• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی کے مصادر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیاس کے ارکان:

قیاس کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قیاس کے چار ارکان ہیں۔ جو یہ ہیں۔ اصل، فرع، حکم اور علت۔

اصل:
اسے مقیس علیہ یا مشبہ بہ یا منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ کسی مسئلہ کے بارے میں کوئی حکم جس نص سے ثابت ہو اس نص کو اصل کہتے ہیں۔ یعنی وہ جگہ جہاں حکم پایا جاتا ہے جیسے اوپر دی گئی شراب(خمر) یا بیع کی مثالیں

فرع:
اسے مقیس یا مشبہ یا غیر منصوص مسئلہ بھی کہتے ہیں۔ وہ مسئلہ جسے اصل پر قیاس کرکے اس کا حکم معلوم کرنا ہوتا ہے مگر نص سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا قیاس کے طریقہ کار پر عمل کرکے اصل میں جوحکم موجود ہو اس کا اطلاق اس پر کیا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا موضوع اصل کے موضوع سے مختلف نہ ہو۔جیسے بیع کا قیاس نکاح پر کرنا کیونکہ موضوع میں اختلاف ہونے کے سبب یہ صحیح نہیں۔کیونکہ بیع بھاؤ تاؤ پر اپنی بنیاد رکھتی ہے اور نکاح باہمی احترام اور آسانی پر مبنی ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حکم :
اسے حکم شرعی بھی کہتے ہیں۔ جس سے مراد وہ شرعی حکم ہے جو اصل میں آیا ہے۔ اورجسے فرع میں ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے شراب کی حرمت اصل میں آئی ۔ فرع میں جو حکم ثابت ہوتا ہے وہ بذریعہ قیاس ہی ثابت ہوتا ہے جس کی مثال چرس کی حرمت ہے۔ عقائد، رویے اور تہذیب نفس ، ایمان، توکل، انابت، خوف، رجاء، حب اور بغض وغیرہ۔ کا تعلق دل سے ہے اس لئے ان احکام میں قیاس کا دخل نہیں ہوا کرتا اس لئے کہ یہ عملی احکام نہیں۔ نیزجس حکم کی علت کا ادراک ممکن ہو۔ جیسے: حرمت ربا، یا قاتل نے جسے قتل کیا ہے اس کی وراثت سے محروم ہونا۔ ان میں بھی قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ احکام عملی ہیں۔نیز عبادت سے بھی ان کا تعلق ہے۔ اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے: لاَ قِیَاسَ فِی الْعِبَادَاتِ۔ عبادات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔

علت:
قیاس کا اہم ترین رکن ہے ۔ جس سے مراد اصل اور فرع کے درمیان مشترک وصف کا پایا جانا ہے۔یہی تو وصف ہے جس کی وجہ سے فرع کو اصل کا حکم ملتا ہے۔ اگر یہی وصف یا اس سے مشابہ وصف نئے واقعہ میں موجود ہوتو اسے بھی اصل کے مشابہ سمجھا جائے گا۔ جیسے چرس میں نشہ کا وصف جو شراب اور چرس دونوں میں پایا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیاس کی شرائط :
قیاس اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک اس میں یہ اہم شرطیں موجود نہ ہوں۔

۱۔ اصل حکم شرعی ہو نہ کہ لغوی۔ کیونکہ لغات میں قیاس نہیں ہوا کرتا۔

۲۔ اصل ثابت ہو منسوخ نہ ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ کسی موقع ومناسبت سے ایک حکم دیا گیا پھر اس مناسبت کے ختم ہونے کے بعد دوسرا حکم آگیا اب یہ اصل ثابت نہیں ہے اس لئے کہ اب موقع ومحل اور ہے اس لئے سابق حکم پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

۳۔ ا صل کا حکم کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہو یا وہ مجمع علیہ ہو۔

۴۔ حکم اصل کی علت فرع میں پائی جائے اورکسی قسم کا کوئی فارق نہ ہو یا کوئی مانع نہ ہو جو اسے حکم اصلی سے الگ کردے یا اس کے حکم سے ملنے نہ دے۔ اگر علت صرف اصل میں ہی منحصر ہو یا اصل تک ہی محدود ہو اور کسی دوسری چیز میں اس کا وجود ممکن نہ ہو تو اس پر قیاس کرنا منع ہے۔ کیونکہ قیاس کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکم کی علت میں فرع اور اصل دونوں شریک ہوں۔

۵۔ قیاس کی ان حدود وشرائط کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے یعنی نص میں حکم کی علت تلاش کرنا ۔ جہاں حکم کی علت نہ ہو وہاں مجتہد کو یہ علت از خود تلاش کرنا پڑتی ہے۔ یہی وہ قیاس کی قسم ہے جس میں مجتہد اور فقیہ سے بکثرت خطا ہوتی ہے ۔ وہ اسے حکم کی علت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس حکم کی علت ہوتی ہی نہیں ہے۔ مثلاً جنگ جمل میں فتح کے بعد سیدنا علی مرتضے رضی اللہ عنہ کے بعض حامیوں نے (جو بعد میں خوارج کہلائے) خون پر جان اور مال کو قیاس کیا اور کہا: جب مخالفین کا خون بہانا حلال ہے تو ان کا مال بطور غنیمت اور ان کی جانیں بطور غلام اور لونڈیاں بنانا بھی ہمارے لئے حلال ہیں۔یہ فاسد قیاس جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سنا تو فرمایا: ٹھیک ہے سب سے پہلے سیدہ عائشہؓ رضی اللہ عنہا پر قرعہ ڈالو وہ کس کے حصہ میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا معاذ اللہ! وہ تو ہماری ماں ہیں۔ امیرالمومنین نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ جب ماں کو لونڈی بنانا جائز نہیں تو مال غنیمت سمجھ کر ان کا مال لینا بھی جائز نہیں۔ اس طرح سیدنا علیؓ نے خوارج کے فاسد قیاس کے مقابلہ میں صحیح قیاس سے استدلال کیا اور ان کے قیاس کو رَدّ کردیا۔ یہی وہ احتیاط ہے جو مجتہد کو قیاس کرتے وقت ملحوظ رکھنا ہوگی ورنہ فرضی اور فاسد قیاس و مسائل کے ڈھیر لگ جائیں گے جو اسلامی شریعت کو بدنام کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
امام ابن القیم ؒفرماتے ہیں:
ایسی علتوں کا سہارا لینا جن سے خدا نخواستہ صحیح حدیث رد ہو جائے شدت پسندی ہے۔ اگر سنن رسول ﷺ کو ان علتوں کے سبب ترک کرنا شروع کردیا جائے تو صحیح احادیث وسنن کا تقدس پامال ہوجائے گا۔(شرح سنن ابی داؤد لابن القیم مع عون المعبود ج ۱۰؍ص ۳۴)

یہ اصول شاید اس لئے بنایا گیا ہے کہ اگر غیر فقیہ صحابی کی روایت ، قیاس کے خلاف ہو تو قیاس پر عمل درآمد اولی ہوگا۔ مگر حدیث مصراۃ جو سیدنا ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے وہی تو سیدنا ابن مسعودؓ نے روایت کی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کون ان میں غیر فقیہ ٹھہرا؟۔

اسی طرح فرضی مسائل کا بعض حیلوں سے یوں قیاس کرنا کہ اگر اسلامی احکام کی زد میں فلاں فلاں مسئلے آجائیں تو ان سے کیسے خلاصی حاصل کریں ۔ یہ اور ان سے ملتے جلتے قیاس فاسد ہوں گے اورشریعت کا استہزاء بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حجیت قیاس:
جمہور علماء کے نزدیک قیاس اصول فقہ کا ایک اہم ستون ہے۔ اسے دلیل وحجت تسلیم کیا جانا چاہئے کیونکہ قرآن وسنت، اقوال صحابہ سے اس کے دلائل ملتے ہیں۔ مثلاً:

قرآنی دلائل:
{فاعتبروا یا أولی الأبصار}۔۔۔ الحشر: ۲
اے دیدہ بینا رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔
{قل یحییہا الذی أنشأہا أول مرۃ وہو بکل خلق علیم۔۔}۔(یس: ۷۹)
کہہ دیجئے کہ اسے وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور ہر تخلیق کے بارے میں خوب جانتا ہے۔
{اللہ الذی أنزل الکتاب بالحق والمیزان۔}۔ (الشوری: ۱۷)
میزان سے مراد وہ چیز جس سے معاملات کا وزن کیا جاتا ہے اور پھر ان کے درمیان اندازہ کیا جاتا ہے۔
{کما بدأنا أول خلق نعیدہ}۔ (الأنبیاء:۱۰۴)
اللہ تعالیٰ نے اعادہ مخلوق کو اس کی ابتداء سے تشبیہ دی ہے۔
{واللہ الذی أرسل الریاح فتثیر سحابا فسقناہ إلی بلد میت فأحیینا بہ الأرض بعد موتہا کذلک النشور}۔ (فاطر:۹)
یہ سب آیات قیاس اور قیاس میں موجود ارکان اور شرائط کو پورا کررہی ہیں۔جو قیاس کے حجت ہونے اور اس کے جواز کا اشارہ دیتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیثی دلائل:
آپ ﷺ کا جہنیہ عورت کو ارشاد جس نے اپنی والدہ مرحومہ کی منت حج کے بارے میں پوچھا تھا مگر وہ حج کئے بغیر فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپﷺ نے فرمایا: بالکل حج کرو۔بھلا بتاؤ! اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ یہ تو پھر اللہ کا قرض ہے اور اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ صحیح بخاری ، کتاب الصوم: ۲۱۰

اسی طرح :
ایک آدمی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کرتا ہے۔ میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنا ہے۔ میں اسے اپنا بچہ نہیں مان سکتا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں؟ اس نے عرض کی: جی ہاں! ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا: کیا ان میں بھورے رنگ کا بھی کوئی اونٹ ہے؟ اس نے کہا: جی وہ بھی ہے۔ فرمایا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے نے کہا: شاید کوئی رگ ابھری ہوگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے ہاں جو بچہ ہوا ہے شاید یہ بھی کوئی رگ ابھری ہے۔ صحیح بخاری، کتاب الطلاق، باب إذا عرض بنفی الولد: ۲۲۷

اقوال صحابہ:
صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو نماز میں ان کی امامت پر قیاس کیا۔ مانعین زکوۃ کو تارکین صلاۃ پر قیاس کیا۔ شراب پینے پر کیا حد ہو؟ اسے حد قذف پر قیاس کیا کہ یہ بھی بہتان لگانے کے مترادف ہے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کو قضاء کے بارے میں خط لکھا: پھر اگر کوئی ایسا معاملہ آپ کو پیش آئے جس کا حکم قرآن وسنت میں نہ ملے تو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کیجئے پھر قَایِسِ الأُمُورَ عِنْدَکَ پھر معاملات کو ایک دوسرے پر قیاس کیجئے اور ایک جیسے معاملات پہچانئے۔ اعلام الموقعین۱؍۸۶، اخبار القضاۃ ۱؍۷۰

ظاہر ہے صحابہ کرام کے یہ وہ قیاسات ہیں جہاں کتاب وسنت میں کوئی نص نہیں۔ اس لئے جہاں نص نہ ہو، یا اجماع نہ ہو اور نہ ہی کسی صحابی کا قول ہو، وہاں قیاس کو اختیار کرنا اور اسے حجت ماننا ضروری ہے امام شافعی ؒ نے سب سے پہلے قیاس پر گفتگو فرمائی اور اسے اجتہاد کے ہم معنی قرار دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیاس کیوں؟ وجوہات اور اسباب

قیاس علم وتحقیق کا نام ہے اور احکام شریعت کی پہچان کا راستہ بھی۔ نصوص یا اجماع کی عدم موجودگی میں اسے ہمارے فقہاء کرام نے اس طرح اپنایا ہے جیسے پانی کی عدم موجودگی میں تیمم کیا جاتا ہے۔

کتاب وسنت کی نصوص محدود ہیں اور مسائل وحوادث لا محدود۔ جن کا احاطہ اگر نصوص کرتیں تو شریعت ایک ضخیم شکل میں ہوتی۔ اس لئے نصوص میں جو علتیں اور مخفی مقاصد ہیں یا جن مقاصد کی طرف اسے اشارہ ملتا ہے یا ان سے استنباط ہو سکتا ہے۔ ان پر ایک فقیہ غور کرتا ہے یا کسی واقعہ کے بارے میں منصوص حکم موجود ہے اس کا اطلاق اسی جیسے واقعے میں جہاں علت مشترک پائی جاتی ہو وہاں قیاس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی نیا واقعہ یا صورت حال پیش آجائے جو اس سے پہلے نہ تھی اور اس بارے میں کوئی منصوص حکم بھی نہیں تو قیاس کے ذریعے سے ایسے واقعات کے حکم کے لئے شریعت کا دامن تنگ نہیں ہوتا۔

اللہ کے عدل و حکمت کا تقاضا ہے کہ احکام شریعت کے متعین طریقوں میں قیاس بھی ہو اور شریعت کے مطابق ہو۔ اس لئے شریعت کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر ایک چیز حرام ہے تو اس کی نظیر بھی حرام ہوگی وہ مباح نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک چیز مباح ہے تو اس کی نظیر بھی مباح ہوگی حرام نہیں ہوگی۔ اس لئے قیاس فقہ اسلامی کا ایک مأخذ ہے۔ اس سے استغناء نہیں برتا جاسکتا۔ صحیح قیاس عقلاً، قانوناً اور شرعاً عمل کا متقاضی ہے اور قابل ثواب وعبادت بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قیاس ایک ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہواورکوئی ضرورت بھی داعی ہو ۔احکام شریعت میں جب بندوں کی مصلحتیں پوری ہوں تو اسے ہی شرعی ضرورت کہتے ہیں۔ قیاس کو اختیار کرنے سے یہ غرض پوری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قیاس کا مطلب ہی یہ ہے کہ کسی معین واقعہ کے بارے میں قرآن یا سنت میں جو حکم موجود ہے اس کے مشابہ دیگر واقعات میں اگر علت مشترک نظر آتی ہوتو وہی حکم ان واقعات کے لئے بھی ہوگا۔

قیاس کرنے کا اہل ایسا عالم ہوتا ہے جو کتاب اللہ کے احکام جاننے کے علاوہ قرآن کے فرائض وآداب ، ناسخ ومنسوخ اور قرآن کے عام وخاص کا ماہر ہو۔ سنت رسول ﷺ کے علم کے بعد سلف کے اقوال، اور ان کے اجماع واختلاف اور عربی زبان کے علم سے بھی آراستہ ہو۔ مزید اس کی عقل سلیم اسے مشتبہات سے بھی آگاہ کرسکے۔ اسے یہ علم ہو کہ اس نے یہ قیاس کیوں کیا؟ کہاں سے کیا؟ اور اگر قیاس کے دوران فلاں فلاں دلیل وغیرہ کو ترک کیا تو کیوں کیا؟۔اشباہ ونظائر کا باہمی ربط اور مناسبت بھی ضرور دیکھے اور قیاس کی تمام تر شرائط کو ملحوظ رکھ کر قیاس کرے۔اشباہ و نظائر کے باہمی ربط میں عدم احتیاط ،لاعلمی اور جہل مرکب ہے۔جس سے ہر فقیہ کو بچنا چاہئے۔

نوٹ:
۱۔ اجماع اور قیاس کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیاس، اجماع سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قیاس صحابہ کرام کے دور میں ہوا اور اجماع بھی۔ مگر خلفائے اشدین کے اتفاق کو اجماع نہیں سمجھا گیا جب کہ اس دور میں قیاس کی مثالیں ملتی ہیں۔

۲۔ ان چاروں مصادر کا استعمال حفظ مراتب کے اعتبار سے ہوگا۔ قرآن وسنت کو اولین حیثیت دیجئے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سنت ، قرآن کی تشریح ووضاحت ہے نہ کہ اس کے مخالف۔پھر اجماع مجتہدین کو اور پھر قیاس کو۔ اجتہاد نئے ایشوز کے شرعی حل کی تلاش کا نام ہے جن کی کوئی نص یا اصل نہ ملتی ہو۔

٭٭٭٭٭
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجتہاد


شریعت میں اجتہاد کو بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔علماء کے علم، تحقیق اور دانش کو رواں دواں رکھنے کے لئے یہ مہمیز دینے کا ایک دروازہ ہے جو امت اسلامیہ میں بہتے پانی اور ابلتے چشموں کی حیثیت رکھتا ہے۔ نہ کہ ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح دین کو سمجھ لیا جائے جس میں تعفن، بدبو اور غیر شفافی آجاتی ہے۔ اہم معاصر مسائل کے حل کی سبیل فراہم کرتا ہے۔ یہ عمل ایک عالم کو مجتہد کے مرتبے تک پہنچا کے اس کا مرتبہ اوروزن بھی قائم کرتا ہے۔علماء فقہ نے اس کی تعریف متعین کرکے چند دیگر شرائط بھی اجتہاد کے لئے ضروری قرار دی ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:

لغوی معنی:
اجتہاد کا مادہ ج ہ د ہے ۔ ہمت وطاقت یا کوشش کرنا کو جہدکہتے ہیں۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
الإجْتِہَادُ فِی الُّلغَۃِ مَأخُوذٌ مِنَ الْمَشَقَّۃِ وَالطَّاقَۃِ۔
لغت میں اجتہاد کا لفظ مشقت اور طاقت سے ماخوذ ہے۔یعنی کسی کام کے سرانجام دینے میں حتی الامکان کوشش کرنا اور سخت محنت کرنا ہے۔ جیسے چٹان کو اٹھانے میں طاقت کا استعمال کرکے سخت کوشش کرنا۔مگر کسی گٹھلی کو اٹھانے کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔

اصطلاحی معنی :
علماء اصول نے اپنی اصطلاح میں اس کا معنی یہ کیا ہے:
بَذْلُ الْوُسْعِ فِی نَیْلِ حُکْمٍ شَرْعِیٍّ عَمَلِیٍّ بِطَرِیْقِ الاسْتِنْبَاطِ۔
کسی عملی شرعی حکم کے استنباط کے لئے اولہ میں پوری صلاحیت صرف کرنا تاکہ مجتہدکو علم اور ظن حاصل ہوجائے کہ اس مسئلہ میں اللہ کا حکم کیا ہے۔ اجتہاد کہلاتا ہے۔

اس اصطلاحی تعریف سے مندرجہ ذیل چھ نکات واضح ہوتے ہیں جو مجتہد کے تعین ومقام کو واضح کرتے ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چھ نکات:

۱۔ ا جتہاد کے لئے مجتہد کی معمولی نہیں بلکہ سخت محنت درکار ہوتی ہے ایسی کہ اس کی ہمت وطاقت سے باہر ہوجائے۔

۲۔ جو شخص شرعی حکم معلوم کرنے کی استعداد رکھتا ہو یعنی اسے قرآن وسنت اور اس کے لوازمات کا پہلے سے علم ہو وہ اجتہاد کر سکتا ہے اس استعداد سے محروم ، مجتہد نہیں کہلائے گا۔ اور اس کا اجتہاد ناقابل قبول ہوگا۔

۳۔ مسئلہ کی نوعیت شرعی ہو ۔ مگر جن مسائل کا تعلق لغت، سیاست اور دیگر دنیوی معاملات سے ہو ان میں جدوجہد کرنے والے کو مجتہد نہیں کہا جاسکتا۔

۴۔ اجتہاد کے لئے ضروری ہے کہ زیر غور مسئلہ کا تعلق عملی مسائل سے ہو اور اس کی واقفیت سے غرض ہو۔ محض مشق نہ ہو۔الدِّینُ یُسْر کا نسخہ اجتہاد میں مجتہد کے سامنے ہو۔اس کے اجتہاد کی وہی تعبیر صحیح و دینی قرار پائے گی جو آسان ہو اور قابل عمل ہو۔مشکل تعبیر جس پر سرے سے عمل ہی نہ ہوسکے وہ اجتہادی تعبیر درست نہیں ہوگی۔ نظریاتی مسائل مثلاًتوحید ورسالت اور آخرت وغیرہ میں اجتہاد نہیں ہو سکتا۔

۵۔ جو مسئلہ کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہو وہ اجتہادی مسئلہ نہیں اور نہ ہی اسے اجتہادی مسئلہ بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ایسے مسائل قطعی طور پر ثابت شدہ ہیں جیسے نماز ادا کرنے، روزہ رکھنے، سچ بولنے، شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگ سار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جو شخص یہ شرعی احکام بیان کرتا ہے وہ مجتہد نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسائل اجتہادی مسائل کہلائے جاسکتے ہیں۔

۶۔ جن مسائل کی نصوص موجود ہیں انہی کا نفاذ ضروری ہے۔کسی اور کا نام لینے کی ضرورت ہی نہیں کہ اس مسئلہ میں فلاں مجتہد کی رائے یہ ہے۔
 
Top