محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
عمل اہل مدینہ:
افتاء میں یا استنباط مسئلہ میں امام محترمؒ قرآن وحدیث پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور اس معاملہ میں سارا دار ومدار علماء حجاز میں کبار تابعین محدثین پر کرتے ہیں۔یعنی اہل مدینہ کی روایات، ان کے قضایا واحکام کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ وجہ سیدنا عمرؓ اور ان کے صاحب زادے عبد اللہؓ کی خاص اہمیت تھی۔ دیگر شہروں کی روایات کو یہ کہہ کر ترک کردیا کرتے کہ ان کے راوی میرے شہر سے نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں کوئی جواب انہیں نہ ملتا تو پھر قیاس یا ایک نئی دلیل یعنی مصالح مرسلہ کے ذریعے اجتہاد کرلیا کرتے تھے جس کا مطلب ہے مصلحت عامہ کا تقاضا۔
مگر اہل مدینہ کے اس عمل کو کہ مدنی لوگ گاہک اور دوکاندار میں سودے کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کے اختیار کو ہمہ وقت تسلیم کرتے ہیں ۔ امام مالکؒ نے جب اسے صحیح حدیث پرترجیح دی جس میں آپ ﷺ نے ارشار فرمایا: البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا بائع ومشتری دونوں اس وقت تک بااختیار ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو جاتے۔ تو دیگر فقہائے محدثین نے یہ کہہ کر عمل اہل مدینہ کو حدیث پر ترجیح نہ دی کہ آپ ﷺ کا یہ اصول آفاقی ہے ۔ ہر مقام پر مدینہ والے لوگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس مزاج کے حامل ۔اور نہ ہی اہل مدینہ کا عمل حدیث صحیح کے مقابل میں ایک آفاقی اصول بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اصول ، حدیث سے ہی ماخوذ ہوگا۔کیونکہ صحابہ مدینہ میں رہے اور باہر بھی۔ نیز صحابہ مدینہ میں ہوں تو یہ علم امام مالکؒ کے نزدیک حجت ہو لیکن جب یہ علم مصر وشام اور کوفہ چلا جائے تو اس کی حجیت قابل غور ٹھہرے؟اس لئے باہر والوں کا علم انہوں نے Qouteنہیں کیا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے سیدنا علی ؓوابن عباسؓ کی روایات ذکر نہیں فرمائیں تو جواب دیا: لَمْ یَکُوناَ مِنْ بَلَدِیْ۔ یہ دونوں میرے شہر(مدینہ) میں نہیں تھے۔مدینہ کے علماء کا باہم اختلاف عمل اہل مدینہ کا اصول کمزور بناتا ہے۔ جس کا ذکر موطأ میں ہے اس صورت میں کچھ اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پر کیسے حجت ہوسکتے ہیں؟ کون سے اقوال ہونگے جنہیں ترجیح دے کر سنت ثابت کیا جائے ؟ جب کہ دونوں طرف اہل مدینہ ہوں۔
افتاء میں یا استنباط مسئلہ میں امام محترمؒ قرآن وحدیث پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور اس معاملہ میں سارا دار ومدار علماء حجاز میں کبار تابعین محدثین پر کرتے ہیں۔یعنی اہل مدینہ کی روایات، ان کے قضایا واحکام کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ وجہ سیدنا عمرؓ اور ان کے صاحب زادے عبد اللہؓ کی خاص اہمیت تھی۔ دیگر شہروں کی روایات کو یہ کہہ کر ترک کردیا کرتے کہ ان کے راوی میرے شہر سے نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں کوئی جواب انہیں نہ ملتا تو پھر قیاس یا ایک نئی دلیل یعنی مصالح مرسلہ کے ذریعے اجتہاد کرلیا کرتے تھے جس کا مطلب ہے مصلحت عامہ کا تقاضا۔
مگر اہل مدینہ کے اس عمل کو کہ مدنی لوگ گاہک اور دوکاندار میں سودے کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کے اختیار کو ہمہ وقت تسلیم کرتے ہیں ۔ امام مالکؒ نے جب اسے صحیح حدیث پرترجیح دی جس میں آپ ﷺ نے ارشار فرمایا: البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا بائع ومشتری دونوں اس وقت تک بااختیار ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو جاتے۔ تو دیگر فقہائے محدثین نے یہ کہہ کر عمل اہل مدینہ کو حدیث پر ترجیح نہ دی کہ آپ ﷺ کا یہ اصول آفاقی ہے ۔ ہر مقام پر مدینہ والے لوگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس مزاج کے حامل ۔اور نہ ہی اہل مدینہ کا عمل حدیث صحیح کے مقابل میں ایک آفاقی اصول بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اصول ، حدیث سے ہی ماخوذ ہوگا۔کیونکہ صحابہ مدینہ میں رہے اور باہر بھی۔ نیز صحابہ مدینہ میں ہوں تو یہ علم امام مالکؒ کے نزدیک حجت ہو لیکن جب یہ علم مصر وشام اور کوفہ چلا جائے تو اس کی حجیت قابل غور ٹھہرے؟اس لئے باہر والوں کا علم انہوں نے Qouteنہیں کیا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے سیدنا علی ؓوابن عباسؓ کی روایات ذکر نہیں فرمائیں تو جواب دیا: لَمْ یَکُوناَ مِنْ بَلَدِیْ۔ یہ دونوں میرے شہر(مدینہ) میں نہیں تھے۔مدینہ کے علماء کا باہم اختلاف عمل اہل مدینہ کا اصول کمزور بناتا ہے۔ جس کا ذکر موطأ میں ہے اس صورت میں کچھ اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پر کیسے حجت ہوسکتے ہیں؟ کون سے اقوال ہونگے جنہیں ترجیح دے کر سنت ثابت کیا جائے ؟ جب کہ دونوں طرف اہل مدینہ ہوں۔