پہلا دور:
رسول اکرمﷺ کا زمانہ، زمانہ وحی تھا۔ شرعی احکام آپ پر نازل ہوتے۔ جنہیں آپ ﷺ صحابہ کرامؓ تک پہنچا دیتے۔ صحابہء کرامؓ کیلئے بھی شریعت کا مصدر Sourceیہی قرآن و سنت تھے۔اللہ تعالی نے انہیں فہم دین کے ساتھ اطاعت کا بھرپور جذبہ عطا کیا تھا۔ یہی کچھ انہوں نے آپ ﷺ کی صحبت میں رہ کر سیکھا تھا وہ (receptive)تھے ۔اس احسان عظیم کو ان ان پڑھ لوگوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جو اللہ تعالی نے ان پر کیا تھا:
{ہوالذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلو علیہم آیتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلل مبین}
وہی تو ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول کو اٹھایا جو ان پر تلاوت آیات کرتا ہے ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے اور انہیں تعلیم کتاب وحکمت بھی دیتا ہے۔
ایمان کے بعد انہوں نے ذہنی ارتقاء کا جو سفر شروع کیا وہ حالات ، واقعات اور مسائل کو سمجھاتا گیا۔ انہیں فقہی مسائل کی تمام باریکیوں کا علم بار گاہ رسالت سے معلوم ہو جایا کرتا تھا۔ کیونکہ وہ بیشتر معمول بہا مسائل کو جاننے کیلئے جہاں آپﷺکی خدمت اقدس میں سوال کرتے،وہاں بغور سنتے اوربہت باریک بینی سے اسے ملاحظہ بھی کرتے تھے۔ سوال کرنے اور مین میکھ نکالنے کی بجائے وہ آپ ﷺ سے جو سنتے ، بس اس پر عمل کرلیا کرتے تھے۔اس لئے کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی سے وہ جان چکے تھے کہ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتے ہیں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمیں کس کی اطاعت ومحبت کرنی چاہئے۔
آپؐﷺکے زمانہ میں یہی فقہ تھی جو صرف اور صرف وحی پر مبنی تھی۔یہ فقہ صحابہ کرام کو اہل علم میں شامل کرگئی۔ مگر ظاہر ہے مدوّن نہ تھی۔ ان دنوں شرعی احکام میں صحابہ وتابعین میں وہ بحث و تمحیص نہیں تھی جو بعد کے ادوار میں فقہاء کرام کی امکانی جدوجہد کا نتیجہ بنی۔ جن میں ارکان اسلام اور اس کی فروعات کو چند شروط و قواعد کے ساتھ اصطلاحی نام دئیے گئے۔ تاکہ ان کی اہمیت واضح ہو۔
صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کو وضوء کرتے، نماز پڑھتے، حج کرتے ، روزہ رکھتے اور معاملہ کرتے دیکھا۔ اور آپﷺ سے ہر ایک کے بارے میں اہمیت بھی سنی۔ اور اسے وہ حیثیت دی جو ایک باعمل ، خدا ترس اور حب رسول سے سرشار کوئی بھی مومن دے سکتا ہے۔ اور اس کے بہتر نتائج بالحاح رب کریم سے چاہتا ہے۔
آپؐ سے انہوں نے سنا:
وَیْلٌ لِلأعْقَابِ مِنَ النَّارِ (م) خشک ایڑیوں کیلئے آگ کا عذاب ہے۔ یہ بھی آپؐ نے فرمایا:
اِرْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوئَ کَ۔ واپس جاؤ اچھی طرح وضوء کرو۔ (أبوداؤد) نماز کے بارے میں آپ ﷺسے یہ سنا:
صَلُّوا کَمَا رَایْٔتُمُونِیْ أُصَلِّیْ۔ نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھو۔ حج کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا:
خُذُوا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ۔ مجھ سے اپنے لئے مناسک حج سیکھ لو۔
یہ سب ارشادات وآثار اپنی جگہ بلاشبہ اہم ہیں۔ مگر صحابہ کرامؓ نے ان تمام عبادات وغیرہ کو بغیر یہ سوچے اور بغیر یہ سنے کہ یہ رکن ہے۔ یہ فرض ہے۔ یہ مستحب ہے یا یہ ادب ہے۔ آپﷺ کو بغور دیکھتے گئے۔ اور دل وجان سے ان پر عمل کرتے گئے۔ ان کے بارے میں سوال شاذو نادرہی کیا کرتے۔ آپﷺ نے نہ تو صحابہ کو بتایا کہ وضوء کے چار فرض ہیں یا چھ۔ اور نہ ہی یہ کہ جہری نمازمیں سورہء فاتحہ سے قبل بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنافرض ہے یا سنت۔ مگر بلاشبہ آپ ﷺ کے ادا شدہ الفاظ او رکیفیت سے صحابہء کرامؓ اس مسئلہ کی اہمیت کو بآسانی سمجھ جاتے تھے۔ آپ ﷺ کے دور میں سنت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے احکام میں صحابہ کرام نے اجتہادات بھی کئے۔ مگر آپ ﷺنے نہ انہیں ڈانٹا ڈپٹا اور نہ ہی ایسا کرنے کو غلط کہا۔ اس لئے اچانک ایسا معاملہ پیش آنے پر جبکہ وہ آپ سے دور ہوں یا آپ کہیں ہوں تو انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا کہ وہ سوچیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔
٭…نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھنے کامعاملہ ہو یا یمن میں تین شخصوں کا ایک لڑکے کے بارے میں دعوے دار ہونے کا مقدمہ اور قرعہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ دینا اور باقیوں کو تہائی تہائی دیت ادا کرنے کا کہنا۔ آپ کو جب اس فیصلے کا علم ہوا تو آپ خوب ہنسے یہاں تک کہ مسوڑھے تک نظر آنے لگے۔
٭…سعدؓ بن معاذ نے بنوقریظہ کے بارے میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا جسے آپ نے پسند فرماکے کہا: تو نے ان کے بارے میں ٹھیک وہی حکم کیا ہے جو اللہ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر فرمایا تھا۔
٭…مجزر مدلجی نے قیاس و قیافہ کرکے جب زید و اسامہ کے قدم دیکھ کر کہا کہ آپس میں ایک ہیں یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔تو حضور اکرمﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ چہرہ مبارک کی رگیں چمکنے لگیں۔ جو اس قیاس کی صحت اور صحیح مطابقت کی وجہ سے تھی۔ بظاہر حضرت زید سفید رنگ کے تھے اور اسامہ سیاہ رنگ کے۔ لیکن قیافہ شناس نے فرع کو اصل سے اور نظیر کو نظیر سے ملا دیا۔ اس لئے فیصلوں میں سیاہی اور سفیدی کا فرق غیر مؤثر ہوتا ہے۔آپ کی یہ رضا مندی تب ہی ہوتی تھی جب لوگ واپس آکر معاملے کی وضاحت کر دیتے۔ غلط ہوتا تو اسے درست فرما دیتے ورنہ رضامندی ظاہر فرماتے۔یہ زمانہ نبوت کے سال اول سے لے کر آپ ﷺ کی وفات یعنی سن ۱۱ ہجری تک محیط ہے