• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حدیثی دلائل:​

آپ ﷺ کا جہنیہ عورت کو ارشاد جس نے اپنی والدہ مرحومہ کی منت حج کے بارے میں پوچھا تھا مگر وہ حج کئے بغیر فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بالکل حج کرو۔بھلا بتاؤ! اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ یہ تو پھر اللہ کا قرض ہے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ صحیح بخاری ، کتاب الصوم: ۲۱۰

اسی طرح :
ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کرتا ہے۔ میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنا ہے۔ میں اسے اپنا بچہ نہیں مان سکتا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں ! ہیں۔آپﷺ نے دریافت فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا: کیا ان میں بھورے رنگ کا بھی کوئی اونٹ ہے؟ اس نے کہا: جی وہ بھی ہے۔ فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے نے کہا: شاید کوئی رگ ابھری ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے ہاں جو بچہ ہوا ہے شاید یہ بھی کوئی رگ ابھری ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب إذا عرض بنفی الولد: ۲۲۷

اقوال صحابہ:
صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسی اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھر قَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔ اعلام الموقعین۱؍۸۶، اخبار القضاۃ ۱؍۷۰

ظاہر ہے صحابہ کرام کے یہ وہ قیاسات ہیں جہاں کتاب وسنت میں کوئی نص نہیں۔ اس لئے جہاں نص نہ ہو، یا اجماع نہ ہو اور نہ ہی کسی صحابی کا قول ہو، وہاں قیاس کو اختیار کرنا اور اسے حجت ماننا ضروری ہے امام شافعی ؒ نے سب سے پہلے قیاس پر گفتگو فرمائی اور اسے اجتہاد کے ہم معنی قرار دیا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
قیاس کیوں؟ وجوہات اور اسباب​

قیاس علم وتحقیق کا نام ہے اور احکام شریعت کی پہچان کا راستہ بھی۔ نصوص یا اجماع کی عدم موجودگی میں اسے ہمارے فقہاء کرام نے اس طرح اپنایا ہے جیسے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کیا جاتا ہے۔

کتاب وسنت کی نصوص محدود ہیں اور مسائل وحوادث لا محدود۔ جن کا احاطہ اگر نصوص کرتیں تو شریعت ایک ضخیم شکل میں ہوتی۔ اس لئے نصوص میں جو علتیں اور مخفی مقاصد ہیں یا جن مقاصد کی طرف اسے اشارہ ملتا ہے یا ان سے استنباط ہو سکتا ہے۔ ان پر ایک فقیہ غور کرتا ہے یا کسی واقعہ کے بارے میں منصوص حکم موجود ہے اس کا اطلاق اسی جیسے واقعے میں جہاں علت مشترک پائی جاتی ہو وہاں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی نیا واقعہ یا صورت حال پیش آجائے جو اس سے پہلے نہ تھی اور اس بارے میں کوئی منصوص حکم بھی نہیں تو قیاس کے ذریعے سے ایسے واقعات کے حکم کے لئے شریعت کا دامن تنگ نہیں ہوتا۔

اللہ کے عدل و حکمت کا تقاضا ہے کہ احکام شریعت کے متعین طریقوں میں قیاس بھی ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ اس لئے شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر ایک چیز حرام ہے تو اس کی نظیر بھی حرام ہوگی وہ مباح نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک چیز مباح ہے تو اس کی نظیر بھی مباح ہوگی حرام نہیں ہوگی۔ اس لئے قیاس فقہ اسلامی کا ایک مأخذ ہے۔ اس سے استغناء نہیں برتا جاسکتا۔ صحیح قیاس عقلاً، قانوناً اور شرعاً عمل کا متقاضی ہے اور قابل ثواب وعبادت بھی۔

قیاس ایک ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہواورکوئی ضرورت بھی داعی ہو ۔احکام شریعت میں جب بندوں کی مصلحتیں پوری ہوںتو اسے ہی شرعی ضرورت کہتے ہیں۔ قیاس کو اختیار کرنے سے یہ غرض پوری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قیاس کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی معین واقعہ کے بارے میںقرآن یا سنت میں جو حکم موجود ہے اس کے مشابہ دیگر واقعات میں اگر علت مشترک نظر آتی ہوتو وہی حکم ان واقعات کے لئے بھی ہوگا۔

قیاس کرنے کا اہل ایسا عالم ہوتا ہے جو کتاب اللہ کے احکام جاننے کے علاوہ قرآن کے فرائض وآداب ، ناسخ ومنسوخ اور قرآن کے عام وخاص کا ماہر ہو۔ سنت رسول ﷺ کے علم کے بعد سلف کے اقوال، اور ان کے اجماع واختلاف اور عربی زبان کے علم سے بھی آراستہ ہو۔ مزید اس کی عقل سلیم اسے مشتبہات سے بھی آگاہ کرسکے۔ اسے یہ علم ہو کہ اس نے یہ قیاس کیوں کیا؟ کہاں سے کیا؟ اور اگر قیاس کے دوران فلاں فلاں دلیل وغیرہ کو ترک کیا تو کیوں کیا؟۔اشباہ ونظائر کا باہمی ربط اور مناسبت بھی ضرور دیکھے اور قیاس کی تمام تر شرائط کو ملحوظ رکھ کر قیاس کرے۔اشباہ و نظائر کے باہمی ربط میں عدم احتیاط ،لاعلمی اور جہل مرکب ہے۔جس سے ہر فقیہ کو بچنا چاہئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نوٹ:

۱۔ اجماع اور قیاس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیاس ، اجماع سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قیاس صحابہ کرام کے دور میں ہوا اور اجماع بھی ۔ مگر خلفائے اشدین کے اتفاق کو اجماع نہیں سمجھا گیا جب کہ اس دور میں قیاس کی مثالیں ملتی ہیں۔

۲۔ ان چاروں مصادر کا استعمال حفظ مراتب کے اعتبار سے ہوگا۔ قرآن وسنت کو اولین حیثیت دیجئے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سنت ، قرآن کی تشریح ووضاحت ہے نہ کہ اس کے مخالف۔پھر اجماع مجتہدین کو اور پھر قیاس کو۔ اجتہاد نئے ایشوز کے شرعی حل کی تلاش کا نام ہے جن کی کوئی نص یا اصل نہ ملتی ہو۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجتہاد


شریعت میں اجتہاد کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔علماء کے علم، تحقیق اور دانش کو رواں دواں رکھنے کے لئے یہ مہمیز دینے کا ایک دروازہ ہے جو امت اسلامیہ میںبہتے پانی اور ابلتے چشموں کی حیثیت رکھتا ہے۔ نہ کہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح دین کو سمجھ لیا جائے جس میں تعفن، بدبو اور غیر شفافی آجاتی ہے۔ اہم معاصر مسائل کے حل کی سبیل فراہم کرتا ہے۔ یہ عمل ایک عالم کو مجتہد کے مرتبے تک پہنچا کے اس کا مرتبہ اوروزن بھی قائم کرتا ہے۔علماء فقہ نے اس کی تعریف متعین کرکے چند دیگر شرائط بھی اجتہاد کے لئے ضروری قرار دی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

لغوی معنی:
اجتہاد کا مادہ ج ہ د ہے ۔ ہمت وطاقت یا کوشش کرنا کو جہدکہتے ہیں۔ امام شوکانیؒ فرماتے ہیں۔

الإجْتِہَادُ فِی الُّلغَۃِ مَأخُوذٌ مِنَ الْمَشَقَّۃِ وَالطَّاقَۃِ۔ لغت میں اجتہاد کا لفظ مشقت اور طاقت سے ماخوذ ہے۔یعنی کسی کام کے سرانجام دینے میں حتی الامکان کوشش کرنا اور سخت محنت کرنا ہے۔ جیسے چٹان کو اٹھانے میں طاقت کا استعمال کرکے سخت کوشش کرنا۔مگر کسی گٹھلی کو اٹھانے کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔

اصطلاحی معنی :
علماء اصول نے اپنی اصطلاح میں اس کا معنی یہ کیا ہے:

بَذْلُ الْوُسْعِ فِی نَیْلِ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ عَمَلِیٍّ بِطَرِیْقِ الاسْتِنْبَاطِ۔کسی عملی شرعی حکم کے استنباط کے لئے اولہ میںپوری صلاحیت صرف کرنا تاکہ مجتہدکو علم اور ظن حاصل ہوجائے کہ اس مسئلہ میں اللہ کا حکم کیا ہے۔ اجتہاد کہلاتا ہے۔

اس اصطلاحی تعریف سے مندرجہ ذیل چھ نکات واضح ہوتے ہیں جو مجتہد کے تعین ومقام کو واضح کرتے ہیں:

چھ نکات:


۱۔ ا جتہاد کے لئے مجتہد کی معمولی نہیں بلکہ سخت محنت درکار ہوتی ہے ایسی کہ اس کی ہمت وطاقت سے باہر ہوجائے۔

۲۔ جو شخص شرعی حکم معلوم کرنے کی استعداد رکھتا ہو یعنی اسے قرآن وسنت اور اس کے لوازمات کا پہلے سے علم ہو وہ اجتہاد کر سکتا ہے اس استعداد سے محروم ، مجتہد نہیں کہلائے گا۔ اور اس کا اجتہاد ناقابل قبول ہوگا۔

۳۔ مسئلہ کی نوعیت شرعی ہو ۔ مگر جن مسائل کا تعلق لغت، سیاست اور دیگر دنیوی معاملات سے ہو ان میں جدوجہد کرنے والے کو مجتہد نہیں کہا جاسکتا۔

۴۔ اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ زیر غور مسئلہ کا تعلق عملی مسائل سے ہو اور اس کی واقفیت سے غرض ہو۔ محض مشق نہ ہو۔الدِّینُ یُسْر کا نسخہ اجتہاد میں مجتہد کے سامنے ہو۔اس کے اجتہاد کی وہی تعبیر صحیح و دینی قرار پائے گی جو آسان ہو اور قابل عمل ہو۔مشکل تعبیر جس پر سرے سے عمل ہی نہ ہوسکے وہ اجتہادی تعبیر درست نہیں ہوگی۔ نظریاتی مسائل مثلاًتوحید ورسالت اور آخرت وغیرہ میں اجتہاد نہیں ہو سکتا۔

۵۔ جو مسئلہ کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہو وہ اجتہادی مسئلہ نہیں اور نہ ہی اسے اجتہادی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ایسے مسائل قطعی طور پر ثابت شدہ ہیں جیسے نماز ادا کرنے، روزہ رکھنے، سچ بولنے، شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگ سار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو شخص یہ شرعی احکام بیان کرتا ہے وہ مجتہد نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسائل اجتہادی مسائل کہلائے جاسکتے ہیں۔

۶۔ جن مسائل کی نصوص موجود ہیں انہی کا نفاذ ضروری ہے۔کسی اور کا نام لینے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس مسئلہ میں فلاں مجتہد کی رائے یہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
میدان اجتہاد:

اہل علم نے اجتہاد کہاں اور کس مسئلے میں کرنا ہے ؟ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ ہے: ہُوَ کُلُّ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ۔جن احکام ومسائل میں دلیل قطعی نہیں ان میں اجتہاد ہوسکتا ہے۔اس لئے جو مسائل دینیہ ضرورۃ معلوم ہیں جیسے پانچ نمازیں، وجوب حج، صو، زکوۃ وغیرہ ان میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔اسی طرح وہ احکام بھی اس سے خارج ہیں جو دلیل قطعی ثبوت یا قطعی دلالت سے معلوم ہیں جیسے: تحریم خمر، وسرقہ، یا لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ۔

جن مسائل میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو یا نص اپنی دلالت میں ظنی ہوچاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا خبر واحد۔یا جن مسائل میں کوئی اجماع نہ ہوسکاہو۔وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مجتہد کا کام یہ ہوگا کہ وہ خبر واحد کے لئے محدثین کی طے شدہ شرائط کے مطابق، روایت اور اس کے راویوں پر غور کرکے یہ بتائے کہ وہ روایت کس درجہ کی ہے ؟ تاکہ ظن سے نکل کر یقین و ثبوت میں آیا جائے۔ اجتہاد بھی قرائن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس لئے مجتہد کو یہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ محض متن حدیث کو دیکھ کر رائے اور اجتہاد سے اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ بعض فقہاء اسے کافی سمجھتے ہیں اور اسے اجتہاد قرار دے دیتے ہیں مگر علمی، تحقیقی اور دیانتداری کے اعتبار سے ایسا اجتہاد، اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ یا مجتہد قرآنی آیت میں لفظ کی ظنی دلالت پر غور کرکے اس کے معنی کو متعین کرتاہے اور ایک دلالت کو دوسری دلالت پر ترجیح دینے کی کوشش کرتاہے۔ یہی دونوں مقامات ایسے ہیں جن سے احکام مستنبط کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے اور امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے۔ اس معنی میں چاروں فقہ کو مذاہب اربعہ کہا جاتا ہے اور یہاں مذہب کا معنی اجتہاد ہے کہ فلاں امام کا یہ اجتہاد ہے۔

اجتہاد کی اہمیت وثبوت:
اسلام کے مکمل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے آخری شریعت ہے جسے اللہ تعالی نے ہر زمان ومکان کے لئے انتہائی مناسب بنا دیا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تمام پیش آنے والے حوادث وواقعات کی تفاصیل قرآن وسنت میں موجود ہوں۔کیونکہ حوادث وواقعات نئے نئے پیش آتے رہیں گے مگر ادلہ وہی باقی رہیں گے جو اللہ تعالی نے نازل فرمائے ہیں۔ یعنی قرآن وسنت کی نصوص میں احکام کی تعداد محدود ہے۔ جب کہ مسائل غیر محدود ہیں۔ علاقائی اور عصری مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ اس لئے غیر منصوص مسائل میں رائے اور اجتہاد کی طرف رجوع کرنا از بس ضروری ہو گا۔اور اجمالی ادلہ اور ان کے عام قاعدوں پرغور وفکر کرنا ہوگا تاکہ نظیر کو نظیر کے مطابق حکم دیا جائے۔

٭…ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس وقت بھی اجتہاد کی حوصلہ افزائی کی جب قرآن نازل ہورہا تھا۔اور راہنمائی دی کہ قرآن وسنت جو اسلام کے اصل مصادر ہیں ان پر غور کرکے قیاسی یا استنباطی طور پر شریعت کے نئے احکام معلوم کئے جائیں۔مثلاً: {یحکم بہ ذوا عدل منکم}(المائدۃ:۹۵) اس کا فیصلہ تم میں دو صاحب عدل کریں۔اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد صحیح حدیث میںہے:

إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ فَأَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌمجتہد کسی حال میں اجر سے محروم نہیں رہتا۔ اگر اس کا اجتہاد درست ہے تو اسے دو اجر ملیں گے ایک اس پر کہ اس نے اجتہاد کیا اور دوسرا اس پر کہ اس کا اجتہاد صحیح ہوا۔ اور اگر اس کا اجتہاد غلط ہوا تو اسے اجتہاد کرنے کا ایک اجر پھر بھی ملے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر مجتہد کو غلطی کرنے پر کوئی اجر نہ ملتا تو کوئی شخص اس اندیشہ سے کبھی اجتہاد نہ کرتا کہ اس کا وقت بغیر کسی اجر کے یونہی ضائع جائے گا اور گناہ گار بھی ہوگا۔

٭… صحابہ رسول بھی متفق نظر آتے ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہئے۔ جب ان کے پاس نئے مسائل آتے اور ان کا حل کتاب وسنت سے جب وہ نہ پاتے تو اجتہاد ہی کیا کرتے۔

٭…حقیقت میں مجتہد قرآن وحدیث کی نصوص پر غور وفکر کرکے براہ راست احکام کا استنباط کرکے اللہ ورسول کی اطاعت کرتا ہے۔ اجتہاد سے مراد وہی فکر ی عمل ہے جس کو قرآن نے استنباط کہا ہے(النسائ: ۸۳) فقہاء کی اصطلاح میں اسی کا نام قیاس ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اجتہاد سے مراد بالواسطہ اخذ احکام ہے جب کہ براہ راست اخذ احکام کی بظاہر صورت موجود نہ ہو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رسول اکرم ﷺ کے اجتہاد کا حکم: اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے لئے دنیوی مصالح اور جنگی تدابیر کے لئے اجتہاد کرنا روا ہے۔کیونکہ جناب رسالت مآب ﷺ نے خود کئی مسائل میں اجتہاد فرمایا تاکہ امت کو اجتہاد کی شرائط بتا کر اس کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ مثلاً: اساری بدر ، متخلفین تبوک کو اذن دینا، تأبیر نخل کے بارے میں اشارہ دینا، وغیرہ۔کیا دنیوی مصلحت اور جنگی تدابیر کے علاوہ آپ ﷺنیاور دینی یا شرعی مسئلے میں اجتہاد کیا ہے؟ اہل علم مختلف الرائے ہیں۔ مثلاً:

ایک قول یہ ہے کہ عقلاً آپﷺ اجتہاد کرسکتے ہیں۔جو فعلاً آپ سے ہو بھی گیا۔ یہ جمہور علماء کا قول ہے۔ان کا استدلال یہ ہے:

{فاعتبروا یا أولی الأبصار}(الحشر:۲) یہاں اعتبار سے مراد قیاس ہی ہے۔اور اللہ تعالی نے اس کا حکم اہل بصیرت کو دیا ہے۔اور نبی ﷺ لوگوں سب سے زیادہ بصیرت والے تھے۔اور قیاس کے حقیقت اور شروط کے بارے میں زیادہ خبر رکھتے تھے۔بلکہ آپ بطریق اولی اس پر مامور بھی تھے۔

٭… آپ ﷺ نے اجتہاد کیا بھی۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کا یہ فرمانا: أَرَأَیْتَ لَوْتَمَضْمَضْتَ؟ بھلا بتاؤ اگر تم کلی کرو تو؟ جس صحابی نے اپنے فوت شدہ والد کے بارے یہ پوچھا کہ وہ حج نہیں کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: أَرَأَیْتَ لَوْکَانَ عَلَی أَبِیْکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ تَقْضِیْہِ؟ اسی طرح حجۃ الوداع میں آپ کا یہ فرمانا: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، لِمَا سُقْتُ الْہَدْیَ۔

اجتہاد پر عمل، نص پر عمل کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا ثواب بھی زیادہ بڑا ہے۔اگر آپ ﷺ اجتہاد پر عامل نہ ہوتے تو پھر ہم یہی سمجھتے کہ امت کے جن حضرات نے اجتہاد کیا فضیلت تو انہیں حاصل ہوگئی مگر آپ ﷺاس سے محروم ہوگئے۔جو انتہائی غلط بات ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کے لئے شریعت میںاجتہاد کرنا جائز ہی نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالی میں ہی آپ ﷺ کے بارے میں ہمیں بتادیا گیا ہے کہ:{ وما ینطق عن الہوی إن ہو إلا وحی یوحی}۔ اور آپ ﷺ صرف وحی کے پابند ہیں۔{ ولا أقول لکم إنی ملک إن أتبع إلا ما یوحی إلی}۔ اس لئے آپ ﷺ کا اجتہاد کرنا مناسب نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ سے کسی نئے واقعہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو بجائے جواب دینے کے آپ توقف فرماتے اور وحی کا انتظار کرتے یا پھر آپ ﷺ فرماتے: اس بارے مجھ پرابھی تک کچھ نازل نہیں ہوا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تیسرا قول:
ان علماء نے توقف کیا ہے اور کوئی مسلمہ بات نہیں کہی۔اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو کسی مسئلہ میں اجتہاد کرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ بھی کہ وحی ہی کی طرف آپ ﷺ لوٹیں۔

تنبیہ: جب جمہور کا یہ قول بیان کیا جاتا ہے: کہ آپ ﷺ کو اجتہاد کا حق ہے توسوال یہ ہے کہ کیا آپ ﷺ کا یہ اجتہاد شریعت اسلامیہ میں قرآن وسنت کے علاوہ ایک مصدر بن جائے گا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ : نہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا اجتہاد وحی کا پابندہوتا ہے اگر وہ درست ہو تو وحی اسے برقرار رکھتی ہے اور اگر اس میں کوئی خطأ ہو تو وحی اس خطا سے آگاہ کرکے درست رخ بتاتی ہے۔قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کا یہی طریقہ انبیاء سابقین کے لئے بھی استعمال ہوا۔

اسلام نے اجتہاد کی ترغیب دی۔ عہد نبوی میں صحابہ رسول نے اجتہاد کیا۔گو اس بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر ہیں مگر صحیح اور درست یہی ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی موجودگی میں اور عدم موجودگی میں اجتہاد کیا ہے اور کبھی آپ ﷺ کی اجازت سے اور کبھی آپ ﷺ کے حکم سے۔ اور کبھی صحابی رسول، خود اجتہاد کربیٹھے آپ ﷺ کو معلوم اور آپ ﷺ اسے برقرار رکھیں۔یہ بھی ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے پسند وناپسند بھی فرمایا ہے۔مثلاً:

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے وقت آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: فیصلے کے لئے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے تو کیا کروگے؟ تو انہوں نے عرض کی: اَقْضِیْ بِمَا فِی کِتَابِ اللہِ۔ میں جو کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اگر اس میں نہ ہوتو؟ تو فرمانے لگی: فَبِسُنَّۃِ رَسولِ اللہِ۔ پھر سنت رسول اللہ ﷺ سے۔ آپ نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ ہو تو؟ عرض کی: أَجْتَہِدُ ولا آلُو۔ اجتہاد کروں گا اور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ آپ ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: الحَمْدُ لِلّٰہِ الْذِیْ وَفّقَ رَسُولَ رسولِ اللہِ إلی ما یُرْضِی رسولَ اللہِﷺ۔اس اللہ کا شکر جس نے رسول اللہ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق ی جس سے اللہ کا رسول خوش ہوسکے۔

اسی طرح سعد بن معاذ کا یہود بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے انتہائی مناسب اور صحیح قرار دیا۔

آپ ﷺ نے عمرو بن العاص کو فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے کا جب حکم دیا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول آپ کی موجودگی میں کیااجتہاد کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بالکل ! اگر تمہارا فیصلہ درست ہوا تو دو اجر ورنہ ایک کے مستحق ہوگے۔

غزوہ حنین کے موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد جب ابوقتادہ نے ایک شخص کو قتل کیا تو وہ اس کے مال غنیمت کے مستحق ٹھہرتے تھے مگر کوئی اور اسے لے گیا۔ سیدنا ابوبکر نے آپ ﷺ سے عرض کی ابوقتادہ کو مال غنیمت میں سے کچھ دے کر خوش کیا جائے۔ابوبکر نے اس موقع پر کہا: واللہِ لا نَعمِدُ إلی أَسَدٍ مِن أُسُودِ اللہِ یُقَاتِلُ عنِ اللہ ورسولِہِ، فنّعطِیْکَ سَلْبَہُ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: صَدَقَ أبوبکرٍ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
حکمت اجتہاد: آپ ﷺ نے اجتہاد کیوں کیا اور صحابہ کرام کو اس کی اجازت کیوں دی؟ اس میں درج ذیل حکمتیں تھیں:

۱۔ امت کو بتانا مقصود تھا کہ اجتہاد کرنا جائز ہے۔جب وہ حکم کی علت پالیں تو وہ نواز ل میں اجتہاد کرلیں۔اور اسے منصوص علیہ کا حکم دیں۔

۲۔ صحابہ کی تربیت ہو اور ان کے بعد امت یہ جان لے کہ ادلہ سے اخذ احکام کی کیفیت کیا ہونی چاہئے۔ آپ ﷺ کے بعد امت کے اہل فقہ ونظر بھی اپنے حوادث ونوازل میں عمومات کتاب وسنت کو دیکھ کر اجتہاد کریں۔

٭… اس لئے شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں آئی جو اجتہاد کو کسی جگہ یا کسی زمانہ میں موقوف یا مقید کرتی ہو بلکہ شریعت کی نگاہ میں اجتہاد ایسی چیز ہے جو ہر زمانہ میں ممکن ہے۔ عصر حاضر میں جو سہولتیں میسر ہو چکی ہیں یہ پہلے زمانہ کے مجتہدین کو کہاں میسر تھیں۔ شاید اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا:

لَا یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ مَنْصُورِیْنَ عَلَی الْحَقِّ۔۔۔ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔

٭… حنابلہ، ظاہریہ اور محدثین کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ تا قیامت کھلا ہے۔وہ مانتے ہیں کہ اجتہاد کی شریعت میں اجازت ہے مگر یہ اجازت چند سخت شرائط کے تابع ہے۔ تاکہ وحی اور اجتہاد میں نمایاں فرق برقرار رہے اور یہ دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں اور نا اہل لوگوں سے بھی بچا جائے۔

حکم اجتہاد:

جب اس میں امت کے چند علماء مصروف ہوں تو پھریہ فرض کفایہ ہے ۔ باقی مسلمانوں سے یہ حکم ساقط ہوجائے گا۔اور اگر سبھی اس میں کوتا ہی کریں تو اجتہاد کو ترک کرنے پر سبھی گناہ گار ہوں گے۔

اجتہاد اور تفقہ:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے: مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ۔ اللہ تعالی جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین میں فقیہ بنا دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ آپﷺ نے یہ چاہا ہے کہ جو دین میں تفقہ حاصل نہیں کرے گا اللہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں تفقہ حاصل کرنا فرض ہے اور دین میں تفقہ حاصل کرنے کامعنی یہ ہے کہ شرعی احکام کو سمعی دلائل سے معلوم کرنا۔ جو سمعی دلائل سے آگاہ نہیں ہے وہ دین میں فقیہ نہیں ہے۔اس لئے اجتہاد ایک آلہ ہے اور افتاء ایک تخصص۔ نیزمفتی کا فتوی ایک اجتہادی علم ہے اس لئے اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔

سمعی دلائل سے مراد قرآن وسنت سے احکام معلوم کرنے کا وہ طریقہ ہے۔ جس میں صحیح ذوق اورعقل سلیم کی گنجائش ہو مگرفاسد قیاس، وہم وظن اور باطل رائے کی جگہ نہ ہو اسی طرح مختلف حیلوں اور غیر معقول اعذار سے سمعی دلائل کو بھی رد کرنے کا نام فقہ نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہؒ اپنے فتاوی میں ارشاد فرماتے ہیں:

وَالاِجْتِہَادُ لَیْسَ ہُوَ أَمْرً ا وَاحِدًا لاَ یَقْبَلُ التَّجَزِّیْ وَالاِنْقِسَامُ بَلْ قَدْ یَکُونُ الرجل مجتہدا فی فن أو باب أو مسئلۃ دون فن وباب ومسئلۃ، وکل أحد فاجتہادہ بحسب وسعہ۔۔۔اجتہادکوئی ایسا کلیہ نہیں ہے جو تقسیم در تقسیم کو قبول نہ کرے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی فن ، باب یا مسئلہ میں مجتہدہو اور کسی دوسرے میں نہ ہو۔ ہر شخص کا اجتہاد اس کی ہمت ووسعت کے مطابق ہے۔(فتاویٰ ج ۲۰ ص۲۱۲ )

یعنی یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ہر فن مولا ہو یا اسے دیگر فنون کی بھی لازماً مہارت ہو بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے فن میں مجتہد بن سکتا ہے۔ ایک ماہر لسانیات ہو سکتا ہے تو دوسرا ماہر اقتصادیات، ایک علم الفرائض میں مجتہد بن سکتا ہے تو دوسرا عبادات میں۔ اکثر مجتہدین ایسے ہی مجتہد ہیں۔ بعض مسالک میں عبادات میں فتوی ایک مجتہد کا ہے ، قضاء میں کسی اور مجتہدکا قابل ترجیح ہے اور سیر میں کسی اور کا۔ بہر حال مجتہد کے لئے اتنا جاننا ضروری ہے کہ جس فن، جس باب اور جس مسئلہ میں وہ اجتہاد کرنا چاہتا ہے اس فن، باب اور مسئلہ میں اس کے سامنے سمعی دلائل کون سے ہیں۔ باقی مجتہد کے لئے دو تین درجن شرائط حقیقت میں غیر متعلقہ ہیں جو شاید اس لئے ہیں کہ مسلمان خوف زدہ رہیں اور بعض مذاہب کی قید سے نجات نہ پا سکیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجتہاد کی اقسام:

اس کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ عام اجتہاد ۲۔ خاص اجتہاد

۱۔عام اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو احوال ظاہری سے تعلق رکھتا ہو۔ اور

۲۔خاص اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جس کا تعلق احوال باطنی سے ہو یعنی وہ حالات جو اوپری سطح(Face value)پر دکھائی نہ دیتے ہوں مگر وہ گہری سطح(under cuurent)میں موجود ہوں۔ پہلے کا تعلق بصارت سے ہے اور دوسرے کا بصیرت سے۔مثلاً صلح حدیبیہ کے وقت جو بظاہر حالات تھے وہ تمام تر اہل اسلام کے خلاف تھے کیوں کہ دس سالہ ناجنگ معاہدہ مخالفین کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر کیا جارہا تھا۔ صلح کے اس ظاہری پہلو کی بناء پر اسے قبول کرنا صحابہ کے لئے سخت گراں تھا حتی کہ عمر فاروقؓ نے اس معاہدہ کو دَنِیَّۃ قرار دیا۔

قرآن کی اس آیت نے اس معاملہ پر تبصرہ کرکے حقیقت کو یوں واضح کیا: {فعلم ما لم تعلموا}۔ پس اللہ نے جانا جو تم نے نہ جانا۔ جس کا مطلب ہے کہ تم صرف دکھائی دینے والی باتوں کو جانتے تھے مگر اسی کے ساتھ کچھ بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتیں بھی وہاں موجود تھیں اور اللہ کی راہنمائی سے اللہ کے رسول نے ان بظاہر نہ دکھائی دینے والی باتوں کی بنیاد پر صلح کا یہ معاہدہ کر لیا۔ چنانچہ دوسال سے بھی کم مدت میں اہل اسلام کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے بڑھ کر دس ہزار تک پہنچ گئی۔یا

اجتہاد کی یہ دو قسمیں بھی ہیں۔

انفرادی اجتہاد اجتماعی اجتہاد

۱۔زمانہ سابق میں مجتہداپنے تمام تر وسائل کے باوجودکسی بھی مسئلے میں اجتہاد انفرادی طور پر کرتا۔ جس میں دیگر مجتہدین کی شرکت ناممکن ہوتی۔ ایک فرد کا اجتہاد مقامی سطح پر یا جہاں تک اس کے شاگردوں اور اتباع کا اثر رسوخ ہوتا وہ پہنچ پاتا۔ اس لئے اس زمانہ میں دیگر مجتہدین کی موجودگی انہیں ایک جگہ اکٹھا نہ کرسکی تاکہ باہمی نقاش سے کوئی متفقہ رائے بن پاتی۔ایسے اجتہاد کو انفرادی اجتہاد کا درجہ حاصل ہے مگراس کی آج ضرورت نہیں۔

۲۔ اجتماعی اجتہاد جو دنیا بھر میں پھیلے مختلف علماء وفضلاء کی اجتہادی آراء سے مستفید ہونے کا نام ہے۔ موجودہ دور میں جدید آلات ووسائل اس میں بڑے معاون ہیں۔یہاں استدلال ونقاش کی بڑی گنجائش ہے اور افہام وتفہیم کی بھی۔اورآپس میں مل بیٹھ کر متفقہ رائے قائم کرنا بھی ممکن ہے۔اس لئے عصر حاضر میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت واہمیت ہے۔ حکومت سعودیہ نے مکہ مکرمہ میں جو علماء کا بورڈ بنایا ہے اس میں دنیا بھر کے متخصص علماء اس کے ممبر ہیں جو کسی بھی ایسے مسئلہ کو جس کی وضاحت قرآن وحدیث میں نہ ہواس پر ان کے اجتہادات قابل تحسین ہیں۔ مثلاً: بینکنگ میں سود شامل ہے اس بورڈ کی کوشش ہے کہ ایسا بینکنگ نظام بنایا جائے جس میں سود کسی بھی صورت میں داخل نہ ہوسکے۔ یہی حال انشورنس کا ہے۔ نیز کلوننگ، تبدیلی اعضاء وغیرہ یہ ایسے مسائل ہیںجن پر اجتہاد ہوا ہے اور ہورہا ہے کیونکہ ان کی وضاحت قرآن وسنت میں موجود نہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اجتہاد ومجتہدکی شرائط:


شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عِقْدُ الْجِیْدِ میں اجتہاد اور مجتہد کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجتہد میں پانچ قسم کے علوم کا ہونا ضروری ہے:

الْمُجْتَہِدُ مَنْ جَمَعَ خَمْسَۃَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْعِلْمِ، عِلْمُ کِتَابِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ، وَعِلْمُ سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ ﷺ، وَأَقَاوِیْلَ عُلَمَائِ السَّلَفِ مِنْ إجْمَاعِہِمْ وَاخْتِلاَفِہِمْ، وَعِلْمُ اللُّغَۃِ وَعِلْمُ الْقِیَاسِ۔مجتہد وہ ہے جس میں پانچ علم ہوں۔ کتاب اللہ کا علم، سنت رسول کا علم، علماء سلف کے اجماعی اور اختلافی اقوال، لغت کا علم اور قیاس واستنباط کا علم۔

اس تعریف کی مزید تفصیل کے لئے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو شخص اجتہاد کا راستہ اپنانا چاہتا ہے وہ یہ یاد رکھے کہ اجتہاد چونکہ فہم وفراست اور ذہانت کے استعمال کا نام ہے اور اس میں غلطی کا امکان بھی ہے۔ اس لئے اس کے لئے یہ ضروری ہے :

۱۔نیک نیت ہواور صحیح عقیدہ والا بھی، اللہ اوررسول کے علاوہ کسی شخصیت یا گروہ کے تعصب میں مبتلا نہ ہو۔

۲۔ وہ اپنے اجتہاد کی ذمہ داری خود قبول کرے۔ اپنے اجتہاد کو اللہ ورسول کی طرف منسوب نہ کرے۔ اس لئے کہ اللہ ورسول کی طرف غلط بات منسوب کرنا شرعاً حرام ہے۔ یہ قطعا جائز نہ ہوگا کہ اجتہاد ،مجتہد کا ہو اور اسے اللہ ورسول کا حکم قرار دے دیا جائے۔ ایسا کہنا گویا خود کو معصوم کہلوانا ہے۔ قرآن وحدیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی کئی بار اجتہادی خطا سے دو چار ہوئیں۔ اللہ چاہتا تو ان سے یہ غلطی نہ ہوتی مگر اللہ تعالی نے از خود یہ غلطی کروائی تاکہ دنیا یہ سمجھ لے کہ نبی بشر ہوتا ہے کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں اور نہ ہی خدائی اختیارات رکھتا ہے دوسرا یہ کہ نبی سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے تو امتی تو بالأولی خطا کر سکتے ہیں۔ جب نبی کی خطا اللہ تعالی کی بات نہیں ہے تو غیر نبی کی اجتہادی خطا کو اللہ کی بات کہنا بالأولی حرام ہے۔ ہماری اس ساری گفتگو کی دلیل ملاحظہ کیجئے:

… سیدنا نوح علیہ السلام نے أہل سے مراد۔۔ نسبی اہل سمجھا تو ان کی خطا پر اللہ نے مطلع کیا اور فرمایا: {إنی أعظک أن تکون من الجاہلین} ۔ یہ باتیں نادانوں کی سی ہیں دوبارہ مت کیجئے گا۔

… سیدنا داؤد علیہ السلام کے اس فیصلہ پر کہ بچہ بڑی عمر والی خاتون کو دے دیا جائے جناب سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بچہ کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے اور ہر عورت کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے جس پر بڑی عمر والی عورت بخوشی راضی ہوگئی مگر چھوٹی عمر والی خاتون نے کہا یہ بچہ میرا نہیں ہے یہ بڑی کا ہے اسے کاٹو مت بلکہ بڑی کو ہی دے دو ۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے وہ بچہ چھوٹی کو ہی دے دیا۔ چونکہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے فیصلے کی اساس بڑی عمر والا ہونا تھا جو کہ درست نہیں تھی اس لئے ان کا اجتہاد درست نہیں تھا اور {فہمنہا سلیمان} ہی قابل تسلیم ٹھہرا۔

… اساری بدر کے معاملے میں سیدنا ابوبکر ؓ کا مشورہ معاف کرنے کا تھا اور سیدنا عمرؓ کا قتل کرنے کا۔ مگر رسول اکرم ﷺ نے مشورہ صدیقؓ کو پسند فرما کر ان قیدیوں سے فدیہ لیا اور رہا کردیا۔ آیات جو بعد میں اتریں ان سے واضح ہوا کہ آپ ﷺ اور جناب صدیق اکبرؓ کی رائے مبنی بر رضاء الٰہی نہ تھی۔ قرآن نے اس کی نشان دہی کردی۔
 
Top