• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قاتل حسين يزيد نہيں بلکہ کوفي شيعہ ہيں , يزيد بريء ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
اگر ایسا ہوتا تو آج تک یہ رافضی اور شیعہ حضرات جو یزید رحمہ اللہ علیہ کو اپنی سازش کا حصہ بنانا چاہ رہے ہیں وہ کب کے کامیاب ہوچکے ہوتے۔۔۔ جہاں تک اس خوش فہمی کا تعلق ہے جو آپ کو پتہ نہیں کیسے ہوگئی تو وہ بھی دور کر لیجئے۔۔۔ یزید رحمہ اللہ علیہ کا ظالم ہونا یا ظلم کرنا کبھی بھی ثابت نہیں ہوپائے مگر رافضیت اور شیعت کی قلعی کھل چکی ہے صدیوں پہلے۔۔۔ اوپر آئمہ حضرات کے فرامین موجود ہیں۔۔۔
سبحان اللہ اس سے بڑا جھوٹ شاید ہی دنیا میں کوئی ہو کہ آپ کے یزید کے مظالم ثابت نہیں ہو پائے۔ اگر اس کے ظلم ثابت نہیں تو پھر اس فاسق و فاجر کیوں مانتےہو ؟؟؟؟؟
یزید کی اسلام میں حثیت ہی کیا ہے جو اس کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت پیش آئے گی نہ تین میں نہ تیرہ میں


دوسری اہم بات یزیدرحمہ اللہ علیہ کو لیکر اعتراض کرنے والے پہلے گروہ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چل جائے گا کے یہ اس گھتی کا سرا کس کےہاتھ میں ہے آپ کی بات ہورہی ہے۔۔۔ لہذٰا آپ اپنی حد میں رہیں اور ہمیں اپنی حد میں رہنے دیں کیونکہ ہر فورم کے کچھ اصول وقوانیں ہوتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کے مجھے ان کا سامنا کرنا پڑے جیسے اللہ کے بندے کے ساتھ ہوا۔۔۔ شکریہ۔۔۔
اصول و قوانین اس فورم کے میں اچھی طرح جانتا ہوں اور یہ دھمکیاں کسی اور کو دینا ۔ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے میرا اکاؤنٹ بلاک کر دیں گے تو کیا میں حق کہنے سے باز آجاؤ گا یہ آپ کی بھول ہے ۔ میں تو انشا ء اللہ بہت جلد ان موضوعات پر کتابیں تحریر کر کے چھپوانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ میں اپنی حد میں ہی ہوں ۔۔
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
ِیزید حمہ اللہ علیہ کو فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے مؤاخذہ کرنا اور انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کردینا چاہیے تھا۔ لیکن جس طرح ہر حکمران کی کچھ سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر بعض دفعہ انہیں اپنے ماتحت حکام کی بعض ایسی کاروائیوں سے بھی چشم پوشی کرنی پڑ جاتی ہے جنہیں وہ صریحا ً غلط سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسی سیاسی مجبوری ہو جس کو یزید نے زیادہ اہمیت دے دی ہو گو قتل حسین رضی اللہ عنہ کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے تھی۔ اسے بھی آپ اس کی ایک غلطی شمارکرسکتے ہیں اور بس۔۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیجئے کہ ان کی خلافت کے مصالح نے انہیں نہ صرف قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے چشم پوشی پر مجبور کردیا بلکہ انہیں بڑے بڑے اہم عہدے بھی تفویض کرنے پڑے۔ حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ بھی کچھ کم المناک اور یہ جرم بھی کچھ عظیم جرم نہ تھا لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔
اس کا مطلب یہ ہے آپ بھی مانتے ہیں کہ یزید نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ لیکن آپ کی سیاسی مجبوریوں والی بات ماننے سے مجھے حقائق روک رہے ہیں کہ اس کے پاس اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ وہ قاتلین حسین سے باز پرس کر سکتا لیکن اگلے ہی سال اس کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آگئ کہ مدینہ والوں نے جب اس کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت توڑ دی تو اس نے مدینہ میں وہ خون ریزی کروائی جس کی حد نہیں اور پھر خانہ کعبہ پر بھی حملہ کروا دیا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس کا مطلب یہ ہے آپ بھی مانتے ہیں کہ یزید نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ لیکن آپ کی سیاسی مجبوریوں والی بات ماننے سے مجھے حقائق روک رہے ہیں کہ اس کے پاس اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ وہ قاتلین حسین سے باز پرس کر سکتا لیکن اگلے ہی سال اس کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آگئ کہ مدینہ والوں نے جب اس کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت توڑ دی تو اس نے مدینہ میں وہ خون ریزی کروائی جس کی حد نہیں اور پھر خانہ کعبہ پر بھی حملہ کروا دیا۔
آپ نے جواد صاحب کے اصل سوال کا جواب نہیں دیا۔ یہ سیاسی مجبوریوں والی بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں قابل قبول ہے تو یزید کے حق میں کیونکر قابل نفرین ہے؟

یہ بات دوبارہ انہوں نے کی ہے میں نے صرف جواب دیا ہے اور آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے پوسٹ کا جواب نہ دیا کریں کیونکہ جب میں آپ سےسوال کرتا ہوں تو آپ بھیگی ۔۔۔ کی طرح بھاگ جاتے ہیں
آپ کو غالباً آپ کے والدین اور اساتذہ نے بات کرنے کا سلیقہ اور تہذیب نہیں سکھائی۔ یا آپ کے دینی قائدین ہی ہر وقت لعنت ملامت کی تبلیغ کرتے پھرتے ہیں، اس لئے آپ میں بھی وہی صفات در آئی ہیں۔ ہم آپ کو ایک پلیٹ فارم پیش کر رہے ہیں اپنی بات اچھے انداز میں دوسروں کے سامنے رکھیں اور دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کریں، یہ بازاری انداز گفتگو اپنی پرائیویٹ محفلوں تک ہی محدود رکھیں تو بہتر ہوگا۔ شکریہ!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس کا مطلب یہ ہے آپ بھی مانتے ہیں کہ یزید نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ لیکن آپ کی سیاسی مجبوریوں والی بات ماننے سے مجھے حقائق روک رہے ہیں کہ اس کے پاس اتنی طاقت تو نہیں تھی کہ وہ قاتلین حسین سے باز پرس کر سکتا لیکن اگلے ہی سال اس کے پاس اتنی طاقت کہاں سے آگئ کہ مدینہ والوں نے جب اس کے فسق و فجور کی بنا پر اس کی بیعت توڑ دی تو اس نے مدینہ میں وہ خون ریزی کروائی جس کی حد نہیں اور پھر خانہ کعبہ پر بھی حملہ کروا دیا۔
افسوس۔۔۔آپ حقیقت سے باخبر نہیں
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں قیام پذیر تھے اور شاید سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے میدان اب صاف ہےچنانچہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف تھے۔ حسب تحریر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اہل مدینہ میں سے متعدد حضرات کی جن میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے، ہمدردیاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں۔ انہی دنوں ایک وفد مرتب ہوا ۔ جو "یزید رحمہ اللہ " کے ہاں گیا۔ یزید رحمہ اللہ نے ان کی خوب آؤ بھگت کی لیکن اس وفد نے مدینہ منورہ واپس آکر یزید کے عیوب گنوانے شروع کردیے اور اس کی طرف شراب نوشی وغیرہ باتیں منسوب کرکے ان کو عوم میں خوب پھیلایا گیا۔
فرجعوا فأظہروا عیبہ ونسبوا إلی شرب الخمر وغیر ذٰلک (فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
جس کے نتیجے میں اہل مدینہ نے نہ صرف یہ کہ یزید رحمہ اللہ کی بیعت سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔
لما انتزٰی أہل المدینۃ مع عبداللہ بن الزبیر خلعوا یزید بن معاویۃ (فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
بلکہ گورنر مدینہ عثمان بن محمد پر دھاوا بول دیا اور خاندان بنی امیہ کو محاصرے میں لے لیا۔ (تاریخ طبری، ۳۷۰/۴ ، طبع مطبعۃ الاستقامۃ)
لیکن اہل مدینہ کے اس طرز عمل کو اہل خیر و صلاح نے بالکل پسند نہیں کیا اور اس سے برملا اظہار بیزاری فرمایا جیسا کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جب ان کو اہل مدینہ کے طرز عمل کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ یعنی بال بچوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:
إنی سمعت النبی ﷺ یقول ینصب لکل غادر لواء یوم القیامۃ وإنا قد بایعنا ھٰذا الرجل علی بیع اللہ ورسولہ وإنی لا أعلم غدراً أعظم من أن یبایع رجل علی بیع اللہ ورسولہ ثم ینصب لہ القتال وإنی لا أعلم أحداً منکم خلعہ ولا تابع فی ھٰذا إلا کانت الفصیل بینی وبینہ (صحیح البخاری، الفتن، باب إذا قال عند قوم شیئاً۔۔۔، ح:۷۱۱۱)

یعنی "میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر بدعہدی(غدر) کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا (علامتی نشان) نصب کردیا جائے گا۔ ہم نے اس شخص (یزید) سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بیعت کی ہے، میری نظر میں اس سے زیادہ بدعہدی اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے پھر آدمی اسی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔ یاد رکھو تم میں سے کسی کے متعلق بھی اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے یزید رحمہ اللہ کی بیعت توڑ دی ہے ۔ یا وہ بدعہدی کرنے والوں کے پیچھے لگ گیا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہ رہے گا۔"
اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یزیدکی بیعت توڑنے سے گریز کیا۔ (البدایہ والنہایہ، ۲۱۸/۸) بلکہ خاندان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی اس موقعے پر نہ بیعت توڑی نہ اس شورش میں کسی قسم کا حصہ لیا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
کان عبداللہ بن عمر الخطاب وجماعات أہل بیت النبوۃ ممن لم ینقض العہد ولا بایع أحداً بعد بیعتہ لیزید۔۔۔ لم یخرج أحد من آل أبی طالب ولا من بنی عبدالمطلب أیام الحرۃ (البدایۃ والنہایۃ، ص: ۲۳۵/۷)
یعنی "عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت نبوی کے کسی گروہ نے نقض عہد نہیں کیا، نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور کی بیعت کی۔ آل ابو طالب (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان) اور اولاد عبدالمطلب میں سے کسی نے بھی ایام حرہ میں (یزید رحمہ اللہ کے خلاف) خروج نہیں کیا۔"
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کے سامنے ، جن کے ہاتھ میں "شورش" کی قیادت تھی، یزید رحمہ اللہ کی بیعت توڑ دینے اور اس کے خلاف کسی اقدام میں شرکت کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ یزید رحمہ اللہ پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور یزید کی صفائی پیش کی۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
افسوس۔۔۔آپ حقیقت سے باخبر نہیں
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں قیام پذیر تھے اور شاید سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے میدان اب صاف ہےچنانچہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف تھے۔ حسب تحریر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اہل مدینہ میں سے متعدد حضرات کی جن میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے، ہمدردیاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں۔ انہی دنوں ایک وفد مرتب ہوا ۔ جو "یزید رحمہ اللہ " کے ہاں گیا۔ یزید رحمہ اللہ نے ان کی خوب آؤ بھگت کی لیکن اس وفد نے مدینہ منورہ واپس آکر یزید کے عیوب گنوانے شروع کردیے اور اس کی طرف شراب نوشی وغیرہ باتیں منسوب کرکے ان کو عوم میں خوب پھیلایا گیا۔
((فرجعوا فأظہروا عیبہ ونسبوا إلی شرب الخمر وغیر ذٰلک)) (فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
جس کے نتیجے میں اہل مدینہ نے نہ صرف یہ کہ یزید رحمہ اللہ کی بیعت سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔
((لما انتزٰی أہل المدینۃ مع عبداللہ بن الزبیر خلعوا یزید بن معاویۃ)) (فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
بلکہ گورنر مدینہ عثمان بن محمد پر دھاوا بول دیا اور خاندان بنی امیہ کو محاصرے میں لے لیا۔ (تاریخ طبری، ۳۷۰/۴ ، طبع مطبعۃ الاستقامۃ)
لیکن اہل مدینہ کے اس طرز عمل کو اہل خیر و صلاح نے بالکل پسند نہیں کیا اور اس سے برملا اظہار بیزاری فرمایا جیسا کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جب ان کو اہل مدینہ کے طرز عمل کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ یعنی بال بچوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:
((إنی سمعت النبی ﷺ یقول ینصب لکل غادر لواء یوم القیامۃ وإنا قد بایعنا ھٰذا الرجل علی بیع اللہ ورسولہ وإنی لا أعلم غدراً أعظم من أن یبایع رجل علی بیع اللہ ورسولہ ثم ینصب لہ القتال وإنی لا أعلم أحداً منکم خلعہ ولا تابع فی ھٰذا إلا کانت الفصیل بینی وبینہ)) (صحیح البخاری، الفتن، باب إذا قال عند قوم شیئاً۔۔۔، ح:۷۱۱۱)
یعنی "میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر بدعہدی(غدر) کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا (علامتی نشان) نصب کردیا جائے گا۔ ہم نے اس شخص (یزید) سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بیعت کی ہے، میری نظر میں اس سے زیادہ بدعہدی اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے پھر آدمی اسی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔ یاد رکھو تم میں سے کسی کے متعلق بھی اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے یزید رحمہ اللہ کی بیعت توڑ دی ہے ۔ یا وہ بدعہدی کرنے والوں کے پیچھے لگ گیا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہ رہے گا۔"
اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یزیدکی بیعت توڑنے سے گریز کیا۔ (البدایہ والنہایہ، ۲۱۸/۸) بلکہ خاندان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی اس موقعے پر نہ بیعت توڑی نہ اس شورش میں کسی قسم کا حصہ لیا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
((کان عبداللہ بن عمر الخطاب وجماعات أہل بیت النبوۃ ممن لم ینقض العہد ولا بایع أحداً بعد بیعتہ لیزید۔۔۔ لم یخرج أحد من آل أبی طالب ولا من بنی عبدالمطلب أیام الحرۃ)) (البدایۃ والنہایۃ، ص: ۲۳۵/۷)
یعنی "عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت نبوی کے کسی گروہ نے نقض عہد نہیں کیا، نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور کی بیعت کی۔ آل ابو طالب (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان) اور اولاد عبدالمطلب میں سے کسی نے بھی ایام حرہ میں (یزید رحمہ اللہ کے خلاف) خروج نہیں کیا۔"
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کے سامنے ، جن کے ہاتھ میں "شورش" کی قیادت تھی، یزید رحمہ اللہ کی بیعت توڑ دینے اور اس کے خلاف کسی اقدام میں شرکت کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ یزید رحمہ اللہ پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور یزید کی صفائی پیش کی
آپ کی اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نعوذ باللہ باغی تھے اور انہوں نے محض سنی سنائی باتوں میں آکر آپ کے امام یزید کی بیعت توڑ دی۔ سبحان اللہ۔

آپ نے تاریخی روایات کے حوالے دیے ہیں جب ہم نے دینے ہیں تو آپ نے کہنا ہے کہ تاریخ نا قابل اعتبار ہے اس کے تو راوی شیعہ ہیں وغیرہ وغیرہ
 
شمولیت
جنوری 24، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
53
یہ تو آپ کہہ رہے ہیں۔۔۔ اوپر آئمہ کرام کے فرامین موجود ہیں۔۔۔
ظالم اور مظلوم کون ہے۔۔۔ بقول انس نضر کے
وہ ائمہ کرام کے فرامین ہمیں بھی پڑھا دیں تا کہ ہمیں بھی علم ہو جائے کہ ظالم کون تھا اور مظلوم کون۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
وہ ائمہ کرام کے فرامین ہمیں بھی پڑھا دیں تا کہ ہمیں بھی علم ہو جائے کہ ظالم کون تھا اور مظلوم کون۔
پڑھا تو آپ نے بہت بس اللہ سے دُعا ہے آپ کو سمجھ عطاء فرمائیں۔۔۔ تاکہ کوئلے اور کافور کے فرق کو سمجھ سکیں۔۔۔

امام غزالی کا پورا فتوٰی ملاحظہ کیجئے۔۔۔

امام غزالی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا۔۔۔ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو یزید پر لعنت کرتا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا اُس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟؟؟۔۔۔ کیا اُس پر لعنت کا جواز ہے؟؟؟۔۔۔ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔ یا اس کا مقصد صرف اپنی مدافعت تھا؟؟؟۔۔۔ اس کو رحمہ اللہ علیہ کہنا بہتر ہے یا اس سے سکوت افضل۔۔۔

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے جواب دیا۔۔۔
مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعا کوئی جواز نہیں جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔

مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔۔۔ علاوہ ازین ہمیں تو ساری شریعت اسلامیہ نے جانوروں تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح جائز ہوجائے گا؟؟؟۔۔۔ یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں روایت ہوئی ہے)۔۔۔

یزید کا اسلام صحیح طور پر ثابت ہے جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعے کا تعلق ہے سو اس بارے میں کوئی ثبوت موجود نہیں کے یزید نے انہیں قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضامندی ظاہر کی جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایہ ثبوت ہی کو نہیں پہنچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیونکہ جائز ہوگی؟؟؟۔۔۔

جبکہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے تم خواہ مخواہ بدگمانی کرنے سے بچو کے بعض دفعہ بدگمانی بھی گناہ کے دائرے میں آجاتی ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔۔۔

اللہ تعالٰی مسلمان کے خون، مال، عزت اور آبرو اور اس کے ساتھ بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے۔۔۔

جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اُن کے قتل کو پسند کیا وہ پرلے درجے کا احمق ہے کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا تھا وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسند کیا دراں عالیکہ ان کے قتل اس کے بالکل قرب میں اور اس کے زمانے میں ہوئے اور اس نے ان کا خود مشاہدہ کیا پھر اس قتل کے متعلق (یقینی اور حمتی طور پر) کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا اور جس پر چار سو سال (امام غزالی رحمہ اللہ علیہ کے دور تک) کی مدت بھی گذر چکی ہے۔۔۔

علاوہ ازین اس سانحے پر تعصب وگروہ بندی کی دبیز تہیں چڑھ گئی ہیں اور روایتوں کے انبار لگا دیئے گئے ہیں جس کی بناء پر اصل حقیقت کا سراغ لگانا ناممکن ہے جب واقعہ یہ ہے کے حقیقت کی نقاب کشائی ممکن ہی نہیں تو ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے پھر اہل حق (اہلسنت والجماعت) کا مذہب یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان کافر نہیں ہوگا۔۔۔ اس لئے کے جرم قتل کفر نہیں ایک معصیت (گناہ) ہے پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل مرنے سے پہلے پہلے اکثر توبہ کر ہی لیتا ہے اور شریعت کا حکم تو ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کرلے اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کے لئے کیوں کر جائز ہوگی جس ن مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہو؟؟؟۔۔۔

آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کئے بغیر ہی مرگیا ہے جب کہ اللہ کا در توبہ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔۔۔

وَهُوَ ٱلَّذِى يَقْبَلُ ٱلتَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِۦ
وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے (الشوری)۔۔۔

بہرحال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں جو مرچکا ہو جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے گا وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے۔۔۔

اگر (بالفرض) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کی بجائے سکوت اختیار کئے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کے تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی؟؟؟۔۔۔

البتہ اگر کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی؟؟؟۔۔۔ اور تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوگیا تھا وہ ملعون اور راندہ درگاہ ہے؟؟؟۔۔۔

جب کے کسی کے کفروایمان کا مسئلہ امور غیب سے ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہاں شریعت کے ذریعے ہمیں یہ ضرور معلوم ہوا کے جو شخص کفر کی حالت میں مرے وہ ملعون ہے۔۔۔

جہاں تک یزید کو رحمہ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب (اچھا فعل) ہے بلکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم مسلمانوں کی مغفرت کیلئے کرتے ہیں۔۔۔

اللھم اغفرللمومنین والمومنات
یا اللہ تمام مومن مرد اور مومن عورتوں کو بخش دے اس لئے کے یزید بھی یقینا مومن تھا (وفیات الاعیان٣\٢٨٨ طبع بیروت)۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
یہ فرعون اور نمرود کیا مسلمان تھے؟؟؟۔۔۔

ظالم بادشاہ تو تھے یزید کے طرح۔
اگر آپ فاسق اور کافر کو برابر سمجھتے ہیں تب پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

آپ کو ایمان کی قدر وقیمت کا اندازہ ہی نہیں۔

احادیث مبارکہ میں ہے:
« إن الله سيخلص رجلا من أمتي على رؤوس الخلائق يوم القيامة فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا ، كل سجل مثل مد البصر ثم يقول : أتنكر من هذا شيئا ؟ أظلمك كتبتي الحافظون؟ يقول : لا يا رب . فيقول: أفلك عذر؟ فيقول : لا يا رب، فيقول: بلى إن لك عندنا حسنة وإنه لا ظلم عليك اليوم، فيخرج بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، فيقول : احضر وزنك ، فيقول: يا رب ما هذه البطاقة ما هذه السجلات ؟ فقال فإنك لا تظلم. قال: فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة فطاشت السجلات وثقلت البطاقة، ولا يثقل مع اسم الله شيء »
الراوي: عبدالله بن عمرو بن العاص، المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2639
خلاصة حكم المحدث: صحيح

قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے میری امت کے ایک شخص کو پکارا جائے گا، پھر اس کے سامنے 99 رجسٹر پھیلا دئیے جائیں گے جن میں سے ہر رجسٹر تا حدِ نگاہ پھیلا ہوگا۔ پھر اس سے پوچھا جائے گا: کیا تم اپنے ان اعمال میں سے کسی عمل کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اسے کہا جائے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر یا کوئی نیکی ہے؟ تو وہ شخص ڈر جائے گا اور کہے گا: نہیں! تو اسے کہا جائے گا: کیوں نہیں! تیری ایک نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے اور آج تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پھر اس کیلئے ایک کارڈ نکالا جائے گا جس میں لکھا ہوگا: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! یہ کارڈ اتنے رجسٹروں کے سامنے تو کچھ بھی نہیں ۔ اسے کہا جائے گا: آج تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا، پھر تمام رجسٹروں کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور اس کارڈ کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔ چنانچہ رجسٹروں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور کارڈ والا پلڑا جھک جائے گا۔ الله تعالیٰ کے مبارک نام سے کوئی شے بھاری نہیں۔

« قال موسى﷤: يا رب! علمني شيئا أذكرك به، قال: قل لا إله إلا الله فقال: يا رب! كل عبادك يقول هذا إنما أريد شيئا تخصني به، قال: يا موسىٰ! لو أن السماوات السبع وعامرهن غيري والأرضين السبع وضعن في كفة ولا إله إلا الله في كفة لمالت بهن لا إله إلا الله »
الراوي: أبو سعيد الخدري، المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 2/436
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]

سیدنا موسیٰ ﷤ نے عرض کیا کہ اے میرے رب! مجھے ایسی شے سکھلائیے جس کے ساتھ میں آپ کا ذکر کروں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لا إله إلا الله کہا کرو۔ عرض کیا: اے میرے رب! یہ تو آپ کے سارے (مؤمن) بندے کہتے ہیں، میں اپنے لئے کوئی خاص شے چاہتا ہوں۔ فرمایا: اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان بمعہ ان میں رہنے والے سوائے میرے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا إله إلا الله دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو لا إله إلا الله والا پلڑا جھک جائے گا۔

سبحان الله وبحمده، لا إله إلا هو
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
آپ کی اس ساری تحریر کا مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نعوذ باللہ باغی تھے اور انہوں نے محض سنی سنائی باتوں میں آکر آپ کے امام یزید کی بیعت توڑ دی۔ سبحان اللہ۔

آپ نے تاریخی روایات کے حوالے دیے ہیں جب ہم نے دینے ہیں تو آپ نے کہنا ہے کہ تاریخ نا قابل اعتبار ہے اس کے تو راوی شیعہ ہیں وغیرہ وغیرہ

شیعی آئیڈیالوجی تو یہی ہے کہ وہ (معاذ اللہ) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کفر و ارتداد اور منافقت کے قائل ہیں لیکن کیا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسلیم کرتے ہیں ان میں دینی حمیت کا جذبآ
تھا
ہم چندباتیں ے غور کے لیے پیش خدمت ہیں۔
یزید کے موقف کی وضاحت تاریخ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد اس وقت کی ساری قلمرو میں وہ حضرت معاویہ کے صحیح جانشین قرار دیے گئے، صرف مدینہ منورہ میں چار صحابیوں سے بیعت لینی باقی تھی۔
۱۔ حضرت عبداللہ بن عمر ۲۔ حضرت عبداللہ بن عباس ۳۔ عبداللہ بن زبیر ۴۔ اور حضرت حسین۔۔رضی اللہ عنہم۔۔
اول الذکر دونوں بزرگوں نے یزید کی حکومت باقاعدہ طور پر منظور کرلی جیساکہ تاریخ طبری وغیرہ، سب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہےجب کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پہلو تہی کی جس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا:
((اتقیا اللہ )) (البدایۃ النہایۃ: ۱۵۰/۸، الطبری: ۲۵۴/۴)یعنی "اللہ سے ڈرو ۔
اور واقعہ یہ ہے کہ جن محققین علمائے امت نے حقائق کی روشنی میں جذبات سے الگ ہوکر اس پر غور کیا ہے وہ یزید کی حکومت کو اسی طرح تسلیم کرتے رہے جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر سارے شہروں کے سب صحابہ و تابعین نے، صرف مذکور الصدر دو صحابیوں کے سوا، یزید کو وقت کا امیر المومنین تسلیم کرلیا تھا

اس سے معلوم ہوا کہ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تک نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو ظاہر ہے یزید رحمت اللہ کا موقف یہی ہوسکتا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوکر اس کی حکومت کو صحیح جانیں تاکہ انتشار کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟ تو حقیقت یہ ہے کہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں اپنے موقف کی کبھی وضاحت ہی نہیں فرمائی کہ وہ کیا چاہتے تھے؟ اور ان کے ذہن میں کیا تجویز تھی؟ یزید رحمت اللہ کے خلیفہ بن جانے کے بعد جب گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے انہیں یزید رحمت اللہ کی بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا کہ میں خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، اجتماع عام میں بیعت کروں گا۔۔

(أما ما سألتنی من البیعۃ فإن مثلی لا یعطی بیعتہ سراً ولا أراک تجتزی ء بھا منی سراً دون أن نظھرھا علی رؤوس الناس علانیۃ)) (الطبری: ۲۵۱/۴، مطبوعہ دارالاستقامۃ)

اب آپ بتائیں کیا يه بغاوت ہے ؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top