• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ حنفی کی چند اصطلاحات:


مفتٰی بہا: ہر دور میں پیش آمدہ مسائل پر تخریج ، فقہ حنفی کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی۔ فروع اور چند اصولوں کی بنیاد پر کی گئی یہ کوششیں اصحاب تصحیح اور اصحاب تخریج کی ذمہ داری ٹھہری۔ چنانچہ جو نئے فروعی یا مفروضہ مسائل ان اصحاب کی نظر سے گذرے وہ مفتیٰ بہا کہلائے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اب علماء احناف کا فتوی ان مسائل پر ایسا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ تخریج جیسی وسعت ہوتے ہوئے پھر تقلید پر اصرار بے معنی سی بات لگتی ہے۔ مفتیٰ بہا مسائل کو ایک طالب علم وعام قاری کس طرح جانے؟ اس کے لئے الگ فقہی کتب کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ جہالت میں نامعلوم کتنے لوگ کسی بھی فقہی کتاب کو پڑھ کر اس سے مسائل کی تفہیم شروع کردیتے ہیں جو خالصتاً غیر علمی کوشش ہوگی۔ اسی طرح آج کے مسائل کے لئے اصحاب تصحیح وترجیح کون ہیں جن کے فتاوی وغیرہ کو مفتیٰ بہا کہا جا سکے اس کی وضاحت کی بھی ضرورت ہے۔

ظاہر الروایہ: عام طور پر اس سے ائمہ احناف امام ابوحنیفہؒ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے اقوال مراد ہیں۔

ا لإ مام: سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں۔

الشیخان: مراد امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒہیں۔

الطرفان: اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ ہیں۔

صاحبان: سے مراد امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ ہیں۔

أصحابنا: مشہور یہی ہے کہ اس سے مراد تینوں ائمہ کرام ہیں۔ انہیں ائمہ ثلاثہ بھی کہہ دیتے ہیں۔

مشایخ: وہ فقہاء جنہوں نے امام محترمؒ کا زمانہ نہ پایا۔

سلف: اس سے مرادصدر اول کے فقہاء جو امام محمدؒ بن الحسن تک ہیں ۔ خلف سے امام محمدؒ تا شمس الائمہ الحلوانی ؒتک ہیں اور متاخرون سے مراد ۔ الحلوانی تا حافظ الدین بخاریؒ تک ہیں۔ (حاشیہ ا بن عابدین ۷؍۱۶۲)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہاء احناف اور ائمہ کے مابین اختلاف کی صورتیں:


علامہ ابوزید الدبوسی(م:۴۳۰ھ) نے اپنی کتاب تَأْسِیْسُ النَّظَرِ میں ائمہ احناف اور دیگرفقہاء کے مابین اصولی اختلافات کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:

۱۔ امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین میں اختلاف

۲۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ میں اختلاف

۳۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام محمدؒاور امام ابویوسفؒ میں اختلاف

۴۔ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے مابین اختلاف

۵۔ امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، حسن بن زیادؒ اور امام زفرؒ میں اختلاف

۶۔ احناف اور امام مالکؒ میں اختلاف

۷۔ احناف اور امام ابن ابی لیلیؒ میں اختلاف

۸۔ احناف اور امام شافعیؒ میں اختلاف

علامہ دبوسیؒ نے ان اصولوں کا بھی ذکر کر دیا ہے جو ان ائمہ کے مابین اختلاف کا سبب بنے۔ بعد کے فقہاء اور علماء کے مابین اصولی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ سطحی سا محسوس ہوتا ہے۔مفقو د الخبرکا مسئلہ ہو یا وضوء کا، یا فقہی کتب میں وارد دیگرمسائل ہوں، یہ سب کچھ اختلاف برائے اختلاف نہ تھا بلکہ برائے وسعت تھا ۔کتاب الحیلۃ الناجزۃ میںمؤلف مرحوم نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا ہے۔اللہ تعالی انہیں اس کی بھرپور جزا دے۔آمین۔ مگرمتاخر تلامذہ نے عوام کے فعل وعمل کی ذمہ داری اٹھا کر بعض مسائل متعارف کرائے اور ان کی طرف سے ترجمانی بھی کی اور انہیں اختلافی مسائل بھی کہا۔جب کہ ان مسائل میںائمہ فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مثلاً: زبان سے نیت کے مسئلے میں بعض متاخر علماء کا یہ کہنا کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔ حالاں کہ نیت کا تعلق زبان سے نہیں بلکہ دل سے ہے ۔ اور ائمہ اربعہؒ اس پر متفق ہیں ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وفات:

خلافت اموی کے بعد علویوں اور عباسیوں کے مابین جو سیاسی وانتقامی آگ بھڑکی تو امام محترمؒ نے اس موقع پرمحمد نفس ذکیہ کے بھائی ابراہیم کا مالی، سیاسی اور اخلاقی ساتھ دیا۔ ان کی ہمت بندھائی اس لئے کہ امام محترم عباسیوں کی ابتدائی بے اعتدالیوں کو دیکھ کر مسلمانوں کے مستقبل سے خائف تھے۔ عباسی خلیفہ منصور نے بغداد کو اپنا مرکز بناکران اکابرین پر ہاتھ ڈالا جن کا مسلم دنیا پر ایک اثر تھا اور سیاسی طور پر وہ مخالف بھی تھے۔ امام محترم کے بارے میں اسے علم تھا کہ انہوں نے ابراہیم کا ساتھ دیا ہے۔انہیں بلا بھیجا ۔ گفتگو کے دوران اس نے عہدہ قضاء تجویز کیا جسے امام محترم نے رد کردیا۔ اور کہا کہ میں اس کی اہلیت نہیں رکھتا وجہ یہ بتائی کہ مجھے اپنی طبیعت پر اطمینان نہیں، نہ ہی میں عربی النسل ہوں اس لئے اہل عرب کو میرا قاضی بننا ناگوار ہوگا۔ درباریوںکی مجھے تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ سب کچھ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ منصور نے غصہ میں آکرکہا : تم جھوٹے ہو۔ امام محترم ؒنے فرمایا: آپ نے خود ہی میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ پھر جھوٹا آدمی کیسے قاضی بن سکتا ہے۔ مگر پھر بھی منصور نہ مانا اور قسم کھا کر کہا کہ تمہیں یہ عہدہ قبول کرنا ہوگا۔ امام محترم نے بھی قسم اٹھالی کہ ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ اس جرـات وبے باکی پر اہل دربار حیران رہ گئے۔ ربیع جو حاجب منصور تھا اس نے غصہ سے کہا: ابوحنیفہ ! تم امیر المومنین کے مقابلہ میں قسم کھاتے ہو؟ امام محترمؒ نے جواب میں فرمایا: جی ہاں! اس لئے کہ امیر المومنین کو قسم کا کفارہ ادا کرنا میری نسبت زیادہ آسان ہے۔

خلیفہ منصور نے امام محترم ؒکو جیل بھجوادیا۔ یہ سن۱۴۶ھ تھا مگر خلیفہ منصور، امام محترم کی وجیہ علمی شخصیت سے بہت متأثر تھا اور خوف زدہ بھی۔ بغداد ویسے بھی علوم وفنون کا مرکز بن چکا تھا۔ علماء کی آمد ورفت اور اس کے اہل دین پر اثرات ایک بہت بڑی قوت ثابتہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے آخری تدبیر پھر یہی کی کہ امام محترم کو بے خبری میں زہر دلوادیا۔ امام محترمؒ کو جب علم ہوا تو بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجالائے اور اسی عالم میں جان ،فرشتہ اجل کے حوالے کی۔ اور یوں منصور کی قید کے بعد قید حیات سے بھی چھوٹ گئے۔
امام محترمؒ کی وفات کی خبر شہر میں پھیلی تو پورا شہر غم واندوہ میں ڈوب گیا۔ چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔ پہلی نماز جنازہ میں کم وبیش پچاس ہزار کا مجمع تھا۔ بغداد کے خیزران نامی مقبرے میںعصر کے قریب جاکر تدفین عمل میں آسکی۔ اور یوں علم فقہ کا یہ آفتاب اپنی حیات میں امت مسلمہ کو ایک نئی، منفردفقہی ، استدلالی اور اجتہادی جہت دے کر رخصت ہوگیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ایک تحقیق طلب معاملہ:​

امام ابوحنیفہ ؒ بلاشبہ اپنے وقت کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ جن کی فکرکو ان کے شاگردوں نے بڑی عرق ریزی اور محنت کے بعد منظم ومربوط کیا۔ جو ان کی پہچان بنی اور یہی ان کی امامت کی دلیل ہے۔ مگر کچھ مبالغہ آمیزباتیں امام محترمؒ کے بارے میں کہی گئیں جو آج کے تحقیقی دور میںعلمی اعتبار سے بہت کمزور حیثیت رکھتی ہیں۔ مناسب یہی تھا جیسا مقام اللہ تعالی نے امام محترم کو دیا اس کے بڑھانے میں یہ غیر علمی کوششیں نہ کی جاتیں۔ ان چند منسوب باتوں میں ایک بات تدوین فقہ اور مجلس علمی کی بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے تدوین فقہ کے لئے چالیس ارکان پر مشتمل ایک مجلس قائم کررکھی تھی جو مخصو ص مسائل کو کھنگالتی۔ اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے تو اسی وقت قلم بند کرلیا جاتا ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں ۔ کبھی کبھی دیر تک بحث قائم رہتی۔ امام ابوحنیفہؒ غور وتحمل کے ساتھ سب کے دلائل سنتے اور بالآخرایسا جچا تلا فیصلہ صادر فرماتے جو سب کو تسلیم کرنا پڑتا۔ اس کام میں کم وبیش تیس برس لگے اور یوں چودہ لاکھ فقہی مسائل مدون ہوئے۔ بعض عقیدت مندوں نے تدوین فقہ کا یہ دورانیہ چودہ برس کا بھی لکھا ہے۔بغور اس واقعہ کو دیکھا جائے تو علمی اور تاریخی اعتبارسے اس میں مبالغہ آرائی لگتی ہے۔ مثلاً:

…مجلس علمی کے چالیس ارکان کون کون تھے اہل علم ان کے نام بتانے سے قاصر ہیں اگر کوئی لکھتا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ دس نام ملتے ہیں مگر باقی کو وہ بھی نہیں مانتے۔

… یہ بھی مبالغہ ہے کہ آپؒ بحث و مباحثہ اور غوروتحمل کے بعد سب سے آخر میں ایسا جچا تلا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا۔کیونکہ ہمیں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ جناب امام ابو حنیفہؒ کے دونوں عظیم شاگرداپنے استاد محترم جناب امام ابو حنیفہؒ سے بیشتر مسائل میں اختلاف کرنے کی بھی جرأت کرتے ہیں؟ اس سلسلہ میں امام طحاویؒ عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں:

عَنْ أَبِی یَوسفَ رَحِمہُ اللہَ قَالَ: نَاظَرْتُ أَبَا حَنِیفۃَ مُدَّۃً حَتّٰی اتَّفَقَ رَأیِی وَرَأیَہُ، أَنَّ مَنْ قَالَ بِخَلْقِ الْقُرآنِ فَہُوَ کَافِرٌ۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں: میں نے کئی سال تک امام ابو حنیفہؒ سے بحث کی۔ بالآخر ان کی اور میری یہ رائے ٹھہری کہ جو خلق قرآن کا قائل ہے وہ کافر ہے۔

آخر یہ اختلاف رائے اور مناظرے حریت فکر کو ہی ظاہر کرتے ہیں جس کی گواہی فقہ حنفی کی ہر معتبر کتاب کا ہر صفحہ دیتا ہے۔کہ ان دو شاگردوں کے علاوہ تیسرے شاگرد امام زفرؒ بھی اپنے استاد محترم کے بتائے ہوئے بیشتر مسائل میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب اختلاف بداہتہً ہو رہا ہے تو پھر مجلس کی تشکیل اور مسائل پر بحث و مباحثہ ،اور جچا تلا فیصلہ، سب کیلئے تسلیم شدہ، یہ سب دعوے غیر صحیح نظر آتے ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
… اسی طرح یہ کہنا کہ تیس برس میں چھ لاکھ مسائل مدون ہوئے۔سوال یہ ہے کہ وہ مسائل کہاں ہیں؟ وہ محنت شاقہ اور عرق ریزی کو ن سی ہے جو ضبط تحریرمیں آئی بھی سہی مگر اپنا وجود کھو بیٹھی؟ چالیس ارکان میں سے کوئی بھی اس عظیم الشان کام کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ یا کم از کم امام مرحومؒ کے شاگردِ رشیدامام محمدؒ جنہوں نے حنفی فقہ کی کتب ظاہر الروایہ لکھیں۔ ان میں ہی کسی مسئلہ کا ذکر فرمادیتے۔ افسوس کہ ان چھ لاکھ یا اسی ہزار مسائل میں سے کچھ توکسی نے ذکر کیا ہوتا۔مشہور محدث اور فقیہ امام سفیان ثوریؒ کہا کرتے تھے:

لَمَّا اسْتَعْمَلَ الرُّوَاۃُ الْکِذْبَ استَعْمَلْنَا لَہُمُ التَّارِیْخَ۔جب راویوں نے جھوٹ کو شعار بنا لیا تو ہم نے تاریخ کا ہتھیار استعمال کیا۔

یہی بات امام حفصؒ بن غیاث فرماتے ہیں:

إِذَا اتَّہَمْتُمُ الشَّیْخَ فَحَاسِبُوہُ بِالسِّنیِنَ۔( الکفایۃ: ۱۹۳) جب تم کسی شیخ پر شک کرنے لگو تو اس کا احتساب پھر تاریخ وسال سے کرو۔

تاریخی اعتبار سے اگر اس فقہی مجلس کا جائزہ لیںتو پتہ یہ چلتا ہے کہ اس عظیم فقہی فورم کوامام ابوحنیفہؒنے ۱۲۱ھ میں تشکیل دیا۔کیونکہ امام محترم اس کے تیس برس بعد یعنی ۱۵۰ھ میں فوت ہوگئے تھے۔جس کے ارکان میں امام محمدؒ بھی تھے جو ۱۳۵ھ میں پیدا ہوئے۔ امام محمدؒ کی پیدائش سے چودہ سال قبل فورم کی تشکیل ہوئی۔ امام ابوحنیفہؒ کی وفات تک یہ پندرہ سال کے تھے اور اس بورڈ کے اہم رکن تھے ۔ اگر ۱۵۰ھ تک یہ بورڈ قائم رہتا ہے تو کیا پندرہ سال کا نوجوان اس اھم بورڈ کا ۔۔جو فقہی ،قانونی اور شرعی مسائل کا حل پیش کرتا رہاہو۔۔ـ رکن ہو سکتا ہے؟ ایک عقلی سوال ہے؟

قاضی ابو یوسفؒ ۱۱۳ھ میں پیدا ہوئے۔ جب بورڈ کے وہ رکن بنے تو ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ امام زفر ۱۱۰ھ کی پیدائش رکھتے ہیں۔ گیارہ برس کی عمر میں یہ بھی رکن بن گئے۔ امام یحی بن زکریا ۱۱۹ھ میں پیدا ہوئے۔ اس حساب سے ۱۲۱ھ میں دو برس کے تھے۔ حفصؒ بن غیاث کاسن پیدائش تقریب التھذیب میں ۱۱۵ھ لکھا ہے۔ گو یا کہ یہ بورڈ کی تشکیل کے وقت چھ برس کے تھے اور اس کے رکن بنے۔ یہی حال دیگر ارکان کا ہے جو کم وبیش اسی عمر میں ہی تھے جب انہیں اس بورڈ کی رکنیت ملی۔ کیا یہ دعوی خلاف عقل نہیں کہ ایسے بورڈ کو مہتم بالشان مجلس قرار دیا جائے جس میں دو برس، چھ برس، آٹھ برس، نو، دس یا گیارہ برس کی عمر کے ممبر مقرر ہوں۔ پھر ایسی مجلس جو مسائل یا احکامات O.K.کرے گی اس کی وقعت اہل انصاف کے نزدیک کیا ہو گی۔ اس مبالغے کو علمی حدود اور ضابطوں کے جاننے والا کوئی عالم بھی علمی حیثیت نہیں دیتا۔اس لئے بیشتر محققین احناف نے اس مجلس کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بعض دعوئوں کا ضعف:​

۱۔ امام سرخسیؒ نے المَبْسُوط کی ابتداء میں اور الموفق بن احمد المکی نے مَنَاقِبُ اَبِی حَنیفہَؒ میں یہ بات بڑی شدومد سے لکھی ہے کہ سب سے پہلے فقہ کی تدوین امام ابوحنیفہؒ نے فرمائی۔ مگر سرخسیؒ کسی کتاب کا ذکر نہ کرسکے اور نہ ہی ابواب ومسائل کا۔ جب کہ آخر ا لذکر نے بعض ابواب کا ذکر تو کیا ہے مگر کتاب کا تذکرہ وہ بھی نہ کر سکے۔ اس لئے کہ یہ کتاب اگر موجود ہوتی یا امام محترم کے تلامذہ سے ہوتی تو کم از کم مسائل تو اس کتاب کی طرف منسوب ہوتے جیسے مالکی، مسائل کی نسبت موطأ امام مالک کی طرف کرتے ہیں اور شافعی، کتاب الأم کی طرف۔ مگر یہاں کوئی ایک صورت بھی نہیں۔

۲۔ فقہاء اربعہ میں ترجیح کا یہ اصول کہ امام محترم ؒہی فقہ کے بانی ہیں لہٰذا ان کی بات دوسرے فقہاء کے مقابلے میں اولی ہوگی۔ یہ دلیل بھی درست نہیں اس لئے کہ جو واضع اول ہوتا ہے اس کی تحریر میں بہت سے تسامحات اور تساہلات شامل ہوجاتے ہیں۔ رہے متأخر تو ان کی بات تنقیح وتہذیب والی ہوتی ہے۔ اگر اس اصول سے یہ بات ثابت کرنا مقصود ہے کہ امام محترم کی کوئی تصنیف ہے تو یہ درست نہیںکیونکہ ان کی کوئی کتاب وجود ہی نہیں رکھتی۔ بلکہ امام محترمؒ کے تلامذہ کی تصنیفات ملتی ہیں۔ اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہی سب سے پہلے مسائل میں گویا ہوئے اور فروعات پر خامہ فرسائی فرمائی تو یہ بھی درست نہیں۔ اس لئے کہ امام محترمؒ سے بہت پہلے صحابہ وتابعین میں محدثین اور فقہاء کی ایک بڑی جماعت بے شمار تفریعی مسائل پرگفتگو فرما چکی تھی ۔مناقب الإمام الشافعی از امام فخر الدین رازی: ۱۹۲۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام مالک ؒ بن انس(۹۳ تا ۱۷۹ھ)​

دوسرے بڑے امام ہیں ۔ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ دادا، چچا اور والد غرضیکہ پورا خانوادہ حدیث رسول کا خادم وعالم تھا۔ مدینہ منورہ میں تو ویسے ہی فقہاء وعلماء کی کثیر تعداد تھی۔ اس لئے یہ خوش قسمتی انہی کے حصے میں آئی کہ بچپن سے ہی وہ انہی کے چشمہ فیض سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ فقہائے سبعہ میں باستثناء چند کے اکثر سے مالکؒ نے استفادہ کیا ۔ اس طرح متفرق سینوں کا بکھرا علم ایک ہی سینہ میں مجتمع ہوگیا۔ اسی لئے آپؒ إمامُ دَارِ الہِجْرَۃِ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ اور عَالِمُ المَدِینَۃِ کی پیشین گوئی کے مصداق بھی بنے۔طلب علم کے لئے دوسرے شہروں کا سفر امام صاحبؒ سے ثابت نہیں اس لئے کہ ان کا اپنا گھر اور وطن خود زرو جواہر کی ایسی کان تھے جہاں ہر قیمتی موتی میسر تھا۔

علم کے شوق کے ساتھ دل ودماغ جب فکر سے آزاد ہوں تو علم کا حصول ممکن ہوتا ہے مگر شاذ مثالیں ہی ایسی ملتی ہیں کہ طالب علم کو یہ دونوں چیزیں نصیب ہوں۔ طلب علم کی راہ میں جناب امام مالکؒ کو فقر کا سامنا کرنا پڑا جو ہم سب کے لئے ایک قابل فخرمثال ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے انہوں نے چھت کی کڑیاں تک فروخت کردیں مگر کسی کے آگے اپنا ہاتھ نہیں پھیلایا اور علم کے حصول میں ہمت نہیں ہاری۔ جناب امام بخاری ؒ … جو فقہ وحدیث میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں… کو بھی سفر میں سوائے ستر کے کپڑے کے باقی سب کپڑے بیچنے پڑے اور گھاس کھا کرقناعت کی مگر دست طلب کو دراز نہیں کیا اور نہ ہی علم کے حصول کو بوجھل سمجھا۔

اساتذہ:
شیوخ میں امام مالکؒ کا انتخاب بھی قابل تحسین ہے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے خریدار نہیں بنتے تھے۔ بلکہ جو اہل ہوتا اسی سے علم کی پیاس بجھاتے۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہا کرتے کہ میں کبھی کسی غیر فقیہ یعنی سفیہ کی صحبت میں نہیں بیٹھا۔ کبھی فرماتے: اس صحن مسجد کے ستونوں کے پاس میں نے ستر شیوخ کو ایسا پایا جو قال رسول اللہ کہا کرتے ۔ اگر ان میں ہر ایک کو بیت المال کا امین بھی بنا دیا جاتا تو یقینا وہ امین ہی ثابت ہوتے۔ مگر میں نے ان سے حدیث نہ سنی نہ روایت کی اس لئے کہ حدیث رسول ان کا میدان ہی نہ تھا کہ وہ اس کے مغز سخن کو سمجھتے۔ اسی طرح اہل عراق سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے وجہ یہی بتاتے کہ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ یہاں آکر عموما ان لوگوں سے حدیث سیکھتے اور سنتے ہیں جن پر وثوق نہیں کیا جا سکتا۔

صحابی رسول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تیس سالہ شاگردی میں رہنے والے مایہ ناز فقیہ ومحدث امام نافعؒ، جو آزاد کردہ غلام تھے، امام مالک ؒکے قابل فخراستاد تھے۔ کہا کرتے جب ابن عمرؓ کی حدیث امام نافعؒ سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پروا نہیں کیا کرتا کہ کسی اور سے بھی اس کی تائید سنوں۔ دوسرے مایہ ناز استاد، جن کی حق گوئی، علمی وقار ورعب کے خلفاء بھی قائل تھے وہ امام ابن شہاب زہریؒ ہیں جن کی روایات سے صحاح ستہ مالا مال ہیں اور جو ابوبکر ابن حزم کے بعد حدیث رسولﷺ کے سب سے بڑے مدون ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے امام صاحبؒ کے شیوخ کی تعداد پچھتر کے قریب بتائی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تدریس وعلمی وقار:

بارہ برس مسلسل اپنے استاذامام نافع ؒکی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد امام مالکؒ ۱۱۷ھ میں مسند تدریس پر بیٹھے اور جس جاہ وجلال کی محفل سجائی وہ علم اور علماء کی شان کو ظاہر کرتی تھی۔ تمام مجلس پر ایک مقدس سکوت طاری ہوتا کتاب کا ورق الٹنے سے طلبہ ڈرتے تھے کہ مبادا اس کی سرسراہٹ ہو۔ سب مؤدب ہو کر بیٹھتے اس لئے کہ امام صاحب کی اداء سے شکوہ اور وقار جھلکتا تھا۔ امام شافعی ؒ نے جب موطا امام مالک سن لی تو ساتھیوں نے انہیں کہا کہ اب آپ کا کام مکمل ہو چکا ہے پھربھی آپ یہیں ہیں؟ فرمانے لگے: اب تک میں نے اپنے شیخ سے علم سیکھا تھا اب رہ کر ادب ووقار سیکھنا چاہتا ہوں۔امام ابوحنیفہؒ ، خلیفہ ہارون الرشید، اس کے دونوں شاہزادے امین ومامون بھی ان کی مجلس میں آکرشریک ہوئے اور اسی طرح مؤدب ہوکر بیٹھے جس طرح شاگرد بیٹھتے ہیں۔چند دنوں بعد لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یہی شاہزادے امام محترم کی جوتیاں اٹھانے اور انہیں درست کرنے میں ایک دوسرے سے پہل کرر ہے ہیں۔

عام وخاص اگر علم سے مستفید ہو رہے ہوں تو شخصی منفعت کے لئے امام محترم عام افادہ کا خون نہیں کرتے تھے اور اس کے قائل تھے کہ إِنِّی لاَ أَذُلُّ الْعِلْمَ میں علم کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ یا یوں فرمایا کرتے: العِلْمُ یُزَارُ ولاَ یَزُورُ علم کے پاس آیا جاتا ہے نہ کہ علم کو لایا جاتا ہے۔ پڑھانے کا عام طریقہ یہ تھا کہ پہلے امام محترم احادیث، فتاوی اور اپنی تعلیقات کو قلم بند کر لیتے اور پھر کسی چاق وچوبند اور سمجھ دار شاگرد کومامور کرتے کہ وہ اسے خوش خط لکھے۔ یہی لکھے ہوئے اجزاء کاتب کے ہاتھ میں ہوتے جسے وہ محفل میں پڑھتا تو امام محترم جابجا اس کی تشریح ومطالب بیان کرتے جاتے اور اگر کاتب سے کوئی غلطی ہوتی تو خود اس کی تصحیح فرما دیتے۔

امام صاحب کے بارے میں امام شافعیؒ نے یہ کہا ہے کہ إِذَا ذُکِرَ الْعُلَمَاء فَمَالِکٌ النَّجْمُ۔ یعنی جب علماء کے بارے میں سلسلہ گفتگو چل نکلے تو امام مالک ؒہی ایک چمکتا ہوا تارا محسوس ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ حدیث رسول ہو تو اس کی تصحیح وتضعیف، رجال کی معرفت اور جرح وتعدیل کے تمام اسباب کا جاننا اور پھر اس کی تصحیح کے بعد احکام کا استنباط اور ان کی تفریع ، اختلاف کی صورت میں ترجیح وتطبیق اور پھر واجب وسنت ومستحب وغیرہ کی تعیین ایک غیر معمولی کام تھا جو امام مالک نے قولی ، عملی اور تحریری صورت میں پیش کیا جس کے نتائج سے دنیا مستفید ہوئی۔ موطأ ہو یا ان کے شاگرد عبد الرحمان بن القاسم (م۔۱۹۱ھ) کی امام مالکؒ کے ملفوظات فقہیہ وعلمیہ پر مبنی کتاب المُدَوَّنَۃُ الْکُبْرٰی ہو یہ سب شاہد ہیں کہ امام صاحبؒ کے علم وفضل کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیا گیا بلکہ یہ ان کی للہیت کا ثمرہ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ مالکی کی اہم کتب :

۱۔ موطا امام مالکؒ:
یوں مسلسل باسٹھ سال تک مسجد نبوی میں اپنی فقہی ، حدیثی، اور تدریسی مخلصانہ خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں اپنی معروف کتاب موطأ لکھی اورکئی بار نقد ونظر سے گذاری ۔ بارہا اس میں ترمیم ، حک واضافہ کے مراحل آئے۔ جب امام محترمؒ نے اس کا آغاز کیا تو کسی شاگرد نے انہیں عرض کی: کہ موطأ نام کی کتب تو بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں؟ آپ کے لکھنے کا کیا فائدہ؟ امام مالکؒنے جواب میں فرمایا: مَا کَانَ لِلّٰہِ بَقِیَ۔ جو کام اللہ کے لئے ہوگا اللہ تعالی اسے باقی رکھے گا۔ موطأ امام تو باقی رہی مگر ان کے معاصرین کی موطآت مفقود ہو گئیں۔ موطأ فقہ کی کتاب بھی ہے اور حدیث کی بھی۔ کیونکہ یہ کتاب مرفوع احادیث کے علاوہ بہت سے فقہی احکام پر مبنی فقہاء صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فتاوی، فیصلہ جات اور اجتہادات سے بھی مالا مال ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے بارے میں امام مالکؒ کے نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے۔

شہرت کتاب:
امام محترمؒ کی زندگی میں ہی اس کتاب کو ایسا عروج ملا کہ خلیفہ ہارون نے اس کتاب کو بطور ایک قانون کے اپنی خلافت میں نافذ کرنا چاہا اور اسے ایک آئینی حیثیت دینا چاہی کہ اسی کے مطابق تمام علماء وفقہاء فتوے دیں مگر امام محترم نے فرمایا: کہ یہ میرا علم ہے جب کہ عالم اسلام میں بے شمار اہل علم موجود ہیں ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہئے۔ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے وعقل پر جس سے صحت وغلطی دونوں کا امکان ہے عالم اسلام کومجبور کرنا مناسب نہیں۔ لہٰذا میرے علم کو حتمی علم کی حیثیت نہ دی جائے۔ امام محترمؒ اپنی سوچ اور فقہ کو اگر عام کرنا چاہتے یا اپنی شہرت ووجاہت چاہتے تو ان کے لئے کتنا سنہرا موقع تھا کہ ارباب حکومت میں گھس کر اپنے مسلک کو عام کرتے مگر انہوں نے خانہ کعبہ میں اپنی کتاب موطا کو آویزاں کروانا پسند نہ فرمایا۔ (الدیباج: ۲۰۰)

انہی کی زندگی میں یہ کتاب اندلس میں پہنچ چکی تھی اور افریقہ کے علاوہ اہل مشرق بھی اس کتاب کے نسخوں کو اپنے اپنے علاقوں کی زینت بنا چکے تھے۔ امام شافعیؒکے علاوہ امام محمدؒ بن الحسن بھی ان کے شاگرد تھے انہوں نے امام مالکؒ سے ان کی موطا سنی۔ بعد میںامام محمدؒ نے اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی احادیث کو موطأ میں شامل کردیا۔ یہ وہ روایات تھیں جو امام مالکؒ نے اپنی اصل موطا میں بیان نہیں کی تھیں۔ اس بناء پر ان کی موطا ، موطا امام محمد ؒکے نام سے مشہور ہے جو موطأ امام مالک سے بالکل مختلف مواد رکھتی ہے۔ امام محمدؒ نے یہ کوشش بھی کی کہ اپنی موطا میں ہر حدیث کے آخر میں حنفی مسائل کو ثابت کردیا جائے۔

۲۔ المُدَوَّنَۃُ: یہ فقہ مالکی کی دوسری مشہور کتاب ہے۔ اس میں ان سوالوں کے جوابات جمع کئے گئے ہیں جو امام مالکؒ سے پوچھے گئے تھے۔ پھر انہیں ان کے شاگردوں نے مرتب کرکے کتابی شکل دے دی۔ امام سحنونؒ نے اس کتاب کومرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعض مقامات پر ان آثار سے بھی احتجاج کیا جو ابن وہب کی روایت موطا سے تھے۔ مگر یہ سب کچھ امام ابن القاسم سے تصدیق کے بعد کیا۔ اس کتاب میں تقریبا چھتیس ہزار مسائل ہیں اور مالکیوں کے ہاں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام مالکؒ کے شاگرد :

امام مالک کی شاگردی کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مدینہ منورہ جو مسلمانوں کا مرکز عقیدت ہے دنیا بھر سے آنے والے مسلمان نہ صرف امام مالک ؒ کے حلقہ درس میں بیٹھے بلکہ ان کے شاگرد بن کر موطأبھی پڑھ گئے جن کی روایت اپنے اپنے ملکوں میں جاکر انہوں نے پھیلائی۔ ان تلامذہ میں مصری، اندلسی، حجازی اور عراقی بھی ہیں۔ چند نامور شاگردوں کے نام یہ ہیں: ابوعبد اللہ عبد الرحمن بن القاسم العتقی ۱۹۱ ھ مصری ہیں بیس برس تک امام مالکؒ سے علم سیکھتے رہے۔ ابو محمد عبد اللہ بن وہب بن مسلم م:۱۹۷ھ انہوں نے بھی بیس برس امام محترم کی شاگردی میں گزارے۔ ابوعبد اللہ زیاد بن عبد الرحمن القرطبی م:۱۹۳ھ ان کا لقب شبطون تھا امام مالک ؒسے انہوں نے موطأ سنی۔ اسد بن الفرات بن سنان م: ۲۱۳ھ تیونس کے حکمران رہے۔ امام مالکؒ سے انہوں نے بھی موطأ سنی۔ ابومروان عبد الملک بن ابی سلمہ الماجشون م:۲۱۲ھ اپنے وقت کے مفتی تھے۔

فقہ مالکی کے ا صول :

امام مالکؒ کے فقہی منہج کامبدا اہل حجاز کا وہ منہج ہے جس کا آغاز امام سعید بن المسیبؒ نے کیا تھا۔نیز اپنی کتب میں بھی اسے اجاگر کیا ہے۔ قاضی عیاض ؒ نے ان فقہی اصولوں کی تفصیل دی ہے جن پر امام مالکؒ اعتماد کرتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ اجتہاد ۔۔۔جس پر عمل ہو سکے اور جو شریعت کے مزاج کے مطابق ہو۔۔۔ کی شرائط، اس کا ماخذ اور اس کے مراتب وغیرہ درج ذیل ہیں:

… اجتہاد کرتے وقت اللہ کی کتاب کو اس طرح مقدم رکھنا ہے کہ نصوص سے ہی اس کے مستفید ہونا ہے۔ اورپھر اس کے ظاہر معانی کو لیا جائے پھر اس کے مفہوم کو۔ پھر اسی طرح سنت میں متواتر اور مشہور کی ترتیب سے مستفید ہوا جائے۔ پھر مراتب نصوص کا لحاظ رکھا جائے جن میںان کے ظواہر اور ان کے مفہوم ، جو کتاب اللہ کے مطابق ہوں کومقدم رکھا جائے۔ پھر اجماع پر انحصار کیا جائے بشرطیکہ وہ مسئلہ کتاب اللہ وسنت متواترہ میں نہ ہو۔ ان تینوں کی عدم موجودگی میں اس مسئلہ پر قیاس بھی کیا جاسکتا ہے اور قیاس سے استنباط بھی۔ کیونکہ کتاب اللہ تو قطعی الثبوت ہے اور متواترسنت بھی(جس کا تعلق سند یا احوال رواۃ سے نہ ہو)، اسی طرح نص بھی قطعی ہوتی ہے تو ان دونوں کو بہر حال مقدم رکھنا واجب ہوگا۔ پھران نصوص کے ظواہر اور مفہوم ہیں کیونکہ ان کے معنی کا بھی ان دونوں میں شامل ہونے کا احتمال ہے۔ ان کے بعد اخبار آحاد مقدم ہوں گی جن پر عمل کرنا واجب ہے یہ اس صورت میں جب مسئلہ کتاب وسنت متواترہ میں نہ ہو۔ خبر متواتر قیاس پر مقدم ہوگی۔
 
Top