• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبروں پر تعمیرات قائم کرنا شرک اکبر کا ذریعہ ہے !!!

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مذہبی شخصیات کی عقیدت پر مبنی تصاویر اوراس کے علاوہ تصاویر کا معاملہ ایک الگ موضوع ہے۔ نواب صدیق حسن خان کا مزار ہو یا وحید الزماں کا آستانہ ،اِن سے اسلام میں قبروں پر عمارات بنانے کا جواز ہرگز تراشا نہیں جا سکتا لہذا ان غیر متعلقہ چیزوں کے علاوہ اگر آپ کے پاس قرآن سے کوئی دلیل ہے تو ضرور پیش فرمائیں۔
کہیں آپ یہ تو نہیں فرمارہے کہ میں نے جو سورہ کہف کی آیت پیش فرمائی وہ قرآن نہیں ہے!! نعوذباللہ
اور اس کے جواب آپ خود بھی روایات پیش فرمارہے ہیں جبکہ آپ ہی دوسرے لوگوں کو روایت پرست ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی بالکل مناسب بات کی ہے آپ نے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت تعمیر کی گئی ہے یہ غالبا چھٹی ساتویں ہجری کی ہے ، اہل حدیث یا وہابیوں کے نزدیک اس طرح قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔
سعودی حکومت اور علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے تختہ حکومت سنبھالتے ہی بہت ساری قبروں کو سنت کے مطابق کردیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بنے گنبد کو ختم نہ کرنے کی وجہ مصلحت ہے تاکہ عالم اسلام میں اس بنیاد پر کوئی ہنگامہ کھڑا نہ ہو جائے ۔ واللہ اعلم ۔
بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو ، ایک طرف حدیث رسول ہے کہ قبروں پر عمارتیں نہ بناؤ دوسری طرف امتیوں کا فعل ہے کہ انہوں نے بعض قبروں پر عمارتیں بنادی یا ان کو باقی رکھا ۔ ہم اللہ کے رسول کی حدیث کو مانیں گے اور اس بنا پر امتیوں کے اس فعل کو خلاف سنت کہیں گے ۔
لیکن مصلحتا اہل بیت اطہار کی قبور انوار کو نہیں چھوڑا گیا
ان صحابہ پرستوں کے گنبد خضراء کو مصلحتا چھوڑنے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ یہ گنبد حضرت ابو بکر و عمر کی قبروں پر بھی بنا ہوا ہے ؟؟؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جی بالکل مناسب بات کی ہے آپ نے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت تعمیر کی گئی ہے یہ غالبا چھٹی ساتویں ہجری کی ہے ، اہل حدیث یا وہابیوں کے نزدیک اس طرح قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔
سعودی حکومت اور علماء کا بھی یہی موقف ہے ۔ اسی لیے انہوں نے تختہ حکومت سنبھالتے ہی بہت ساری قبروں کو سنت کے مطابق کردیا تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بنے گنبد کو ختم نہ کرنے کی وجہ مصلحت ہے تاکہ عالم اسلام میں اس بنیاد پر کوئی ہنگامہ کھڑا نہ ہو جائے ۔ واللہ اعلم ۔
بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو ، ایک طرف حدیث رسول ہے کہ قبروں پر عمارتیں نہ بناؤ دوسری طرف امتیوں کا فعل ہے کہ انہوں نے بعض قبروں پر عمارتیں بنادی یا ان کو باقی رکھا ۔ ہم اللہ کے رسول کی حدیث کو مانیں گے اور اس بنا پر امتیوں کے اس فعل کو خلاف سنت کہیں گے ۔

ماشاءاللہ کیا اسلوب استدلال ہے !
آیت قرآن مجید کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں گزری امتوں کے جو واقعات و قصص بیان کیے گئے ہیں ، ان کو ظاہر ہے ویسے ہی بیان کیا گیا ہے جیسے وہ رونما ہوئے ۔
لیکن اس کے مطلب یہ نہیں کہ اب ان پر عمل کرنا شروع کردیا جائے ۔
قرآن مجید یہ بیان ہوا کہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم نے بچھڑے کی پوجا آپ اس پر عمل کرتے ہیں ؟
قرآن مجید میں ہے کہ فرعون نے رب ہونے کا دعوی کیا تھا آپ نے اس پر عمل کیا ۔؟
@خضر حیات بھائی لیکن یہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے۔تو گھر کو گرانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں جو قبرکا حصہ ہے ۔اسے ایک بالشت کردیا جاے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
کیا بچھڑے کی پوجا کے عمل کی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مذمت نہیں فرمائی ؟
تو کیا قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے کی مذمت اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نہیں کروائی ۔؟
لیکن مصلحتا اہل بیت اطہار کی قبور انوار کو نہیں چھوڑا گیا
ان صحابہ پرستوں کے گنبد خضراء کو مصلحتا چھوڑنے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ یہ گنبد حضرت ابو بکر و عمر کی قبروں پر بھی بنا ہوا ہے ؟؟؟
کیا فلسفہ ہے ۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر تعمیر قبہ اس وجہ سے بچا ہوا کیونکہ آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں ہیں ۔؟
اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ’’ اہل بیت اطہار ‘‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی قبر ہوتی تو یقینا یہ گرادیا جاتا ۔
کیا عقلِ معکوس ہے ۔ !!
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
کہیں آپ یہ تو نہیں فرمارہے کہ میں نے جو سورہ کہف کی آیت پیش فرمائی وہ قرآن نہیں ہے!! نعوذباللہ
اور اس کے جواب آپ خود بھی روایات پیش فرمارہے ہیں جبکہ آپ ہی دوسرے لوگوں کو روایت پرست ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں
اگر آپ بات اُلجھانے کی بجائےبات سمجھنے کے لیے فقط اِسی آیت پر غور فرما لیتے تو یہ کوئی ناممکنات میں سے نہ تھا۔
سب سے پہلے تو اس بات کا تعین مشکل ہے کہ اس آیت الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ میں کون لوگ مراد ہیں۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ملتی جس سےقبروں پر عمارات بنانے کا جواز ثابت ہوتا ہو۔تیسرا یہ کہ دورِ نبویﷺمیں بھی قبروں پر عمارات تعمیر کرنے کی کوئی نظیر نہیں ہے۔
لہذا ان چیزوں کی غیر موجودگی میں کیایہ بات کافی ہے کہ چونکہ اس آیت میں سابقہ لوگوں سے قبروں پر عمارات بنانا کا جواز ثابت ہوتا ہے اس لیے اس اُمت میں بھی جائز ہوا۔
اگر آ پ تاریخ سے اس بات کے پسِ منظر کو جاننا چاہتے ہیں تو مختصر عرض ہےکہ:-

الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ٤۳۱ میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریم علیہا السلام کے " مادر خدا " ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں ۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔
اللہ کی پناہ کہ میں اِس قرآن(جو محمد ﷺنے اپنی اُمت کو دیا تھا)کی کسی آیت کے بارے میں کہوں کہ یہ آیت قرآن سے خارج یا اِسکی نہیں ہے۔البتہ اگر آپ کا اشارہ(نعوذ باللہ)اِس قرآن کی صحت میں اشتباہ یا کمی کی وجہ سے اُس قرآن کی طرف ہے جوکسی امامِ منتظر کی طرف منسوب ہے تواور بات ہے۔
میں آپ کو پہلے بھی یہ بات عرض کر چکا ہوں کہ:-

ہم صرف اُنہی روایات کو ترجیح دیتے ہیں جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں یا ان کی تائید کرتی ہیں۔
مگر نہ جانے کیوں آپ اس قول سے با خبر ہو کے بھی بے خبر رہتے ہیں۔
اس لیے میں کہا تھا کہ ان غیر متعلقہ چیزوں کے علاوہ:-

اگر آپ کے پاس قرآن سے کوئی دلیل ہےتو ضرور پیش فرمائیں۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تو کیا قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنے کی مذمت اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی نہیں کروائی ۔؟

کیا فلسفہ ہے ۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر تعمیر قبہ اس وجہ سے بچا ہوا کیونکہ آپ کے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں ہیں ۔؟
اور اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ساتھ ’’ اہل بیت اطہار ‘‘ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی قبر ہوتی تو یقینا یہ گرادیا جاتا ۔
کیا عقلِ معکوس ہے ۔ !!
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے ۔
@خضر حیات بھائی کچھ دیوبندی اس پر اعتراض کرتے ہیں ۔پلیز اس کا جواب دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی طور پر قبروں پر عمارت ،قبے اور گنبد وغیرہ بنانا حرام ممنوع اور شریعت کے خلاف کام ہے،ان کو منہدم کرنا واجب اور ضروری ہے،کیونکہ نبی کریم نے قبروں کو بلند کرنے یا ان پر قبے وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
سیدنا ابو الھیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:​
«ألا أبعثك على ما بعثني عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ألا أدع قبراً مشرفاً إلا سويته، ولا تمثالاً إلا طمسته». (أخرجه مسلم)
امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔
من رفع القبور الداخل تحت الحديث دخُولاً أولياء القبب والمشاهد المعمورة على القبور
اس حدیث کے مدلول میں قبروں پر بنائے گئے قبے اور مزارات بھی داخل ہیں۔
نبی کریم ﷺکی قبر مبارک پر ساتویں صدی ہجری تک کوئی قبہ یا گنبد موجود نہیں تھا،یہ عمل نہ تو نبی کریم ﷺ کی وصیت ہے،نہ صحابہ نے اس پر عمل کیا اور نہ ہی ساتویں صدی تک کسی نے اس کی طرف کوئی توجہ کی۔
یہ گنبد سب سے پہلے سلطان محمد بن قلاوون صالحی نے678 ہجری میں سنت نبوی سے جہالت،اورنصاری کی تقلید میں بنوایا،
اور اس کے بعد یہ مسلسل بنتا چلاآیا،لیکن امراء کا یہ عمل منکر اور شریعت کے خلاف تھا ،جس کی ممانعت صریح احادیث میں موجود ہے۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يجصَّص القبر ، وأن يقعد عليه ، وأن يبنى عليه » رواهما مسلم
نبی کریم ﷺنے قبروں کو پختہ کرنے،ان پر بیٹھنے ،اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس کا اب آٹھ سو سالوں سے بنتے چلےآنا اور سعودی کا اس کو باقی رکھنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے،میرے علم کے مطابق ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سعودی حکومت اسے گرانے یا اس کے رنگ کو بدلنے کا ارادہ رکھتی تھی ،لیکن فتنے کے ڈر سے ایسا نہ کر سکی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی محدث فتوی
 
Top