محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
حدیثی دلائل:
آپ ﷺ کا جہنیہ عورت کو ارشاد جس نے اپنی والدہ مرحومہ کی منت حج کے بارے میں پوچھا تھا مگر وہ حج کئے بغیر فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بالکل حج کرو۔بھلا بتاؤ! اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ یہ تو پھر اللہ کا قرض ہے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ صحیح بخاری ، کتاب الصوم: ۲۱۰
اسی طرح :
ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کرتا ہے۔ میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنا ہے۔ میں اسے اپنا بچہ نہیں مان سکتا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں ! ہیں۔آپﷺ نے دریافت فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا: کیا ان میں بھورے رنگ کا بھی کوئی اونٹ ہے؟ اس نے کہا: جی وہ بھی ہے۔ فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے نے کہا: شاید کوئی رگ ابھری ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے ہاں جو بچہ ہوا ہے شاید یہ بھی کوئی رگ ابھری ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب إذا عرض بنفی الولد: ۲۲۷
اقوال صحابہ:
صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسی اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھر قَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔ اعلام الموقعین۱؍۸۶، اخبار القضاۃ ۱؍۷۰
ظاہر ہے صحابہ کرام کے یہ وہ قیاسات ہیں جہاں کتاب وسنت میں کوئی نص نہیں۔ اس لئے جہاں نص نہ ہو، یا اجماع نہ ہو اور نہ ہی کسی صحابی کا قول ہو، وہاں قیاس کو اختیار کرنا اور اسے حجت ماننا ضروری ہے امام شافعی ؒ نے سب سے پہلے قیاس پر گفتگو فرمائی اور اسے اجتہاد کے ہم معنی قرار دیا ہے۔