• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
صحابہ کا سنہری اصول:

یہ سب معلومات فقہی کتب میں بے شمار ایسی مثالوں کے ساتھ موجود ہیں۔ بعض علماء نے ان کی کچھ نہ کچھ تاویلیں کی ہیں مگر اس سے انکار نہیں کہ ان مقدس ہستیوں کو حدیث رسول نہیں پہنچ سکی۔جس کی وجہ سے ان میں یہ اختلاف رائے ہوا ۔ علم اور اس کا آزادانہ اظہار ان کے جذبہ اطاعت رسول کو کم نہ کر سکا اور نہ ہی صحیح بات کی قبولیت میں کوئی ہچکچاہٹ۔ ان کا ایک اصول یہ تھا کہ مسئلے کی وضاحت جب حدیث رسول سے ہوجائے توپھر بلاتامل اسے قبول کرلینا چاہئے۔ وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے مزاج اور گھٹی میں تسلیم واطاعت کاجذبہ ہمہ وقت زندہ ہوتا تھا۔آج ہمارے جو حالات ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ یہ تفاصیل لکھی جائیں ۔

ائمہ فقہاء کا علم:
غر ض یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ و دیگر صحابہء کرامؓ جو اکثرو بیشتر آپ ﷺکے ساتھ رہے، ان کے علم کا جب یہ حال تھاکہ وہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے اور علم کی محبت رکھتے ہوئے آپ کی کم وبیش احادیث اور سنتوں کو نہیں جانتے تھے یا لا علم رہے تو بعد والے علمأو ائمہ کا کیا حال ہوگا؟ اس لئے جس طرح ہم سیدناابوبکرؓو دیگر صحابہء کرامؓ کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کہ وہ جناب رسالت مآب رسول اکرمﷺ کی تمام احادیث وغیرہ کا علم رکھتے تھے اسی طرح امت کے کسی امام، عالم، مجتہد کے بارے میں بھی یہ مبالغہ آرائی انتہائی نامناسب ہو گی۔ کہ فلاں امام وغیرہ کے پاس شریعت کا سارا علم تھا۔یا یہ سمجھنا کہ بعد کے ائمہ فقہاء صحابہ سے افضل تھے مثلاً: اَبُو حَنِیْفَۃَ أَفْضَلُ مِنْ عَلِیٍّ یا یُقَلِّدُ الشَّافِعِیَّ وَلاَ یُقَلِّدُ أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ۔ (الفتاوی الکبری۶/۲۰۰) کیونکہ بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کی دلیل ان ائمہ حضرات کو نہ مل سکی، یا وہ بے خبر رہے یا لا علم تھے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اہم دینی معاملات میں ان ائمہ کبار سے ایک مسئلہ بھی منقول نہیں۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

تیسرا باب:

فقہاء اربعہ
دور تابعین میں فقہاء کر ام کا فقہی واجتہادی منہج صحابہ کرام کے فقہی واجتہادی منہج کی طرز پر رہا۔عصری مسائل کے حل کے لئے یہ نسل بھی کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتی ۔بصورت دیگر وہ اجتہاد میں منہج صحابہ پر انحصار کرتی۔ اس زمانہ میں روایت حدیث بھی عام تھی۔ نئے فرقوں :خوارج وروافض نے بھی سر اٹھایا۔اسلامی مملکت کا دائرہ بھی وسعت پذیر ہورہا تھا۔ بکثرت واقعات بھی رونما ہورہے تھے۔اور نت نئے مسائل بھی ابھر رہے تھے۔ جس سے بے شمار سوالات کھڑے ہوگئے جن کے جواب میں اختلاف طبعاً ہوا۔
اس دور میں فقہاء کرام اپنے فقہی رجحان میں یک جان نہیں تھے بلکہ ان میں کچھ منہج صحابہ پر قائم تھے اور نصوص سے واقف تھے۔یہ فقہاء فتنوں کی وجہ سے رائے دینے میں حددرجہ محتاط تھے۔ مدنی اور حجازی مکتب فکرکی یہی سوچ تھی۔ بعض ایسے بھی تھے جو رائے وقیاس سے اپنے امور نمٹاتے تھے۔اور نصوص میں غور خوض کرکے ان کے معانی کا استخراج کرتے۔ان کی علل سے واقف ہوتے۔ نئے مسائل کے حل کے لئے وہ ان کے معانی اور علل پر غور کرکے وضاحت کرتے۔ وضع حدیث کو بھی انہوں نے رائے کے لئے استعمال کیا۔کوفہ وعراق ایسے فقہاء کی آماجگاہ تھی۔ نتیجۃً دو فقہی مدارس ابھر آئے۔ مدرسہ اہل الحدیث اور مدرسہ اہل الرأی۔

ان دونوں مدارس فقہیہ میں اختلاف سنت سے احتجاج کے بارے میں نہیں تھا بلکہ صرف ان دو چیزوں میں تھا: کیا رائے کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔یا کیا رائے کی بنیاد پر تفریع مسائل کی جاسکتی ہے؟

اسلامی تاریخ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کی علمی سرگرمیوں نے بے شمار مجتہدین وائمہ پیدا کئے جن کے علم سے آج بھی دنیا مستفید ہورہی ہے۔ امامت کا یہ بلند وبالا مقام جس سے ہمارے یہ ممتاز ائمہ سرفراز ہوئے انہیں ان کے علم و تقوی اور دین پر عمل ومحنت کی وجہ سے ملا ۔ امت محمدیہ بحمد اللہ ایسے فقہاء ومجتہدین کی فہرست سے مالا مال ہے جنہوں نے مشکل حالات میں افراد امت کی صحیح راہنمائی فرمائی۔

مگر چار ائمہ کرام کو خصوصی طور پر جو مقام ومرتبہ ملا وہ امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم الشان اعزاز ہے۔ ان کی یا ان کے شاگردوں کی کاوشوں نے ان ائمہ کرام کی شہرت کو چار چاند لگائے جن کی معتدل محبت ان کے عقیدت مندوں اور بہی خواہوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے سما گئی۔ ان کے علمی واجتہادی کارنامے ، اصول وضوابط، تفریع وتخریج، حاشیہ پر حاشیہ، فقہاء کے مختلف مدارج کا قیام مثلا: مجتہد مطلق، مجتہد مذہب، مفتی مذہب، مرجح مذہب اور مقلد مذہب وغیرہ کی اصطلاحات، قیود وشرو ط ورموز غرضیکہ فقہی سرگرمی کا کوئی پہلو نہیں جو ہر عقیدت مند نے اجاگر نہ کیا ہو ۔ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ رَحْمَۃً وَاسِعَۃً ۔ مگر یہ واضح رہے کہ فقہ واستنباط میں ان ائمہ کرام کے اپنے اپنے مناہج واصول ہیں بعض میں یہ کسی سے متفق ہیں اور کسی سے مختلف۔ اس لئے کہ شریعت کا سارا علم ان میں سے ہر ایک کے پاس نہیں تھا۔ ان ائمہ کرام کے مختصر حالات زندگی درج ذیل ہیں:۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام ابو حنیفہؒ (۸۰ تا ۱۵۰ھ)​

سب سے بڑے امام یعنی امام اعظم گردانے اور فقہ حنفی کے بانی کہے جاتے ہیں ۔ آپ کا نام نعمان بن ثابت ہے۔کوفہ میں ۸۰ھ کو پیدا ہوئے۔ بچپن کے حالات کا علم نہیں ہوسکا۔ شروع شروع میں ریشم کا کاروبار کرتے رہے مگر فقیہ وقاضی امام شعبیؒ کے توجہ دلانے پر علم کے حصول میں خوب منہمک ہوئے اس وقت کوئی صحابی رسول زندہ نہ تھے جن سے یہ استفادہ کرسکتے۔ علم کی خواہش اور اپنی ذہنی قابلیت سے علم کلام کی جانب توجہ فرمائی مگر اسے بے نتیجہ سمجھ کر علم فقہ کے میدان میں قدم رکھا اس وقت آپؒ کی عمر تیس سال تھی۔
اساتذہ: مشہور فقیہ حمادؒ بن ابی سلیمان (م۔۱۲۰ھ)سے فقہ کی تکمیل کی اور جلد ہی فقہی دنیا میں نام پیدا کرلیا۔ امام ابراہیم نخعیؒ(م۔۹۵ھ) جو تابعی ہیں حمادؒکے استاد تھے۔ امام ابوحنیفہؒ…بقول امام شاہ ولی اللہ دہلوی… امام ابراہیم نخعیؒ کے علم وفضل اور فقہی کمالات کے معترف اور مداح تھے اور انہی سے زیادہ متأثر بھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: امام محترمؒ کی طرف منسوب فقہی مذہب کا اصل مأخذ امام ابراہیم نخعیؒ اور ان کے معاصرین کے افکار ہیں۔ امام صاحبؒ تخریج کی تمام صورتوں کی ممکنہ باریکیوں کو بخوبی جانتے تھے، فروع کی طرف بھی آپؒ کا کامل رجحان تھا۔ امام مالک ؒ سے عمر میں گو بڑے تھے لیکن ان کے حلقہ درس میں بیٹھ کر ان سے بھی کچھ احادیث سنیں۔ امام جعفر صادقؒکے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ محب اہل بیت تھے اور اس سلسلہ میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ فن فقہ کے شناور تھے۔

ایک نکتہ:
امام محترم کی ذات علم کا ایک پہاڑ ، امام وقت اور فقاہت کے منصب جلیلہ کے مقام پر فائز تھی۔ تقریباً تمام ائمہ فقہاء نے امام عالی مقام کو فقہاء کا سرخیل تسلیم کیا ہے۔ مگر ایک سوال کا جواب ہمیں اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتا جب تک ہم امام محترمؒ کے شاگردوں کی فقہی کاوشوں اور اصولوں کو نہ پڑھ لیں۔ سوال یہ ہے۔ کہ امام محترم ؒکی نہ کوئی کتاب ہے اور نہ ہی ان کے تفسیر وحدیث اور فقہ واصول فقہ میں کوئی علمی اقوال الا ماشاء اللہ، حتی کہ شاہ ولی اللہ محدثؒ کے بقول کہ:

آں یک شخصے است کہ رؤس محدثین مثل احمد، وبخاری، ومسلم، وترمذی ، وابوداؤد، ونسائی، وابن ماجہ، ودارمی یک حدیث ازوے در کتابہائے خود روایت نکردہ اند۔ ورسم روایت حدیث از وے بطریق ثقات جاری نشد۔ المصفی: ۶۔ امام محترم ہی واحد شخصیت ہیں جن سے بڑے بڑے ائمہ حدیث جیسے امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ابن ماجہ اور امام دارمی رحمہم اللہ میں سے کسی نے اپنی کتاب میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی اور نہ ہی روایت حدیث کے میدان میں ان کوئی ثقہ سند چل سکی۔
پھر امام محترمؒ کا یہ فقہی مقام اس قدر عظیم کیوں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ امام محترمؒ کے خاص شاگردوں نے ان کی فقہی فروعات کی مہارت کا بھرپور اندازہ لگایا انہیں ازبر کیا۔ انہی سے اصول وضع کیے اور فروعات نکالیں جسے عمل تخریج کہا جاتا ہے اس لئے ان کی نسبت امام محترم ؒکی طرف کی اور مجموعی نقطہ نظرکو انہوں نے فقہ حنفیہ کا اورخود کو احناف کا نام دیا جو ان کا یہ حسن ظن تھا کہ اگر امام محترمؒ آج زندہ ہوتے تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تلامذہ:
آپ کے شاگردوںمیں قابل ترین شاگرد امام ابویوسف ؒ تھے جو بعد میںہارون الرشید کے زمانہ میں چیف جسٹس بھی رہے انہوںنے اپنے استاد محترم کے نہ صرف افکار وخیالات وعلمی کمالات کو ہر اہم فیصلہ ومقام پر ترجیح دی بلکہ انہیں قلمبند کرکے بام عروج تک پہنچایا۔ اور یوں ایک قول زبان زد عام ہوا : لَولاَ أَبُویُوسُفَ لَمَا ذُکِرَ أَبُوحَنِیفَۃَ۔ اگر امام ابویوسفؒ نہ ہوتے تو امام ابوحنیفہؒ کا کوئی ذکر ہی نہ کرتا۔(وفیات الأعیان) ایک اورقابل قدر شاگرد امام محمدؒ بن الحسن الشیبانی تھے۔ جنہوں نے گو امام محترم کے ساتھ بہت تھوڑا وقت گذارا کیونکہ جب امام محترمؒ فوت ہوئے تو ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ بہت کم عمری میں انہیںصاحب ابی حنیفہؒ کے لقب سے ملقب کرنا متاخر فقہاء احناف کا اعزاز ہے۔مگر اپنے شیخ محترم کے فقہی واجتہادی فروعات سے متفق اور ان کی وضاحت ودفاع کے لئے ضخیم کتب کے مصنف تھے۔امام ابوحنیفہؒ کے حالات زندگی پر ایک جامع وبے لاگ تبصرہ امام خطیب بغدادیؒ (م:۴۶۲ھ) نے اپنی مشہور کتاب تاریخ بغداد میں غالبا ًسب سے پہلے لکھا ہے جو ایک قدیم ترین مصدر ہے ۔ باقی سب انہیں کے خوشہ چیں ہیں یا ناقد و مداح۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں:

ان دونوں تلامذہ نے امام مرحوم کے مسائل کو اس توضیح وتفصیل سے لکھا اور ہر مسئلہ پر استدلال وبرہان کے ایسے حاشیے اضافہ کئے کہ انہی کا رواج عام ہو گیا اور اصل مأخذسے لوگ بے پروا ہو گئے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ حنفی کے اصول:​
یہ وہ اصول ہیں جن کی نسبت امام محترمؒ کی طرف کی جاتی ہے۔ گو ان کی سند میں کلام ہے :

أَخُذُ بِکِتَابِ اللہِ إِذَا وَجَدْتُّہُ، فَمَا لَمْ أَجِدْہُ فِیہِ أَخَذْتُ بِسُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَالآثَارِ الصِّحَاحِ عَنْہُ الَّتِی فَشَتْ فِی أَیْدِی الثِّقَاتِ، فَإِذَا لَمْ أَجِدْ فِی کِتَابِ اللہِ وَلَا سُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَخَذْتُ بِقَولِ أَصْحَابِہِ مَنْ شِئْتُ، وَأَدَعُ قَولَ مَنْ شِئْتُ، ثُمَّ لاَ أَخْرُجُ عَنْ قَولِہِمْ إِلَی قَولِ غَیرِہِمْ، فَإِذَا انْتَہَی الأَمْرُ إِلٰی ِإبْرَاہِیمَ وَالشَّعْبِیِّ وَابْنِ الْمُسَیَّبِ وَالْحَسَنِ وَعَطَائٍ فَلِیْ أَنْ أَجْتَہِدَ کَمَا اجْتَہَدُوا
۔میں سب سے پہلے کتاب اللہ کولیتا ہوں اگر اس میں مسئلہ نہ ملے تو پھر سنت رسول ﷺ سے لیتا ہوں۔ اور ان آثار صحیحہ پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں کی روایت سے شائع وذائع ہیں۔ اگر سنت نبوی سے بھی نہ ملے تو صحابہ کرام کے اقوال میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیتا ہوں۔ لیکن جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن المسیب ،حسن، عطاء تک پہنچتا ہے تو میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں بھی اجتہاد کروں جس طرح انہوں نے کیا ۔ الانتقاء لابن عبد البر: ۱۴۲

ابن عبد البرؒ کی اس روایت کی سند میں گو کلام ہے مگر اس سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ امام محترمؒ کے اصول ،معاصر اصولوں سے مختلف نہ تھے ہاں فہم اپنا اپنا تھا۔ اسی طرح دیگر بہت سے اصول بھی ہیں جنہیں امام بزدویؒ نے اور محب اللہؒ بن عبد الشکور (م۱۱۱۹ھ) نے مسلم الثبوت میں بیان کئے ہیں۔ جو بالاختصارذیل میں دئیے جاتے ہیں:

کتاب اللہ :
سب سے اولین حیثیت قرآن مجید کی ہے۔فقہی استنباط اگر قرآن پاک سے ہو سکتا ہے تو سرآنکھوں پہ ورنہ سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔

سنت رسول اللہ :
سنت رسولؐ دوسرے نمبر پر ہے جس میں خصوصاً خبر واحد کی قبولیت کے لئے چند ذیلی شرائط ہیں:

… خبر واحد کو قبول کرنے سے قبل عمومات قرآن اور ظواہر پر پیش کیا جائے گا اگر یہ خبر قرآن کے کسی عام یا ظاہر کی مخالفت کر تی ہو تو قرآن کو لیا جائے گا اور خبر(حدیث) کو رد کردیا جائے گا کیونکہ قرآن قطعی الثبوت ہے اور اس کے ظواہر وعمومات بھی قطعی الدلالہ ہیں مگر یہ آحاد قرآن پر اضافہ ہیںاور ناسخ بھی بنتی ہیں اس لئے قرآن کا نسخ، اخبار آحاد سے نہیں ہو سکتا۔

… خبر واحد اس صورت میں بھی قبول کی جاسکتی ہے جب وہ اپنی اصل کے اعتبار سے خبر واحد ہی ہو لیکن بتدریج اس قدر پھیل جائے کہ اسے اتنے لوگوں نے نقل کیا ہو جن کے جھوٹ بولنے پر اتفاق کا گمان نہ کیا جاسکتا ہو ۔ یہ لوگ صحابہ وتابعین کے بعد دوسری صدی کے لوگ ہیں۔اگر ائمہ کرام ان کی روایت کو ذکر کرتے ہیں تو ان کا مرتبہ بلند ہو جاتا ہے اور سنت مشہورہ قرار پاتی ہے۔اس طرح کبھی کبھی مشہور کا اطلاق ان روایات پر بھی ہوتا ہے جو مطلق طور پر لوگوں کی زبانوں پر مشہور ہو گئی ہو۔ اس صورت میں وہ تواتر کی دو اقسام میں سے ایک قسم ہوگی جس سے علم طمانینت بھی حاصل ہوتا ہے اور بعض کے نزدیک علم یقین بھی۔

… حدیث آحادکو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب اس کا راوی غیر فقیہ ہو اور وہ قیاس کے خلاف ہو۔

… وہ خبر واحد ایسی نہ ہو جس کا تعلق بلوائے عامہ سے ہو یعنی وہ کسی ایسے مشہور واقعہ کے بارے میں ہو جوسب کے سامنے ہوا ہو پھر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے روایت نہ کیا ہو۔

اجماع :
احناف نے اسے تیسرے درجے میں بیان کیا ہے۔ لیکن خیر واحد کے صحیح ہونے کے باوجود کبھی اجماع کی حیثیت کے بڑھنے کے وہ قائل ہیں۔

قیاس ۔
ان چار مآخذ کے علاوہ کچھ ذیلی مآخذ بھی فقہ حنفی میں شامل ہیں جن میں استحسان اور حیل بھی ہیں۔ ان حیلوں کو المَخَارِجُ مِنَ الْمَضَایِقِ کہا جاتا ہے۔ یعنی تنگی کی صورت میں اس مسئلے سے نکلنے کی کون کون سی راہیں اور حیلے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ حنفی کی مشہور کتب :


اقسام و تعارف: فقہ حنفی کی وہ کتب جو اساسی حیثیت رکھتی ہیں ان کی دو اقسام ہیں۔
۱۔ متون ۲۔ شروح​

متون:
متأخر فقہاء کرام کی یہ اصطلاح ہے۔ یہ متون بہت مختصر ہیںجن میں صرف امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے اقوال درج ہیں۔ انہی اقوال یا کتب کو ظاہر الروایہ کہتے ہیں۔ ان میں امام ابویوسفؒ کی گراں قدرکتاب الخراج ہے جس میں محصولات اور حکومت کے امور مالیات پر بحث کی گئی ہے۔ اور امام محمدؒ کی کتب المبسوط، الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، السیر الکبیر، السیر الصغیر اور الزیادات ہیں۔ ان دونوں ائمہ کی یہ سب کتب متون کہلاتی ہیں۔ کتب ظاہر الروایہ کو بہت عرصہ بعد ایک حنفی عالم اورفقیہ حاکم الشہیدؒ نے اپنی معروف کتاب الکافی میں یکجا کیا جو اہل فن کے لئے ایک قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیگر متقدمین کے متون جومعتبر خیال کئے جاتے ہیںان میں علامہ طحاویؒ، امام کرخی ؒوحاکم شہید محمد بن محمد المروزیؒ(م:۳۳۴ھ) کی مختصرات ہیں۔ اسی طرح متاخرین سے امام قدوریؒ کی المختصر فقہ حنفی کا مقبول ترین متن ہے۔ پھرالبدایۃ، النقایۃ، المختار ہے۔ ہدایۃ، المختصر اور بدایۃ المنتہی کی شرح ہے۔ تاج الشریعہ محمود بن احمدؒ(م:۷۰۰ھ) کی الوقایۃکا متن ہدایۃسے منتخب شدہ ہے۔ جس کی شرح ان کے پوتے نے لکھی جو مشہور درسی کتاب ہے۔ اسی طرح کنز الدقائق کا متن بھی بہت زیادہ مقبول ومشہور ہے۔ ان متون نے چونکہ ظاہر الروایہ کتب اور معتمد اقوال کو نقل کیا ہے اس لئے یہ معتبر متون شمار کئے جاتے ہیں۔

شروح: دوسری کتب، کتبِ شروح کہلاتی ہیں جن میں کتب متون کی شرح لکھی گئی ہے۔ شرح کی کتب متون سے بعد کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس لئے کہ ان میں متاخر مشایخ کے اپنے اقوال واختیارات ہیں جن کے موافق انہوں نے فتوے دیے۔

مسائل النوادر: امام محمدؒ کی دوسری کتب کا نام ہے جنہیں غیر ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے۔ ان میں أمالی محمد،کیسانیات، جرجانیات، کتاب المخارج فی الحیل اور زیادۃ الزیادۃ شامل ہیں۔

حاشیہ: اسی طرح علامۃ الشام ابن عابدینؒ(۱۲۵۲ھ) کا حاشیہ ہے۔ جس کا نام رد المختار علی الدر المختارہے جو حنفی مذہب کی تمام تر تحقیقات اور ترجیحات کا خلاصہ ہے۔فتاوی میں فتاوی عالم گیری کو ہند وپاک میں جو مقام مل سکا دنیا کے دوسرے خطوں میں اسے وہ مقبولیت اور علمی حیثیت نہ مل سکی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نمایاں خدوخال:


٭۔ علماء احناف کی آراء:

پہلی رائے: امام محترم ؒسے منسوب یہ فقہ اگرچہ عام طور پر فقہ حنفی کہلاتی ہے لیکن درحقیقت وہ چار شخصوں یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام زفرؒبن ہذیل(۱۱۰۔۱۵۸)، قاضی ابویوسفؒ اورامام محمدؒ بن حسن الشیبانی(۱۳۲۔۱۸۹) کی آراء کا مجموعہ ہیں۔ قاضی ابویوسفؒ، وامام محمدؒ نے بیشتر مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ فقہائے احناف کی اکثر مرویات میں ہے کہ ان صاحبوں کو اعتراف تھا کہ ہم نے جو اقوال امام ابوحنیفہ ؒکے خلاف کہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ ہی کے اقوال ہیں کیوں کہ بعض مسئلوں میں امام ابوحنیفہؒ نے متعدد اور مختلف آراء ظاہر کی تھیں۔

دوسری رائے: یہ ان فقہاء کا حسن ظن ہے، قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ اجتہاد مطلق کا درجہ رکھتے تھے اور انہیں اختلاف کا پورا حق حاصل تھا۔ اسلام ترقی پذیر اس وقت تک رہا جب تک لوگ باوجود حسن عقیدت کے اپنے بزرگوں، اور اساتذہ کی رائے سے اختلاف کرتے تھے اور خیالات کی ترقی محدود نہ تھی۔ یہ لوگ ہر سابقہ حکم اور فیصلہ کو بعد کے فیصلہ اور حکم کی روشنی میں پڑھتے، سمجھتے اور اس پرعمل کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک قانون کی تعبیر وتشریح کا یہ وہ اصول ہے جس کو نہ صرف اسلامی قانون بلکہ آج بھی دنیا کے سارے ہی قوانین تسلیم کرتے ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں امام ابویوسف ؒ سب سے زیادہ متبع حدیث ہیں۔

تیسری رائے: فقہ حنفی کے احکام ومسائل ادلہ شرعیہ سے ان اصول اور قواعد سے ماخوذ و مستنبط ہیں جو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں نے وضع کئے۔ فقہ حنفی کا ایک عام قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ مسائل کے جواز وعدم جواز یا اس کے صحیح یا غلط ہونے میں ائمہ احناف کے مابین آراء کا اختلاف نظر آتا ہے یعنی اگر امام ابوحنیفہؒ کسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کے شاگرد اسے ناجائز گردانتے ہیں۔ ایسی صورت میں متأخر ائمہ احناف نے ان اختلافی اقوال میں ترجیح کے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں جو فقہ حنفی کی حفاظت کے لئے ان کی ایک اجتہادی کوشش ہے اور حنفی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے بہت اہم بھی۔

چوتھی رائے: یہ بات علماء احناف کے ہاں طے شدہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو فقہ کے اصول وضع کیے تھے تمام حنفی فقہاء ان کے پابند تھے اور آج بھی ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں کوفہ کے اصحاب کی روایات، ان کے فتاوی اور ان کے قیاسی مسائل ہی قابل اعتماد ہیں۔ انہی اصولوںکو سامنے رکھ کر فقہی مسائل کی وقت کے ساتھ ساتھ تدوین کی گئی اور تخریج بھی۔ اس لئے اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں کس کی بات قبول کی جائے گی اور کس کی بات غیر مقبول ٹھہرے گی؟ اس سلسلے میں وقتا فوقتا بتدریج حسب ذیل اصولوں اور ضابطوں کو متعارف کرایا گیا جو مختلف اصولی و فقہی کتب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ضابطے:


… اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے دونوں شاگردوں یعنی امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کسی مسئلہ میں متفق الرائے ہیں تو بعد کے مفتی حضرات اسی اتفاقی قو ل کے مطابق ہی فتویٰ دیں گے۔

… اور اگر ان کے مابین اختلاف ہے تو بعض ائمہ احناف کے نزدیک سب سے اولین حیثیت امام ابوحنیفہؒ کے قول کی ہوگی ورنہ امام ابویوسفؒ کی۔ ان کے بعد امام محمدؒ، پھر امام زفرؒ اور پھر امام حسن ؒبن زیاد کے قول پر فتوی ہوگا۔

… بعض فقہائے احناف کے ہاں اگر امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ دونوں کی رائے یا مسئلہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے یا مسئلہ کے خلاف ہے تو مفتی کو اختیار ہے کہ وہ امام صاحب یا دونوں شاگردوں میں سے جس کو چاہیں ان کے قول پر فتوی دے دیں۔ اگر مفتی مجتہد نہیں تو مناسب یہی ہے کہ اولاً امام صاحب کو رکھے پھر امام ابویوسف ؒ کو ، پھر امام محمدؒ کو، پھر امام زفرؒ کو اور پھر امام حسن بن زیادؒ کو۔ (فتاویٰ سراجیہ)

… رد المختار جو فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب ہے اس کی ج۱ ص۵۳، اور ج۲ ص۴۰۵ میں مرقوم ہے:

مسائل میں اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف ہو تو پھرفقہاء احناف کے نزدیک عبادات میں ہمیشہ فتوی امام ابوحنیفہؒ کے قول پر ہوگا اور مسائل ذوی الأرحام میں امام محمدؒ کے قول پر۔ جب کہ وقف، قضائ، مواریث اور شہادات کے مسائل میں امام ابویوسفؒ کے قول پر اور سترہ مسئلوں میں امام زفرؒ کے قول پر فتوے ہوگا۔ مفتی کے لئے درجہ بالا اصول ہی پیش نظر رہیں گے۔

مگر امام صباغی ؒحنفی اس کے خلاف ہیں اسی کتاب کی ج۱ ص۱۶۱ میں ہے :

وہ نماز میں صرف امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے اور دیگرمسائل خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات سب میں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔

٭۔ تلفیق: تلفیق کا اہم مسئلہ کتب فقہ میں زیربحث آیا ہے۔ طلبہ دین اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔جس سے مراد ہے کہ کیاایک مذہب کا عام وخاص شخص دوسرے مذہب کے مسائل اختیار کرسکتا ہے یا نہیں؟اس عمل کو فقہاء تلفیق کہتے ہیں۔ احناف کے ہاںاس کی دو قسمیں ہیں۔ تلفیق مذموم اور تلفیق محمود۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
 تلفیق مذموم:دوسرے مذہب کی باتیں اختیار کرنے میں اگر نیت صرف سہولتوں کی تلاش ہو۔ یعنی ہر مذہب سے اپنی خواہش کے مطابق مسائل وجوازلے لیا جائے تو ایسا کرنا یقینا قابل مذمت ہے۔مثلاً : غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا یا رمضان مبارک میں فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا۔

‚تلفیق محمود ومطلوب: جب نیت ومقصدمحض حق کی تلاش اور نصوص شریعت کی بالا دستی قائم کرنا ہو اور عوام کو آسانی فراہم کی جائے تو ایسی تلفیق عین مطلوب ہے مثلاُ: کوئی حنفی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے۔ ایسی طلاق فقہ حنفی میں تین طلاقیں ہی شمار ہوتی ہیںجو بیوی کو شوہر پر حرام کردیتی ہیں۔شوہر اگر اپنی غلطی پر نادم ہو اور بیوی کو دوبارہ آباد کرنا چاہتا ہو تو فقہ حنفی ہی اسے یہ سجھاتی ہے کہ اپنی بیوی کا حلالہ کرائے۔ تاکہ وہ اس کے لئے حلال ہو سکے۔دوسری طرف زوجین اسے ایک غیرت کا مسئلہ بناتے اور ناپسند کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں فقہ حنفی کو چھوڑ کر اس حدیث پر عمل کرلیا جائے جو رسول اکرم ﷺ نے خود ایسے جوڑے کو آباد کرنے کا فرمایا تھا۔ کہ ایسی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوگی اور رجعی ہوگی شوہر اپنے بیوی سے عدت کے اندر اگر رجوع کرلیتا ہے تو بغیر نکاح کے اس کا یہ حق ہے اور بعد از عدت رجوع کی صورت میں دوبارہ نکاح ہوگا۔ مگر حلالہ کرنے اور کروانے والوں پر آپ ﷺ نے لعنت فرمائی۔ ایسی صورت میں اگر کوئی حق کو پانے کے لئے اپنے مسلک سے نکل کر کسی اور مذہب کے آسان حل کی طرف جانا چاہتا ہو تو امام ابوحنیفہؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔

حَکَی الْحَنَّاطِیُّ وَغَیرُہُ عَنْ أَبِی إسْحَاقَ فِیْمَا إِذَا اخْتَارَ مِنْ کُلِّ مَذْہَبٍ مَا ہُوَ أَہْوَنُ عَلَیہِ، أَنَّہُ یُفَسَّقُ بِہِ۔ وَعَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ: لاَ یُفَسَّقُ بِہِ۔امام حناطی اور دیگر علماء نے ابو اسحاق سے یہ بیان کیا ہے کہ ہر مذہب سے اگر آسانی کے لئے کچھ اختیار کر لے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں : وہ ایسا کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا۔

صرف رخصتیں تلاش کرنا بھی امام صاحبؒ کے نزدیک جب فسق نہیں تونصوص شریعت کی بالا دستی اور عوام کی سہولت کے نقطہ نظر سے مختلف مذاہب کی باتیں اختیار کرنا کیسے غلط ہوگا۔ ہر دور میں ایسا ہوا ہے۔ برصغیر میں حنفی علماء نے زوجہ مفقود الخبرکے بارے میں حنفی فقہ کی بجائے فقہ مالکی کا مسلک اپنا یا ہے۔اور اسے بجائے نوے سال کا انتظار کرنے کے چار سال کے انتظار کا کہا ہے ۔پھر چار ماہ دس دن عدت گذار کر اسے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے مسائل کے لئے عصر حاضر میں فقہی جمود کی نہیں بلکہ فقہی توسع کی ضرورت ہے۔ امام طحاویؒ قاضی کے آداب میں امام محمدؒ کا ارشاد گرامی ذکر فرماتے ہیں:

وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا قَضَی بِہِ بِتَقْلِیدِ الْفَقِیہِ بِعَینِہِ، ثُمَّ تَبَینَ لَہُ أَنَّ غَیرَہُ مِنْ أَقْوَالِ الْفُقَہَائِ أَوْلٰی مِمَّا مَضَی بِہِ ، نَقَضَہِ، وَقَضَی بِمَا یَرَاہُ فِیہِ، وِبِہِ نـَأخُذُ۔ وَلاَ یَنْبَغِیْ لَہُ أَنْ یَنْقُضَ قَضَائَ مَنْ تَقَدَّمَہُ مِنَ الْقُضَاۃِ إِذَا کَانَ مِمَّا یَخْتَلِفُ فِیہِ الْفُقَہَائُ۔ اگر قاضی نے کسی معین فقیہ کی تقلید میں فیصلہ کیا ۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے فقیہ کا قول اس سے بہتر ہے تو اسے چاہئے کہ پہلا فیصلہ توڑ کر صحیح فیصلہ کرے ۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں : ہم بھی اس کے قائل ہیں۔ لیکن قاضی متقدمین فقہاء کے اس فیصلہ کو توڑ نہیں سکتا جس میں فقہاء کا اختلاف ہو۔ (مختصر الطحاوی ص۳۲۷)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مگراس گنجائش کو سختی کی نذر فقہاء کرام نے نہیں فرمایا۔ بقول صاحب شرح مسلم الثبوت :

شَدَّدَ بَعْضُ الْمُتَکَلِّمِینَ، قَالُوا: ’’اَلْحَنَفِیُّ إِذَا تَرَکَ مَذْہَبَ إِمَامِہِ یُعَزَّرُ‘‘، وَالْحَقُّ أنَّہُ تَعَصُّبٌ،لاَ دَلِیلَ عَلَیہِ، وَإنمَا ہُوَ تَشْرِیعٌ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہِ۔ قَالَ فِی التَّیْسِیْرِ شَرْحُ التَّحْرِیرِ: ’’ہُوَالأَصَحُّ، إِذْ لاَ وَاجِبَ إِلاَّ مَا أَوْجَبَہُ اﷲُ، وَبِالْجُمْلَۃِ لَا یَجِبُ تَقْلِیدُ مَذْہَبٍ مُعَیَّنٍ، بَلْ جَازَ الاِنْتِقَالُ۔ لَکِنْ لَابُدَّ أَنْ لاَ یَکُونَ ذَلِکَ قَصْدَ التَّلَہِّی وَتَوہِینِ کِبارِ الْمُجْتَہِدِینَ۔‘‘کچھ متکلمین اہل علم نے شدت سے کام لیا اور کہہ دیا : ’’حنفی اگر اپنے امام کے مذہب کو ترک کر دے تواسے تعزیر (کوئی سزا) دی جائے۔‘‘ سچ پوچھیں تو یہ متعصبانہ بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اپنی طرف سے شریعت سازی ہے۔ ’’التیسیر‘‘ میں ہے : ’’بالکل یہ تعصب ہے کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ نے واجب قرار دیا، (ہم کون ہوتے ہیں تقلید کو واجب کرنے والے، اور اس کے ترک پر تعزیر دینے والے) بہرحال کسی مذہب معین کی تقلید واجب نہیں۔ بلکہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف مسئلہ کی تلاش میں جانا بھی جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کرنامحض خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو اور نہ ہی مجتہدین کرام کی توہین مقصودہو۔

ان اصولوں کو دیکھ کر ایک معتدل قاری یہ ضرور باور کرتا ہے کہ متقدم علماء احناف حریت فکر کے قائل تھے۔ان کے نزدیک تلفیق کرنا نعوذ باللہ یہودیوں یا عیسائیوں سے کوئی بات لینا نہ تھا اور نہ ہی اس کی اجازت لینا تھا۔بلکہ دین کے یہ سب ممتاز علماء ہی تھے جن کے علم سے مستفید ہونا مقصود تھا۔ ممتاز ترین شاگرد بھی باوجود مجتہد فی المذہب ہونے کے متعدد مسائل میں شیخ سے مختلف رائے رکھتے تھے جو ان کی باکمال وسعت کا مظہر ہے۔

تلفیق کے مسئلے کو اس مثال سے سمجھئے کہ کسی مرض کے علاج کے لئے کوئی فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ وہ مریض کو آپریشن کا مشورہ دیتا ہے یا تجویز دیتا ہے۔ مریض آپریشن سے ڈر جاتا ہے اور Second Opinionکے لئے کسی دوسرے Specialist کے پاس جاتا ہے ۔ یہ دوسرا معالج مرض کی نوعیت کو سمجھنے کے بعد یہ تجویز کرتا ہے کہ آپریشن کی ضرورت نہیں ہے یہ دوا لے لیں۔ اس صورت میں مریض دوسرے معالج کی رائے ہی کو ترجیح دے گا اور دینی چاہئے۔یہ خواہش پرستی نہیں اور نہ ہی نیت کی خرابی ہے۔
 
Top