تیسرا جواب یہ ہے کہ سورۂ کہف کی اس آیت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اصحابِ کہف کی قبور پر تعمیرِ مساجد کے خیالات کا صرف اظہار کیا تھا اس میںیہ صراحت نہیں ہے کہ وہ مومن تھے ۔پھر اگران کا مومن ہونا مان بھی لیا جائے تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ لوگ پابندِشریعت ،موحد اور دین دار تھے۔ہوسکتا ہے کہ آج کے بدعتیوں کی طرح وہ بھی رہے ہوں۔جیسا کہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ حدیث:
،،لعن اﷲالیہود والنصاریٰ اتخذواقبور انبیاۂم مساجد،،۱
کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انبیاء کی قبروں پر مسجد بنانے کی حرمت وممانعت احادیث کے علاوہ قرآن سے بھی آئی ہے۔
۱صحیح البخاری مع الفتح:کتاب الصلوۃ ۱؍۴۲۲،و ا لمغازی باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ ،وا للباس باب الاکسیۃ والخمائص،
کیونکہ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
،،قال الذین غلبوا علیٰ امرہم لنتخذن علیہم مسجدا
اس آیت میں قبروں پرمساجد ومعابد تعمیر کرنے کو اہل اقتدار کا واہل غلبہ وکرسیوں کے مالک افراد کا فعل قراردیا گیاہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس قسم کے اقدام کاتعلق کسی شریعت سے نہیں تھا بلکہ صاحب اقتدار وصاحب ثروت ودولت واقتدار کے نشے میں آکر اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق ایسا کرنا چاہتے تھے ۲
پھر یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں پہلی جماعت مومنوں کی تھی جو قبروں کو عبادت گاہ بنانے کی حرمت سے واقف تھی ،اس لئے اس نے غار کے دروازے پر دیوار چن دینے اور دروازہ بند کر دینے کے ساتھ اصحاب کہف سے کوئی تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا مگر دوسری جماعت جو امراء وروساء پر مشتمل تھی ،اس نے اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی دولت کے زعم میں آکر قسمیں کھا کر یہ کہنے لگی کہ ہم اصحابِ کہف کی قبروں پر ضرور مسجد تعمیر کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قال ابن كثيرٍ رحمه الله بعد ما حكى عن ابن جريرٍ القولين: «والظاهر أنَّ الذين قالوا ذلك هم أصحاب الكلمة والنفوذ، ولكنْ هل هم محمودون أم لا ؟ فيه نظرٌ؛ لأنَّ النبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال: «لَعَنَ اللهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ» يحذِّر ما فعلوا، وقد روينا عن أمير المؤمنين عمر بن الخطَّاب رضي الله عنه أنه لَمَّا وُجد قبر دانيال في زمانه بالعراق؛ أمر أنْ يُخفى عن الناس، وأن تُدفن تلك الرقعة التي وجدوها عنده، فيها شيءٌ من الملاحم وغيرها»(١٨)
قال ابن تيمية رحمه الله: «فإنَّ الله تعالى قد أخبر عن سجود إخوة يوسف وأبويه وأخبر عن الذين غلبوا على أهل الكهف أنهم قالوا: ﴿لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا﴾ ونحن قد نُهينا عن بناء المساجد على القبور»(٢٠)
گزشتہ اقوام کے اعمال کی حیثیت سمجھنے کےلئے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ ان کے بھائیوں کا سجدہ قرآن نے بیان کیا اور سب کو معلوم ہی ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا
کسی صورت جائز نہیں ، نہ قبر کو نہ زندہ کو ،حتی کہ نبی اکرم ﷺکو بھی سجدہ روا نہیں ۔