• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے !!!

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔
اللہ تعالٰی یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔
عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں عراق میں دانیال علیہ السلام کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کر دیا جا‏ئے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے۔

سوال:

امام بخاری رحمہ اللہ نے "تاریخ الصغیر ": (146) میں روایت کیا ہے کہ:

ہمیں عمرو بن محمد نے بیان کیا، انہیں يعقوب نے وہ کہتے ہیں انہوں نے اپنے والد سے، اور انہوں نے ابن اسحاق سے ، وہ کہتے ہیں مجھے یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبی عمرة انصاری نے بتلایا کہ میں نے خارجہ بن زيد بن ثابت سے سنا وہ کہہ رہے تھے: "میں نے دیکھا ہے کہ جوانی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران ہم میں سب سے لمبی چھلانگ والا وہی ہوتا تھا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر سے چھلانگ لگا کر گزر جاتا تھا "

شیخ اسلام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس اثر کی صحت ثابت کرنے کے بعد تعلیق چڑھائی ہے کہ: "یہ اثر سطح زمین سے قبر کو بلند کرنے کی دلیل ہے" تو اس اثر کی صحت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

کیونکہ قبر پرست لوگ اس اثر سے قبر پر تعمیر کرنے اور قبر کو بلند کرنے کی دلیل لیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ : دوسری حدیث جس میں قبر پر تعمیر سے ممانعت ہے وہ یہود و نصاری کیساتھ خاص ہے۔۔۔ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟


الحمد للہ:

اول:

امام بخاری نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ:

خارجہ بن زید کہتے ہیں کہ:" میں نے دیکھا ہے کہ جوانی میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران ہم میں سب سے لمبی چھلانگ والا وہی ہوتا تھا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر سے چھلانگ لگا کر گزر جاتا تھا" انتہی

امام بخاری نے اس اثر کو "تاریخ صغیر"(1/67) میں اور اسی طرح ابن عساکر نے اپنی "تاریخ" (15/396) میں " ابن إسحاق حدثني یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري قال سمعت خارجة بن زيد بن ثابت ۔۔۔ " کی سند سے ذکر کیا ہے۔

اور یہ سند ضعیف ہے، اس میں یحیی بن عبد الله الأنصاری مجہول ہے، اس سے صرف ابن اسحاق ہی روایت کرتا ہے کوئی اور اس سے روایت نہیں کرتا، یحیی کا تذکرہ بخاری نے "التاريخ الكبير" (8/284) میں اور ابن أبي حاتم نے "الجرح والتعديل" (9/162) میں ، اور ابن حبان نے "الثقات" (7/603) میں کیا ہے ، اور صرف ابن اسحاق کو اسکی روایت بیان کرنے والا کہا ، نیز کسی نے بھی یحیی کو "ثقہ" نہیں کہا، چنانچہ ابن حبان کے "الثقات" میں ذکر کر دینے کی وجہ سے یحیی کی معتبر توثیق نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ ابن حبان اپنی "الثقات" کتاب میں ایسے مجہول راویوں کو بھی ذکر کر دیتے ہیں جن کے بارے میں ابن حبان رحمہ اللہ کا اپنا یہ بیان ہوتا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا، اور نہ ہی اسکے والد کو جانتا ہوں۔

دیکھیں ابن حبان کی کتاب: "الثقات": (4/146) اور اسی طرح : (6/418)

چنانچہ یہ یحیی مجہول ہے ، اسکی روایت معتبر نہیں ہو سکتی۔

اور امام بخاری نے اگر اس اثر کو اپنی صحیح میں معلق طور پر ذکر کر دیا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ یہ اثر بخاری کے ہاں صحیح بھی ہے، امام بخاری کی شرط پر ہونا تو دور کی بات ہے۔

یہ بات معروف ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح کی معلقات میں ایسی مرویات بھی ذکر کر دیتے ہیں جو کہ ضعیف ہی، اسی لئے کچھ کی طرف صیغہ تمریض کے ذریعے اشارہ بھی کرتے ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بخاری میں ذکر شدہ معلقات سب کی سب امام بخاری کے ہاں بھی صحیح نہیں ہیں، دوسروں کے نزدیک تو بعد کا معاملہ ہے" انتہی
"تمام المنّۃ" (ص 397)

اور معلقات بخاری کے بارے میں مطلق طور پر یہ کہنا کہ : "بخاری نے اسے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے" درست نہیں ہے، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ: "بخاری نے اسے معلق ذکر کیا ہے"، یا "بخاری نے اسے اپنی صحیح میں معلق طور پر ذکر کیا ہے" اسی طرح کی محتاط عبارت استعمال کی جائے گی؛ کیونکہ معلقات صحیح بخاری کی شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔

چنانچہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ صحیح بخاری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے منقول بہت سی معلق روایات ہیں، چنانچہ اگر کوئی متلاشی علم ان معلقات کو آگے بیان کرنا چاہے تو یہ مت کہے کہ: "اسے بخاری نے روایت کیا ہے" کیونکہ اس انداز کی تعبیر ان روایات کیلئے مختص ہے جو کہ مکمل سند کے ساتھ صحیح بخاری میں بیان ہوئی ہیں، جبکہ معلقات میں امام بخاری سند ذکر نہیں کرتے، بلکہ براہِ راست کہتے ہیں: "بخاری کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" چنانچہ اس طرح کی احادیث کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ " اسے بخاری نے روایت کیا ہے" بلکہ اسے چاہئے کہ ساتھ میں یہ بھی کہے کہ : "بخاری نے اسے معلق طور پر نقل کیا ہے" انتہی
ماخوذ از: "دفاع عن الحديث النبوی" (ص 20)

دوم:

سائل بھائی کا کہنا کہ : "ابن حجر نے اس اثر کی صحت کو ثابت کیا ہے" درست نہیں ہے؛ بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ نے زیادہ سے زیادہ یہ کہا ہے کہ:
"مصنف[یعنی: امام بخاری] نے اسے "تاریخ صغیر " میں اس سند: ابن إسحاق حدثني یحیی بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي عمرة الأنصاري قال سمعت خارجة بن زيد بن ثابت ۔۔۔ کیساتھ موصول ذکر کیا ہے ، اور اس میں قبر کو کچھ اونچا، اور سطح زمین سے ابھرا ہوا بنانے کی اجازت ملتی ہے" انتہی
"فتح الباری" (3/223)

ابن حجر رحمہ اللہ کی اس گفتگو میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس میں ابن حجر کی طرف سے اس اثر کی تصحیح ملتی ہو۔

اس اثر کے ضعیف ہونے کیلئے یہ بھی دلیل ہے کہ خارجہ بن زید بن ثابت رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر تابعی جو کہ مدینہ کے سات فقہائے کرام میں شمار ہوتے ہیں، انکا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کے اوپر سے پھلانگنا بعید ہے، کیونکہ یہ ایک غلط اور بیوقوف لوگوں کا کام ہے، جو کہ خارجہ بن زید جیسا شخص نہیں کر سکتا، اور ویسے بھی روایت میں ذکر ہے کہ یہ جوانی کی عمر کا واقعہ ہے، حالانکہ جوانی کی عمر میں خارجہ علم حاصل کرنے کیلئے مشغول رہتے تھے، اور انکی اس عمر میں علم حاصل کرنے کی مشغولیت بہت سخت تھی، یہی وجہ تھی کہ انہیں مدینہ منورہ کے ان گنے چنے فقہائے کرام میں شمار کیا جانے لگا جن سے فتوی لینے کیلئے رجوع کیا جاتا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کا غلط فعل آپ سے صادر نہیں ہو سکتا۔

اور ویسے بھی جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے صحیح ثابت ہے کہ:

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر تحریر لکھنے، ان پر تعمیر کرنے، اور انہیں قدموں تلے روندنے سے منع فرمایا"

مسلم (970) ، أبو داود (3225) ، نسائی (2028) ، ترمذی (1052) یہ لفظ ترمذی کے ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اگر تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے اور جلد تک جل جائے ، یہ اس کیلئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے) مسلم: (971)


اسی طرح مسند احمد : (27918) میں عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں :

مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قبر سے ہٹ جاؤ، اور قبر والے کو تکلیف مت دو)

البانی رحمہ اللہ نے اسے "الصحیحہ" (2960) میں صحیح قرار دیا ہے۔


اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبر پر اس طرح چھلانگ لگانے سے قبر والے کو تکلیف ہوگی۔

سوم:

پہلے سوال نمبر: (83133) اور (124600) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ سطح زمین سے ایک بالشت کے برابر قبر کو اونچا بنانا شرعی طور پر جائز ہے، اس سے زیادہ نہ کیا جائے، اور اس پر کچھ تعمیر بھی نہ کیا جائے۔

اور "الموسوعۃ الفقهیۃ" (11/342) میں ہے کہ:

"فقہائے کرام کے ہاں قبر پر ایک بالشت تک مٹی چڑھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور کچھ فقہائے احناف کے ہاں اس سے تھوڑی سی زیادہ مٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے، صرف اس لئے کہ پتا چلے کہ یہ قبر ہے، چنانچہ اسکی اہانت سے بچا جائے ، اور قبر والے کیلئے رحمت کی دعا کی جائے" انتہی
اسی طرح دیکھیں: "الموسوعۃ الفقهیۃ" (32/250)

چنانچہ گزشتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کو بھی اسی معنی اور مفہوم پر محمول کیا جائے گا جس میں انہوں نے کہا تھا: " اور اس میں قبر کو کچھ اونچا، اور سطح زمین سے ابھرا ہوا بنانے کی اجازت ملتی ہے "

چہارم:

قبروں پر کچھ تعمیر کرنا بُرے افعال، اور قبروں سے متعلق ثابت شدہ سنت کے بر خلاف خود ساختہ بدعات میں سے ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبروں پر عمارت کی ممانعت ثابت ہے، اور ویسے بھی قبروں پر عمارت بنانا قبروں میں موجود افراد کی تعظیم کا ذریعہ ہے، اور قبروں میں مدفون لوگوں کی تعظیم اللہ کے ساتھ شرک کا ایک دروازہ ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:

"قبروں پر تعمیر کرنا منکر بدعات میں سے ہے، اور اس میں قبر والے کی تعظیم کیلئے غلو بھی ہے جو کہ اللہ کیساتھ شرک کا ذریعہ ہے، اس لئے مسلم حکمران یا اس کے قائم مقام افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ قبروں پر موجود عمارت وغیرہ گِرا دینے کے احکامات جاری کریں، اور قبروں کو زمین کے برابر کر دیں؛ تا کہ اس بدعت کا خاتمہ ہو سکے، اور شرک کے ذرائع بند کئے جا سکیں" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /413)

مزید کیلئے سوال نمبر: (8991) اور (130919) کا مطالعہ کریں

پنجم:

سائل کا قبر پرستوں سے نقل کرتے ہوئے کہنا: " دوسری حدیث جس میں قبر پر تعمیر سے ممانعت ہے وہ یہود و نصاری کیساتھ خاص ہے "

یہ بے تکی اور بے عقلی والی بات ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاری کو قبروں پر بنانے سے کیوں روکے گے؟!

بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ :

قبروں پر عمارت بنانے کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ کام یہودی اور عیسائی کیا کرتے تھے، کیونکہ وہ لوگ یہ کام کرنے کے بعد شرک میں مبتلا ہوگئے؛

جیسے کہ صحیح بخاری: (434) اور صحیح مسلم: (528) میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کلیسا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کے علاقے میں دیکھا تھا، اس کا نام : "ماریہ" تھا، تو انہوں نے اس میں موجود تصاویر کا بھی ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں میں جب کوئی نیک بندہ یا آدمی فوت ہو جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا کر اس میں انکی تصاویر بناتے تھے ، یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں"

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (26312) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/185266
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قبروں پر مساجد بنانے کا حکم !!!

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبروں پر مساجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کیلئے وہ لوگ سورہ کہف کی اس آیت کو دلیل بناتے ہیں: {قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا}با اثر شخصیات نے کہا کہ ہم ان پر مسجد ضرور بنائیں گے۔[الكهف : 21] تو کیا انکا یہ کہنا درست ہے؟ اسکا جواب کیسے دیا جائے گا؟

الحمد للہ:

انبیاء و صالحین کی قبروں اور آثار پر مساجد بنانے کے متعلق پوری شریعت اسلامیہ میں سخت ممانعت کی گئی ہے اور ایسے کرنے سے خبردار کیا گیا ہے، حتی کہ ان کاموں کے کرنے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے ذریعہ اور انبیاء و صالحین کے بارے میں غلو ہے، اور موجودہ حقائق اس بارے میں شرعی احکامات کے درست ہونے پر شاہد ہیں، یہ حقائق اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ شرعی احکام اللہ عز وجل کی جانب سے ہیں، اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اللہ کا پیغام پہنچا دینے کی بھی روزِ روشن کی طرح عیاں دلیل ہیں۔

عالم اسلامی کی صورت حال پر غور و فکر کرنے والے ہر شخص کیلئے یہ واضح ہے کہ امت میں پایا جانے والا شرک اور غلو قبروں ، مزاروں پر مساجد بنانے ، اور ان مزاروں کی تعظیم، تزیین و آرائش ، اور انکی انتظامی کمیٹیاں بنانے کی وجہ سے ہے، اور اسے یقینی طور پر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہیں۔

اور یہ شریعتِ اسلامیہ کی خوبی ہے کہ شریعت میں ان تمام کاموں سے منع کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے، اس بارے میں وارد شدہ احادیث میں سے وہ روایت بھی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے :(1330) پر اور امام مسلم رحمہ اللہ نے : (529) میں ذکر کیا ہے،

چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فر مائے، کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ انکے عمل سے اپنی امت کو خبر دار فرما رہے تھے، مزید کہتی ہیں کہ: اگر یہی خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک سب کے سامنے عیاں ہوتی"

اسی طرح صحیحین ہی میں ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کلیسا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کے علاقے میں دیکھا تھا، اور اس میں موجود تصاویر کا بھی ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا کر اس میں انکی تصاویر بناتےتھے ، یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں"

بخاری: (427) مسلم: (528)


اور صحیح مسلم : (532) میں جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ دن پہلے آپ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:

(میں اللہ کے سامنے اظہار براءت کرتا ہوں کہ میرا تم میں سے کوئی خلیل بھی ہے، بیشک اللہ تعالی نے مجھے ایسے ہی اپنا خلیل بنایا، جیسے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں پر مساجد بنا لیتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مساجد مت بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں)

اس بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں، اور چاروں فقہی مذاہب و دیگر مسلم علمائے کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے واضح لفظوں میں قبروں پر مساجد بنانے سے منع اور خبردار کیا ہے، تا کہ امت کی خیر خواہی ہوسکے، اور امت ایسے کاموں میں ملوّث نہ ہو جائے جن میں غلو پسند یہودی اور عیسائی وغیرہ مبتلا ہو گئے ۔

کچھ لوگ اس مسئلہ کیلئے اہل کہف کا قصہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ان کے بارے میں فرمان ہے:

{قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا}

ترجمہ:

[اہل کہف کے ]بارے میں با اثر شخصیات نے کہا کہ ہم ان پر مسجد ضرور بنائیں گے۔[الكهف : 21]

تو اسکے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ:

اس میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی نے اس زمانے کے طاقتور اور صاحب اثر لوگوں کی یہ بات ذکر کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی تھی، چنانچہ انکے بارے میں یہ خبر بطور رضا مندی یا ان کی اس بات کو صحیح قرار دیتے ہوئے ذکر نہیں کی بلکہ انکی مذمت، اور انکے قول و فعل سے نفرت دلانے کے طور پر ذکر کی ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ جس ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ، جنہیں اس آیت کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم ہو سکتا ہے انہوں نے قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا اور اس کام سے خبردار بھی کیا ، اور ایسا کام کرنے والے پر لعنت و مذمت فرمائی۔

اگر یہ کام جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کے متعلق اتنے سخت اور شدید احکامات جاری مت فرماتے ، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو کرنے والے پر لعنت فرمائی، اور یہاں تک فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے ان فرامین کے بعد متلاشیانِ حق کیلئے کوئی کمی نہیں رہ جاتی۔

اور اگر ہم بفرضِ محال یہ مان بھی لیں کہ ہم سے پہلے والی امتوں کیلئے قبروں پر مسجدیں بنانا جائز تھا تو ہمارے لئے ان کے اس عمل کی اتباع کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہماری شریعت کی وجہ سے سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الرسل ہیں، آپکو دی گئی شریعت کامل اور سب کیلئے ہے، اور اسی شریعت کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا، اس لئے ہمارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی مخالفت کسی شکل میں جائز نہیں ہے، بلکہ ہمارے لئے آپکی اتباع، اور آپکو دی گئی شریعت پر کار بند رہنا ضروری ہے، چنانچہ اس سے پہلے والی تمام شریعتوں اور ان کے ہاں اچھی سمجھی جانے والی اخلاقی اقدار کو چھوڑنا ہمارے لئے حتمی ہے ؛ کیونکہ اللہ کی شریعت سے بڑھ کر کوئی شریعت کامل نہیں ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے بڑھ کر کوئی رہنمائی نہیں ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم، اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر قولاً و عملاً ، ظاہراً و باطناً ، اور زندگی کے تمام معاملات میں پابند رہنے کی توفیق دے، یہاں تک کہ ہم اللہ تعالی کو جا ملیں، بیشک وہ سننے والا، اور قریب ہے۔

وصلى الله وسلم على عبده ورسوله محمد وآله وصحبه ومن اهتدى بهداه إلى يوم الدين۔" انتہی

ماخوذ از: "مجموع فتاوى و مقالات "از: شيخ ابن باز رحمہ الله ( 1 / 434 )

قبروں والی مسجد میں نماز پڑھنے کا حکم جاننے کیلئے آپ سوال نمبر: (26324) کا مطالعہ کریں۔.

شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/26312


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال : ( لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ ) رواه مسلم (971) .
وروى الإمام أحمد (27918) عن عَمْرٌو بن حزم رضي الله عنه قَالَ : رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُتَّكِئٌ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ ( انْزِلْ عَنْ الْقَبْرِ لَا تُؤْذِ صَاحِبَ الْقَبْرِ ) .صححه الألباني في "الصحيحة" (2960) .
ولا شك أن هذا الوثب على القبر مما يؤذي صاحبه .

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اگر تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے اور جلد تک جل جائے ، یہ اس کیلئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے) مسلم: (971)
اسی طرح مسند احمد : (27918) میں عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں :
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(قبر سے ہٹ جاؤ، اور قبر والے کو تکلیف مت دو)۔۔البانی رحمہ اللہ نے اسے "الصحیحہ" (2960) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ولا شك أن هذا الوثب على القبر مما يؤذي صاحبه .
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبر پر اس طرح چھلانگ لگانے سے قبر والے کو تکلیف ہوگی۔

یہ حدیث ،کے ۔یا ۔البانی ۔کے الفاظ نہیں ۔بلکہ مفتی صاحب کے ہیں ،جنہوں نے یہ فتوی لکھا ۔
اور تکلیف سے مراد یہ ہے کہ مردہ کی توہین و تحقیر ہوتی ہے ۔
اور احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے ،کہ مسلمان کی قبر ہو تو اس کا احترام کرنا چاہیئے ،

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال : ( لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهُ فَتَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ ) رواه مسلم (971) .
وروى الإمام أحمد (27918) عن عَمْرٌو بن حزم رضي الله عنه قَالَ : رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُتَّكِئٌ عَلَى قَبْرٍ فَقَالَ ( انْزِلْ عَنْ الْقَبْرِ لَا تُؤْذِ صَاحِبَ الْقَبْرِ ) .صححه الألباني في "الصحيحة" (2960) .
ولا شك أن هذا الوثب على القبر مما يؤذي صاحبه .

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اگر تم میں سے کوئی انگارے پر بیٹھے جس سے اس کے کپڑے اور جلد تک جل جائے ، یہ اس کیلئے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے) مسلم: (971)
اسی طرح مسند احمد : (27918) میں عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں :
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(قبر سے ہٹ جاؤ، اور قبر والے کو تکلیف مت دو)۔۔البانی رحمہ اللہ نے اسے "الصحیحہ" (2960) میں صحیح قرار دیا ہے۔

ولا شك أن هذا الوثب على القبر مما يؤذي صاحبه .
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قبر پر اس طرح چھلانگ لگانے سے قبر والے کو تکلیف ہوگی۔

یہ حدیث ،کے ۔یا ۔البانی ۔کے الفاظ نہیں ۔بلکہ مفتی صاحب کے ہیں ،جنہوں نے یہ فتوی لکھا ۔
اور تکلیف سے مراد یہ ہے کہ مردہ کی توہین و تحقیر ہوتی ہے ۔
اور احادیث کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے ،کہ مسلمان کی قبر ہو تو اس کا احترام کرنا چاہیئے ،
جزاک اللہ خیرا بھائی اللہ سبحان و تعالیٰ آپ کے علم اور عمل میں اضافہ فرمائے - آمین یا رب العامین

بھائی اس پوسٹ پر بھی آپ کو رہنمائی کی ضرورت ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/اسلام-میں-مختلف-فرقے-بننے-کے-اسباب.27022/#post-216401
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا ﴿٢١﴾
اِس طرح ہم نے اہل شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحاب کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے کچھ لوگوں نے کہا "اِن پر ایک دیوار چن دو، ان کا رب ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے" مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے انہوں نے کہا " ہم تو ان پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے"۔
قرآن، سورت الکہف، آیت نمبر 21
مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقبر ِصلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی ﷺکے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں :
لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج (احمد، ترمذی ، ابو داؤد ،نسائی، ابن ماجہ)۔ " اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔
الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں ۔ لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآءھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم ، نَسائی) " اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔
اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد ، بخاری، مسلم، نسائی) " ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔
نبی ﷺکی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ نعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے۔

http://islamqa.info/ur/185266
ایک جانب آپ یہ فرمارہے ہیں قبروں پر تعمیرات کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے اور دوسری جانب قبروں پر تعمیر کی گئی عمارت کے امیج کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں کہ
تمام دوست اس تصویر کو اپنے پروفائل امیج کے طور پر لگائیں ۔ جزاک اللہ

اور وہ تصویر یہ ہے

اب سوال یہ کہ آپ نے قبر پر تعمیر کی گئی عمارت کی تصویر دوستوں کے پرفائل میں لگانے کی درخواست کرکے کیا دوستوں کو شرک اکبر کی دعوت دی ہے ؟
اور یہ بھی اب تک میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار مبارک کے طور پر اس تصویر کو اپنے دوست سے پروفائل میں امیج کے طور سے لگانے کا کہا گیا ہے یا مزار حضرت ابوبکر و عمر کے طور پر
امید ہے جواب ضرور عنایت فرمائیں گے اور ایسا نہ ہوکہ آپ اپنا وہ تھریڈ ہی غائب کروادیں ویسے قوی امید یہی ہے کیونکہ ایسا کئی بار ہوچکا ہے
میری بھی یہ دعا ہے اللہ مجھے سمت تمام مسلمانوں اور تمام وہابیوں کو صراط مستقیم دیکھائے آمین رب العالمین
 
Top