وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36
فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾
نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45
جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔
حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-
رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
حیرت تو مجھے بھی بہت ہے میرے پیارے بھائی۔۔۔چلیں اب دونوں ان آیات پر غور وفکر کرتے ہیں ۔۔ان شائ اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اللہ سے دعا ہے کہ ہم دونوں کو غوروفکر کے ساتھ اور اچھے طریقے سے ایک دوسرے کو سمجھانے کی توفیق عطائ فرمائے ۔۔آمین۔
سورۃ ھود 40۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ،
اپنے گھر والوں کو بھی۔
سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے ۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔(40)
٭٭نوٹ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نوح
اپنے گھر والوں کو بھی اس کشتی میں سوار کر لو۔!٭٭اللہ نے نشاندہی کی اس کو سوار نہ کرنا یعنی کفار کو جنہوں نے نوح علیہ السلام کی بات نہیں مانی۔ یعنی جو ایمان نہیں لائے ۔نوح علیہ السلام کا بیٹا نوح علیہ السلام کو وہ دھوکہ دیتا تھا اس کی وضاحت آیت نمبر
45 میں ہے نوح علیہ السلام سمجھتے تھے ان کا بیٹا ایمان دار ہے اور ان کے گھر والوں میں شامل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو علم غیب ہے وہ ان کے بیٹے کی حرکتیں ،عمل، جھوٹ،دھوکا دہی،منافقت کو جانتا تھا اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا آیت نمبر
46 دیکھیں جب نوح علیہ السلام پر اپنے بیٹے کے عقیدہ کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت نمبر
46۔۔۔اب میرا سوال آپ سے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نمبر
46 نازل فرما دی تو اس کے بعد کیا ہواآیت نمبر
47 پر غور کریں ۔۔۔اب کیا قیامت کے دن نوح علیہ السلام دوبارہ اپنے بیٹے کے لئے کوئی دعا کریں گے
؟جبکہ آیت نمبر45میں وہ اپنے بیٹے کے لئے واضح دعا کر رہے ہیں؟۔۔۔
جی جواب دیں اس بات کا میں انتظار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔!
یہ ان کی لغزرش تھی یا ان کو اس کا علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ایمان دار نہیں منافق ہے جو نوح علیہ السلام سے اپنے عقیدہ کو چھوپا کر رکھتا تھااور وہ اس کے عقیدہ سے انجان تھے اس کے عقیدہ کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے سامنے لے آیا کہ وہ ایمان دار نہیں آیت نمبر46۔
سورۃ ھود 36 تا 37۔
نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ، بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ و (36)اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو ۔
اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ۔ ی
ہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔(37)نوح ؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں ،(38)عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی ۔ (39)
سورۃ ھود 41 تا43۔
نوح ؑ نے کہا ’’ سوار ہو جائو اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے ۔‘‘ (41)کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جارہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی ۔ نوح ؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا ۔ نوح ؑ نے پکار کر کہا ’’ بیٹا ! ہمارے ساتھ سوار ہو جائو ، کافروں کے ساتھ نہ رہ ۔‘‘ (42)اس نے پلٹ کر جواب دیا ’’ میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچالے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’ آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ ‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔(43)حکم ہوا ’’ اے زمین ، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان، رک جا ۔ ‘‘ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا ، کشتی جُودی پرٹک گئی ، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!۔ (44)
٭٭٭٭
نوح ؑ نے اپنے ربّ کو پکارا ۔ کہا ’’ اے ربّ ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ ‘‘ (45)جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ ‘‘ (46)
نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)حکم ہوا ’’ اے نوح ؑ اُتر جا ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ (48)
مثال زکریا علیہ السلام کی۔
سورۃ مریم 19آیت نمبر 7 تا 10۔
(جواب دیا گیا ) ’’ اے زکریا ؑ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ؑ ہوگا ۔ ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔‘‘ (7)عرض کیا ، ’’پروردگار ، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں‘‘ ؟ (8)جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے ، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔‘‘ (9)زکریا نے کہا ، ’’ پروردگار ، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے ۔‘‘ فرمایا ’’ تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے ۔‘‘ (10)
٭٭اب یہاں ایک پیغمبر ہیں زکریا علیہ السلام
اللہ نے لڑکے کی بشارت دی لیکن جواب میں کہتے ہیں بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔۔۔۔۔۔
جواب ملا ایسا ہی ہوگا تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ایک ذرا سی بات ہے ۔۔۔۔
آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت نمبر 10 پر غور کریں
جب اللہ نے واضح انہیں نصیحت کو وہ کیسے اس بات پر ایمان لائے اور جلدی سے کہنے لگے کہ آیت نمبر 10 پڑھیں اور غور و فکر کریں۔۔۔کہ جب اللہ واضح نصیحت فرماتا ہے تو پیغمبر کیسے اس پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔
سورۃ ابراھیم آیت نمبر 36۔
پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا اُن میں سے )
جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور
جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ (36)
یہ ابراھیم علیہ السلام کےنرم دل مزاج کی وجہ ہے جیسا کہ اپنے باپ کے لئے دعا کی جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس دعا سے بیزار ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔۔۔۔۔
٭اس آیت کا کیا کریں گے۔۔۔
سورۃ البقرہ 2۔اب کون ہے ،جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ، اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا ۔ (130)
سورۃ البقرہ 2۔یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہِ راست پائو گے ۔ عیسائی کہتے ہیں : عیسائی ہو ، تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو : ’’ نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ (135)
سورۃ البقرہ 2۔مسلمانو! کہو کہ: ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوب ؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئی تھی ۔ ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ ‘‘ (136)
سورۃ آل عمران 3۔اللہ نے آدمؑ اور نوح ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے ) منتخب کیا تھا۔(33)
اس آیت کا کیا کریں اور ان کا کیا کریں جس میں ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہے
سورۃ ال عمران 3۔اے نبی ﷺ ، کہو کہ ’’ ہم اللہ کو مانتے ہیں ، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے ، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاقؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر نازل ہوئی تھیں ، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے ، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم ) ہیں۔‘‘ (84)
٭ اب مجھے یہ بتائیں کہ جو ابراھیم علیہ السلام کے دین کے سوا کوئی اور دین منتخب کرتا کیا وہ کافر نہیں ؟کیا وہ مشرک نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی دلیل دیں!!!!میں انتظار کرتا ۔۔آل عمران آیت نمبر 95 پر غور وفکر کیں ۔۔اگر ہاں وہ مشرک و کافر ہے تو واضح ان کے والد مشرک و کافر تھے پھر کیا یہ منافقت نہیں جو آپ کر رہے ہیں؟
میں پھر کہوں کو پیغبر اپنے نرم دل ہونے کی وجہ سے جو لغزرش کر گئے اور اس پر واضح ان کو نصیحت بھی مل گئی پھر بھی آپ ان کی ان نرم دلی کی وجہ سے جو لغزرشیں ہیں انہی پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہی فیصلہ کر ئے گا ان شائ اللہ ۔۔باقی قرآن کس نے پڑھنا اور کس نے اس پر ایمان لانا۔۔۔
سورۃ آل عمران 3۔کہو ، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے ،
تم کو یکسو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے ،
اور ابراہیم ؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا ۔(95)