محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
صحابہ کا سنہری اصول:
یہ سب معلومات فقہی کتب میں بے شمار ایسی مثالوں کے ساتھ موجود ہیں۔ بعض علماء نے ان کی کچھ نہ کچھ تاویلیں کی ہیں مگر اس سے انکار نہیں کہ ان مقدس ہستیوں کو حدیث رسول نہیں پہنچ سکی۔جس کی وجہ سے ان میں یہ اختلاف رائے ہوا ۔ علم اور اس کا آزادانہ اظہار ان کے جذبہ اطاعت رسول کو کم نہ کر سکا اور نہ ہی صحیح بات کی قبولیت میں کوئی ہچکچاہٹ۔ ان کا ایک اصول یہ تھا کہ مسئلے کی وضاحت جب حدیث رسول سے ہوجائے توپھر بلاتامل اسے قبول کرلینا چاہئے۔ وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے مزاج اور گھٹی میں تسلیم واطاعت کاجذبہ ہمہ وقت زندہ ہوتا تھا۔آج ہمارے جو حالات ہیں ان کا تقاضا یہی ہے کہ یہ تفاصیل لکھی جائیں ۔
ائمہ فقہاء کا علم:
غر ض یہ کہ سیدنا ابوبکرؓ و دیگر صحابہء کرامؓ جو اکثرو بیشتر آپ ﷺکے ساتھ رہے، ان کے علم کا جب یہ حال تھاکہ وہ رسول اکرمﷺ کے ساتھ رہتے ہوئے اور علم کی محبت رکھتے ہوئے آپ کی کم وبیش احادیث اور سنتوں کو نہیں جانتے تھے یا لا علم رہے تو بعد والے علمأو ائمہ کا کیا حال ہوگا؟ اس لئے جس طرح ہم سیدناابوبکرؓو دیگر صحابہء کرامؓ کے بارے میں یہ مبالغہ آرائی نہیں کرسکتے کہ وہ جناب رسالت مآب رسول اکرمﷺ کی تمام احادیث وغیرہ کا علم رکھتے تھے اسی طرح امت کے کسی امام، عالم، مجتہد کے بارے میں بھی یہ مبالغہ آرائی انتہائی نامناسب ہو گی۔ کہ فلاں امام وغیرہ کے پاس شریعت کا سارا علم تھا۔یا یہ سمجھنا کہ بعد کے ائمہ فقہاء صحابہ سے افضل تھے مثلاً: اَبُو حَنِیْفَۃَ أَفْضَلُ مِنْ عَلِیٍّ یا یُقَلِّدُ الشَّافِعِیَّ وَلاَ یُقَلِّدُ أَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ۔ (الفتاوی الکبری۶/۲۰۰) کیونکہ بہت سے فقہی مسائل ایسے ہیں جن کی دلیل ان ائمہ حضرات کو نہ مل سکی، یا وہ بے خبر رہے یا لا علم تھے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض اہم دینی معاملات میں ان ائمہ کبار سے ایک مسئلہ بھی منقول نہیں۔
٭٭٭٭٭