- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
میدان اجتہاد:
اہل علم نے اجتہاد کہاں اور کس مسئلے میں کرنا ہے ؟ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ ہے: ہُوَ کُلُّ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ۔جن احکام ومسائل میں دلیل قطعی نہیں ان میں اجتہاد ہوسکتا ہے۔اس لئے جو مسائل دینیہ ضرورۃ معلوم ہیں جیسے پانچ نمازیں، وجوب حج، صوم، زکوۃ وغیرہ ان میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ احکام بھی اس سے خارج ہیں جو دلیل قطعی ثبوت یا قطعی دلالت سے معلوم ہیں جیسے: تحریم خمر، وسرقہ، یا لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ۔
جن مسائل میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو یا نص اپنی دلالت میں ظنی ہوچاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا خبر واحد۔ یا جن مسائل میں کوئی اجماع نہ ہوسکا ہو۔ وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مجتہد کا کام یہ ہوگا کہ وہ خبر واحد کے لئے محدثین کی طے شدہ شرائط کے مطابق، روایت اور اس کے راویوں پر غور کرکے یہ بتائے کہ وہ روایت کس درجہ کی ہے ؟ تاکہ ظن سے نکل کر یقین و ثبوت میں آیا جائے۔ اجتہاد بھی قرائن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس لئے مجتہد کو یہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ محض متن حدیث کو دیکھ کر رائے اور اجتہاد سے اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ بعض فقہاء اسے کافی سمجھتے ہیں اور اسے اجتہاد قرار دے دیتے ہیں مگر علمی، تحقیقی اور دیانتداری کے اعتبار سے ایسا اجتہاد، اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ یا مجتہد قرآنی آیت میں لفظ کی ظنی دلالت پر غور کرکے اس کے معنی کو متعین کرتا ہے اور ایک دلالت کو دوسری دلالت پر ترجیح دینے کی کوشش کرتاہے۔ یہی دونوں مقامات ایسے ہیں جن سے احکام مستنبط کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے اور امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے۔ اس معنی میں چاروں فقہ کو مذاہب اربعہ کہا جاتا ہے اور یہاں مذہب کا معنی اجتہاد ہے کہ فلاں امام کا یہ اجتہاد ہے۔
اہل علم نے اجتہاد کہاں اور کس مسئلے میں کرنا ہے ؟ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ ہے: ہُوَ کُلُّ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ۔جن احکام ومسائل میں دلیل قطعی نہیں ان میں اجتہاد ہوسکتا ہے۔اس لئے جو مسائل دینیہ ضرورۃ معلوم ہیں جیسے پانچ نمازیں، وجوب حج، صوم، زکوۃ وغیرہ ان میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ احکام بھی اس سے خارج ہیں جو دلیل قطعی ثبوت یا قطعی دلالت سے معلوم ہیں جیسے: تحریم خمر، وسرقہ، یا لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ۔
جن مسائل میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو یا نص اپنی دلالت میں ظنی ہوچاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا خبر واحد۔ یا جن مسائل میں کوئی اجماع نہ ہوسکا ہو۔ وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مجتہد کا کام یہ ہوگا کہ وہ خبر واحد کے لئے محدثین کی طے شدہ شرائط کے مطابق، روایت اور اس کے راویوں پر غور کرکے یہ بتائے کہ وہ روایت کس درجہ کی ہے ؟ تاکہ ظن سے نکل کر یقین و ثبوت میں آیا جائے۔ اجتہاد بھی قرائن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس لئے مجتہد کو یہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ محض متن حدیث کو دیکھ کر رائے اور اجتہاد سے اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ بعض فقہاء اسے کافی سمجھتے ہیں اور اسے اجتہاد قرار دے دیتے ہیں مگر علمی، تحقیقی اور دیانتداری کے اعتبار سے ایسا اجتہاد، اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ یا مجتہد قرآنی آیت میں لفظ کی ظنی دلالت پر غور کرکے اس کے معنی کو متعین کرتا ہے اور ایک دلالت کو دوسری دلالت پر ترجیح دینے کی کوشش کرتاہے۔ یہی دونوں مقامات ایسے ہیں جن سے احکام مستنبط کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے اور امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے۔ اس معنی میں چاروں فقہ کو مذاہب اربعہ کہا جاتا ہے اور یہاں مذہب کا معنی اجتہاد ہے کہ فلاں امام کا یہ اجتہاد ہے۔