طلبہ جان سکیں اور ترجیح بھی قائم کرسکیں۔احادیث رسول کا مطالعہ جتنی عجلت سے کرایا جاتا ہے اس سے حدیث کا صحیح علم کہاں حاصل ہوتاہے۔ مسلک کی محبت دیانتداری اور صحیح علم سے محروم کردیتی ہے۔اس لئے ایک رسول کا انتخاب خواہش نفس نہیں بلکہ اطاعت ہے جوآسان ہے مگر چار یا پانچ علماء وفقہاء کی آراء میں سے چناؤ کرنا مشکل ہے۔اطاعت صرف رسول کی بات یا عمل میں ہوتی ہے نہ کہ کسی اور کی بات میں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہ سب چیزیں مسلکوں کی نظر میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں؟ اور تقلید سب سے زیادہ اہم؟

باقی صحیح کون ہے اور غلط کون؟ اس مسلکی لڑائی کو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ جلسے ، جلوس ، مناظرہ بازی، فلائرز ، بینرزاورتصنیفات ، نیز دروس وتدریس میں مسابقت اور سب سے آخر میں اپنی جماعت ، گروہ اور مسلک کی دعوت وغیرہ جس میں أدع إلی سبیل ربک کی بات کم ہے اور أدع إلی سبیل جماعتک کی زیادہ۔

دنیا بھر میں مسلمانوں کے پاس اب اسلام کو متعارف کرانے کے لئے یہی فقہی مسلک ہی تو رہ گئے ہیں۔مگر کیا اہل دین کے مسائل میں کمی آئی ہے یا ان میں اضافہ ہوا ہے؟۔باقی صحیح اسلام کہاں ہے؟ اس کے اپنے بھی متلاشی ہیں اور غیر بھی۔ایک عام مسلمان کواگر صحیح دین سمجھنے میں اتنی کنفیوژن ہے تو غیر مسلم کے لئے اسے قبول کرناکون سا آسان ہوگا؟۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خیر القرون کا علم اورفقہی آزادی

صدیق اکبرکا علم واجتہاد:
سید الانبیاء رﷺ نے جو علم چھوڑااس کے بارے میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ یہ سارا علم میرے پاس ہے اور استنباط مسائل یا اجتہاد میرے لئے ممکن ہے۔تو اس کے سب سے زیادہ مستحق صحابہ کرامؓ تھے۔جو آپ کے ساتھ سفرو حضر میں رہے۔ آپ کے ارشادات کو جنہوں نے بغور سنا۔ آپ کے اعمال کو انہوں نے بغور دیکھا۔مگر ان میں سے ایک نے بھی یہ دعوی نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی انہوں نے کی۔ان صحابہ کرامؓ میں بھی اگر علمی اعتبارسے تفریق کی جائے تو جناب ابو بکر صدیقؓ سب سے زیادہ مستحق تھے جو دعویٰ کرتے کہ رسول اللہﷺ کا سارا علم میرے پاس ہے۔ یا صحابہ کرام ہی دعویٰ کرتے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ ہی آپ کا سارا علم جمع کئے ہوئے ہیں۔ مگر نہ خلیفۃ الرسول ابوبکرؓ نے کبھی یہ دعویٰ کیا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے یہ مبالغہ آرائی کی۔ ایک اور صحابی رسول سیدنا عمران بن حصینؓ نے یہی علم دوسروں کو دے دیا تھا۔ (ابوداؤد،ترمذی)

نصوص کے بارے میں ان کی احتیاط پرامام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَوَّلُ مَنِ احْتَاطَ فِی قَبُولِ الأخْبَارِ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ ہیں جو اخبار کو قبول کرنے میں بڑے محتاط رہے۔

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلافتِ صدیقی میں ایک دادی نے خلیفۃ الرسول سے میراث کا حصہ مانگا تو فرمایا:اللہ کی کتاب میں تو تمہارا کوئی حصہ مذکورنہیں۔ میرے علم کی حد تک سنتِ رسول میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ہاں میں لوگوں سے اس معاملہ میں مزید دریافت کروں گا۔ چنانچہ سیدناابوبکرؓ نے جب جناب مغیرہ ؓبن شعبہ اورجناب محمد ؓبن سلمہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے شہادت دی کہ جناب رسالت مآب ﷺ نے دادی کو ایک چوتھائی حصہ میراث دلوائی تھی۔ یوں سیدناابوبکرؓ نے دادی کو حصہ دیا۔

مرتدین کے بارے میں سیدنا ابو بکر کا موقف اجتہادی تھا۔ سیدنا عمر اور دیگر صحابہ انہیں کہتے رہے کہ ان کے خلاف تلوار اٹھانا مناسب نہیں کیونکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔ اس موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: وَاللہِ لَوْ مَنَعُونِیْ عَقَالاً کَانُوا یُؤَدُّونَہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَیہِ۔ اللہ کی قسم یہ لوگ اگر رسول اکرم ﷺ کو اونٹ کی عقال دیتے تھے اور مجھے دینے سے انکار کرہے ہیں تو میں ان کے خلاف ضرور لڑوں گا۔ اسی طرح یہ قول بھی: وَاللہِ لَا أُفَرِّقُ بَینَ مَا جَمَعَہُ اللہُ مِنَ الصَّلاۃِ وَالزَّکٰوۃِ۔بخدا میں ان چیزوں میں تفریق نہیں کروں گا جنہیں اللہ تعالی نے جمع کیا ہے۔ یہ قول ان کے اجتہادی موقف اور منصب کو واضح کرتا ہے کیونکہ انہوں نے دلیل نص سے دی تھی اس لئے سبھی صحابہ نے مانا۔

تاہم سیدنا ابوبکرؓ، جو سفروحضر بلکہ بچپن سے لیکر جوانی اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک تقریباً تمام اوقات آپ کے رفیق خاص رہے۔ حتی کہ رات کے وقت بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اور راتوں کو بیدار رہ کر مسلمانوں کے حالات پر غوروفکر کرتے رہے۔آپﷺ ان کے بارے میں اکثر یوں فرماتے: میں،ابوبکرؓ اور عمرؓ آئے۔ میں،ابوبکرؓ اور عمرؓ داخل ہوئے۔ میں،ابوبکرؓ اور عمر ؓ باہر نکلے۔شب اسراء میں آپ ﷺ نے جبریل امین سے کہا: مکی لوگ میری تصدیق نہیں کررہے ٖ جبریل امین نے عرض کی تو کیا ابوبکر آپ ﷺ کی تصدیق نہیں کررہے وہی تو صدیق ہیں۔(طبقات ابن سعد) مگر اس اعزاز اور دائمی رفاقت کے باوجود حضورﷺ کی فرمائی ہوئی بعض سنن رسول سے ناواقف تھے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فاروق اعظمؓ کا علم واجتہاد:

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی مجتہدصحابہ میں سے تھے۔انہوں نے اجتہاد کی ضرورت پر قاضی شریح رحمہ اللہ کو گائیڈ لائن بھی دی۔شرابی کی سزا شریعت نے مقرر نہیں کی تھی بلکہ حسب حال اجتہاد پر اسے چھوڑ دیا تھا۔زمانہ فاروقی میں جب عراق ، شام اور مصر کے علاقے فتح ہوئے تولوگوں میں شراب نوشی بھی عام تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس انحرافی لہر کو روکنے کے لئے اور شرابی کو رسوا کن سزا دینے کے لئے اجتہاد کیا اورچیف آف آرمی سٹاف ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا:

أُدْعُ الشَّارِبِینَ وَاسْألْہُمْ: أَحَلاَلٌ الْخَمْرُ اَمْْ حَرَامٌ؟ فَإنْ زَعَمُوا أَنَّہَا حَلاَلٌ فَاقْتُلْہُمْ کَمُرْتَدِّیْنَ، وَإِنْ قَالُوا إِنَّہَا حَرَامٌ فَاجْلِدْہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً۔ ان شرابیوں کو بلاؤ اور ان سے پوچھو: کیا شراب حالا ہے یا حرام؟ اگر وہ سمجھیں کہ یہ حلا ہے تو پھر انہیں مرتدین کی طرح قتل کردو اور اگر کہیں حرام ہے تو پھر انہیں اسی کوڑے لگاؤ۔

زمانہ وحال کے بدلنے پران کا یہ اجتہاد بھی ہے کہ لفظ واحد سے دی گئی تین طلاق تین ہی شمار ہوں گی۔

صحیح مسلم میں ہے: زمانہ نبوی ، خلافت صدیقی میں اور دو سال خلافت فاروقی میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعجَلُوا فِی أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیہِ أَنَاۃٌ، فَلَو أَمْضَینَاہُمْ عَلَیہِمْ؟ فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ۔ لوگوں نے ایک ایسے معاملے کو جس میں انہیں سوچنے یا رجوع کرنے کا موقع دیا اس میں جلدی کردی۔ کیا خیال ہے پھر ہم اسے نافذ ہی نہ کردیں؟ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر اس فیصلہ کو نافذ کردیا۔

اس سب کچھ کے باوجود سیدنا عمررضی اللہ عنہ بعض شرعی وحدیثی مسائل سے ناواقف تھے۔انہیں دروازے پرتین بار آواز دے کر لوٹ جانے والی حدیث معلوم نہ تھی آخر انہیں ابوموسی اشعریؓ سے معلوم ہوئی۔ نیز انہیں دیت جنین کا مسئلہ معلوم نہ تھاوہ مغیرۃ بن شعبۃ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا۔ اسی طرح انگلیوں کی دیت والی حدیث معلوم نہ ہونے کی وجہ سے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے انگوٹھے اور اس کے پاس والی انگلی کی دیت میں پچیس اونٹ کا حکم جاری کر دیا۔آخر دوسرے صحابہ کرام کے ذریعے انہیں علم ہوا کہ آپ ﷺ نے ہر انگلی پر دس دس اونٹ دیت مقرر فرمائی تھی۔ یوں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ مجوس سے جزیہ لینا ہے یا نہیں؟ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ؓ سے انہیں اس کی خبر ملی۔

دیت زوج میں عورت میراث پا سکتی ہے یا نہیں؟ ضحاکؓ بن سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے دیہات سے انہیں لکھ کر بھیجا کہ رسالت مآب ﷺ نے میراث دلائی ہے۔انہوں نے اسے مانا۔کیا انبیاء کے نام رکھے جا سکتے ہیں؟ سیدناعمررضی اللہ عنہ اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے جب اس کے جواز کا علم ہوا تو رجوع کرلیا۔نماز میں شک پڑنے پر نمازی کیا کرے؟ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب حدیث بتائی تو علم ہوا۔یہی صحابی تھے جنہوں نے طاعون کی حدیث سنا کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو شام کے سفر سے روکا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عثما ن ذو النورین کا علم واجتہاد:

امیر المومنین سیدنا عثمانؓ بن عفان رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے۔ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آذربائیجان سے مدینہ صرف اس لئے تشریف لائے تاکہ امیر المؤمنین ذو النورین کو یہ اطلاع دیں کہ کس طرح قرأت قرآن میں اختلاف رونما ہورہا ہے۔ شامی مقداد بن اسود اور ابوذر رضی اللہ عنہما کی قرأت پر اور عراقی عبد اللہ بن مسعود اور ابوموسی اشعری کی قرأت پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ہرایک اپنے آپ کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہہ رہا ہے۔ انہوں نے آتے ہی یہ عرض کی: یَا أَمِیرَ الْمُؤمِنِینَ! أَدْرِکْ ہٰذِہِ الأمَّۃَ قَبْلَ أَنْ تَخْتَلِفَ فِی کِتَابِہَا کَمَا اخْتَلَفَ الَْذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ فِی کُتُبِہِمْ۔ امیرا لمؤمنین! اس امت کا خیال کیجئے اس سے پہلے کہ وہ اپنی کتاب میں اس طرح کا اختلاف کربیٹھیں جس طرح ان سے پہلے وہ اپنی کتب میں اختلاف کربیٹھے۔چنانچہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انہوں نے صحابہ کرام کو جمع کرکے مشورہ کیا اور کمیٹی تشکیل دے کر اپنی اجتہادی رائے دی کہ قرآن کریم کو ایک حرف اور ایک خط میں لکھا جائے ۔رومن امپائر کے ساتھ جنگ کے لئے بحری فوج اور اس کے بیڑے کی تیاری کا اولین اجتہادی مشورہ بھی انہی کا تھا۔
مگر انہیں متوفی عنہا زوجہا کے محل عدت کی حدیث معلوم نہ تھی۔ جو فریعہ ؓبنت مالک رضی اللہ عنہا نے بتائی۔ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو انبیاء کے مال میں وراثت جاری نہ ہونے کی حدیث معلوم نہ تھی۔وہ اس سے بھی لاعلم تھے کہ آگ سے عذاب دینے کی ممانعت بھی شریعت میں موجودہے؟۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا علم واجتہاد:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی افتاء میں اعلی مقام پر تھے اور لوگوں کے فیصلے انتہائی منفرد مگر بھرپور صلاحیتوں اور خوبیوں سے کرتے تھے۔انہیں قرآن کریم کی عربی لغت کا علم بھی تھا اور سنت نبویہ کا بھی۔ انہیں شرعی مصادر کی مکمل درایت حاصل تھی حتی کہ اسباب ورود حدیث، ناسخ ومنسوخ کی معرفت، مجمل ومبین، مطلق ومقید وغیرہ اصول فقہ کا بھی ادراک رکھتے تھے۔جب بھی کوئی فیصلہ وفتوی دینا ہوتا تو فوراً کتاب وسنت کی طرف ہی رجوع فرماتے۔

ایک شخص کی دوبیویاں تھیں دونوں نے ایک ہی رات لڑکا اور لڑکی جنے۔ صبح ہوئی تو لڑکے کے بارے میں وہ جھگڑ بیٹھیں۔ معاملہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے فرمایا: دونوں مائیں اپنا اپنا دودھ وزن کریں جس کا دودھ زیادہ ہوگا وہی لڑکے کی ماںہوگی۔

دو آدمی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نزاع لائے۔ ایک نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص کی گائے نے میرا گدھا مار دیا ہے۔ دوسرا بولا: جانوروں کی کون ضمانت دے۔آپ ﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا: علیؓ! تم بتاؤ کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: کیا تمہارے جانور بندھے تھے یا کھلے تھے؟ یا ایک بندھا تھا اور دوسرا کھلا تھا؟ دونوں نے کہا گدھا بندھا تھا اور گائے کھلی تھی اور گائے کا مالک بھی موجود تھا۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا:

صَاحِبُ الْبَقَرَۃِ ضَامِنُ الْحِمَارِ۔ گائے والا ہی گدھے کا ضامن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی فیصلہ کو ہی صادر فرمادیا۔

زر بن حبیش کہتے ہیں: دو آدمی کھانا کھانے بیٹھے۔ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین۔ اتنے میں کوئی راہ گیر آگیا انہوں نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی۔ اس طرح سب نے مل کر آٹھ روٹیاں کھائیں۔ راہ گیر نے چلتے وقت یہ کہتے ہوئے انہیں آٹھ درہم دئے جو میں نے کھایا ہے یہ پیسے اس کے عوض ہیں۔ دونوں میں اب یہ توتکار شروع ہوئی۔ پانچ روٹیوں والے نے کہا میرے پانچ درہم ہیں اور تمہارے تین۔ تین ر وٹیوں والے نے کہا: نہیں ۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ درہم ہم میں برابر تقسیم ہوں گے۔ دونوں اپنے معاملے کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے اور سارا قصہ سنایا۔ سیدنا علی ؓ نے تین روٹی والے سے فرمایا: سنو ! تمہارے ساتھی نے جو تمہیں پیش کش کی ہے اس پر راضی ہوجاؤ۔ اس لئے کہ اس کی روٹیاں تمہاری روٹیوں سے زیادہ تھیں۔ وہ کہنے لگا ایسا ہو ہی نہیں سکتا الا یہ کہ کوئی صحیح تر بات ہو۔ اس پر سیدنا علی ؓ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو سنو! تمہارا حق صرف ایک درہم کا ہے اور باقی سات درہم تمہارے ساتھی کے ہیں۔ آدمی کہنے لگا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟۔ آپ نے فرمایا: یہی ہی ہے تمہارا حق۔ کہنے لگا: آپ مجھے صحیح بات سمجھائیے تاکہ میں اسے قبول کرسکوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چوبیس روٹیوں کی تہائی آٹھ روٹی بنتی ہیں۔ جنہیں تم تین افراد نے کھایا ہے۔ اور یہ بھی تم میں کوئی نہیں جانتا کہ کہ کس نے کم کھایا ہے اور کس نے زیادہ۔ اس لئے تم سب کھانے میں برابر ہو۔ پھر فرمایا: تم نے ان کا تیسرا حصہ یعنی آٹھ روٹیاں کھائیں۔ اور تمہاری نو میں تین روٹی تھیں۔ تمہارے ساتھی نے بھی تیسرا حصہ یعنی آٹھ روٹیاں کھائیں۔ اور اس کی پندرہ میں پانچ روٹیاں تھیں۔ اس نے آٹھ کھائیں باقی سات رہ گئیں۔ جنہیں درہم والے نے کھالیں اور تمہاری نو میں سے صرف ایک کھائی۔اس لئے اب تمہیں ایک کے بدلے ایک درہم ملے گا اور اسے سات کے بدلے سات درہم۔ آدمی کہنے لگا: بات سمجھ آگئی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دیگر صحابہ کا علم:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو لیجئے۔ ان کے پاس بلا شبہ سنتِ رسول کا خاصا علم تھا۔ مگر تھے وہ بھی انسان۔ کچھ مسائل سنت ایسے تھے جو صحابہ کرام کے مابین متفق تھے مگر وہ بھول گئے یا ان تک حدیث نہیں پہنچی۔ یا انہیں ناسخ کا علم نہیں ہو سکااوروہ الگ نکتہ نظر رکھتے تھے۔ مشہور حنفی محقق امام زیلعیؒ نے نصب الرایہ میں ان کے چند ایسے مسائل کی تفصیل دی ہے۔ مثلاً:

…معوّذتین کو وہ قرآن مجید کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔مگر صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے اتنا کہا تھا: یہ دو سورتیں شر اور خرابی سے بچنے کے لئے نازل کی گئی ہیں۔

…رکوع میں دونوں ہاتھوں کو ملا کر دونوں گھٹنوں کے درمیان دے دیتے تھے۔جسے تطبیق کہتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس کی اجازت دیتے تھے۔ حالانکہ یہ پہلے تھا پھر منسوخ ہو گیا۔ مگر ان دونوں کو معلوم نہ ہو سکا۔

…سجدہ میں اپنی کہنیاں بھی زمین پہ رکھتے تھے۔

…آپﷺ نے آیت "وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَوَالأُنْثٰیٰ" کس طرح پڑھی۔ ابنِ مسعودؓ اسے بھول گئے تھے۔

…رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین یعنی دونوں ہاتھوں کو کان اور مونڈھے کے درمیان تک اٹھانا نہیں جانتے تھے۔

… انہیں اس عورت کے مہر کے بارے میں حدیث معلوم نہ تھی جس کا خاوند حق مہر مقرر کئے بغیر فوت ہو گیا۔ عرصہ بعدسیدنا معقلؓ بن یسار سے یہ مسئلہ انہیں معلوم ہوا۔

…جنبی کے لئے تیمم کرنے کی اجازت، شریعت میں موجود ہے مگر ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث سے بھی ناواقف تھے۔

… سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کورسول اکرم ﷺکی نماز ظہر وعصر میں قراء ت کرنے کی حدیث کا علم نہیں تھا۔

… محافظ حدیث رسول سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مسح خفین کی حدیث سے لا علمی تھی۔ کیا روزہ دار حالت جنابت میں صبح کرسکتا ہے یا نہیں؟یہ مسئلہ بھی انہیں معلوم نہیں تھا۔

… ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے والی حدیث معلوم نہیں تھی۔ اسی طرح مسح خفین والی بھی۔

نصوص جب ان صحابہ تک نہ پہنچ سکیں تو جس بات کے وہ قائل ہوئے برابر وہ اسی کے قائل رہے۔ ان کو نص پہنچی ہی نہیں یا خیال میں نہیں آئی۔ یا یہ بھی کہ وہ ایک حکم کے قائل رہے اور انہیں ناسخ معلوم ہی نہ ہو سکا۔ مثلا:

… محب سنت رسول سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما موزوں کے مسح میں وقت مقرر کرنے( توقیت) کے قائل نہیں تھے بلکہ اجازت دیتے تھے کہ جب تک چاہے آدمی مسح کرتا رہے۔اس مسئلے میں جو احادیث تھیں وہ ان تک نہ پہنچیں۔ وہ خواتین کو غسل کے وقت بال کھولنے کا حکم دیا کرتے حالانکہ ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ کی حدیث میں جو اجازت دی گئی وہ ان کو نہ پہنچی۔

… ممتازصحابیہ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کومستحاضہ والی حدیث کا علم نہیں تھا وہ استحاضہ میں نماز ہی نہیں پڑھتی تھیں۔

…سیدنا ابن عمر اورسیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم دونوں دریا کے پانی سے جواز طہارت کے قائل نہ تھے۔

… سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نیندکوناقض وضو نہ سمجھتے تھے خواہ سونے والا جیسے اورجس قدرسوتا رہے مگر اسکا وضو نہیں جاتا۔

…وہ برتن جن میں شراب پی جاتی تھی حرمت خمر کے بعد ان کا استعمال ممنوع تھا۔ بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ مگر حضرات صحابہ میں ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں منع ہی سمجھتے رہے۔ انہیں ناسخ کا علم نہ ہو سکا۔

…قربانی کا گوشت تین دن سے زائد رکھنا آپ نے ممنوع قرار دیا تھا۔ حالات کے بہتر ہونے کے بعد آپ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ جناب علی وابن عمر رضی اللہ عنہما اسے ممنوع ہی سمجھتے رہے۔ انہیں ناسخ نہ پہنچ سکا۔

… اسی طرح نکاح متعہ آپ ﷺنے حرام فرما کر منسوخ کردیا ۔بہت سے صحابہ کو اس کے منسوخ ہونے کی اطلاع ہی نہ ہو سکی وہ اسے جائز ہی کہتے رہے۔جن میں عبد اللہ بن مسعود، ابن عباس، اسماء بنت ابی بکر، سیدنامعاویہ اور ابو سعید رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔
 
Top