• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۔مکمل دین : قرآن مجید میں ہے: {ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا}۔ جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دینا ہے وہ دین ہے ۔آپ ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی۔ جس نے میری سنت سے منہ موڑا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔اس حدیث میں لفظ سنت سے مراد سارا دین ہے یعنی Way of Life۔

۲۔ صحیح عقیدہ: امام سفیان ثوری فرماتے ہیں: السُّنَّۃُ سُنَّتَانِ۔ سنت دو ہیں۔

أ۔ اسے چھوڑنا حرام نہ ہوگا۔ جو واجب کے برعکس ہے مثلاًفقہاء کی اصطلاح میں سنت سے مراد وہ نفلی کام اور عبادات ہیں جو رسول اکرمﷺ سے منقول ہوں یعنی وہ جو فرض نہ ہوں بلکہ مندوب ہوں۔جیسے عشاء کے فرضوں کے بعد دو رکعت سنت ۔ فقہاء کرام نے ایسی سنت کی دو اقسام بیان کی ہیں۔ سنت مؤکدہ اور سنت غیر مؤکدہ۔

ب۔ اس کا چھوڑنا کفر ہوگا۔ اس سے مراد وہ صحیح عقیدہ ہے جس پر صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ بہت سے علماء نے السنۃ کے نام سے عقیدہ کے موضوع پر کتب لکھیں۔ جیسے: کتاب السنۃ از ابی بکر الخلال از ابن عاصم اور از امام احمد بن حنبل یا شرح السنۃ از شیخ بربہاری رحمہم اللہ۔ اسی لئے علماء عقیدہ نے سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی استعمال کیا ہے مثلا ًوہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سنت پر ہے یعنی اس کا عمل رسول اکرمﷺ کے عمل کے مطابق ہے یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص بدعت پر ہے یعنی اس کا عمل آپﷺ کے عمل کے خلاف ہے۔یا طلاق سنت اور طلاق بدعت کے الفاظ۔

۳۔ لفظ سنت ، خوارج کی فکر کے مقابلہ میں بھی مستعمل ہوا۔اور انIntellectuals عقل پرستوں کے خلاف بھی جو سنت کے تارک اور بدعمل تھے۔انہوں نے اپنے آپ کو ماڈرن مسلم کہا۔ یہ نام انہوں نے اس لئے Hijack کیا تاکہ وہ سمارٹ بن کر سنت رسول کی مخالفت کرنے والوں کی تائید کریں اور جو سنت کا مخالف ہے اسے یہ کہہ سکیں کہ وہ ماڈرن مسلم ہے۔

۴۔ اس لفظ کی نسبت اگر کسی انسان کی طرف ہو تو اس سے مراد وہ طریقہ وعمل ہیں جو اس سے صادر ہوتے ہوں اور وہ انہیں لازم سمجھتا ہو اور ان پر اس کی مداومت ہو۔خواہ یہ اعمال ایسے ہوں جن کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے یا ان سے ہو جن کی وجہ سے اس کی مذمت کی جاتی ہے۔اہل لغت سنت کا یہ معنی لیتے ہیں۔

۵۔سنت سے مراد رسول اکرم ﷺ کا قول، فعل اور سکوت ہے اس اعتبار سے سنت، علماء اصول کے ہاں احکام شرعی کا ایک مأخذ ہے۔ جیسے امام شافعی رحمہ اللہ نے بغداد چھوڑتے وقت امام احمد رحمہ اللہ کو یوں خراج تحسین پیش کیا: إِمَامٌ فِی القُرْآنِ، وَالْحَدِیثِ ، وَالسُّنَّۃِ ، وَالْفِقْہِ، وَإِمَامٌ فِی اللُّغَۃِ، إِمَامٌ فِی الْفَقْرِ وَالْوَرَعِ۔

۶۔یہ لفظ جب قرآن کے ساتھ مستعمل ہو تو پھر اس سے مراد حدیث رسول ہوا کرتی ہے۔ حدیث سے جب کسی مسئلے کا علم ہوتا ہے تو اسے سنت کہہ دیتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۷۔ سنت سے مراد فرد واحد کا یا چند افراد کا وہ طریقہ بھی لیا جاتا ہے جو انہوں نے ذاتی فہم یا ذوق کی بناء پر اختیار کیا ہوا ہو۔ اس معنی میں مجتہد خلفاء راشدین کا اجتہاد بھی ایک سنت کہلاتا ہے جو انہوںنے کسی آیت یا حدیث رسول یا حالات کو دیکھ سمجھ کر کیا ہوتا ہے ۔مثلا: سنت خلفاء راشدین یافلاں خلیفہ کی سنت ، جیسے الفاظ جو کتب میں مل جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ لفظ اور سنت رسول ایک معنی نہیں رکھتے ۔سیدنا ابو بکرؓ کا اجتہادی قول وفعل، رسول اللہ ﷺ کی سنت کے برابردرجہ رکھتاہویا کسی بھی خلیفہ راشد کے اجتہادی قول کی اہمیت سنت رسول کے برابر ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس بناء پر خلفاء راشدین کی سنت سے مراد ، وہ طریقہ جس پر رسول اللہ ﷺ چلے اور ان خلفاء نے بھی اس پر چلنے کی کوشش کی۔اس سے مراد اسلاف کے جزوی اقوال اور فتاوی نہیں۔

۸۔رسول اکرم ﷺ کو قرآن وسنت دونوں اکٹھے دئیے گئے تھے۔جسے صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ اس لئے قرآن وسنت کی راہ ایک ہی ہے کیونکہ دونوں کا مصدر وحی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اکیلا اپنے احکام کو واضح نہیں کرسکتا جب تک اس کے ساتھ سنت کا بیان نہ ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول ﷺ کے بارے میں خود ارشاد فرمایا:

{وما ینطق عن الہوی، إن ہو إلا وحی یوحی}۔ (النجم: ۳،۴) اور یہ رسول اپنی طرف سے بات نہیں کیا کرتا جو کہتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے۔

اس لئے دونوں متحد ہوکر ایک اصل یعنی نص بن جاتے ہیں۔ شرعی احکام کی توضیح میں یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

{واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمۃ}۔ ( ۱ لأحزاب: ۳۴ ) اللہ کی آیات اور حکمت میں سے جو کچھ بھی تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے اسے یاد رکھو۔

۹۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:{ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ}۔( الجمعۃ:۲ ) اور وہ رسول انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ امام شافعی ، یحییٰ بن کثیر اور امام قتادۃ رحمہم اللہ کا کہنا ہے: ان آیات میں حکمت سے مراد سنت ہے۔ کیونکہ جو چیز بیت رسول میں پڑھی جارہی ہے وہ یا تو قرآن ہے یا سنت۔ اور رسول اللہﷺ کتاب کے علاوہ جو سکھا رہے ہیں وہ سنت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ (الرسالہ:۷۸)

۱۰۔ فقہ اسلامی میں سنت کا مقام اجماع وقیاس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جہاں سنت ہو وہ اجماع کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہی حال قیاس کا ہے۔

لفظ سنت، احکام خمسہ میں بمعنی مندوب، مستحب یا مسنون استعمال ہوتا ہے جو فرض کے مقابلہ میں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭ …سنت: اس کے الفاظ اللہ تعالی کے ہیں مگرمعنی رسول اللہﷺ نے پہنائے ہیں یہ بھی منزل من اللہ ہیں۔اس لئے کہ سنت بھی آپ ﷺ پر اسی طرح نازل ہواکرتی جس طرح آپ ﷺپر قرآن نازل ہوا کرتا۔قرآن کریم میں یہی تو فرمایا گیا: {من یطع الرسول فقد أطاع اللہ}۔ جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ گویا اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔اس لئے قرآن کریم میں وارد الفاظ اتباع، اطاعت، ہدایت وراہنمائی، صراط مستقیم کی دریافت میں رسول اکرم ﷺ کو پیش کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ ہی ہادی ورہنما ہیں ۔ آپ ﷺ ہی صراط مستقیم پر ہیں اور آپ ﷺ ہی صراط مستقیم دکھاتے ہیں۔ آپ ﷺ ہی کی اطاعت واتباع کرنا ہے۔آپﷺؒ ہی کا اسوہ حسنہ قابل رشک وقابل اتباع ہے۔ وغیرہ۔ اللہ تعالی نے اس شریعت کا افہام واستفہام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسلک کردیا اورہر مقام پر آپ ﷺ ہی کو پیش کیا ہے تاکہ کسی اور کو یہ مقام نہ دیا جاسکے اور نہ ہی کوئی اسے پانے یا دلوانے کی کوشش کرے۔لہٰذا شارع بھی آپ ﷺہیں۔اور مفسر قرآن بھی آپ ﷺ۔ اس لئے قرآن اور سنت رسول اپنے نزول سے تا قیامت انسانوں کے لئے قطعی حجت ہے۔

مصدر اصلی کی حیثیت سے قرآن مجیدکے متعدد مقامات مجمل ہیں مثلاً: نماز ، بیع ، ربا، زکوۃ وغیرہ کا حکم اجمالی ملتا ہے مگر ان کی تفصیلات سنت رسول میں مذکور ہیں۔بعض اوامر ونواہی صراحت سے اتباع کا مطالبہ جہاں رسول اللہ ﷺ سے کررہے ہیں وہاں ساری امت کو بھی ان کی اتباع کا مطالبہ ہے:مثلا:

{آمن الرسول بما أنزل إلیہ والمؤمنون}۔ رسول کی طرف جو کچھ نازل کیا گیا وہ اس پر ایمان لایا اور اہل ایمان بھی۔

{اتبع ما یوحی إلیک ولا تتبع أہوائہم}۔ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے آپ اسی کی پیروی کیجئے اور ان کی خواہشات کے پیچھے مت جائیے۔

{ اتبعوا ما أنزل إلیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ أولیاء} ( الاعراف: ۳ )تم پیروی کرتے رہو اس کی جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کو دوست بنا کر پیروی مت کرو۔

ان قوانین کا احترام اور تسلیم ورضا کے علاوہ کسی بھی قسم کے تجاوز سے بھی منع کرتے ہوئے فرمایا:

{تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا ومن یتعد حدود اللہ فأولئک ہم الظلمون} (البقرۃ: ۲۲۹)یہ اللہ کی حدود ہیں تو ان سے تجاوز نہ کروجو بھی ان حدود سے تجاوز کرے گا وہی ظالم ہوں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
کیا اس کے حکم میں کوئی اور شریک ہوسکتا ہے یا کسی اور کو یہ مقام دیا جاسکتا ہے؟ اس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا:

{ولا یشرک فی حکمہ أحداً} وہ اپنے حکم میںکسی کو شریک نہیں کرتا۔

فقہ اسلامی میں سنت کا مقام :​

دین کے صحیح فہم کے لئے شریعت کا یہ اولین مطالبہ ہے کہ سنت رسول پر اس اعتبار سے ایمان اور محبت رکھے کہ یہی میرے لئے سچ رول ماڈل ہے جس سے مجھے دل وجان سے بڑھ کر محبت ہے اور ہر قیادت وسیادت سے بڑھ کر قابل اطاعت ہے۔اس لئے ہر مسلمان آپ ﷺ کی تعلیمات سے واقف ہو اور اسی پر ہی جان چھڑکے۔

اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو تشریعی اختیارات تاابد عطا کئے ۔ اس لئے آپ کے اوامر ونواہی دراصل اللہ تعالی ہی کے اوامر ونواہی کہلاتے ہیں جن کی حقیقت درج ذیل آیات میں واضح کی گئی ہے۔مثلاً:

٭… ہرصورت میں آپﷺ کی اطاعت: قرآن کریم نے اس کا اہل ایمان کو حکم دیا۔ فرمایا:

{ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقوا اللہ}۔( الحشر: ۷ ) جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے باز رہو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔

٭… اسی طرح عدم اطاعت کی صورت میںیہ بھی فرمادیا:

{ قل أطیعوا اللہ و الرسول فإن تولوا فإن اللہ لا یحب الکافرین}(آل عمران:۳۲) آپ کہئے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر وہ منہ موڑیں تو بلاشبہ اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔

٭…اطاعت رسول کا درجہ اطاعت الٰہی کا درجہ ہے آپ ﷺ کی اطاعت کے بغیر اطاعت الٰہی کا تصور ہی موجود نہیں۔

{من یطع الرسول فقد أطاع اللہ} جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے گویا اللہ کی اطاعت کی۔

٭… آپ ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کا مظاہرہ جب صحابہ کرام نے بیعت الرضوان میں کیا تو قرآن کریم نے ہی کہا:

{لقد رضی اللہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ۔۔}یقیناً اللہ تعالی ان مومنوں سے راضی اور خوش ہوگیا جب وہ آپ سے درخت تلے بیعت کررہے تھے۔

٭…قرآن کریم نے آپ ﷺ کے حکم وفیصلے کی مخالفت کرنے سے ہمیں ڈرایا اور فرمایا:

{فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبہم فتنۃ أویصیبہم عذاب ألیم}:( النور: ۶۳) جو اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیںڈرنا چاہئے کہ کہیں انہیں کوئی آزمائش نہ گھیر لے یا ان کے پاس کوئی درد ناک عذاب نہ آجائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭…آپﷺ کے حکم کے آگے ہماری پسند وناپسندکو ختم کردیا اور فرمایا:

{ وما کان لمؤمن ولا مؤمنۃ إذا قضی اللہ ورسولہ أمرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم۔۔}۔ (الأحزاب: ۳۶ )کسی مومن اور نہ کسی مومنہ کے لئے یہ مناسب ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے پاس اپنے معاملے کا کوئی اختیار ہو۔

٭…ان تمام احکامات کو ایمانیات قرار دیا اور فرمایا:

{فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فی أنفسہم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما} ( النساء: ۶۵)تمہارے رب کی قسم! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے اختلافات میں آپﷺ کو حکم نہ مان لیں پھر آپ کے اس فیصلے کے بارے میں اپنے دل میں کوئی تنگی نہ پائیں اور کلی طور پر اپنے آپ کوجھکادیں۔

٭… آپ ﷺکی محبت و اطاعت ہر عزیز ترین رشتے سے بھی بڑھ کر کرنے کی متقاضی ہے۔آپﷺ کا ارشاد ہے:

لاَ یُؤمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔ تم میں کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔

آپﷺ ہی ارشاد فرماتے ہیں:

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَو بَدَا لَکُمْ مُوسٰی فَاتَّبَعْتُمُوہُ وَتَرَکْتُمُونِیْ لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَائِ السَّبِیْلِ، وَلَوْ کَانَ حَیًّا وَأَدْرَکَ نُبُوَّتِی لاَتَّبَعَنِیْ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسی علیہ السلام بھی تم میں تشریف لے آئیں پھر تم ان کی اتباع کرنا شروع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھی راہ سے بلاشبہ بھٹک جاؤ گے۔ اوراگر موسی علیہ السلام آج زندہ ہوں اور میری نبوت کو وہ پائیں تو وہ بھی ضرور میری اتباع کریں۔( مقدمہ دارمی: ۴۳۵)

٭…آپ ﷺ نے بغیر حدیث وسنت کے قرآن مجید سے شرعی مسائل معلوم کرنا ناممکن فرمایا:

لاَ أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِئًا عَلَی أَرِیْکَتِہِ یَأتِیْہِ الأَمْرُ مِمَّا أَمَرْتُ بِہِ أَو نَہَیْتُ عَنْہُ فَیَقُولُ: بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْقُرآنُ فَمَا وَجَدْنَا فِیْہِ مِنْ حَلاَلٍ اسْتَحْلَلْنَاہُ وَمَا وَجَدْنَا فِیہِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاہُ۔ أَلاَ وَإِنِّیْ أُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔( سنن ابی داؤد باب لزوم السنۃ: ۴۶۰۴)میں تمہارے کسی شخص کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو ، اس کے پاس میرے احکامات میں سے کوئی حکم آتا ہے جس میں میں نے کوئی حکم دیا ہوتا ہے یا میں نے اس سے روکا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن ہی کافی ہے۔ تو جو کچھ ہم اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو کچھ حرام پائیں گے اسے حرام جانیں گے۔ لوگو! ہشیار رہنا، بلاشبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس سے ملتی جلتی بات بھی اس کے ساتھ دی گئی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭…خرافات وبدعات اختیار کرنے والے بھی سنتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مشہور تابعی فقیہ حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے:

مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِہِمْ إِلاَّ نَزَعَ اللہُ مِنْ سُنَّتِہِمْ مِثْلَہَا ثُمَّ لاَ یُعِیْدُہَا إِلَیْہِمْ إِلٰی یَومِ الْقِیٰمَۃِ۔جس قوم نے بھی دین میں کوئی بدعت اختیار کی ، اللہ تعالی نے ان سے اسی قدر سنت اٹھا لی۔ پھر وہ سنت قیامت تک ان لوگوں میں نہیں پلٹتی۔(دارمی)

امام سفیان ؒثوری فرماتے ہیں:

البِدْعَۃُ أَحَبُّ إِلٰی إِبْلِیْسَ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ، اَلْمَعْصِیَۃُ یُتَابُ مِنْہَاوَالْبِدْعَۃُ لاَ یُتَابُ مِنْہَا۔ بدعت ، ابلیس کو گناہ سے زیادہ پسندیدہ ہے اس لئے کہ معصیت پر انسان توبہ کرلیتا ہے مگر بدعت پر وہ توبہ نہیں کرتا۔( شرح السنۃ:۲۱۶)

یہ آیات ا وراحادیث اس شک کی جڑ کاٹ دیتی ہیں کہ سنت رسول، شرعی دلیل نہیں ۔ایک مومن ان آیات کو پڑھنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کو نہ صرف دلی احترام دیتا ہے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے اتنا بڑا مقام مل جانے کے بعد اس کے ایمان میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالی کی طرف سے غیر معمولی نمائندے ہیں جن کے بارے میں اتنی شد ومد سے آیات میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر رسول کو ہر لحاظ سے اہمیت نہ دی تو پھر ہر کوئی اپنے ایمان کی خیر منائے۔

یہی وجہ ہے کہ انہی آیات اور احادیث رسول ﷺ کو پیش نظر رکھ تمام ائمہ کرام نے سنت رسول کی موجودگی میں اپنے اقوال اور رائے کو ترک کرکے سنت رسول پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

٭…سچ ہے اگر علماء اہل سنت کی یہ غیر معمولی اور دقیق علمی سرگرمیاں جاری نہ رہتیں تو کون تھا جو ان احادیث کے بارے میں یہ مطلع کرتا کہ یہ صحیح حدیث ہے اور یہ ضعیف وموضوع یا اس میں یہ علت خفیہ ہے اور اس میں شذوذ۔ جب کہ حفاظت دین کے معیارات ہی مختلف ہوں اور ضعیف وصحیح احادیث کے مابین فرق کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ یہی کامیاب کوششیں ہی تو تھیں جن کی وجہ سے ہر ایک کو محتاط رہنا پڑا اور پختہ دلیل کے بغیر استنباط، اجتہاد اور افتاء سے باز بھی۔ یہ ذوق لطیف بن گیا کہ مسائل کے استنباط یا مسائل کی تصحیح کے لئے صحیح حدیث ہی کو معیار بنادیا جائے۔ یوں ضعیف وموضوع حدیث کوصحیح حدیث سے جدا کرنے کے اصول بنے۔ اورکار حدیث میں نااہل اور بد نیت لوگوں کا عمل دخل ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔یہ بھی کوشش ہوئی کہ آپ ﷺ کی طرف منسوب ہر قول وفعل کو اصول حدیث کے میزان پر تولاجائے ۔محض ظن وقیاس کی بناء پر انہیں رد نہ کیا جائے۔یہ جہد مسلسل محض اس لئے ہوئی کہ قرآن مجیدکے چندپیچیدہ مقامات کی وضاحت جو ہادی برحق نے اپنے قول، عمل اور تقریر کے ذریعے فرمادی تھی اور جسے اللہ تعالی نے شریعت کا مصدر اساسی بھی قرار دیا تھا اس کی بخوبی حفاظت کرلی جائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سنت کا انکار قرآن کا انکار:​

سنت کا انکار نہ صرف رسالت کے منصب کا انکار ہے بلکہ قرآن کریم کو نہ ماننے کا بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نکار سنت سے قرآن کریم کے بے شمار احکام لایعنی ہوجاتے ہیں۔نماز ، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ کی تفاصیل ہوں یا بیع وشراء کے معاملات۔ کیا انہیں حالات وزمانہ کی تبدیلی کے سپرد کردیا جائے یاانہیں شخصی رائے پر اسی طرح چھوڑ دیا جائے۔ اس شخص کی اپنی حیثیت کا تعین کون کرے؟ اور کیسے کرے؟ اور کیوں کرے؟ سنت رسول ہی ایک ایسی حجت ہے جس کے انکار سے قرآن مجید کی بیشتر آیات کا انکار لازم آتا ہے۔ اوپربیان کردہ آیات میں کیا ہماری مرضی، اختیار ، پسند ناپسند، کسی اور کی اتباع وغیرہ کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ کیا اس نظریہ کے پس پردہ جدید جاہلیت سے وابستہ رہنے کی خواہش تو نہیں؟

سنت رسول مثالی تہذیب وثقافت کی ایک مشعل راہ ہے۔انکار سنت تو مسلط کردہ تہذیبی لڑائی کا ساتھ دینا ہے۔ اپنی مثالی تہذیب کے تحفظ کا نعرہ تو فرعون اور اس کے گماشتوں کا ہے ۔عمل قوم لوط کوبلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر عورت کی عورت سے شادی کو قانونی تحفظ دینا قدیم جاہلیت کی دین ہے ۔ بغیر نکاح کے بچوں کا پیدا ہونا، جوان لڑکی کو ایک سے زیادہ بوائے فرینڈز رکھنے پر اکسانا، بزرگوں کو اولڈہومز میں بھیج دینا اور بچوں کو چلڈرن ہومز میں چھوڑ دینا اسلامی تہذیب نہیں۔سنت رسول نے جوتہذیب برپا کی اس میں نکاح کی ترغیب، زناسے پرہیز، جوان بچیوں کو شرم وحیا کی تعلیم، بوڑھے والدین کا ادب و احترام اور ان کا بھرپور خیال، بچوں کی پرورش اور ان کی دینی ، دنیوی اور اخلاقی تعلیم وغیرہ پر ہی اکسایا ہے۔

سنت رسول ﷺ کی قانونی حیثیت پر آپ ﷺ کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد تمام صحابہ کرام کا اجماع تھا کہ چھوٹے بڑے تمام کاموں میں سنت رسول کی پیروی کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے قرآن وسنت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔(اعلام الموقعین۴؍۳۷۵)

اس لئے شریعت یا ریاست وقضاء کے کسی بھی پہلوسے جو کچھ بھی ہمیں صحیح سند کے ساتھ سنت مل جائے وہ اہل اسلام پر حجت ہے۔ اسے ہی شرعی مصدر سمجھنا اور اس سے ہی استنباط احکام کرنا مجتہدین کرام کا فرض ہے۔قرآن کریم کی طرح اس کی اتباع بھی واجب ہوگی۔

سنت میں کچھ تو قطعی الثبوت احادیث ہیں جو متواتر کہلاتی ہیں اور کچھ ظنی الثبوت جنہیں فقہاء آحاد کہہ دیتے ہیں۔ متواتر یا آحاد دونوں میں قطعی الدلالت احادیث ہوسکتی ہیں اور ظنی الدلالت بھی۔مگر سبھی سنت خواہ وہ متواتر ہو یا آحاد جب صحیح ہو گی تو وہ حجت ہوں گی، اور قابل عمل بھی۔ ورنہ نہیں۔

قرآن وسنت میں تفریق ناجائز: قرآن وسنت کے درمیان اس معنی میں تفریق کرنا کہ اگر ایک مسئلہ حدیث صحیح میں ہو مگر وہ قرآن کریم کے خلاف ہو تو حدیث کو چھوڑ دیا جائے گا، درست نہیں۔ قرآن وسنت میں اولاً تو تضاد ثابت کرنے کا سوچنا ہی نہیں چاہئے۔ اس لئے کہ جس رسول محترم پر قرآن اتراہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کی سنت قرآن کے خلاف ہو۔کیا یہ اختلاف کسی دماغ کا پیدا کردہ تو نہیں؟ مزید یہ کہ سنت کا جو تعلق قرآن وحدیث سے ہے وہ شخصی رائے سے نہیں ہے۔ اس لئے یہ ہم پر فرض ہوگا کہ کتاب وسنت سے بیک وقت استفادہ کریں اور انہیں ایک ہی مصدر جانیں۔ من حیث الثبوت(Constancy, Steadiness) تو سنت یوں ہے۔ استدلال کی حیثیت سے اس کی اتباع بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کریم کی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
سنت، قرآن کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہے؟

قرآن کے احکام کی مختلف صورتیں علماء نے بیان کی ہیں۔ سنت رسول یا تو ان کی مکمل تائید کرتی ہے یا ان کی وضاحت یا پھر وحی کے ذریعے اضافہ۔ ان کے علاوہ کوئی اور صورت ہے ہی نہیں ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین: ۲؍۳۰۷ میں لکھا ہے کہ قرآن کے احکام کے ساتھ سنت کے احکام کی وضاحت تین طرح سے آئی ہے:

۱۔ سنت موافقت: قرآن جو پیش کررہا ہے سنت بھی وہی کچھ پیش کررہی ہے۔جیسے زکوۃ، نماز، حج، اعلانیہ وچھپے فواحش کی حرمت، زنا وشراب کی حرمت اور مردار ، خنزیر کا گوشت کھانے کی حرمت ، اسی طرح وضوء کے فرض ہونے کا بیان شرائط وارکان کے ذکر کے بغیر وغیرہ۔جو کچھ قرآن میں ہے اس کے حکم کی تائید اور اسے مزید پختہ کررہی ہے۔جیسے آپ ﷺ کا ارشاد: إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ۔ بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔اب یہ حدیث اس آیت کے موافق ہے:{یأیھا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل}(البقرۃ:۱۸۸) اسی طرح اس کے بھی:{ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جہنم}(النسائ:۹۳) اسی طرح دیگر آیات جس میں مومن کے مال وجان کے تحفظ کی بات کی ہے۔ آپ ﷺ کے ارشادات میں انہی کی تائید ملتی ہے۔سنت کے احکام اس اعتبار سے قرآن مجید کے سو فی صد موافق ہیں۔

۲۔ سنت جو کتاب کی تفسیر کرتی ہو: اس کی مراد بتاتی ہو۔ اس کے مطلق کو مقید کرتی ہو اور اس کے عام کو خاص کرتی ہو۔جیسے ظلم کو بیان کرنا:{ولم یلبسوا ٌیمانہم بظلم}(الأنعام: ۸۲) ظلم سے مراد شرک ہے۔یا الخیط الأبیض اور الأسود کو واضح کرنا اور اس کی تفسیر صبح کی سفیدی اور رات کی سیاہی کرنا۔ اور یہ اس ارشاد میں ہے: {وکلوا واشربوا حتی یتبین لکم الخیط الأبیض من الخیط الأسود من الفجر}۔(البقرۃ: ۱۸۷)

یہ وہ احکام ہیں جو قرآن مجید میں مجمل(summarized) آئے ہیں۔ یعنی وہ تفصیل طلب ہیں۔ انہیں رسول اکرم ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے واضح فرما دیااس لئے کہ از روئے قرآن ایسا کرنا آپﷺ کی ذمہ داری ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{ وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم}۔۔ النحل: ۴۴ ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لئے اتارا ہے کہ آپ ﷺ اسے اچھی طرح واضح فرمادیں۔ جیسے نماز کے اوقات کی تفاصیل، نماز کی رکعات، اور دیگر احکام نماز، اموال اور زکوۃ کی مقدار، مناسک حج، ذبح، شکار ، کس جانور کا گوشت کھایا جائے اور کس کا نہیں؟۔ نکاح کی تفاصیل، بیع وشرائ، جرائم اور ان کی حدود وغیرہ۔ یعنی جہاں قرآن نے مطلق بات کی تو سنت نے اسے مقید کردیا ، مجمل کہی تو سنت نے اس کی تفصیل بتا دی۔ یا قرآن کی بات عام ہے تو سنت نے اس کی تخصیص کردی۔ مثلا احکام نماز، روزہ، حج، زکوۃ، لین دین اور خریدو فروخت کے بارے میں قرآن مجید میںپوری تفصیلات نہیں ہیں۔ سنت رسول نے انہیں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۔سنت وہ حکم پیش کرے جس کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہو:

سنت کے وہ احکام جن میں قرآن خاموش ہے جیسے پھوپھی بھتیجی یا خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کو حرام قرار دیا، شادی شدہ زانی زانیہ کو سنگسار کرایا، اور دو گواہ نہ مل سکنے کی صورت میں قسم کے ساتھ ایک ہی گواہی کو قبول کر لیا ۔ ایسے احکام کسی بھی صورت میں قرآن کے ساتھ نہیں ٹکراتے البتہ وہ قرآنی احکام پر اضافہ ہیں۔ یہ بھی شریعت ہے جسے ماننا فرض ہے اور نہ ماننا کفر۔ یہ نہ قرآن سے آگے بڑھنے والی بات ہے اورنہ مخالفت بلکہ قرآن کے حکم کے عین مطابق ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کرو جو عمل اور ایمان کا نام ہے۔اس سنت کی جو پیروی کرے گا وہ گویا کہ آیات الٰہی کو ماننے کا اقرار کرے گا۔

یاد رکھئے! کسی بھی ضعیف یا موضوع حدیث کو یا احادیث کے ظاہری اختلاف کو بنیاد بنا کر یا قرآن وحدیث میں بظاہر اختلاف کو پاکر یہ اصول بنانا درست نہیں کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے یا قرآن پر اضافہ ہے بلکہ ایسے مواقع پر قرآن وسنت کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ قرآن مجید میں بھی بہت سی آیات ایسی مل جائیں گی جن میں باہم اختلاف ہے اور تضاد بھی۔

٭…علم مصطلح بھی عظیم علم ہے جس سے ہم صحیح وضعیف، مرفوع وموقوف، مقطوع ومنقطع، متصل ومرسل، اور تدلیس وغیرہ کی پہچان حاصل کرسکتے ہیںاو رمراتب حدیث وسنت میں امتیاز بھی قائم کرسکتے ہیں۔ورنہ حق وباطل گڈمڈ ہوجائے گا۔

کتابت حدیث:


رسول اکرم ﷺ نے ابتدا میں قرآن کے ساتھ کچھ اور لکھنے سے منع فرما دیا تھا مگر جب صحابہ کرام اچھی طرح یہ جان گئے کہ قرآن اور حدیث کی کتابت میں فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے تو آپﷺ نے اپنی احادیث لکھنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ خود بھی لکھوائیں۔ آپ ﷺ کے خطوط، جو آج مل گئے ہیں اور جو حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں دونوںکو ملا کر دیکھا جاسکتا ہے کہ حدیث کی کتابت کے ساتھ اس کو یاد کرکے اور اسے زبانی روایت کرکے کس قدر محتاط طریقے سے روایت کیا گیا ہے۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ کی احادیث تقریبا پچاس صحابہ کرام نے لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرلی تھیں۔ موطا امام مالکؒ دوسری صدی ہجری کی کتاب حدیث آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ، کے شاگرد رشید کا صحیفہ اور انہی کے معاصر معمر بن راشد کا صحیفہ دونوں طبع ہوچکے ہیں یہ پہلی صدی ہجری کی یادگار ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
٭…حدیث وسنت کی تین اقسام ہیں: سنت قولیہ ، سنت فعلیہ اور سنت تقریریہ۔

٭…سنت ہمیں جس طرح وصول ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ متواتر:
جسے راویوں کی جماعت نے جماعت سے تمام طبقات میں آخیر تک اس طرح روایت کیا ہو کہ عادتاً ان کا جھوٹ پر اتفاق ہونا یا موافقت ہوجانا ناممکن ہو۔ یہ سب روایت حسی یعنی مشاہدہ یا سماع سے ہو۔اس کی لفظی اور معنوی دو قسمیں ہیں۔
۲۔خبر واحد: جسے کم از ایک اور زیادہ سے زیادہ تین راوی سند کے ہر حصے اور طبقے میں یکے بعد دیگرے بغیر کسی انقطاع کے روایت کریں۔سند کے صحت کے بعد متن کی مخالفت کوئی اوثق نہ کررہا ہو اور نہ ہی سند ومتن میں کوئی علت ہو۔ ایسی حدیث میں روایت کردہ سنت یقینی ہوگی اور اس پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ اس کی مشہور ، عزیز اور غریب تین قسمیں ہیں۔

خبر واحد
ایسا علم ہے جس کا بیان کرنا یاروایت کرنا ممنوع و حرام نہیں۔ ازروئے قرآن اسے مسترد کرنا بھی ممنوع ہے۔ ہاں تحقیق کرنا ضروری ہے۔ اگرراوی عادل وضابط ہو تو اسے قبول کیا جائے اور اگر فاسق وفاجرہو تو تحقیق کے بعد اگراس کی خبر غلط ثابت ہوجائے تو پھر اسے رد کردینا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ فاسق کی ہر خبر غلط ہو۔

متواتر:
فقہاء کرام نے لفظ متواتر کے حوالہ سے متعدد معنی لئے ہیں۔ کسی نے سنت متواترہ لیا اور کسی نے متواتر کا دعوی کسی فقیہ یا امام کی طرف منسوب کردیا۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مختلف ائمہ فقہاء متواتر کی اصطلاح کو اس معنی میں استعمال ہی نہیں کرتے جو معنی اصولی حضرات نے لئے ہیں۔

اصولی حضرات کے ہاں متواتر کی تعریف یہ ہے کہ ہر دور میںاسے ایک کثیر تعداد نے کثیر تعداد سے روایت کیا ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق محال ہو۔یہ متواتر علم ضروری کا فائدہ دیتی ہے۔مثلاً استنبول ترکی کا ایک بڑا شہر ہے اور سورج روزانہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ ان دونوں کے علم میں فرق یہ ہے کہ پہلا تواتر کے ساتھ سننے میں آرہا ہے جب کہ دوسرا مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے۔

احناف کے ہاں اس خبر کو ایسے لوگ اپنے ہی جیسے لوگوں سے رسول اللہ ﷺ تک روایت کریں جن کی کثرت تعداد اور اختلاف اماکن کی وجہ سے جھوٹ پر اتفاق یا اکٹھ کا وہم بھی نہ کیا جاسکے۔ ان کا پہلا طبقہ اپنے آخری طبقہ کی طرح ہو اور درمیانہ اپنے دونوں بازؤوں کی طرح۔ (اصول السرخسی: ۲۸۲)

امام مالک ؒ سنت متواترہ کی اصطلاح استعمال فرماتے ہیں جو ان کے نزدیک عمل اہل مدینہ ہے نہ کہ اصولیوں کی تعریف۔دیگر فقہاء اپنے اسلاف کے عمل کو سنت متواترہ کا نام دے دیتے ہیں۔

امام شافعیؒ نے اس اصطلاح کا استعمال اپنی کتاب الرسالہ میں کیا ہی نہیں۔ بلکہ وہ خبر واحد کے لئے السنۃ المجتمع علیہا اور خبر العامۃ من العامۃ کے لفظ استعمال کرتے ہیں اور اس کا مد مقابل خبر الخاصۃ لکھتے ہیں۔ اصولیوں کے ہاں ان دونوں الفاظ سے مراد غیر متواتر ہے کہ وہ معاملہ جو کتاب اللہ میں نہیں اور اس پر امت اس طرح مجتمع ہوگئی کہ دو شخص یا عالم بھی اس سے اختلاف نہ کرسکیں جیسے نماز ظہر کی چار رکعتیں ہیں اس پر امت کا مجتمع ہونا ایسا ہے جو اصولی حضرات کے ہاںمتواتر سے بھی بڑھ کر ہے بلکہ متواتر سے بھی اعلی قسم حدیث ہے۔کیونکہ متواتر میں کچھ علم خواص پر مخفی ہوتا ہے چہ جائے کہ عوام ہوں۔ اور علم متواتر بھی مخفی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ متواتر کی مذکورہ مثالوں سے جانا جاسکتا ہے۔
 
Top