محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۱۔مکمل دین : قرآن مجید میں ہے: {ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا}۔ جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دینا ہے وہ دین ہے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔اس حدیث میں لفظ سنت سے مراد سارا دین ہے یعنی Way of Life۔
۲۔ صحیح عقیدہ: امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: السُّنَّۃُ سُنَّتَانِ۔ سنت دو ہیں۔
أ۔ اسے چھوڑنا حرام نہ ہوگا۔ جو واجب کے برعکس ہے مثلاًفقہاء کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ نفلی کام اور عبادات ہیں جو رسول اکرمﷺ سے منقول ہوں یعنی وہ جو فرض نہ ہوں بلکہ مندوب ہوں۔جیسے عشاء کے فرضوں کے بعد دو رکعت سنت ۔ فقہاء کرام نے ایسی سنت کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ۔
ب۔ اس کا چھوڑنا کفر ہوگا۔ اس سے مراد وہ صحیح عقیدہ ہے جس پر صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ بہت سے علماء نے السنۃ کے نام سے عقیدہ کے موضوع پر کتب لکھیں۔ جیسے: کتاب السنۃ از ابی بکر الخلال از ابن عاصم اور از امام احمد بن حنبل یا شرح السنۃ از شیخ بربہاری رحمہم اللہ۔ اسی لئے علماء عقیدہ نے سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی استعمال کیا ہے مثلا ًوہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سنت پر ہے یعنی اس کا عمل رسول اکرمﷺ کے عمل کے مطابق ہے یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص بدعت پر ہے یعنی اس کا عمل آپﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔یا طلاق سنت اور طلاق بدعت کے الفاظ۔
۳۔ لفظ سنت ، خوارج کی فکر کے مقابلہ میں بھی مستعمل ہوا۔اور انIntellectuals عقل پرستوں کے خلاف بھی جو سنت کے تارک اور بدعمل تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو ماڈرن مسلم کہا۔ یہ نام انہوں نے اس لئے Hijack کیا تاکہ وہ سمارٹ بن کر سنت رسول کی مخالفت کرنے والوں کی تائید کریں اور جو سنت کا مخالف ہے اسے یہ کہہ سکیں کہ وہ ماڈرن مسلم ہے۔
۴۔ اس لفظ کی نسبت اگر کسی انسان کی طرف ہو تو اس سے مراد وہ طریقہ وعمل ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہوں اور وہ انہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر اس کی مداومت ہو۔خواہ یہ اعمال ایسے ہوں جن کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا ان سے ہو جن کی وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔اہل لغت سنت کا یہ معنی لیتے ہیں۔
۵۔سنت سے مراد رسول اکرم ﷺ کا قول، فعل اور سکوت ہے اس اعتبار سے سنت، علماء اصول کے ہاں احکام شرعی کا ایک مأخذ ہے۔ جیسے امام شافعی رحمہ اللہ نے بغداد چھوڑتے وقت امام احمد رحمہ اللہ کو یوں خراج تحسین پیش کیا: إِمَامٌ فِی القُرْآنِ، وَالْحَدِیثِ ، وَالسُّنَّۃِ ، وَالْفِقْہِ، وَإِمَامٌ فِی اللُّغَۃِ، إِمَامٌ فِی الْفَقْرِ وَالْوَرَعِ۔
۶۔یہ لفظ جب قرآن کے ساتھ مستعمل ہو تو پھر اس سے مراد حدیث رسول ہوا کرتی ہے۔ حدیث سے جب کسی مسئلے کا علم ہوتا ہے تو اسے سنت کہہ دیتے ہیں۔
۲۔ صحیح عقیدہ: امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: السُّنَّۃُ سُنَّتَانِ۔ سنت دو ہیں۔
أ۔ اسے چھوڑنا حرام نہ ہوگا۔ جو واجب کے برعکس ہے مثلاًفقہاء کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ نفلی کام اور عبادات ہیں جو رسول اکرمﷺ سے منقول ہوں یعنی وہ جو فرض نہ ہوں بلکہ مندوب ہوں۔جیسے عشاء کے فرضوں کے بعد دو رکعت سنت ۔ فقہاء کرام نے ایسی سنت کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ۔
ب۔ اس کا چھوڑنا کفر ہوگا۔ اس سے مراد وہ صحیح عقیدہ ہے جس پر صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ بہت سے علماء نے السنۃ کے نام سے عقیدہ کے موضوع پر کتب لکھیں۔ جیسے: کتاب السنۃ از ابی بکر الخلال از ابن عاصم اور از امام احمد بن حنبل یا شرح السنۃ از شیخ بربہاری رحمہم اللہ۔ اسی لئے علماء عقیدہ نے سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی استعمال کیا ہے مثلا ًوہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سنت پر ہے یعنی اس کا عمل رسول اکرمﷺ کے عمل کے مطابق ہے یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص بدعت پر ہے یعنی اس کا عمل آپﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔یا طلاق سنت اور طلاق بدعت کے الفاظ۔
۳۔ لفظ سنت ، خوارج کی فکر کے مقابلہ میں بھی مستعمل ہوا۔اور انIntellectuals عقل پرستوں کے خلاف بھی جو سنت کے تارک اور بدعمل تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو ماڈرن مسلم کہا۔ یہ نام انہوں نے اس لئے Hijack کیا تاکہ وہ سمارٹ بن کر سنت رسول کی مخالفت کرنے والوں کی تائید کریں اور جو سنت کا مخالف ہے اسے یہ کہہ سکیں کہ وہ ماڈرن مسلم ہے۔
۴۔ اس لفظ کی نسبت اگر کسی انسان کی طرف ہو تو اس سے مراد وہ طریقہ وعمل ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہوں اور وہ انہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر اس کی مداومت ہو۔خواہ یہ اعمال ایسے ہوں جن کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا ان سے ہو جن کی وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔اہل لغت سنت کا یہ معنی لیتے ہیں۔
۵۔سنت سے مراد رسول اکرم ﷺ کا قول، فعل اور سکوت ہے اس اعتبار سے سنت، علماء اصول کے ہاں احکام شرعی کا ایک مأخذ ہے۔ جیسے امام شافعی رحمہ اللہ نے بغداد چھوڑتے وقت امام احمد رحمہ اللہ کو یوں خراج تحسین پیش کیا: إِمَامٌ فِی القُرْآنِ، وَالْحَدِیثِ ، وَالسُّنَّۃِ ، وَالْفِقْہِ، وَإِمَامٌ فِی اللُّغَۃِ، إِمَامٌ فِی الْفَقْرِ وَالْوَرَعِ۔
۶۔یہ لفظ جب قرآن کے ساتھ مستعمل ہو تو پھر اس سے مراد حدیث رسول ہوا کرتی ہے۔ حدیث سے جب کسی مسئلے کا علم ہوتا ہے تو اسے سنت کہہ دیتے ہیں۔