• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عمل اہل مدینہ:
افتاء میں یا استنباط مسئلہ میں امام محترمؒ قرآن وحدیث پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور اس معاملہ میں سارا دار ومدار علماء حجاز میں کبار تابعین محدثین پر کرتے ہیں۔یعنی اہل مدینہ کی روایات، ان کے قضایا واحکام کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ وجہ سیدنا عمرؓ اور ان کے صاحب زادے عبد اللہؓ کی خاص اہمیت تھی۔ دیگر شہروں کی روایات کو یہ کہہ کر ترک کردیا کرتے کہ ان کے راوی میرے شہر سے نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں کوئی جواب انہیں نہ ملتا تو پھر قیاس یا ایک نئی دلیل یعنی مصالح مرسلہ کے ذریعے اجتہاد کرلیا کرتے تھے جس کا مطلب ہے مصلحت عامہ کا تقاضا۔

مگر اہل مدینہ کے اس عمل کو کہ مدنی لوگ گاہک اور دوکاندار میں سودے کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کے اختیار کو ہمہ وقت تسلیم کرتے ہیں ۔ امام مالکؒ نے جب اسے صحیح حدیث پرترجیح دی جس میں آپ ﷺ نے ارشار فرمایا: البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا بائع ومشتری دونوں اس وقت تک بااختیار ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو جاتے۔ تو دیگر فقہائے محدثین نے یہ کہہ کر عمل اہل مدینہ کو حدیث پر ترجیح نہ دی کہ آپ ﷺ کا یہ اصول آفاقی ہے ۔ ہر مقام پر مدینہ والے لوگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس مزاج کے حامل ۔اور نہ ہی اہل مدینہ کا عمل حدیث صحیح کے مقابل میں ایک آفاقی اصول بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اصول ، حدیث سے ہی ماخوذ ہوگا۔کیونکہ صحابہ مدینہ میں رہے اور باہر بھی۔ نیز صحابہ مدینہ میں ہوں تو یہ علم امام مالکؒ کے نزدیک حجت ہو لیکن جب یہ علم مصر وشام اور کوفہ چلا جائے تو اس کی حجیت قابل غور ٹھہرے؟اس لئے باہر والوں کا علم انہوں نے Qouteنہیں کیا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے سیدنا علی ؓوابن عباسؓ کی روایات ذکر نہیں فرمائیں تو جواب دیا: لَمْ یَکُوناَ مِنْ بَلَدِیْ۔ یہ دونوں میرے شہر(مدینہ) میں نہیں تھے۔مدینہ کے علماء کا باہم اختلاف عمل اہل مدینہ کا اصول کمزور بناتا ہے۔ جس کا ذکر موطأ میں ہے اس صورت میں کچھ اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پر کیسے حجت ہوسکتے ہیں؟ کون سے اقوال ہونگے جنہیں ترجیح دے کر سنت ثابت کیا جائے ؟ جب کہ دونوں طرف اہل مدینہ ہوں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
چند مالکی اصطلاحات

۱۔ائمہ: ان سے مراد ابو القاسم بن محرز(م: ۴۵۰ھ) ، متاخرین میں قاضی عیاض بن موسی یحصبی(پیدائش : م ۴۷۶ھ) اور متقدمین میں عبد العزیزبن ابی سلمہ(م: ۱۸۴ھ) ہیں۔(کشف النقاب از ابن فرحون مالکی: ۱۷۶)

۲۔الأخوان: سے مراد مطرف بن عبد اللہ (م: ۲۲۰ھ) اور عبد الملک بن عبد العزیز المعروف ابن الماجشون (م: ۲۱۴ھ) ہیں اس کی وجہ ان کا باہم بے شمار احکام اور ان پر عمل میں اتفاق ہوجاتا تھا۔ (الفکر السامی از حجوی ۳؍۹۶)۔ انہی کے بارے میں ایک شاعر نے کہا تھا:
کَذَا مُطَرِّفٌ وَنَجْلُ الْمَاجِشُونَ حَلَّاہُما بِالأَخَوَینِ النَّاقِلُونَ​

شیخ: اس سے مراد مالکی فقہاء ممتاز مغربی فقیہ ابو محمد عبد اللہ بن ابی زید القیروانی (م: ۳۸۹ھ)لیتے ہیں۔ انہیں مالک صغیر بھی کہا جاتا ہے۔(شرح مختصر خلیل ۱؍۴۹)

شیخان: سے مراد ابو محمد القیروانی اور ابو الحسن علی القابسی رحمہما اللہ لیتے ہیں۔ قابسی ، ابوالحسن علی بن محمد بن خلف المعافری (م: ۴۰۳ھ)کے نام سے معروف ہیں اور ابوزید المروزی سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔(حاشیہ العدوی ۱؍۲۷۲)

قرینان: اس سے مراد اشہب بن عبد العزیز القیسی العامری(م: ۲۰۴ھ) اور عبد اللہ بن نافع الصائغ(م: ۱۸۶ھ) ہیں۔

مفتی۔ جو فقہ مالکی میں راجح کے مطابق ایسا فتوی دے جو نفس مسئلہ کے لئے مناسب ہو۔ اور غیر مفتی وہ ہوتا ہے جو اجتہاد کی شروط پر نہیں اترتا بلکہ وہ متفق علیہ مسائل ہی بیان کرتا ہے۔ یا وہ مسائل جو مذہب میں مشہور ہوں یا جن کو اولین فقہاء مالکیہ نے ترجیح دی ہو۔

۲۔ مالکی کتب کی روایات میں اور مشائخ کی روایات میں ترجیح کے کچھ اصول ہیں۔مثلا: مشایخ کے اقوال میںاگر اختلاف ہو تو المدونۃ میں امام مالکؒ کا قول ابن القاسمؒ کے قول سے مقدم ہوگا۔ اس لئے کہ امام مالکؒ بہرحال بڑے امام ہیں۔ اسی کتاب میں ابن القاسمؒ کا قول دوسرے کے مقابلے میں مقدم ہوگا اس لئے کہ وہ امام مالکؒ کے مذہب کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔

۳۔ مذہب کی اصطلاح سے مراد مذہب امام مالک ہے۔ مالکی مسلک میں فقہاء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ترجیح کے لئے مشہور کا لفظ مستعمل ہوتا ہے جس سے مراد وہ مسئلہ جومالکی مسلک میں مشہور ہے یا جس مسئلے کے قائلین بہت ہوں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
موازنہ مابین فقہ مالکی وحنفی:​

شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں دونوں ائمہ کرام کے مقام ومرتبے کو بیان کرنے کے بعد دونوں کا موازنہ کرکے ان کے اپنے اپنے طریقہ اجتہاد پر روشنی ڈالی ہے۔

کَانَ مَالِکٌ مِنْ أَثْبَتِہِمْ فِی حَدِیثِ الْمَدَنِیِّینَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَوْثَقِہِمْ إِسْنَادًا، وَأَعْلَمِہِمْ بِقَضَایَا عُمَرَ، وَأقَاوِیْلَ عَبدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَۃَ، وَأَصْحَابِہِمْ مِنَ الْفُقَہَائِ السَّبْعَۃِ، وَبِہِ وَبِأمْثَالِہِ قَامَ عِلْمُ الرِّوَایَۃِ وَالْفَتْوٰی۔
امام مالک علماء مدینہ کی احادیث کو خوب یاد رکھتے تھے۔ ان کی سند بھی زیادہ قوی تھی۔ سیدنا عمرؓ کے فیصلہ جات، ابن عمر ، سیدہ عائشہؓ اور فقہاء سبعہ کے اقوال سب سے زیادہ جانتے تھے۔ امام مالک اور ان کے ہم سروں کی محنت سے روایت حدیث اور افتاء کا علم قائم ہوا۔
اس کے بعد امام ابوحنیفہؒ کا حال لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:

وَکَانَ أَبْوحَنِیفَۃ ؒ أَلْزَمُہُمْ بِمَذْہَبِ إِبْرَاہِیْمَ وَأَقْرَانِہِ، لاَ یُجَاوِزُہُ إِلاَّ مَاشَائَ اللہُ، وَکَانَ عَظِیْمَ الشَّأنِ فِی التَّخْرِیجِ عَلَی مَذْہَبِہِ، دَقِیقَ النَّظَرِ فِی وُجُوہِ التَّخْرِیجَاتِ مُقْبِلاً عَلَی الْفُرُوعِ أَتَمَّ إِقْبَالٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَعْلَمَ حَقِیقَۃَ مَا قُلْنَاہُ فَلَخِّصْ أَقْوَالَ إِبْرَاہِیمَ وَأَقْرَانِہِ مِنْ کِتَابِ الآثَارِ لِمُحَمَْدٍ رَحِمَہُ اللہُ،وَجَامِعِ عَبدِ الرَّزَّاقِ، وَمُصَنَّفِ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ، ثُمَّ قَایِسْہُ بِمَذْہَبِہِ تَجِدْہُ لاَ یُفَارِقُ تِلْکَ الْمَحَجَّۃَ إِلاًَّ فِی مَوَاضِعَ یَسِیرَۃٍ وَہُوَ فِی تِلْکَ الْیَسِیْرَۃِ أَیضًا لاَ یَخْرُجُ عَمَّا ذَہَبَ إِلَیہِ فُقَہَائُ الْکُوفَۃِ۔
امام ابوحنیفہؒ نے ابراہیم نخعی اور ان کے معاصرین کا مذہب اختیار کیا ہوا تھا۔ اس سے ذرا ادھر ادھر نہ ہوتے تھے۔الا ماشاء اللہ۔ ابراہیم نخعی کے قواعد پر مسائل نکالنے میں امام محترم کو عظیم دسترس حاصل تھی۔وجوہ تخریج میں بڑے باریک بین تھے۔ ان کی مکمل توجہ فروع پر تھی۔ میری اس بات کی تحقیق اگر آپ کرنا چاہیں تو امام محمد کی کتاب الاثار اور مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابو بکر لے لیجئے۔ پھر ان میں ابراہیم نخعی اور ان کے معاصرین کے اقوال لے لیجئے۔ اب امام ابوحنیفہؒ کے مذہب سے ان کا موازنہ کر دیکھئے تو آپ شاید سوائے چند جگہوں کے کہیں فرق نہیں پائیں گے۔ پھر ان چند جگہوں میں بھی امام ابوحنیفہؒ فقہاء کوفہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے۔(حجۃ اللہ البالغۃ: ۱؍ ۴۱۸ )
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وفات:​
امام محترمؒ کو اللہ تعالی نے خدمت دین کا بھر پور موقع دیا۔ ۹۳ھ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۱۷ھ میں مسجد نبوی کی مسند درس پرتشریف فرما ہوئے۔ باسٹھ سال تک علم ودین کی خدمت کی۔ ۸۱ سال کی عمر میں ہی طبیعت میں ضعف وناتوانی آچکی تھی۔ تسلسل سے مسجد نبوی میں آنا، غم وشادی کی تقریبات میں جانا سب موقوف ہوگیا تھا۔ لوگ اعتراض کر تے تو جواب میں فرماتے: ہر شخص اپنا عذر بیان نہیں کرسکتا۔ آپ کے معروف شاگرد معن بن عیسی جو صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں وہ اس عمر میں امام صاحب کے خادم تھے۔ انہی کا سہارا پکڑ کر چلتے تھے۔ اور کبھی کبھار اس بڑھاپے میں بھی درس وافتاء کی خدمت جاری رہتی۔

امام محترم ؒاتوار کے روز بیمار ہوئے یہ بخار اپنی شدت تین ہفتے تک دکھاتا رہا۔ اس دوران مرض کی شدت میں کوئی تخفیف نہ ہوئی۔ شاگردوں کو امام محترم کی تکلیف وبیماری کا جو ملال تھا اس کا یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف مدینہ کے علماء کو یقین ہوگیا کہ اب امام محترم کا اخری وقت ہے تو تیمارداری کے لئے حدیث وفقہ کے ۱۶۰ علماء مودب بہ چشم نم آس پاس بیٹھے تھے۔

امام قعنبیؒ جو آپ کے خاص تلامذہ میں سے تھے انہوں نے امام محترم کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تو سبب پوچھا۔ امام محترم فرمانے لگے: قعنبی! میں نہ روؤں تو کون روئے۔ اے کاش! مجھے میرے ہر قیاسی فتوے کے بدلے میں ایک کوڑا مارا جاتا۔ یہی گریہ جاری تھا لب متحرک تھے کہ اسی عالم میں جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ اور یوں ۸۶ سال کی عمر پاکر ۱۷۹ ھ کوانتقال فرمایا۔ جنازہ میں خلقت تھی۔ سارا مدینہ حتی کے والی مدینہ پیدل جنازہ میں نہ صرف چلا بلکہ اس نے کندھا دیا۔ جنت البقیع میں تدفین ہوئی جہاں ام المومنین عائشہؓ، عثمان ذوالنورینؓ، سیدنا حسنؓ، سیدہ فاطمہؓ ام المومنین حفصہ ؓ جیسی عظیم ہستیاں مدفون ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام شافعیؒ(۱۵۰۔۲۰۴ھ)​

نام اور بچپن:
آپ کا نام محمد بن ادریس ہے۔ قریشی النسب تھے، شافع ان کے جد اعلی تھے جن کی طرف نسبت سے آپ شافعی کہلائے۔ غزہ میں رجب ۱۵۰ ھ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ دو سال کے تھے کہ والدہ انہیں یمن اپنے قبیلہ ازد میں لے آئیں جہاں امام شافعیؒ نے اپنا بچپن گذارا۔ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا اور دس سال میں موطأ امام مالک یاد کرلی۔پھر مکہ آگئے اور چچا محترم کے پاس رہ کر علم الأنساب اور دیگر علوم سیکھنا شروع کئے۔

اساتذہ:
مفتی مکہ مسلم ؒبن خالد زنجی نے اس ذہین وذکی اور قوت حفظ سے مالا مال بچے کو تین برس تک اپنے علم فقہ وحدیث سے مستفید فرمایا۔ بعد میں اپنے استاذ کا خط لے کرمدینہ امام مالکؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے جنہوں نے ان کی گفتگو اور ذوق علمی سے متأثر ہو کر قبول فرمالیا۔تین برس امام مالکؒ کی خدمت میں صرف کئے اس دوران صحابہ کرام، تابعین اور امام مالکؒ کی فقہ کو اچھی طرح سمجھا اور یاد کیا۔ مدینہ کے دیگر سرکردہ علماء میں ابراہیم بن سعد الأنصاری ، عبد العزیز دراوردی اور دیگر علماء سے بھی بکثرت احادیث ، آثار صحابہ اور ان کے فتاوی کو پڑھا اور جستہ جستہ جرح وتعدیل کے اصول وقواعد کو بھی محفوظ کرتے گئے۔ امام مالک اور دیگر فقہائے مدینہ نے آپ کی قابلیت کو جاننے کے بعد متفقہ طور پر انہیں فتوی دینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

رحلہ برائے علم:
بعدازاں یمن تشریف لے گئے یہاں قبیلہ ہذیل میں رہ کر تیر اندازی، لغت، شاعری، تاریخ، انساب، نحو اور علم فراست جیسے علوم سیکھ کر ان میں کمال حاصل کیا۔ دس ہزار اشعار غرائب سمیت یاد کئے۔ عربی زبان میں ایسا درک پایا کہ مبرد، جاحظ،ابو العباس ثعلب، ابومنصور ازہر، ابو سلیمان خطابی اور علامہ زمخشری وامام رازی نے زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں لغت اور ادب کا امام قرار دیا۔ فن تاریخ اور ایام العرب سے بھی بخوبی شناسائی تھی اور علم طب پر گہری نظربھی ۔ علم فراست بھی رکھتے تھے۔ امام حمیدیؒ کہتے ہیں ایک بار امام شافعیؒ کے ہمراہ مکہ سے باہر وادی بطحا میں آیا وہاں ہمیں ایک شخص ملا۔ میں نے امام شافعیؒ سے عرض کی کہ اپنی فراست سے یہ بتائیے کہ اس شخص کا ذریعہ معاش کیا ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: یہ شخص بڑھئی یا درزی معلوم ہوتا ہے۔ حمیدیؒ کہتے ہیں میں نے واپس جاکر اس سے پوچھا کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: میں پہلے بڑھئی تھا لیکن آج کل درزی کا کام کرتا ہوں۔

واحد امام ہیں جو مکہ، مدینہ، یمن، عراق، شام، مصر اور الجزائر کے علماء وفضلاء سے ملے اور ان سے فقہی واجتہادی مسائل پر مذاکرات فرماتے رہے۔ فقہ حجاز کو سیکھنے کے بعد امام محترم عراق تشریف لے گئے۔ دہاں انہوں نے محسوس کیا کہ امام مالک ؒ کے بارے میں اہل عراق عصبیت رکھتے ہیں۔ وہاں کے فقہاء کرام جو دربار خلافت میں ایک عالی مقام رکھتے تھے امام شافعیؒ نے اس کے باوجود بھی ان کے سامنے بہت ہی مناسب علمی ومناظراتی انداز میں امام مالکؒ کے نقطہ نظر کا دفاع کیا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فکرمیں تبدیلی:​
بغداد میں رہتے ہوئے امام شافعی نے ایک کتاب الحُجَّۃُ لکھی جس میں امام محترم نے اپنے قدیم نقطہ نظر کا خوب دفاع کیا اور جس میں اہل الرائے پر سخت نکیر کی اور یوں اہل عراق نے انہیں ناصر الحدیث کا خطاب دیا۔ اس قیام کے دوران اہل الرائے کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ بھی فرماتے رہے۔ اور غور وفکر بھی کرتے رہے۔ اس مطالعے نے ان کی سوچ کو ایک اور رخ دے دیا کہ مدرسہ اہل الرائے اور مدرسہ اہل حدیث کے درمیان کیوں نہ ایک بین بین راستہ نکالا جائے جس میں نصوص سے وابستگی بھی ہو اور مناسب رائے کا عقلی اظہار بھی۔ اس لئے جب امام محترمؒ مصر تشریف لائے تو انہوں نے اپنی سابقہ فکر سے ہٹ کر نئے انداز سے اپنی کتب کو لکھنا شروع کیا ۔ان کی مشہور کتب کِتَابُ الرِّسَالَۃِ الْجَدِیْدَۃِ، اخْتِلَافُ الْحَدِیثِ، جِمَاعُ الْعِلْمِ، إِبْطَالُ الإحْسَانِ، أَحْکَامُ القرآنِ، صِفَۃُ الأمْرِ وَالنَّہْیِ، اخْتِلاَفُ مِالِکٍ وَالشافِعِی، اخْتِلاَفُ الْعِرَاقِیینَ اور کِتَابُ الأُمِّ وغیرہ اسی سوچ کی عکاس ہیں۔ جو ان کی چار سالہ محنت شاقہ کا ثمرہ ہیں۔ ان کتب کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام محترمؒ نے جہاں محسوس کیا کہ رائے کے استعمال کی یہاں ضرورت ہے انہوں نے وہاں اسے استعمال کیا اور جہاں حدیث کو بطور دلیل پیش کرنے کی ضرورت تھی وہاں اسے پیش کردیا۔ غرضیکہ جہاں جہاں انہوں نے دونوں مذاہب میں کمی دیکھی اسے پورا کرنے کی کوشش کی۔ اور عام متداول فقہی منہج سے ہٹ کر اسے ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔ مثلا:

رائج فقہی اصولوں کا انہوں نے گہرا مطالعہ کیا۔ فقہ کی بنیاد اصولوں پر رکھی اور فروع وجزئیات کو کلی قواعد کے ساتھ منضبط کردیا۔ مشہور فقیہ ربیعہؒ الرائی نے ایک مرتبہ امام شافعیؒ سے کہا: اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ قضاء کردے تو اسے بارہ روزے رکھنا چاہئیں اس لئے کہ اس مہینے کا ایک دن دوسرے مہینوں کے بارہ دن کے برابر ہے۔ امام شافعیؒ نے جواب دیا: یہ فقہ ہے یا مذاق۔ اگر تمہارا نظریہ یہی ہے تو پھر شب قدر کی نماز فوت ہوجائے تو وہ ہزار مہینے تک قضا کرے کیونکہ لیلۃ القدر خیر من ألف شہر قرآن میں ہے۔ ربیعہؒ خاموش ہوکر چلے گئے۔

شاہ ولی اللہؒ دہلوی بھی امام شافعی ؒ کے اس نقطہ نظر کو پسند فرمایا کرتے اور استنباط مسائل میں شاہ صاحبؒ کے پیش نظر ہمیشہ امام صاحب کے ہی اصول رہے۔ جو ان کی کتب الإنصاف، عقد الجید، حجۃ اللہ البالغہ اور المسوی والمصفی میں جگہ جگہ واضح ہیں۔ ڈاکٹر مظہر بقاء نے شاہ صاحبؒ کا امام شافعی ؒکی طرف اسی فی صد مسائل میںرجحان ثابت کیا ہے۔(شاہ ولی اللہ اور اصول فقہ از مظہر بقاء)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تلامذہ:
ان کی صحیح تعداد کا تعین کرنا تو مشکل ہے البتہ کچھ ممتاز افراد کے تعین سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امام محترمؒ جیسی ذی علم شخصیت سے کن مشاہیر واکابرین نے استفادہ فرمایا۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں: ان میںامام ابوعبد اللہ الحمیدیؒ (م۲۱۹ھ)مکہ کے رہنے والے، حافظ حدیث اور عظیم فقیہ، امام شافعیؒ کے سب سے بڑے شاگردوں میں سے تھے۔ ، جو امام بخاریؒ کے استاذ ہیں، ابوحفص حرملہ بن یحییٰ المصری(۱۶۶۔۲۴۴)، سلیمان بن داؤد الہاشمی(م۲۱۹ھ)، ابوعلی حسن بن محمد زعفرانی(م۲۵۹ھ) پہلے کوفی فقہ پر عمل کرتے تھے بعد میں امام محترم سے متاثر ہوکر امام شافعیؒ کے مستقل شاگرد بن گئے ان سے بہترفصیح اور لغت کا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ ابو ابراہیم اسمعیل بن یحییٰ المزنی(۱۷۵۔۲۶۴)، وسیع علم رکھتے تھے۔ زاہد، عالم، مجتہد، مناظر اور مشکل علمی مباحث کو سلجھانے والے تھے۔ امام شافعیؒ فرمایا کرتے: اگر یہ شیطان سے مناظرہ کریں تو غالب آئیں گے۔ اپنی اصلاح کے لئے مردوں کو لوجہ اللہ نہلایا کرتے۔ کہا کرتے یہ میں اس لئے کرتا ہوں تاکہ میرے دل میں سختی نہ پیدا ہوجائے۔ ابو محمد الربیع بن سلیمان بن عبد الجبار المرادی(۲۷۰)، مصر کے ایک ثقہ عالم، جنہوں نے امام شافعی ؒ کے بعد ان کی جانشینی کی۔ انہیں امام شافعیؒ نے فرمایا تھا: ربیع! تم میری کتابوں کی اشاعت کروگے۔ ربیع فرماتے ہیں جو ہمارے شیخ نے ہمیں فرمایا وہ حرف بحرف صحیح ہوا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ شافعی کے اصول:​
امام محترم نے اپنی کتاب الرسالہ لکھی جو اصول فقہ اور اصول حدیث کی اولین، نفیس اور اساسی کوشش قرار پائی۔ یہ اصول آج تک مسلمہ ہیں اور اصول فقہ میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

استدلال میں اصل حیثیت کس کی؟​

امام محترمؒ نے احکام ومسائل میں استدلال کے چند درجات پر رائے دی ہے جس سے فقہ شافعی میں استدلال کی اصل حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔یہ آراء درج ذیل ہیں:

۱۔ دین میں اصل حیثیت قرآن وسنت کی ہے اور اگر ان سے استدلال نہ ہو سکے تو پھرقیاس جو قرآن وسنت کے مطابق ہو۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے قوانین محدود ہیں اور امتداد زمانہ کے ساتھ پیش آنے والی صورتیں غیر محدود اس لئے جب کوئی واقعہ پیش آئے تو پہلے قرآن وحدیث میں غور کرنا چاہئے اور صحابہ کرام کے تعامل پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ اگر مسئلہ سے متعلق کوئی بات مل جائے جو صورت حال کے چند پہلوؤں سے تو یکساں ہو مگر ہو بہو نہ ہو تو قرآن وحدیث کے بیان شدہ امر اور پیش آمدہ واقعہ میں مماثلت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ حق ہے کہ ہم اس امر کی جستجو کریں کہ قرآن وحدیث کے اس قاعدہ مغیہ کی علت اور وجہ کیا تھی؟ پھر ہم بھی اس علت کی بناء پر قیاس کرنے کے مجاز ہیں۔ قیاس کے متعلق اس دقیق بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے ممتاز محدثین امام محترم کی اس رائے سے متفق ہوگئے۔

۲۔ جب حدیث رسولﷺ صحیح ، متصل سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس پر عمل لازمی ہے۔ اور کوفہ ومدینہ کی روایتوں پر اعتماد بھی اسی بنیاد پر کیا جائے۔ورنہ نہیں۔

۳۔ حدیث ہمیشہ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونی چاہئے اور جب اس میں متعدد معانی کا احتمال ہو توجو معنی ظاہری معنی کے قریب ہوں وہ لئے جائیں گے۔ زیادہ تاویلات نہ کی جائیں۔

۴۔ صحابہ کرام کا اجماع خبر واحد سے بالا تر ہے اور اجماع صحابہ نہ ہونے پر خبر واحد قابل عمل ہے۔ حدیث خواہ کسی درجہ کی ہو قرآن کی ناسخ نہیں ہو سکتی۔

۵۔ جب چند احادیث باہم متعارض ہوں تو ان میں یہ غور کرنا چاہئے کہ راوی کیسے ہیں؟ احکام کی ترتیب اورمتقدم ومتأخر صحابہ کے مقام کا بھی لحاظ ہونا چاہئے۔

۶۔ جب حدیث مرسل دوسری سند سے مروی نہ ہو تو بجز امام سعید بن المسیبؒ کے سبھی ناقابل قبول ہیں۔دوسری یا تیسری صدی ہجری کی مرسل امام شافعی ؒکے نزدیک قطعی قابل قبول نہیںکیونکہ اس کی سند نہیں ہے۔ ورنہ بغیر سند کے روایات کا ایک سلسلہ چل نکلے گا اور ہر کوئی جو منہ میں آیا کہہ دے گا۔لقال من شاء ما شائ۔

۷۔ صحیح و متصل حدیث کے مقابلہ میں، حدیث مرسل و موقوف اور منقطع کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔

۸۔ امام شافعیؒ کے دور میں اقوال صحابہ جمع ہو گئے تھے ۔بعض اقوال صحیح حدیث کے برعکس تھے اس لئے امام محترم نے یہ طے کیا کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں اقوال صحابہ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔

۹۔ ہر عام حکم میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں اور عام قطعی نہیں ہوتا۔

۱۰۔ جلب منفعت سے دفع مضرت اولی ہے۔یعنی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے نقصان کو دور کرنا زیادہ بہتر ہے۔

۱۱۔ ایک اصل کو دوسرے اصل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہاں اگر اس کی علت دریافت ہو جائے توفرع کو اصل پر قیاس کرنا چاہئے۔

۱۲۔ اصل کے لئے کیوں اور کیسے کی بات نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ بات فرع کے لئے کہی جاسکتی ہے کہ کیوں اور کیسے۔

۱۳۔ اجماع وہاں ہوگا جہاں کتاب وسنت خاموش ہوں اور پھر قابل قبول بھی ہوگا ورنہ نہیں۔

۱۴۔ اگر اجماع بھی نہ پائے تو پھر مجتہد ،قیاس میں غور وخوض کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مشہور شافعی کتب:​
یہ وہ کتب ہیں جن پر شافعی مسلک قائم ہے۔
۱۔ الرسالہ: اصول فقہ میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے جو امام محترم نے لکھی۔ تالیف کی وجہ یہ بنی کہ امام شافعیؒ نے محسوس کیا کہ فقہاء کرام کے ہاں طریقہ استنباط غیر واضح اور غیر معین سا ہے۔ اس لئے یہ کتاب لکھی جس میں کتاب وسنت کی نصوص، ناسخ ومنسوخ، علل احادیث، قبولیت حدیث کی شروط، خبر واحد، اجماع اور قیاس ان کے مراتب ، اجتہادوغیرہ۔ کے وقیع مباحث ہیں۔ فقہ اسلامی کو انہوں نے ٹھوس اصولوں کی بنیاد دی۔ محض مخصوص فتاوی اور قضایا پر اکتفاء نہیں کیا۔

انہوں نے کتاب وسنت یا اخبار آحاد کے منکرین سے بحث کرنے کا طریقہ بھی بتایاہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کی تالیف کے بعدخصوصًا اہل الرائے اور اہل الحدیث کے مابین فقہی واصولی مناہج میں مباحثات شروع ہو گئے۔

الرسالۃ کی تدوین، قرآن وسنت رسول میں وارد مختلف اصولوں کی بنیاد پر ہوئی۔ جس میں تاویلات سے گریز تھا۔ یہ اصول جہاں حدیث کی حفاظت کے لئے تھے وہاں فقہ اسلامی کے لئے بھی تھے۔ اس کے مقبول عام ہونے کے بعد علماء نے اسے بنیاد بنا کر اصول فقہ کی تالیف پر جب طبع آزمائی کی تو شو افع، حنابلہ واحناف نے اپنی مخصوص سوچ اور تاثیر کے تحت امام شافعیؒ ہی کی طرز پر تشریح ، توضیح اور تفصیل کی جس میںکچھ اضافے بھی کئے۔ اس طرح ان مذاہب میں واضح طور پراپنے اپنے اصول بنے جن سے فقہ اور اصول فقہ منقسم ہوگئے۔اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے یہ سب کاوشیں پیش کیں۔ وہ ان کے متبع بن کر رہے نہ کہ مبتدع۔ اپنے اصولوں کے لئے انہوں نے کتاب وسنت اور سیرت صحابہ پر انحصار کیا تھا یا پھر ائمہ ہدی پر۔

۲۔ الأم : یہ کتاب اپنے شاندار اسلوب، اور دقت تعبیر میں منفرد ہے۔ علمی مناظراتی انداز ہے جو تفہیم مسائل میں خاصا موثر ہے۔ اس کتاب کے سات اجزاء ہیں۔ امام محترمؒ نے جو دوسری کتب وقتا فوقتا لکھیں انہیں بھی اس کے ساتھ ملا دیا ہے جیسے: جماع العلم، ابطال الاستحسان، اختلاف مالک والشافعی، الرد علی أہل المدینۃ، اختلاف ابی حنیفۃ وابن ابی لیلی اور سیر الأوزاعی وغیرہ۔

۳۔ مسند الإمام الشافعی: نیشاپور کے شاگردوں نے کتاب الأم اور دیگر کتب میں مروی امام محترم کی روایات کو اس میں یک جا کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ امام محترم ؒکی بیشتر روایات اس کتاب میں نہیں سما سکیں۔

۴۔ مختصر المزنی: شافعی مسلک کی بنیادی کتب میں سے ہے۔ اس کتاب کی ترتیب بھی الرسالہ کی طرز پر ہے۔ متاخر شوافع نے اس کی شروحات لکھیں اور حاشیے بھی چڑھائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بعض مشہور فقہی اصطلاحات​
کتب شافعیہ میں بعض ذیلی مصطلحات بار ہا مستعمل ہوئی ہیں۔

۱۔ مفتی: جب مفتی امام محترم کے کسی مسئلہ کے بارے میں دو قول پائے تو مفتی کے لئے یہ لازمی ہوگا کہ ان دو میں اسے اختیار کرے جسے سابق فقہاء مذہب نے ترجیح دی ہو۔ ورنہ وہ توقف کرے۔ جب مسئلہ مجتہد شوافع کے ہاں متعدد صورتوں کا حامل ہو یا اس کی روایت کی مختلف اسانید ہوں تومفتی اس صورت کو لے گا جسے سابق مجتہدین نے ترجیح دی ہو۔ یہی وہ اصول ہے جسے اکثر فقہاء شوافع نے صحیح قرار دیا ہے۔ پھر درجات کے اعتبار سے اعلم کو ترجیح دی جائے گی پھر اورع کو۔ اگر مفتی ترجیح کی کوئی شکل نہ پائے تو اس رائے یافتوی کو مقدم رکھے گا جسے امام بویطی، ربیع المرادی اور المزنی نے امام شافعی سے روایت کیا ہے۔

۲۔ الأظہر: امام شافعیؒ کے دو یا دو سے زیادہ اقوال میں اختلاف کی صورت میں کونسا قول زیادہ قوی ہے۔یہی مقابلہ قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

۳۔ المشہور: امام شافعیؒ کے اقوال میں جو مشہور ہو۔ ان اقوال میں اختلاف نمایا ں نہیں ہوتا۔ مشہور کا مقابل اپنے ضعف کی وجہ سے غریب کہلاتا ہے۔

۴۔الأصح: دو یا دو سے زیادہ صورتوں میں صحیح ترین قول۔ یہ اقوال وہ ہوتے ہیں جنہیں شوافع امام شافعیؒ کے بنائے ہوئے اصول کی بناء پر ان کے کلام سے نکال لاتے ہیں۔ یا پھر ان کے قواعد سے استنباط کرتے ہیں۔ جو صورت مذکورہ ہوتی ہے اس میں اختلاف نمایاں ہو سکتا ہے۔ اس کا مقابل صحیح کہلاتا ہے۔

۵۔ الصحیح: دو یا دو سے زیادہ صورتوں میں کون صحیح ہے اور کون ضعیف؟ شوافع علماء میں یہ اختلاف کوئی زیادہ قوی نہیں ہوتا۔ اس کا مقابل ضعیف ہوتا ہے۔

۶۔ المذہب: دو یا دو سے زیادہ آراء کی صورت میں کسی ایک رائے کے اظہار میں اس طرح کا اختلاف کہ کوئی ایک مسئلہ میں دو قول یا دو صورتیں پیش کررہا ہے۔ اور کوئی ان میں سے ایک کی تردید کررہا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تردید راجح ہو یا نہ ہو۔

۷۔ النص: اس سے مراد امام شافعی ؒکی اپنی کوئی بیان کردہ نص۔ اس کا مقابل وجہ ضعیف، یا مَخرَج ہوتا ہے۔ بہرحال کبھی افتاء بغیر نص کے بھی ہو سکتا ہے۔

۸۔ الجدید: قدیم مذہب کی مقابل یہ اصطلاح ہے جس سے مراد وہ قول ہے جو امام محترم نے مصر میں تالیف یا افتاء میں بیان فرمایا۔ امام محترم کے جدید اقوال کے راوی: البویطی، المزنی، الربیع المرادی، حرملہ، یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن الزبیر المکی اور محمد بن عبد اللہ بن الحکم وغیرہ ہیں۔ پہلے تین وہ اصحاب ہیں جنہوں نے اصل بوجھ اٹھایا۔ باقی خوشہ چین ہیں۔
 
Top