• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
یاد رکھنے کی بات :​

ہماری شریعت کا مصدر(Source) وحی الٰہی ہے۔اس کا نازل کرنے والا رب العالمین ہو۔ جو دنیا میں محض اس لئے آئی ہو کہ حیات انسانی سے متعلق جملہ امور ومسائل کا حل پیش کردے ۔کیا ایسی شریعت میں اختلافات کی بھرمار ہوگی؟ اللہ تعالی کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے رسول رحمت پر اپنی شریعت نازل کی اور اہل ایمان کو عطا کی۔ اس شریعت میں سراسررحمت ہی رحمت ہے۔ مکمل یگانگت وہم آہنگی ہے۔ اختلاف نہیں۔ جب اہل علم نئے مسائل پر غور وفکر کرکے اپنی آراء جب دیتے ہیں تو لامحالہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیںجو دینی وسعت ہے ۔ اہل درد صرف اس رائے کو ترجیح دے دیتے ہیں جو صحیح مدلل ہو، وزنی ہو۔ اس باب میں تعصب شامل نہیں ہونا چاہئے جوبہر صورت مذموم ہے۔

٭…دنیا میں انسان کو نت نئے حوادث کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ناگزیر ہیں۔ہر لمحہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔شریعت نے ان کی تفاصیل کچھ اس انداز سے دی ہیں کہ ان میں بعض ناقابل تغیر ہیں اور بعض میں اجتہاد واستنباط کی گنجائش ہے۔ مثلا احوال شخصیہ یعنی عقائدوعبادات، نکاح ومواریث اوروفات جیسے امور ناگزیر ہیں۔ ان کے لئے ایک صحیح رخا حکم دے کر انسانی معاشرے کو سنبھالا ہے۔ان میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ہے تو وہ فرد کی طرف سے ہے شریعت اس میں قصوروار نہیں۔ اس اختلاف کی اصلاح قرآن وسنت کی روشنی میں ہونی چاہئے۔ مگر جو امور نئے حوادث کی وجہ سے تغیر پذیر ہیں ان کے بارے میں شریعت نے کچھ عام قواعد متعارف کرائے جن سے وقتی حالات وحوادث کے احکام، استنباط کیے جاسکتے ہیں۔ ان استنباطات میں احوال یا ماحول کی مناسبت سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ فقہاء کرام کے اختلاف کو بھی اسی نظر سے دیکھنا چاہئے۔

٭…علاوہ ازیں دین کی مبادیات اور اصولوں میں علماء دین کے مابین کبھی اختلاف پیدا نہیں ہوا اختلاف جب بھی رونما ہوا تو فروعات دین میں ہوا ہے۔ اور فکرو نظر کا اختلاف ہونا باعث حیرت نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ انسانوں کا کون سا بنا یا ہوا ایسا قانون ہے جس میں اتفاق ہو۔ اختلاف کی گنجائش ان میں بھی رہتی ہے۔ اس لئے فروعی مسائل میں جو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے وہ ہمارے مجتہدین کے نصوص شرعیہ( Text of Qur'an &Hadith) کو واقعات پر منطبق (Apply) کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فقہ اسلامی میں مصالح عامہ کا خیال​

اسلامی شریعت ایک بڑی اہم اساس پر قائم ہوئی۔ لوگوں کی مصالح کا خاص خیال رکھنا۔ یعنی ان سے مفاسد اور مضر کو دور کرنا اور مفید ومناسب مہیا کرنا۔ یہ ایک ایسا جامع اصول ہے جو شریعت کے تمام احکام پر محیط ہے۔اس لئے شریعت کے ہر حکم میں یہ چیز ضرور پائی جاتی ہے کہ مفاسد ومضر کو دور کرکرنا یا مفید ومناسب کومہیا کرنا۔شرعی احکام دیتے وقت انسان کی ان ضرورتوں کا جو خاص خیال رکھا گیا ہے اسی سے اسلامی فقہ کے مزاج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔یہ بالاختصار عرض خدمت ہے ورنہ تفصیل میں جائیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی شریعت اپنے پہلے دور میں متعدد بنیادوں پر قائم تھی۔ جن میں سے اہم درج ذیل ہیں:

رفع حرج: حرج عربی زبان میں تنگی کو کہتے ہیں۔ جس کا شرعی معنی یہ ہے کہ احکام دیتے وقت یہ لحاظ رکھا گیا کہ لوگ شرعی حکم پر عمل کے وقت تنگی محسوس نہ کریں۔یہ مطلب نہیں ہر مشقت جو شرعی احکام بجالاتے وقت مکلف کو جھیلنا پڑتی ہے وہ اٹھا لی گئی کیونکہ کوئی عبادت ہو یا تکلیف، اس میں مشقت تو ہے خواہ وہ معمولی ہو یا بہت ہی تھوڑی۔

رفع حرج کے دلائل: قرآن پاک میں:​

{ماجعل علیکم فی الدین من حرج} الحج: اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔

{ما یرید اللہ لیجعل علیکم من حرج} المائدہ: ۶۔اللہ تعالی نہیں چاہتا کہ وہ تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی ڈال دے۔

{یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر} البقرۃ: ۱۸۵) اللہ تعالی تم سے آسانی کرنا چاہتا ہے تنگی نہیں کرنتا چاہتا۔

احادیث رسول میں:​

آپ ﷺ کا ارشاد اور معاد بن جبل وابوموسی اشعری کو یہ نصیحت: یَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، بَشِّرَا وَلاَتُنَفِّرَا۔( صحیح بخاری)

اسی طرح : إنَّ الدِّینَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَہُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا۔( صحیح بخاری)

ام المؤمنین کی آب ﷺ کے مآاج کے باری میں یہ اہم خبر: أَنَّہُ مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلاَّ اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا، مَا لَمْ یَکُنْ إِثْماً۔(صحیح بخاری)
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رفع حرج کی مثالیں:​

…پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کا استعمال

…نمازی جس طرح بھی نماز پڑھنے کی استطاعت رکھتا ہے ویسے ہی پڑھ لے۔ جوکھڑا نہیں ہوسکتا وہ بیٹھ کر اور جو بیٹھ کر نہیں وہ پہلو پہ لیٹے لیٹے پڑھ لے۔

… رمضان میں مسافر اور بیمار کو روزہ نہ رکھنے اجازت۔ جب صحت یاب ہو تو ان کی قضا دے دے۔

…موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت اس لئے کہ ان کے اتارنے اور پاؤں کو دھونے میں مشقت ہے۔

… طلاق کی اجازت، رجوع کی اجازت اور طلاق کی تعداد کا تعین کہ تین تک نہ پہنچ پائیں۔

…لعان کی اجازت۔ وغیرہ

۲۔قلتِ تکلیف: کم سے کم اعمال دئے جائیں تا کہ لوگ دین کو بآسانی اور خوشی سے اپنا سکیں۔

۳۔تدریج: کسی بھی بدعادت کو چھڑانے اور اسے اچھائی کی طرف لانے کا تدریجی پہلو نظر انداز نہ کیا جائے۔

آج ان تینوں پہلوؤں کو نظر انداز کرکے شریعت یا فقہ اسلامی کو بہت مشکل بنادیا گیا ہے اور ایسے مسائل پیش کئے جاتے ہیںجن کا فقہ سے یا شریعت کے مزاج سے کوئی تعلق نہیں۔ آپﷺ کا یہ ارشاد گرامی گو سخت ہے مگر اسی مزاج کی نشان دہی کرتا ہے:
لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِی مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوفِ۔اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت فرض نہیں۔ بلاشبہ اطاعت تو معروف میں ہوا کرتی ہے۔

اس کی وضاحتی مثال یہ ہے کہ کسی سفر میں مسلمانوں کے( أولی الأمر) امیر نے ان سے کہا : آگ میں کود جاؤ۔ کچھ نے ارادہ بھی کرلیا مگر آپﷺ کو جب علم ہوا تو فرمایا: اگر یہ کود جاتے تو ہمیشہ آگ میں ہی رہتے۔اس لئے کہ یہ صحیح اسلامی فقہ نہیں ہے۔اس واقعہ میں غور طلب بات یہ ہے کہ:

…ان کا کودنا کیا اپنے امام اور اولی الأمر کے فرمان کے مطابق نہیں تھااور کیااس کی بجاآوری وہ اپنے اوپر واجب نہیں سمجھتے تھے؟

… آپ ﷺ کے سخت ارشاد کا منشأ یہ ہے کہ ـانہوں نے اپنی سمجھ پر زور کیوں نہ دیااور صرف أولی الأمر کے حکم پر اللہ کی نافرمانی کرنے کے لئے تیار ہوگئے؟۔

… اطاعت کے حکم کو انہوں نے عام بنا دیاجس میںوہ چیز بھی داخل کردی جو شارع کی منشأ کے خلاف تھی بلکہ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ حرکت دین کے خلاف ہے۔

… باوجود اس کے انہوں نے اعلیٰ بات یا اعلی پہلو سمجھنے کی کوشش نہ کی اور خود کو ہلاک کرنے اور اپنی جانوں پر عذاب کرنے کی ٹھان لی اور وہ بھی بغیر ثبوت اور دلیل کے کہ یہ اللہ و رسول کی اطاعت بھی ہے یا نہیں؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
لہٰذا جب معمولی غلطی پر اس قدرسخت وعید ہے کہ وہ اگر ایسا کر لیتے تو جہنمی بن جاتے تو پھر ان لوگوں کی سزا کا تصور تو بہت بھیانک نظر آتا ہے جو کھلے عام ان احکام کے خلاف فتوے دیں یا کسی عمل سے باز رکھیںجو ہادی برحق نے کرکے دکھا دیا ہو۔

یہی دین کا مزاج ہے اور ہر عمل میں کار فرما ہے۔ اس کے بغیر دین کی صحیح اشاعت نہیں ہوسکتی۔ اولی الامرکی اطاعت کیجئے مگر آنکھیں کھول کر۔ بند آنکھیں کسی گڑھے میں گرا سکتی ہیںاوربے بصیرتی بہت بڑا اندھا پن ہے۔ نیزیہ علم مسلمان کو خواہشات کا بندہ بھی نہیں بننے دیتا اور نہ ہی طوق و سلاسل کے بوجھ تلے دبنے دیتا ہے۔یہ اتنا آسان دین ہے کہ لوگ فکری ہم آہنگی کے ساتھ شریعت کے جھنڈے تلے جمع ہو سکتے ہیں۔ اس لئے تو شریعت اپنی وسعت کے باوجود فکری اتحاد پر اکساتی ضرور ہے مگر اس کی اجازت نہیں دیتی کہ چار افراد رائے دیں اور پھر ہر ایک کی رائے پر سختی سے جمود اختیار کر کے اسے مذہب بنالیا جائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اس انتشار فکر اور تعصب نے مسلمانوں کوکہیں کا نہیں چھوڑا۔

دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ کتاب اللہ کو ہم نے مشکل کتاب کہہ دیا اور اس کے فہم کے لئے سولہ یا ساٹھ علوم کی شرط عائدکر دی ۔ عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ قرآن اگر سمجھنا اتنامشکل ہے تو پھر یہ اترا کیوں؟ اور اترا تو کس کے لئے؟ یہ سوچ ہدی للناس کا کیا مفہوم دیتی ہے؟

احادیث رسول کو بھی اہل سنت کے ایک بڑے طبقے نے مشکل موضوع بنادیا۔ روایت ودرایت کا سہارا لے کر صحیح حدیث کی ایسی تاویلات کیں کہ لوگ کیا ایک طالب علم بھی متنفر ہوجائے۔ مگر اپنی فقہ کی انتہائی دقیق، مشکل اور پیچیدہ کتب کو آسان سجھا دیا اور اس کے مسائل بھی آسان فقہ لگے۔وہاں اختلاف بھی اتحاد نظر آیا۔مگر ایسا رویہ حدیث رسول کے ساتھ نہ برتا جاسکا۔ کاش کچھ محنت قرآن وحدیث کی تفہیم پر بھی صرف ہوتی۔ اور آسان قرآن یا آسان حدیث مسلمان کو باور ہوتی۔ اللہ تعالی جزائے خیر دے ان پبلشرز کو جو اب قرآن وحدیث کے علم کوسہل اور خالص صورت میں پیش کر کے ایسی غلط فہمیاں دور کررہے ہیں۔ ان مطبوعہ کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فقہاء عظام کی آراء میںخدا خوفی اور وسعت علمی ہے۔ وہ محترم بھی رہے اور اختلاف کا حق بھی دیا۔ نہ انہیں ایک دوسرے پر غصہ آیا اور نہ ہی وہ گستاخ ٹھہرے اور نہ ہی کسی نے ان سے تعاون کو حرام قرار دیا۔

٭٭٭٭٭​


امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے کسی نے چلتے چلتے یہ کہا: مجھے کوئی حدیث بیان کردیجئے تاکہ میں آپ کو یاد رکھ سکوں۔ انہوں نے فرمایا: اگر مجھے یاد ہی رکھنا ہے تو تم مجھے یاد کرلینا کہ میں نے ان سے اس طرح حدیث رسول پوچھی تھی مگر انہوں نے نہ سنائی۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آصف مغل صاحب!
میں نے بھی ذاتی پیغام میں اس کتاب کا ذکر کیا تھا آپ نے مجھے ای میل کا کہا ہے ، اگر پی ڈی ایف فائل کو یہی پر شئیر کردیا جائے تو دیگر دوست بھی اس سے مستفیض ہونگے۔
شکریہ
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
دوسرا باب:

تاریخ تدوین فقہ اور اس کے مراحل​

اسلام بلاشبہ ایک ترقی پذیر دین ہے زندہ مسائل کا حل پیش کرنا اس کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس کے مآخذ میں جتنی تیسیر(facilitation) اوریّسر exibility flہے وہ شاید انسان کی محدود سوچ میں نہیں سما سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضرورت کے مطابق نزول وحی اس طرح ہوئی کہ وقتی مسئلے حل ہوتے گئے۔ یہی دین کا مزاج ہے کہ وہ اپنا تعارف ایک ثابت، ٹھوس مگر ترقی پذیر دین کی حیثیت سے کراتا گیا اور اسی پر صحابہ وتابعین وغیرہ کی اٹھان ہوئی۔ اس لئے تاریخی اعتبار سے فقہ اسلامی کے عموما ًدو ادوار نظر آتے ہیں۔ ترقی پذیر دور اور جمود کا دور۔ ترقی پذیر دور کے تین مراحل ہیں جن میں زمانہ رسالت، دور صحابہ اور دور تابعین وتبع تابعین شامل ہیں۔ جمود کا دور ایک طویل دور انئے کا ہے جو ان ازمنہ ثلاثہ کے بعد سے تاحال جاری وساری ہے جو عہد تقلید کہلاتا ہے۔ ذیل کی مختصر تاریخ کو بہ اختصار سمجھئے۔

تاریخ:
عربی زبان میں وقت اور اس کے حالات کا تعارف اور اس سے تفصیلی آگاہی کو تاریخ کہتے ہیں۔جیسے عرب کہتے ہیں: أَرَّخْتُ الکِتَابَ: میں نے کتاب کو ایک تاریخ بنایا یعنی اس میں تاریخ کو اس طرح بیان کیا کہ اس میں اس کے اختتام کا وقت تک بیان کردیا۔ اصطلاح میں ایسے علم کو کہتے ہیں جو واقعات وحوادث پر مشتمل ہو۔ ان کے اوقات وزمانہ کا ذکر کرے اور یہ بتائے کہ اس نے حیات انسانی پر کیا اثرات ڈالے ہیں۔

ہر علم کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس میں اس علم کی نشوونما، اس کے ترقیاتی مراحل، اس کے بانی ومددگار اور ان کے افکار وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہوتا ہے۔اسی طرح فقہ اسلامی کی بھی اپنی تاریخ ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پہلا دور:

زمانہ رسالت میں فقہ:
رسول اکرمﷺ کا زمانہ، زمانہ وحی تھا۔ شرعی احکام آپ پر نازل ہوتے۔ جنہیں آپ ﷺ صحابہ کرامؓ تک پہنچا دیتے۔ صحابہء کرامؓ کیلئے بھی شریعت کا مصدر Sourceیہی قرآن و سنت تھے۔اللہ تعالی نے انہیں فہم دین کے ساتھ اطاعت کا بھرپور جذبہ عطا کیا تھا۔ یہی کچھ انہوں نے آپ ﷺ کی صحبت میں رہ کر سیکھا تھا وہ (receptive)تھے ۔اس احسان عظیم کو ان ان پڑھ لوگوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا جو اللہ تعالی نے ان پر کیا تھا:

{ہوالذی بعث فی الأمیین رسولا منہم یتلو علیہم آیتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلل مبین}
وہی تو ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول کو اٹھایا جو ان پر تلاوت آیات کرتا ہے ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے اور انہیں تعلیم کتاب وحکمت بھی دیتا ہے۔

ایمان کے بعد انہوں نے ذہنی ارتقاء کا جو سفر شروع کیا وہ حالات ، واقعات اور مسائل کو سمجھاتا گیا۔ انہیں فقہی مسائل کی تمام باریکیوں کا علم بار گاہ رسالت سے معلوم ہو جایا کرتا تھا۔ کیونکہ وہ بیشتر معمول بہا مسائل کو جاننے کیلئے جہاں آپﷺکی خدمت اقدس میں سوال کرتے،وہاں بغور سنتے اوربہت باریک بینی سے اسے ملاحظہ بھی کرتے تھے۔ سوال کرنے اور مین میکھ نکالنے کی بجائے وہ آپ ﷺ سے جو سنتے ، بس اس پر عمل کرلیا کرتے تھے۔اس لئے کہ قرآنی آیات اور تعلیمات نبوی سے وہ جان چکے تھے کہ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتے ہیں اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہمیں کس کی اطاعت ومحبت کرنی چاہئے۔

آپؐﷺکے زمانہ میں یہی فقہ تھی جو صرف اور صرف وحی پر مبنی تھی۔یہ فقہ صحابہ کرام کو اہل علم میں شامل کرگئی۔ مگر ظاہر ہے مدوّن نہ تھی۔ ان دنوں شرعی احکام میں صحابہ وتابعین میں وہ بحث و تمحیص نہیں تھی جو بعد کے ادوار میں فقہاء کرام کی امکانی جدوجہد کا نتیجہ بنی۔ جن میں ارکان اسلام اور اس کی فروعات کو چند شروط و قواعد کے ساتھ اصطلاحی نام دئیے گئے۔ تاکہ ان کی اہمیت واضح ہو۔

صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کو وضوء کرتے، نماز پڑھتے، حج کرتے ، روزہ رکھتے اور معاملہ کرتے دیکھا۔ اور آپﷺ سے ہر ایک کے بارے میں اہمیت بھی سنی۔ اور اسے وہ حیثیت دی جو ایک باعمل ، خدا ترس اور حب رسول سے سرشار کوئی بھی مومن دے سکتا ہے۔ اور اس کے بہتر نتائج بالحاح رب کریم سے چاہتا ہے۔

آپؐ سے انہوں نے سنا: وَیْلٌ لِلأعْقَابِ مِنَ النَّارِ (م) خشک ایڑیوں کیلئے آگ کا عذاب ہے۔ یہ بھی آپؐ نے فرمایا: اِرْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوئَ کَ۔ واپس جاؤ اچھی طرح وضوء کرو۔ (أبوداؤد) نماز کے بارے میں آپ ﷺسے یہ سنا: صَلُّوا کَمَا رَایْٔتُمُونِیْ أُصَلِّیْ۔ نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتا دیکھو۔ حج کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا: خُذُوا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ۔ مجھ سے اپنے لئے مناسک حج سیکھ لو۔

یہ سب ارشادات وآثار اپنی جگہ بلاشبہ اہم ہیں۔ مگر صحابہ کرامؓ نے ان تمام عبادات وغیرہ کو بغیر یہ سوچے اور بغیر یہ سنے کہ یہ رکن ہے۔ یہ فرض ہے۔ یہ مستحب ہے یا یہ ادب ہے۔ آپﷺ کو بغور دیکھتے گئے۔ اور دل وجان سے ان پر عمل کرتے گئے۔ ان کے بارے میں سوال شاذو نادرہی کیا کرتے۔ آپﷺ نے نہ تو صحابہ کو بتایا کہ وضوء کے چار فرض ہیں یا چھ۔ اور نہ ہی یہ کہ جہری نمازمیں سورہء فاتحہ سے قبل بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنافرض ہے یا سنت۔ مگر بلاشبہ آپ ﷺ کے ادا شدہ الفاظ او رکیفیت سے صحابہء کرامؓ اس مسئلہ کی اہمیت کو بآسانی سمجھ جاتے تھے۔ آپ ﷺ کے دور میں سنت کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے احکام میں صحابہ کرام نے اجتہادات بھی کئے۔ مگر آپ ﷺنے نہ انہیں ڈانٹا ڈپٹا اور نہ ہی ایسا کرنے کو غلط کہا۔ اس لئے اچانک ایسا معاملہ پیش آنے پر جبکہ وہ آپ سے دور ہوں یا آپ کہیں ہوں تو انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا کہ وہ سوچیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔

٭…نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھنے کامعاملہ ہو یا یمن میں تین شخصوں کا ایک لڑکے کے بارے میں دعوے دار ہونے کا مقدمہ اور قرعہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ دینا اور باقیوں کو تہائی تہائی دیت ادا کرنے کا کہنا۔ آپ کو جب اس فیصلے کا علم ہوا تو آپ خوب ہنسے یہاں تک کہ مسوڑھے تک نظر آنے لگے۔

٭…سعدؓ بن معاذ نے بنوقریظہ کے بارے میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا جسے آپ نے پسند فرماکے کہا: تو نے ان کے بارے میں ٹھیک وہی حکم کیا ہے جو اللہ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر فرمایا تھا۔

٭…مجزر مدلجی نے قیاس و قیافہ کرکے جب زید و اسامہ کے قدم دیکھ کر کہا کہ آپس میں ایک ہیں یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔تو حضور اکرمﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ چہرہ مبارک کی رگیں چمکنے لگیں۔ جو اس قیاس کی صحت اور صحیح مطابقت کی وجہ سے تھی۔ بظاہر حضرت زید سفید رنگ کے تھے اور اسامہ سیاہ رنگ کے۔ لیکن قیافہ شناس نے فرع کو اصل سے اور نظیر کو نظیر سے ملا دیا۔ اس لئے فیصلوں میں سیاہی اور سفیدی کا فرق غیر مؤثر ہوتا ہے۔آپ کی یہ رضا مندی تب ہی ہوتی تھی جب لوگ واپس آکر معاملے کی وضاحت کر دیتے۔ غلط ہوتا تو اسے درست فرما دیتے ورنہ رضامندی ظاہر فرماتے۔یہ زمانہ نبوت کے سال اول سے لے کر آپ ﷺ کی وفات یعنی سن ۱۱ ہجری تک محیط ہے
 
Top