اصل بات یہ ہے کہ ہم ہر معاملہ میں انتہا پسند ہو گئے ہیں کہیں بھی کوئی بات ہمیں اپنی مرضی کے خلاف نظر اآ جائے ہم فورا فتوی لگانا شروع کر دیتے ہیں اور جہاں تک فیض عالم صدیقی صاحب نے اگر ایسی باتیں لکھی ہیں تو کیا ان کی تصانیف میں مکمل یہی منہج ہے اور کیا تمام کتب اسلام اور سلف صالحین کے خلاف ہیں اگر فیض عالم صدیقی صاحب اپنی تحقیقات کی روشنی میں کسی کو ضعیف قرار دیتے ہیں تو کیا امام مالک نے صاحب سیرۃ محمد بن اسحاق کو دجال اور کذاب نہیں کہا تھا اس پر کیا کہا جائے گا اور علما کی تاریخ پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے آپس میں انتہائی شدید اختلاف تھے اور کچھ دور نہ جائیں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول پر ہی غور کر لیا جائے جس میں انہوں نے معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالی کے دیکھنے کے بارے میں کسی صحابی کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کذاب یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات کو اللہ تعالی کو نہیں دیکھا تھا اور جو یہ کہتا ہے اس نے جھوٹ کہا تھا ۔ اس پر میں بے شمار مثالیں پیش کر سکتا ہوں ۔اس پر کیا کہا جائے گا میں فیض عالم صدیقی صاحب کی غلطیوں کی تائید نہیں کر رہا جو بات غلط ہے وہ غلط ہے لیکن کسی کی ایک غلط بات پر اس کی 99 صحیح باتوں کو نظر انداز کر دینا کہاں کا انصاف ہے ایک برائی کو پکڑ لیں اور تمام اچھائیوں کو چھور دیں کیا یہ منہج صحیح ہے میرا یہ منہج ہے کہ کسی کی بھی جو بات غلط ہے اسے چھوڑ دیا جائے اور جو صحیح ہے اس کو مان لینا چاہیے۔ اگر میرے وہ ساتھی جو فیض عالم صدیقی صاحب کو ناصبی اور کافر کہہ رہے ہیں اور ان کی مغفرت کو ہی ناجائز کہہہ رہے ہیں میں ان کے لیے کچھ پوسٹ کر رہا ہوں مجھے یہ تا دیں اگر فیض عالم ناصبی اور کافر ہے اس لیے کہ انہوں نے صحیح مسلم کی ایک حدیث پر کلام کیا اور امام زہری پر کلام کیا تو یہی کام کوئی بھی کرے تو وہ بھی ناصبی اور کافر ہو گا اور اس کے لیے بھی دعائے مغفرت نہیں کی جانی چاہیے اس لیے کہ قاعدہ تو سب کے لیے ایک ہی ہونا چاہیے