• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میدان اجتہاد:
اہل علم نے اجتہاد کہاں اور کس مسئلے میں کرنا ہے ؟ اس کی بھی وضاحت کی ہے۔ اور وہ ہے: ہُوَ کُلُّ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ لَیْسَ فِیْہِ دَلِیْلٌ قَطْعِیٌّ۔جن احکام ومسائل میں دلیل قطعی نہیں ان میں اجتہاد ہوسکتا ہے۔اس لئے جو مسائل دینیہ ضرورۃ معلوم ہیں جیسے پانچ نمازیں، وجوب حج، صوم، زکوۃ وغیرہ ان میں اجتہاد نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح وہ احکام بھی اس سے خارج ہیں جو دلیل قطعی ثبوت یا قطعی دلالت سے معلوم ہیں جیسے: تحریم خمر، وسرقہ، یا لڑکے کو لڑکی کے مقابلے میں دوگنا حصہ۔

جن مسائل میں کوئی شرعی نص موجود نہ ہو یا نص اپنی دلالت میں ظنی ہوچاہے وہ قرآن کی کوئی آیت ہو یا خبر واحد۔ یا جن مسائل میں کوئی اجماع نہ ہوسکا ہو۔ وہاں اجتہاد کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مجتہد کا کام یہ ہوگا کہ وہ خبر واحد کے لئے محدثین کی طے شدہ شرائط کے مطابق، روایت اور اس کے راویوں پر غور کرکے یہ بتائے کہ وہ روایت کس درجہ کی ہے ؟ تاکہ ظن سے نکل کر یقین و ثبوت میں آیا جائے۔ اجتہاد بھی قرائن کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس لئے مجتہد کو یہ راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ محض متن حدیث کو دیکھ کر رائے اور اجتہاد سے اس کے صحیح اور غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگرچہ بعض فقہاء اسے کافی سمجھتے ہیں اور اسے اجتہاد قرار دے دیتے ہیں مگر علمی، تحقیقی اور دیانتداری کے اعتبار سے ایسا اجتہاد، اجتہاد نہیں ہو سکتا۔ یا مجتہد قرآنی آیت میں لفظ کی ظنی دلالت پر غور کرکے اس کے معنی کو متعین کرتا ہے اور ایک دلالت کو دوسری دلالت پر ترجیح دینے کی کوشش کرتاہے۔ یہی دونوں مقامات ایسے ہیں جن سے احکام مستنبط کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلافات رونما ہوتے ہیں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا مذہب یہ ہے اور امام مالکؒ یا امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے۔ اس معنی میں چاروں فقہ کو مذاہب اربعہ کہا جاتا ہے اور یہاں مذہب کا معنی اجتہاد ہے کہ فلاں امام کا یہ اجتہاد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجتہاد کی اہمیت وثبوت:
اسلام کے مکمل دین اور مکمل ضابطہ حیات ہونے کی وجہ سے آخری شریعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر زمان ومکان کے لئے انتہائی مناسب بنا دیا ہے۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تمام پیش آنے والے حوادث وواقعات کی تفاصیل قرآن وسنت میں موجود ہوں۔کیونکہ حوادث وواقعات نئے نئے پیش آتے رہیں گے مگر ادلہ وہی باقی رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ہیں۔ یعنی قرآن وسنت کی نصوص میں احکام کی تعداد محدود ہے۔ جب کہ مسائل غیر محدود ہیں۔ علاقائی اور عصری مسائل اس پر مستزاد ہیں۔ اس لئے غیر منصوص مسائل میں رائے اور اجتہاد کی طرف رجوع کرنا از بس ضروری ہو گا۔اور اجمالی ادلہ اور ان کے عام قاعدوں پرغور وفکر کرنا ہوگا تاکہ نظیر کو نظیر کے مطابق حکم دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭…ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اس وقت بھی اجتہاد کی حوصلہ افزائی کی جب قرآن نازل ہورہا تھا۔اور راہنمائی دی کہ قرآن وسنت جو اسلام کے اصل مصادر ہیں ان پر غور کرکے قیاسی یا استنباطی طور پر شریعت کے نئے احکام معلوم کئے جائیں۔مثلاً: {یحکم بہ ذوا عدل منکم}(المائدۃ:۹۵)
اس کا فیصلہ تم میں دو صاحب عدل کریں۔
اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد صحیح حدیث میں ہے:
إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ فَأَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌمجتہد
کسی حال میں اجر سے محروم نہیں رہتا۔ اگر اس کا اجتہاد درست ہے تو اسے دو اجر ملیں گے ایک اس پر کہ اس نے اجتہاد کیا اور دوسرا اس پر کہ اس کا اجتہاد صحیح ہوا۔ اور اگر اس کا اجتہاد غلط ہوا تو اسے اجتہاد کرنے کا ایک اجر پھر بھی ملے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر مجتہد کو غلطی کرنے پر کوئی اجر نہ ملتا تو کوئی شخص اس اندیشہ سے کبھی اجتہاد نہ کرتا کہ اس کا وقت بغیر کسی اجر کے یونہی ضائع جائے گا اور گناہ گار بھی ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… صحابہ رسول بھی متفق نظر آتے ہیں کہ اجتہاد ہونا چاہئے۔ جب ان کے پاس نئے مسائل آتے اور ان کا حل کتاب وسنت سے جب وہ نہ پاتے تو اجتہاد ہی کیا کرتے۔

٭…حقیقت میں مجتہد قرآن وحدیث کی نصوص پر غور وفکر کرکے براہ راست احکام کا استنباط کرکے اللہ ورسول کی اطاعت کرتا ہے۔ اجتہاد سے مراد وہی فکر ی عمل ہے جس کو قرآن نے استنباط کہا ہے(النساء: ۸۳) فقہاء کی اصطلاح میں اسی کا نام قیاس ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اجتہاد سے مراد بالواسطہ اخذ احکام ہے جب کہ براہ راست اخذ احکام کی بظاہر صورت موجود نہ ہو۔

رسول اکرم ﷺ کے اجتہاد کا حکم: اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے لئے دنیوی مصالح اور جنگی تدابیر کے لئے اجتہاد کرنا روا ہے۔کیونکہ جناب رسالت مآب ﷺ نے خود کئی مسائل میں اجتہاد فرمایا تاکہ امت کو اجتہاد کی شرائط بتا کر اس کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ مثلاً: اساری بدر ، متخلفین تبوک کو اذن دینا، تأبیر نخل کے بارے میں اشارہ دینا، وغیرہ۔کیا دنیوی مصلحت اور جنگی تدابیر کے علاوہ آپ ﷺنیاور دینی یا شرعی مسئلے میں اجتہاد کیا ہے؟ اہل علم مختلف الرائے ہیں۔ مثلاً:

ایک قول یہ ہے کہ عقلاً آپﷺ اجتہاد کرسکتے ہیں۔جو فعلاً آپ سے ہو بھی گیا۔ یہ جمہور علماء کا قول ہے۔ان کا استدلال یہ ہے:
{فاعتبروا یا أولی الأبصار}(الحشر:۲)
یہاں اعتبار سے مراد قیاس ہی ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم اہل بصیرت کو دیا ہے۔اور نبی ﷺ لوگوں سب سے زیادہ بصیرت والے تھے۔اور قیاس کے حقیقت اور شروط کے بارے میں زیادہ خبر رکھتے تھے۔بلکہ آپ بطریق اولی اس پر مامور بھی تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… آپ ﷺ نے اجتہاد کیا بھی۔ جیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کا یہ فرمانا:
أَرَأَیْتَ لَوْتَمَضْمَضْتَ؟
بھلا بتاؤ اگر تم کلی کرو تو؟
جس صحابی نے اپنے فوت شدہ والد کے بارے یہ پوچھا کہ وہ حج نہیں کر سکے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَرَأَیْتَ لَوْکَانَ عَلَی أَبِیْکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ تَقْضِیْہِ؟
اسی طرح حجۃ الوداع میں آپ کا یہ فرمانا:
لَوِاسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِیْ مَا اسْتَدْبَرْتُ، لِمَا سُقْتُ الْہَدْیَ۔

اجتہاد پر عمل، نص پر عمل کی بہ نسبت زیادہ مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا ثواب بھی زیادہ بڑا ہے۔اگر آپ ﷺ اجتہاد پر عامل نہ ہوتے تو پھر ہم یہی سمجھتے کہ امت کے جن حضرات نے اجتہاد کیا فضیلت تو انہیں حاصل ہوگئی مگر آپ ﷺاس سے محروم ہوگئے۔جو انتہائی غلط بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کے لئے شریعت میں اجتہاد کرنا جائز ہی نہیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ میں ہی آپ ﷺ کے بارے میں ہمیں بتادیا گیا ہے کہ:
{وما ینطق عن الہوی إن ہو إلا وحی یوحی}۔
اور آپ ﷺ صرف وحی کے پابند ہیں۔
{ولا أقول لکم إنی ملک إن أتبع إلا ما یوحی إلی}۔
اس لئے آپ ﷺ کا اجتہاد کرنا مناسب نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ سے کسی نئے واقعہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو بجائے جواب دینے کے آپ توقف فرماتے اور وحی کا انتظار کرتے یا پھر آپ ﷺ فرماتے: اس بارے مجھ پرابھی تک کچھ نازل نہیں ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسرا قول: ان علماء نے توقف کیا ہے اور کوئی مسلمہ بات نہیں کہی۔اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کو کسی مسئلہ میں اجتہاد کرنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ بھی کہ وحی ہی کی طرف آپ ﷺ لوٹیں۔

تنبیہ: جب جمہور کا یہ قول بیان کیا جاتا ہے: کہ آپ ﷺ کو اجتہاد کا حق ہے توسوال یہ ہے کہ کیا آپ ﷺ کا یہ اجتہاد شریعت اسلامیہ میں قرآن وسنت کے علاوہ ایک مصدر بن جائے گا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ : نہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا اجتہاد وحی کا پابندہوتا ہے اگر وہ درست ہو تو وحی اسے برقرار رکھتی ہے اور اگر اس میں کوئی خطأ ہو تو وحی اس خطا سے آگاہ کرکے درست رخ بتاتی ہے۔قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کا یہی طریقہ انبیاء سابقین کے لئے بھی استعمال ہوا۔

اسلام نے اجتہاد کی ترغیب دی۔ عہد نبوی میں صحابہ رسول نے اجتہاد کیا۔گو اس بارے میں مختلف نکتہ ہائے نظر ہیں مگر صحیح اور درست یہی ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی موجودگی میں اور عدم موجودگی میں اجتہاد کیا ہے اور کبھی آپ ﷺ کی اجازت سے اور کبھی آپ ﷺ کے حکم سے۔ اور کبھی صحابی رسول، خود اجتہاد کربیٹھے آپ ﷺ کو معلوم اور آپ ﷺ اسے برقرار رکھیں۔یہ بھی ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے پسند وناپسند بھی فرمایا ہے۔مثلاً:

سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے وقت آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: فیصلے کے لئے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے تو کیا کروگے؟ تو انہوں نے عرض کی: اَقْضِیْ بِمَا فِی کِتَابِ اللّٰہِ۔ میں جو کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: اگر اس میں نہ ہوتو؟ تو فرمانے لگی: فَبِسُنَّۃِ رَسولِ اللہِ۔ پھر سنت رسول اللہ ﷺ سے۔ آپ نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ ہو تو؟ عرض کی: أَجْتَہِدُ ولا آلُو۔ اجتہاد کروں گا اور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ آپ ﷺ نے ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: الحَمْدُ لِلّٰہِ الْذِیْ وَفّقَ رَسُولَ رسولِ اللہِ إلی ما یُرْضِی رسولَ اللہِﷺ۔اس اللہ کا شکر جس نے رسول اللہ کے قاصد کو اس چیز کی توفیق ی جس سے اللہ کا رسول خوش ہوسکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح سعد بن معاذ کا یہود بنو قریظہ کے بارے میں جو فیصلہ تھا۔ آپ ﷺ نے اسے انتہائی مناسب اور صحیح قرار دیا۔

آپ ﷺ نے عمرو بن العاص کو فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے کا جب حکم دیا تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول آپ کی موجودگی میں کیااجتہاد کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بالکل ! اگر تمہارا فیصلہ درست ہوا تو دو اجر ورنہ ایک کے مستحق ہوگے۔

غزوہ حنین کے موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد جب ابوقتادہ نے ایک شخص کو قتل کیا تو وہ اس کے مال غنیمت کے مستحق ٹھہرتے تھے مگر کوئی اور اسے لے گیا۔ سیدنا ابوبکر نے آپ ﷺ سے عرض کی ابوقتادہ کو مال غنیمت میں سے کچھ دے کر خوش کیا جائے۔ابوبکر نے اس موقع پر کہا: واللہِ لا نَعمِدُ إلی أَسَدٍ مِن أُسُودِ اللہِ یُقَاتِلُ عنِ اللہ ورسولِہِ، فنّعطِیْکَ سَلْبَہُ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: صَدَقَ أبوبکرٍ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حکمت اجتہاد:
آپ ﷺ نے اجتہاد کیوں کیا اور صحابہ کرام کو اس کی اجازت کیوں دی؟ اس میں درج ذیل حکمتیں تھیں:

۱۔ امت کو بتانا مقصود تھا کہ اجتہاد کرنا جائز ہے۔جب وہ حکم کی علت پالیں تو وہ نواز ل میں اجتہاد کرلیں۔اور اسے منصوص علیہ کا حکم دیں۔

۲۔ صحابہ کی تربیت ہو اور ان کے بعد امت یہ جان لے کہ ادلہ سے اخذ احکام کی کیفیت کیا ہونی چاہئے۔ آپ ﷺ کے بعد امت کے اہل فقہ ونظر بھی اپنے حوادث ونوازل میں عمومات کتاب وسنت کو دیکھ کر اجتہاد کریں۔

٭… اس لئے شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں آئی جو اجتہاد کو کسی جگہ یا کسی زمانہ میں موقوف یا مقید کرتی ہو بلکہ شریعت کی نگاہ میں اجتہاد ایسی چیز ہے جو ہر زمانہ میں ممکن ہے۔ عصر حاضر میں جو سہولتیں میسر ہو چکی ہیں یہ پہلے زمانہ کے مجتہدین کو کہاں میسر تھیں۔ شاید اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
لَا یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ مَنْصُورِیْنَ عَلَی الْحَقِّ۔۔۔ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ۔
میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔

٭… حنابلہ، ظاہریہ اور محدثین کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ تا قیامت کھلا ہے۔وہ مانتے ہیں کہ اجتہاد کی شریعت میں اجازت ہے مگر یہ اجازت چند سخت شرائط کے تابع ہے۔ تاکہ وحی اور اجتہاد میں نمایاں فرق برقرار رہے اور یہ دونوں آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں اور نا اہل لوگوں سے بھی بچا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حکم اجتہاد:
جب اس میں امت کے چند علماء مصروف ہوں تو پھریہ فرض کفایہ ہے ۔ باقی مسلمانوں سے یہ حکم ساقط ہوجائے گا۔اور اگر سبھی اس میں کوتا ہی کریں تو اجتہاد کو ترک کرنے پر سبھی گناہ گار ہوں گے۔

اجتہاد اور تفقہ:
صحیح بخاری میں یہ حدیث ہے:
مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ۔
اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین میں فقیہ بنا دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ آپﷺ نے یہ چاہا ہے کہ جو دین میں تفقہ حاصل نہیں کرے گا اللہ اس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں تفقہ حاصل کرنا فرض ہے اور دین میں تفقہ حاصل کرنے کامعنی یہ ہے کہ شرعی احکام کو سمعی دلائل سے معلوم کرنا۔ جو سمعی دلائل سے آگاہ نہیں ہے وہ دین میں فقیہ نہیں ہے۔اس لئے اجتہاد ایک آلہ ہے اور افتاء ایک تخصص۔ نیزمفتی کا فتوی ایک اجتہادی علم ہے اس لئے اس کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔
 
Top