• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ
میں نے ، نہ آپ کو روکا ، نہ کسی جواب دینے والے کو ۔
اب کوئی آپ کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا تو اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ۔
اور ہاں ہر دوسری پوسٹ میں:



اس طرح کی فضولیات سے گریز کریں ۔ ایک دفعہ کہہ دیا کہ اس تھریڈ میں نہ آپ کی پوسٹ ڈیلیٹ ہوئی ، نہ ہوگی ۔ اور اگر اراکین فورم کے اصرار پر یہ فیصلہ کر لیا گیا ، تو پھر آپ کی کسی قسم کی کوئی نصیحت ، وضاحت یا دھمکی کارآمد نہیں ہوگی۔
السلام علیکم! خضر حیات صاحب مجھے معلوم ہے آپ نے اس تھریڈ میں میری کوئی پوسٹ ڈیلیٹ نہیں کی لیکن دھمکی ضرور لگا دی ہے ۔
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی میں نے ایک سوال کیا ۔۔میرا جرم؟ میں نے ایسا کیا کر دیا جو آپ سب میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟اگر آپ دین کا علم رکھتے ہیں اور آپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشش کر رہے ہیں تو آپ پر لازم اور فرض ہے کہ دلیل سے بات کریں اور سمجھائیں ۔
اب دلیل کیا۔
٭قرآن مجیدسب سے پہلے اور پھر صحیح احادیث مبارکہ۔۔۔۔۔یہ میرا ایمان ہے ۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں تو ان احادیث کا کیا جو میں نے کوڈ کی لیکن جواب دینے کی بجائے اور فضول باتیں کی گئی وہ آپ کو نظر نہیں آتیں کیوں؟کیا یہ درست ہے جو آپ کر رہے ہیں@خضر حیات صاحب؟
پھر کہا جاتا مرضی کوئی آپ کے سوال کا جواب دے یا نہ دے کیوں؟ وجہ؟ یہ آپ کی ذمہ داری ہے جو جو اس فورم پر دین کا کام کر رہا سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ کوی بھی کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کے سوال پر آپ جواب دیں۔ابھی تک آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں صرف باتیں اور باتیں۔سوالات کے جواب دینے کی بجائے مجھے آپ لوگ تھریڈ کرتے ہیں جبکہ اچھا ہوتا جو میں نے سوال کیا خالص اللہ تعالیٰ کی خوشی کے لئے جواب دیتے ۔۔۔۔۔

شکریہ۔
اور میرے سوال کا جواب۔۔۔۔
٭کیا صرف نبی کریمﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہوئے؟؟؟؟؟؟؟
٭کیا آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام سے جو جو لغزرشیں ہوئیں وہ اللہ نے معاف نہیں فرمائیں؟؟؟؟؟
صرف ان دو سوالات کا جواب مطلوب ہے ۔

اگر کوئی میرے سوالات کا جواب نہیں دیتا تو میں سمجھوں گا کہ آپ کے پاس کوئی جواب نہیں اور میں نے جو کیا وہی حق اور سچ ہے۔لیکن مجھے معلوم ہے جو میں نے کہا وہی حق اور سچ ہے کیونکہ میں قرآن مجید کی شان ،قدر ، کو جانتا ہوں اور اس پر صرف اپنی زبان سے نہیں عمل سے بھی ایمان رکھتا ہوں ان شائ اللہ۔اور اوپر حدیث میں ایسے الفاظ ہیں جو قرآن کے واضح خلاف ہیں اس لئے اس کی صحت کمزور ہے مشکوک ہے اس کا رد میں قرآن مجید کی دلیل سے کرتا ہوں ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کی لغزرشیں معاف فرما دیں اور وہ اللہ سے راضی ہیں اور خوش ہیں انہیں کوئی شرمندگی نہیں کوئی ملال نہیں ،کوئی خوف نہیں ،کوئی رنج نہیں تمام گناہوں سے پاک صاف ہیں نیک ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ان شائ اللہ ۔۔اللہ میری رہنمائی فرمائے گا۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔یہ میرا آخری بار پھر سے سوال ہے جو اوپر کر چکا۔
عمر اثری صاحب،خضر حیات صاحب،اسحاق صاحب،اشماریہ صاحب،ٹی کے ایچ صاحب، اور وہ جن کا نام نہیں لے سکا لیکن اس تھریڈ میں حصہ لیا ۔۔ان سب کا شکریہ
میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔
حق وہی قبول کرتے ہیں جو واقع اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور و فکر کرتے ہیں اور حق آنے پر اسے تسلیم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر اس انسان کو معاف فرمائے جو اپنے آپ کو شرک سے پا ک کرنے کی کوشش کر رہا اور ضد بازی نہیں کرتا قرآن مجید اور احادیث مبارکہ پر غور و فکر کرتا ہو۔۔۔سلام ہو ان پر جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست بنایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے میری یہ کوشش آپنے پاس لکھ لے کہ میں نے ان کو ہدایت کی طرف بہت بلایا مگر حق جانتے ہوئے بھی حق سے منہ موڑ لیا گیا۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ
ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾

نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45

جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی میں نے ایک سوال کیا ۔۔میرا جرم؟ میں نے ایسا کیا کر دیا جو آپ سب میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟
پیچھے تو آپ پڑے ہوئے ہیں ، دیکھ لیں :
پھر کہا جاتا مرضی کوئی آپ کے سوال کا جواب دے یا نہ دے کیوں؟ وجہ؟ یہ آپ کی ذمہ داری ہے جو جو اس فورم پر دین کا کام کر رہا سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ کوی بھی کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو اس کے سوال پر آپ جواب دیں۔
لوگ آپ سے پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہیں ، آپ کہہ رہیں کہ نہیں جواب دیں ، بلکہ جواب لے کر دیں ۔ ابتسامہ ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ
ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾

نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45

جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے اے نوح تمہیں نہیں معلوم مجھے معلوم ہے کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں سے نہیں ۔۔۔یعنی نوح علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ صرف ایمان والے کفر و شرک سے پاک لوگ ہی ہیں تیرے گھر والے۔۔۔۔۔۔
نوح علیہ اسلام نے انجانے میں یہ لغزرش کی جیسے کہ ابراھیم علیہ السلام سے ہوئ جب اللہ نے ان دونوں کو واضح بتا دیا نصیحت کر دی تو وہ اپنے قول سے بیزار ہوئے اور اللہ سے معافی مانگی جس پر اللہ نے انہیں معاف فرما دیا اور خوشی کی جنت کی بشارت دی اور باقی سب کو بھی ان جیسا بننے کی نصیحت کی۔۔۔۔

٭ابراھیم علیہ السلام کے والد کی بات تو و ہ مشرک تھے ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ شرک پر مرنے والے کے لئے جنت حرام ہے آپ واضح اس آیت کا انکار کر رہے ہیں؟؟؟؟؟؟
٭آپ
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ
ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾

نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45

جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔



شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

قیاس کوئی دلیل نہیں (ہو سکتا ہے)(شاید ایسا ہو شاید ویسا ہو وغیرہ وغیرہ دین اسلام میں ایسے الفاظوں کی کوئی جگہ نہیں شک میں ڈالنے والی بات کو چھوڑنا ہی بہتر ہوتا )۔
پیغمبروں سے لغزرشیں ہوئیں لیکن ان لغزرشوں کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اللہ تعالیٰ نے جب ان کو نصیحت کر دی وہ نصیحت پیغمبروں اور آنے والے تمام لوگو ں کے لئے یکساں ہوتی ہیں درستگی کے لئے اگر آپ بھی پیغمبروں کی لغزرشوں پر چلیں گے اور کہیں گے کہہ فلاں عمل انہوں نے کیا جبکہ واضح اس کی اللہ تعالیٰ نے درستگی بھی فرمائی ہو تو یہ گمراہی ہے ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی اپنی غلطیوں کو درست کریں ۔
مثال کے طور پر۔
سورۃ التوبہ 8آیت 180۔اے نبی
! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (80)
1)تم خواہ معافی مانگو یا نہ مانگو۔۔۔۔۔۔۔۔
2)70 بار بھی معافی مانگو گے اللہ معاف نہیں فرمائے گا۔۔۔۔۔
سورۃ التوبہ 9آیت نمبر 80۔
اے نبی
! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (80)
٭نبی کریم
نے ایک کافر کی دعا مغفرت کے لئے گئے اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ آپ 70 بار بھی ان کی مغفرت کریں گے تو میں قبول نہیں کروں گا۔لیکن نبی کریم نے فرمایا میں 70 بار سے زیادہ دعا مانگوں گا شاید کہ اللہ انہیں معاف فرما دے یہ نبی کریم کی لغزرش تھی ۔۔۔۔۔۔اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اصل دلیل یہ ہے جو بعد میں نازل ہوئی۔۔۔۔۔۔سورۃ التوبہ9آیت نمبر 84۔اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہوناکیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے (84)
دوسری مثال۔
ابراھیم علیہ السلام کی لغزرش کہ اپنے باپ کے لئے دعا مغفرت ۔۔۔اب یہ دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جب ان کو بتایا دیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اور آپ غلطی پر ہیں تو وہ اس بات سے بیزار ہوگئے یعنی اب ان کے والد اور ابراھیم علیہ السلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک مشرک انسان ہیں اللہ تعالیٰ کے دشمن یعنی اللہ نے ابراھیم علیہ السلام کی درستگی کرا دی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ قیامت کے دن بھی اپنی اسی غلطی پر ڈتے ہوئے ہوں گے پھر اللہ سے سوال کریں گے کہ میرا والد جہنم میں ہے اور اس وجہ سے میری رسوائی ہو رہی ہے استغفراللہ۔۔۔۔۔ایسا ممکن نہیں۔۔۔۔سب پیغمبر کفار سے مشریکین سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور یہی حق بات ہے ۔اللہ تعالیٰ حق کو حق ہی دیکھتا سب کے لئے یکساں ۔

سورۃ ابراھیم 14آیت نمبر 36۔
ابراھیم علیہ السلام بہت نرم دل تھے جیسا کہ بہت سے معاملات میں وہ اللہ تعالیٰ سےلوگوں کے عذاب کے لئے بات کرتے یعنی شفاعت یعنی دعا کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو درست کرتا چلا گیا اور سب کو یہ نصیحت اور تعلیم دی کہ مشرک اللہ کو دوست نہیں تو تمہارا بھی کچھ نہیں یعنی اگر کوئی پیغمبر مشرک سے راضی ہو بھی گیا تو اللہ کا فرمان ہے وہ میرا دشمن ہے میں اس سے راضی نہیں اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو ان کی زندگیوں میں ان کی کمیوں ،غلطیوں،لغزرشوں کو معاف فرمایا اور ان کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی درستگی کی تاکہ یہ دوبارہ یہ غلطی نہ کریں اور زیادہ علم دیا جس سے وفات کے وقت ان کا ایمان پختہ تھا ۔
سب مشرکوں سے بیزار تھے ۔
سورۃ ابراھیم 14آیت نمبر 36 کو دلیل بنانا آپ کے ایمان کی کمزوری ہے باقی آیات کس نے پڑھنی ہیں ؟؟؟؟۔اللہ نے واضح فرما دیا نبی کریم
کو مشرک کے لئے دعا مغفرت مت کرو جبکہ اس سے پہلے وہ مغفرت کرتے تھے منع فرمانے کے بعد نبی کریم نے کسی مشرک کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے کہ نبی کریم منع کرنے کے بعد بھی فلاں کی مغفرت کے لئے دعا کرتے تھے تو پیش کریں؟؟؟؟؟۔


اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں ان کی زندگیوں میں ان کی کمزوریا دور کیں اور مشرکوں ،کافروں کے لئے سخت کیا اور بتا دیا ہے کہ جس نے شرک کیا ان سے تمہارا اور اللہ کا کوئی تعلق نہیں اُس کافر ،مشرک پر جنت حرام ہے اور کوئی اس پر اللہ سے بات ،بحث نہ کرے زندگیوں میں ان سب کی اصلاح کردی گئی اور قیامت کے دن کوئی پیغمبر کسی بھی کافر مشرک کے لئے نہیں بولے گا یہ قرآن مجید میں اللہ کا قیامت کے دن کا فیصلہ ہےآپ اپنے قیاس سے کام لے رہے ہیں ۔ آپ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ ابراھیم علیہ السلام کے خلاف جو طریقہ اختیار کرے گا تو اللہ اس کو درگزر کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔!!!!!!؟؟؟؟؟؟

اللہ کا فرمان ہے اے نوح تمہیں نہیں معلوم مجھے معلوم ہے کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں سے نہیں ۔۔۔یعنی نوح علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ صرف ایمان والے کفر و شرک سے پاک لوگ ہی ہیں تیرے گھر والے۔اور اللہ نوح علیہ السلام کو نصیحت کر رہے نادان مت بنو،۔۔۔۔۔
سورۃ ھود11آیت نمبر 46۔
جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ ‘‘ (46)

نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)


نوح علیہ اسلام نے انجانے میں یہ لغزرش کی جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام سے ہوئ جب اللہ نے ان دونوں کو واضح بتا دیا نصیحت کر دی تو وہ اپنے قول سے بیزار ہوئے اور اللہ سے معافی مانگی جس پر اللہ نے انہیں معاف فرما دیا اور جنت کی بشارت دی اور باقی سب کو بھی ان جیسا بننے کی نصیحت کی۔۔۔۔
۔
قیاس پر کوئی عمارت نہیں بن سکتی ۔۔۔ایک آیت کی تشریح دوسری سے لیں پھر دیکھیں کیسے دین ایمان نکھر کر آپ کے سامنے آتا ہے۔
اور اس حدیث کا بھی بتا دیں ۔۔شفاعت کے بارے میں جو ہے
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے اے نوح تمہیں نہیں معلوم مجھے معلوم ہے کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں سے نہیں ۔۔۔یعنی نوح علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ صرف ایمان والے کفر و شرک سے پاک لوگ ہی ہیں تیرے گھر والے۔۔۔۔۔۔
نوح علیہ اسلام نے انجانے میں یہ لغزرش کی جیسے کہ ابراھیم علیہ السلام سے ہوئ جب اللہ نے ان دونوں کو واضح بتا دیا نصیحت کر دی تو وہ اپنے قول سے بیزار ہوئے اور اللہ سے معافی مانگی جس پر اللہ نے انہیں معاف فرما دیا اور خوشی کی جنت کی بشارت دی اور باقی سب کو بھی ان جیسا بننے کی نصیحت کی۔۔۔۔

٭ابراھیم علیہ السلام کے والد کی بات تو و ہ مشرک تھے ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ شرک پر مرنے والے کے لئے جنت حرام ہے آپ واضح اس آیت کا انکار کر رہے ہیں؟؟؟؟؟؟
٭آپ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

قیاس کوئی دلیل نہیں (ہو سکتا ہے)(شاید ایسا ہو شاید ویسا ہو وغیرہ وغیرہ دین اسلام میں ایسے الفاظوں کی کوئی جگہ نہیں شک میں ڈالنے والی بات کو چھوڑنا ہی بہتر ہوتا )۔
پیغمبروں سے لغزرشیں ہوئیں لیکن ان لغزرشوں کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اللہ تعالیٰ نے جب ان کو نصیحت کر دی وہ نصیحت پیغمبروں اور آنے والے تمام لوگو ں کے لئے یکساں ہوتی ہیں درستگی کے لئے اگر آپ بھی پیغمبروں کی لغزرشوں پر چلیں گے اور کہیں گے کہہ فلاں عمل انہوں نے کیا جبکہ واضح اس کی اللہ تعالیٰ نے درستگی بھی فرمائی ہو تو یہ گمراہی ہے ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی اپنی غلطیوں کو درست کریں ۔
مثال کے طور پر۔
سورۃ التوبہ 8آیت 180۔اے نبی
! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (80)
1)تم خواہ معافی مانگو یا نہ مانگو۔۔۔۔۔۔۔۔
2)70 بار بھی معافی مانگو گے اللہ معاف نہیں فرمائے گا۔۔۔۔۔
سورۃ التوبہ 9آیت نمبر 80۔
اے نبی
! تم خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو ، اگر تم ستر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہرگز معاف نہ کرے گا ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے ، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ (80)
٭نبی کریم
نے ایک کافر کی دعا مغفرت کے لئے گئے اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ آپ 70 بار بھی ان کی مغفرت کریں گے تو میں قبول نہیں کروں گا۔لیکن نبی کریم نے فرمایا میں 70 بار سے زیادہ دعا مانگوں گا شاید کہ اللہ انہیں معاف فرما دے یہ نبی کریم کی لغزرش تھی ۔۔۔۔۔۔اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا اصل دلیل یہ ہے جو بعد میں نازل ہوئی۔۔۔۔۔۔سورۃ التوبہ9آیت نمبر 84۔اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہوناکیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے (84)
دوسری مثال۔
ابراھیم علیہ السلام کی لغزرش کہ اپنے باپ کے لئے دعا مغفرت ۔۔۔اب یہ دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جب ان کو بتایا دیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اور آپ غلطی پر ہیں تو وہ اس بات سے بیزار ہوگئے یعنی اب ان کے والد اور ابراھیم علیہ السلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک مشرک انسان ہیں اللہ تعالیٰ کے دشمن یعنی اللہ نے ابراھیم علیہ السلام کی درستگی کرا دی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ قیامت کے دن بھی اپنی اسی غلطی پر ڈتے ہوئے ہوں گے پھر اللہ سے سوال کریں گے کہ میرا والد جہنم میں ہے اور اس وجہ سے میری رسوائی ہو رہی ہے استغفراللہ۔۔۔۔۔ایسا ممکن نہیں۔۔۔۔سب پیغمبر کفار سے مشریکین سے بیزاری کا اعلان کریں گے اور یہی حق بات ہے ۔اللہ تعالیٰ حق کو حق ہی دیکھتا سب کے لئے یکساں ۔

سورۃ ابراھیم 14آیت نمبر 36۔
ابراھیم علیہ السلام بہت نرم دل تھے جیسا کہ بہت سے معاملات میں وہ اللہ تعالیٰ سےلوگوں کے عذاب کے لئے بات کرتے یعنی شفاعت یعنی دعا کرتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو درست کرتا چلا گیا اور سب کو یہ نصیحت اور تعلیم دی کہ مشرک اللہ کو دوست نہیں تو تمہارا بھی کچھ نہیں یعنی اگر کوئی پیغمبر مشرک سے راضی ہو بھی گیا تو اللہ کا فرمان ہے وہ میرا دشمن ہے میں اس سے راضی نہیں اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو ان کی زندگیوں میں ان کی کمیوں ،غلطیوں،لغزرشوں کو معاف فرمایا اور ان کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی درستگی کی تاکہ یہ دوبارہ یہ غلطی نہ کریں اور زیادہ علم دیا جس سے وفات کے وقت ان کا ایمان پختہ تھا ۔
سب مشرکوں سے بیزار تھے ۔
سورۃ ابراھیم 14آیت نمبر 36 کو دلیل بنانا آپ کے ایمان کی کمزوری ہے باقی آیات کس نے پڑھنی ہیں ؟؟؟؟۔اللہ نے واضح فرما دیا نبی کریم
کو مشرک کے لئے دعا مغفرت مت کرو جبکہ اس سے پہلے وہ مغفرت کرتے تھے منع فرمانے کے بعد نبی کریم نے کسی مشرک کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے کہ نبی کریم منع کرنے کے بعد بھی فلاں کی مغفرت کے لئے دعا کرتے تھے تو پیش کریں؟؟؟؟؟۔


اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں ان کی زندگیوں میں ان کی کمزوریا دور کیں اور مشرکوں ،کافروں کے لئے سخت کیا اور بتا دیا ہے کہ جس نے شرک کیا ان سے تمہارا اور اللہ کا کوئی تعلق نہیں اُس کافر ،مشرک پر جنت حرام ہے اور کوئی اس پر اللہ سے بات ،بحث نہ کرے زندگیوں میں ان سب کی اصلاح کردی گئی اور قیامت کے دن کوئی پیغمبر کسی بھی کافر مشرک کے لئے نہیں بولے گا یہ قرآن مجید میں اللہ کا قیامت کے دن کا فیصلہ ہےآپ اپنے قیاس سے کام لے رہے ہیں ۔ آپ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ ابراھیم علیہ السلام کے خلاف جو طریقہ اختیار کرے گا تو اللہ اس کو درگزر کرنے والا ہے۔۔۔۔۔۔!!!!!!؟؟؟؟؟؟

اللہ کا فرمان ہے اے نوح تمہیں نہیں معلوم مجھے معلوم ہے کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں سے نہیں ۔۔۔یعنی نوح علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ صرف ایمان والے کفر و شرک سے پاک لوگ ہی ہیں تیرے گھر والے۔اور اللہ نوح علیہ السلام کو نصیحت کر رہے نادان مت بنو،۔۔۔۔۔
سورۃ ھود11آیت نمبر 46۔
جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ ‘‘ (46)

نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)


نوح علیہ اسلام نے انجانے میں یہ لغزرش کی جیسا کہ ابراھیم علیہ السلام سے ہوئ جب اللہ نے ان دونوں کو واضح بتا دیا نصیحت کر دی تو وہ اپنے قول سے بیزار ہوئے اور اللہ سے معافی مانگی جس پر اللہ نے انہیں معاف فرما دیا اور جنت کی بشارت دی اور باقی سب کو بھی ان جیسا بننے کی نصیحت کی۔۔۔۔
۔
قیاس پر کوئی عمارت نہیں بن سکتی ۔۔۔ایک آیت کی تشریح دوسری سے لیں پھر دیکھیں کیسے دین ایمان نکھر کر آپ کے سامنے آتا ہے۔
اور اس حدیث کا بھی بتا دیں ۔۔شفاعت کے بارے میں جو ہے
محترمی و مکرمی !
میں نے اپنی تحریر میں کچھ جملے ہائی لائٹ خصوصاً آپ ہی کے لیے کیے تھے ۔ لیکن حیرت ہے کہ بات اتنی واضح ہونے کے با وجود آپ کو روایت پر کیے گئے اعتراض کی کمزوری معلوم نہیں ہوئی۔مزید یہ کہ آپ مجھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ میں آپ کے ایک ایک اعتراض کی کمزوری واضح کرتا چلا جاؤں اور بدلے میں آپ ہماری گزارشات کو مسلسل نظر انداز کرتے چلیں جائیں۔
نوح علیہ اسلام نے انجانے میں یہ لغزرش کی
یہ لغزش کیوں ہوئی؟ کیا وجہ تھی ؟ جبکہ اللہ تعالٰی کا واضح فرمان حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آ چکا تھا کہ:-
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾
اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 27
اگر حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالٰی کی طرف سے واضح پیغام آنے کے باوجود جذبات میں آ کر ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں ،جس پر آپ کو بھی اعتراض نہیں ہے، تو بھلا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر آپ کو مذکورہ روایت کے تناظر میں اعتراض کیوں ہے ؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ
ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾

نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45

جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
حیرت تو مجھے بھی بہت ہے میرے پیارے بھائی۔۔۔چلیں اب دونوں ان آیات پر غور وفکر کرتے ہیں ۔۔ان شائ اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اللہ سے دعا ہے کہ ہم دونوں کو غوروفکر کے ساتھ اور اچھے طریقے سے ایک دوسرے کو سمجھانے کی توفیق عطائ فرمائے ۔۔آمین۔
سورۃ ھود 40۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے ۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔(40)

٭٭نوٹ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نوح اپنے گھر والوں کو بھی اس کشتی میں سوار کر لو۔!٭٭اللہ نے نشاندہی کی اس کو سوار نہ کرنا یعنی کفار کو جنہوں نے نوح علیہ السلام کی بات نہیں مانی۔ یعنی جو ایمان نہیں لائے ۔نوح علیہ السلام کا بیٹا نوح علیہ السلام کو وہ دھوکہ دیتا تھا اس کی وضاحت آیت نمبر 45 میں ہے نوح علیہ السلام سمجھتے تھے ان کا بیٹا ایمان دار ہے اور ان کے گھر والوں میں شامل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو علم غیب ہے وہ ان کے بیٹے کی حرکتیں ،عمل، جھوٹ،دھوکا دہی،منافقت کو جانتا تھا اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا آیت نمبر 46 دیکھیں جب نوح علیہ السلام پر اپنے بیٹے کے عقیدہ کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت نمبر 46۔۔۔اب میرا سوال آپ سے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نمبر 46 نازل فرما دی تو اس کے بعد کیا ہواآیت نمبر 47 پر غور کریں ۔۔۔اب کیا قیامت کے دن نوح علیہ السلام دوبارہ اپنے بیٹے کے لئے کوئی دعا کریں گے؟جبکہ آیت نمبر45میں وہ اپنے بیٹے کے لئے واضح دعا کر رہے ہیں؟۔۔۔جی جواب دیں اس بات کا میں انتظار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔!
یہ ان کی لغزرش تھی یا ان کو اس کا علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ایمان دار نہیں منافق ہے جو نوح علیہ السلام سے اپنے عقیدہ کو چھوپا کر رکھتا تھااور وہ اس کے عقیدہ سے انجان تھے اس کے عقیدہ کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے سامنے لے آیا کہ وہ ایمان دار نہیں آیت نمبر46۔

سورۃ ھود 36 تا 37۔
نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ، بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ و (36)اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو ۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ۔ یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔(37)نوح ؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں ،(38)عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی ۔ (39)


سورۃ ھود 41 تا43۔
نوح ؑ نے کہا ’’ سوار ہو جائو اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے ۔‘‘ (41)کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جارہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی ۔ نوح ؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا ۔ نوح ؑ نے پکار کر کہا ’’ بیٹا ! ہمارے ساتھ سوار ہو جائو ، کافروں کے ساتھ نہ رہ ۔‘‘ (42)اس نے پلٹ کر جواب دیا ’’ میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچالے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’ آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ ‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔(43)حکم ہوا ’’ اے زمین ، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان، رک جا ۔ ‘‘ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا ، کشتی جُودی پرٹک گئی ، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!۔ (44)
٭٭٭٭نوح ؑ نے اپنے ربّ کو پکارا ۔ کہا ’’ اے ربّ ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ ‘‘ (45)جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ ‘‘ (46)نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)حکم ہوا ’’ اے نوح ؑ اُتر جا ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ (48)


مثال زکریا علیہ السلام کی۔
سورۃ مریم 19آیت نمبر 7 تا 10۔
(جواب دیا گیا ) ’’ اے زکریا ؑ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ؑ ہوگا ۔ ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔‘‘ (7)عرض کیا ، ’’پروردگار ، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں‘‘ ؟ (8)جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے ، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔‘‘ (9)زکریا نے کہا ، ’’ پروردگار ، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے ۔‘‘ فرمایا ’’ تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے ۔‘‘ (10)

٭٭اب یہاں ایک پیغمبر ہیں زکریا علیہ السلام اللہ نے لڑکے کی بشارت دی لیکن جواب میں کہتے ہیں بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔۔۔۔۔۔
جواب ملا ایسا ہی ہوگا تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ایک ذرا سی بات ہے ۔۔۔۔آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت نمبر 10 پر غور کریں جب اللہ نے واضح انہیں نصیحت کو وہ کیسے اس بات پر ایمان لائے اور جلدی سے کہنے لگے کہ آیت نمبر 10 پڑھیں اور غور و فکر کریں۔۔۔کہ جب اللہ واضح نصیحت فرماتا ہے تو پیغمبر کیسے اس پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔

سورۃ ابراھیم آیت نمبر 36۔
پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا اُن میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ (36)

یہ ابراھیم علیہ السلام کےنرم دل مزاج کی وجہ ہے جیسا کہ اپنے باپ کے لئے دعا کی جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس دعا سے بیزار ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔۔۔۔۔
٭اس آیت کا کیا کریں گے۔۔۔

سورۃ البقرہ 2۔اب کون ہے ،جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ، اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا ۔ (130)
سورۃ البقرہ 2۔یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہِ راست پائو گے ۔ عیسائی کہتے ہیں : عیسائی ہو ، تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو : ’’ نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ (135)
سورۃ البقرہ 2۔مسلمانو! کہو کہ: ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوب ؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئی تھی ۔ ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ ‘‘ (136)
سورۃ آل عمران 3۔اللہ نے آدمؑ اور نوح ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے ) منتخب کیا تھا۔(33)

اس آیت کا کیا کریں اور ان کا کیا کریں جس میں ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہے

سورۃ ال عمران 3۔اے نبی ﷺ ، کہو کہ ’’ ہم اللہ کو مانتے ہیں ، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے ، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاقؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر نازل ہوئی تھیں ، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے ، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم ) ہیں۔‘‘ (84)

٭ اب مجھے یہ بتائیں کہ جو ابراھیم علیہ السلام کے دین کے سوا کوئی اور دین منتخب کرتا کیا وہ کافر نہیں ؟کیا وہ مشرک نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی دلیل دیں!!!!میں انتظار کرتا ۔۔آل عمران آیت نمبر 95 پر غور وفکر کیں ۔۔اگر ہاں وہ مشرک و کافر ہے تو واضح ان کے والد مشرک و کافر تھے پھر کیا یہ منافقت نہیں جو آپ کر رہے ہیں؟
میں پھر کہوں کو پیغبر اپنے نرم دل ہونے کی وجہ سے جو لغزرش کر گئے اور اس پر واضح ان کو نصیحت بھی مل گئی پھر بھی آپ ان کی ان نرم دلی کی وجہ سے جو لغزرشیں ہیں انہی پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہی فیصلہ کر ئے گا ان شائ اللہ ۔۔باقی قرآن کس نے پڑھنا اور کس نے اس پر ایمان لانا۔۔۔

سورۃ آل عمران 3۔کہو ، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے ، تم کو یکسو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے ، اور ابراہیم ؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا ۔(95)
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾
نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو اور دیکھو، جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا، یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔
قرآن، سورۃ ھود ، آیت نمبر 37-36

فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ
ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٢٧﴾ فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٢٨﴾ وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِي مُنزَلًا مُّبَارَكًا وَأَنتَ خَيْرُ الْمُنزِلِينَ ﴿٢٩﴾
ہم نے اس ( حضرت نوح ؑ)پر وحی کی کہ ”ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور اُبل پڑے تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں پھر جب تو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔
قرآن ، سورۃ المؤمنون، آیت نمبر 29-27

وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ﴿٤٥﴾ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ
ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٤٧﴾

نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا کہا ”اے رب، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے“ جواب میں ارشاد ہوا ”اے نوحؑ، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے“ نوحؑ نے فوراً عرض کی”اے میرے رب، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اِس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھ معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جاؤں گا“۔
قرآن، سورۃ ھود، آیت نمبر 47-45

جس روایت پر قرآن مجید کے تناظر میں سرسری تنقید کی گئی ہے وہ نہایت کمزور اور غیر منطقی معلوم ہوتی ہے۔کیونکہ اگر حضرت نوح ؑ اپنے بے ایمان بیٹے کے پانی میں غرق ہو جانے پر، اللہ تعالٰی کی اس ہدایت کے باوجود کہ” ظالموں کے حق میں بات نہ کرنا“، شفقتِ پدری کے تحت اس کی سفارش کر سکتے ہیں جو قبول نہیں ہوئی تو پھر حضرت ابراہیم ؑ کی آخرت میں اپنے والد کے متعلق بات کرنا بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات معلوم نہیں ہوتی۔کیونکہ جس طرح حضرت نوح ؑ نے اپنے بیٹے کی سفارش شفقتِ پدری کے تحت کی تھی شائد اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے والد کی سفارش ،باپ سے فطری محبت یا رقیق القلب و حلیم الطبع کی صفات کے تحت جو قرآن مجید میں مذکور ہیں، کے تحت کرینگے جو بہرحال قبول نہیں ہو گی۔

حضرت ابراہیم ؑ کی رقیق القلب اور حلیم الطبع کی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی اس دعا سے بھی واضح ہوتیں ہیں جس میں حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں:-

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾
پروردگار، اِن بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے جومیرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔
قرآن،سورۃ ابراہیم ؑ، آیت نمبر 36
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہےکہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیئت و صورت میں تبدیل کر کے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ حضرت ابراہیم ؑ کی میدان ِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
٭آپ نے کہا تھا۔
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ابراھیم علیہ السلام کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیت و صورت میں تبدیل کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ ابراہیم علیہ السلام کی میدانِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔

میر ے پیارے بھائی یہ بات جو آپ نے کی شاید آپ کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ حق کو حق ہی دیکھاتا ہے چاہے کوئی خوش ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔
اللہ نے اس قرآن میں سب کچھ واضح فرما دیا کہ لوط کی بیوی ایمان والی نہیں تھی فلاں کا بیٹا ایمان والا نہیں اور قیامت کے دن وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے اللہ تعالیٰ حق اور سچ کے معاملہ میں بہت کسی قسم کی ار نہیں رکھتا ۔قیاس نہ کریں یہ دین کا معاملہ ہے قیاس وہاں چلتا ہے جہا ں قرآن سے جواب نہ ملے اور نہی ہی صحیح حدیث سے قیاس وہا ں چلتا ہے۔۔۔
جب قرآن نے واضح کر دیا کہ مشرک پلید ہے،مشرک ہمیشہ جہنم میں رہے گا،شرک کے علاوہ کوئی گناہ ہو اللہ چاہیے گا تو معاف فرما دے گا اللہ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے،جب پیغمبروں کے ایمان کی درستگی کر دی گئی مجھےکیا آپ ایک مثال دئے سکتے ہیں کہ جب کسی پیغمبر سے لغزرش ہوئی اور اس پر اللہ تعالیٰ نے واضح نصیحت فرما دی تو کیا پھر بھی وہ پیغمبر اسی لغزرش میں قائم رہا؟صرف ایک دلیل ۔اور اللہ نے تو سارے عالم کو واضح بتادیا کہ ابراھیم علیہ السلام کا والد کافر تھا مشرک تھا کیا یہ رُسوائی نہیں تھی؟ جواب کا انتظار کروں گا! کیا لوگ بھول جائیں گے کہ ابراھیم علیہ السلام کا والد کافر مشرک تھا؟!!!!!!!!
آپ نے جو جو کچھ آیات کوڈ کی واضح نصیحت آنے سے پہلے کی ہیں اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو اللہ کی لعنت ہو مجھ پر۔۔ان شائ اللہ اللہ مجھے حق اور سچ سامنے لانے کی توفیق عطائ فرمائے گا۔ اللہ سے خالص مدد چاہئے اور قرآن مجید اور صحیح حدیث کا علم ہی مکمل دین اسلام ہے۔

سورۃ الانبیائ 21۔اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا ۔ یاد کرو جب کہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اورسمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے ۔ آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا ۔ ’’ نہیں ہے کوئی خدا مگر تو ، پاک ہے تیری ذات ، بے شک میں نے قصور کیا ۔‘‘ (87)
سورۃ الصفت 37۔اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا(143)تو روزِ قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا(144)آخر کار ہم نے اسے بڑی سقیم (نڈھال) حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا۔(145)
سورۃ القلم 68۔اچھا، اپنے ربّ کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کیجیے، اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام ) کی طرح نہ ہو جائے جب اُس نے پکارا تھا (اپنے ربّ کو) اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔(گھٹا ہُوا تھا) (48)اگر اُن کے رب کی مہربانی اس کے شاملِ حال نہ ہو جاتی (ربّ کا فضل اس کی دست گیری نہ کرتا) وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پھینک دیے جائیں ۔(49)

٭٭٭مچھلی والے کی طرح نہ ہونا واضح نصیحت اللہ تعالیٰ کی۔پھر یونس علیہ السلام غم سے بھرے ہوئے تھے یعنی اپنی غلطی پر افسوس تھا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگی اب اللہ نے بخش بھی دیا بخشنے کے بعد وہ ایسے ہو گئے جیسے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو قیامت کے دن ان پر کوئی رنج نہیں ہوگا،کوئی پریشانی نہیں ہوگی،وہ خوش ہوں گے اللہ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے ۔۔۔۔۔کیا آپ کا یہ ایمان نہیں؟!!!!انتظار کروں گا ۔۔۔

سورۃ عبس80۔ترش رُو ہو اور بے رخی برتی (1)اس بات پر کہ وہ اندھا اِن کے پاس آ گیا ۔ (عبد اللہ ؓ ابن ام مکتوم ) (2)تمہیں کیا خبر ، شاید وہ سدھر جائے (شاید وہ اپنی اصلاح کرتا) (3)یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ (4)جو شخص بے پروائی برتتا ہے (5)اُس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، (6)حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمّے داری ہے؟ (7)اور جو خود تمہارے پاس دوڑ تا ہُوا آتا ہے، (8)اور ڈر رہا ہوتا ہے، (9)اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ (10)ہر گز نہیں ! یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے،(11)جس کا جی چاہے اسے قبو ل کرے۔ (اس سے یاد دہانی حاصل کرے ) (12)یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مُکَرَّم (لائقِ تعظیم ) ہیں،(13)جو بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ (صحیفے) ہیں،(14)مُعَزَّز اور نیک (با وفا)کاتبوں کے (15) ہاتھوں میں رہتے ہیں۔(16)

٭٭ان آیات پر غور کریں اور دیکھیں شاید کہ کچھ علم حاصل ہو جائے آپ کو۔
٭٭میرا آپ سے سوال جب سورۃ عبس نازل ہو گئ گیا گیا نبی کریم ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ویسا عمل کبھی دوبارہ کیا جیسا عمل انہوں نے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا؟

٭٭غور وفکر تو وہی کرتے ہیں جو حق کو واضح تسلیم کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں۔۔۔ان شائ اللہ شاید کہ آپ غور کریں۔
شکریہ
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اور وضاحت کر دیتا ہوں۔
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر260۔
اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ ’’ میرے مالک! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ‘‘ فرمایا: ’’ کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ ‘‘ اُس نے عرض کیا: ’’ ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ‘‘ فرمایا: ’’ اچھا ، تو چار پرندے لے اور اُن کو اپنے سے مانوس کرلے ۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر اُن کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔‘‘ (260)

٭میرا آپ سے سوال۔جب ابراہیم علیہ السلام کی یہ خواہش جو اللہ تعالیٰ سے کی پوری ہو گئی یعنی اللہ تعالیٰ نے واضح دلیل دے دی کیا انہوں نےدوبارہ یہ سوال کیا ہوگا؟؟؟؟؟!!!!انتظار کرتا ہوں۔

سورۃ البقرہ 2۔
اب کون ہے ،جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ، اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا ۔ (130)

٭میرا سوال آپ سے ۔ واضح ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کے خلاف چلے گا وہ حماقت و جہالت پر چلے گا اب دوسری آیات سے اس آیت کا نتیجہ اخز کریں تو اس کا واضح مطلب ہے کافر و مشرک ہوگا وہ شخص۔

سورۃ النسائ 4۔
اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریقِ زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقے کی پیروی کی ، اُس ابراہیم ؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔(125)

٭٭اس میں بھی واضح ہے سب سے بہتر شخص کون ہے۔
سورۃ ابراھیم 14آیت نمبر 36۔پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا اُن میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ (36)
اس آیت کی دلیل میں جو آپ نے کوڈ کی میں بہت سی دلیلیں دے سکتا ہوں کہ پیغمبروں کی لغزرشوں،نرم دلی کی وجہ سے جو کہہ گئے اور پھر ان کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے درست بھی کیا اور پختہ بھی کیا یہ ایک اور دلیل دیکھیں۔
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر 124۔یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اُتر گیا تو اُس نے کہا : ’’ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ‘‘ ابراہیم ؑ نے عرض کیا:’’ اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ ‘‘ اس نے جواب دیا : ’’ میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ‘‘ ۔ (124)
٭اور آپ ابراھیم علیہ السلام کی دعا سے غلط مطلب اخز کر رہے ہیں کہ جو ابراھیم علیہ السلام کے دین کے علاوہ بھی چلے تو اللہ مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے یہ دعا اسی طرح قرآن میں کوڈ کی گئی جیسے ابراھیم علیہ السلام نے اپنے والد کے لئے کی تھی اور وہ دعا بھی قرآن مجید میں موجود ہے میرے پیارے بھائی باقی قرآن کس نے پڑھنا ہے؟جب ابراھیم علیہ السلام کو معلوم ہوگیا کی اس کا باپ اللہ کا مجرم ہے،اللہ کا فرما بردار نہیں اور اللہ نے اب واضح حکم بھی دے دیا ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے ہدایت پر نہیں تو وہ ابراھیم علیہ السلام نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنی دعا سے بیزار بھی گئے لیکن آپ ابھی تک اس حدیث کے تناظر میں یہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بھی وہ اپنی اسی لغزرش میں ہوں گے جو اللہ نے دنیا میں ہی درست فرما دی اصلاح کر دی اللہ اکبر۔۔۔جواب؟!

سورۃ الحج22۔اے نبی ﷺ ، اگر وہ (یعنی کفار) آپؐ کو جھٹلاتے ہیں تو اُن سے پہلے قومِ نوح ؑ اور عاد اور ثمود (42)اور قومِ ابراہیم ؑ اور قومِ لوط ؑ(43)اور اہل مدین بھی جھٹلا چکے ہیں اور موسیٰ ؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں ۔ ان سب منکرین حق کو میں نے پہلے مہلت دی ، پھر پکڑ لیا ۔ اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ (44)کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑی ہیں ،کتنے ہی کنوئیں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ (45)

سورۃ الانعام6۔اے نبی ﷺ ، کہو میرے ربّ نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑ کا طریہق جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔(161)

سورۃ التوبہ 9۔ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا ، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔(114)

٭دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رقیق القلب تھے ،خدا ترش تھے ،بُردبار آدمی تھے لیکن دعا کرنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے واضح نصیحت کردی واضح بتا دیا کہ تیرا والد میرا دشمن ہے ان کی اس لغزرش کو درست کر دیا اور ابراھیم علیہ السلام بھی اس پر ایمان لائے کہ ہاں میرا والد میرے رب کا منکر ہے،میرے رب کے احکمات کا نکاری ہے ، میرے رب کےساتھ شرک کرتا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اپنی اصلاح کر لی۔۔

٭٭آپ اس حدیث کے تناظر میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اصلاح کرنے کے باوجود ابراہیم علیہ السلام اپنی اسی پرانی غلطی پر ہی رہیں گے؟اور پھر دوسری حدیث کے تناظر میں آپ کا ایمان ہے کہ صرف نبی کریم ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہیں ۔بڑی عجیب بات کر رہے ہیں آپ ۔

واضح آیات سے آپ کو سمجھا رہا ہوں لیکن آپ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ایک آیت سے دوسری آیت کی تفسیر و تشریح لیں اور دیکھیں کیا آپ حق پر ہیں؟ قرآن سے فیصلہ لے کر دیکھیں۔۔۔۔۔

جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔۔۔۔۔۔۔کیا تم جانتے ہو یا اللہ زیادہ جانتا ہے۔۔اور دیکھیں یہ قرآن کس کی طرف سے نازل ہوا!!!!!!!

سورۃ ھود11۔
وہ بولی ’’ ہائے میری کم بختی ! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جب کہ میں بڑھیا پھونس ہوگئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔‘‘ (72)فرشتوں نے کہا ’’ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیم ؑ کے گھر والو ، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ، اور یقینا اللہ نہایت قابلِ تعریف اور بڑی شان والا ہے۔ ‘‘ (73)پھر جب ابراہیم ؑ کی گھبراہٹ دور ہوگئی اور (اولاد کی بشارت سے )اس کا دل خوش ہوگیا تو اُس نے قومِ لوط کے معاملہ میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔ (74)حقیقت میں ابراہیم ؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا اور ہر حال میں ہماری طر ف رجوع کرتا تھا (75)(آخر کار ہمارے فرشتوں نے اس سے کہا) ’’ اے ابراہیم ؑ ، اس سے باز آجائو، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا۔‘‘ (76)

٭٭٭٭یہ آیت بھی بہت اچھی دلیل ہے اگر آپ غور و فکر کریں تو ۔ دیکھیں۔
اولاد کی بشارت پر تعجب کرنے لئے جیسے ہی واضح نصیحت پہنچی کہ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ وہ دونوں اس پر ایمان لائے کہ ہاں اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہے کر دیتا ہے ۔جیسے جیسے ایمان دین کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو عطائ فرمائ ویسے ویسے ان کا ایمان پختہ ہوتا چلا گیا۔
٭ابراھیم علیہ السلام اپنی نرم دلی کی وجہ سے اللہ سے بحث کرنے لگے معافی کے طالب ہوئے لیکن جیسے ہی واضح نصیحت نازل ہوئی آیت نمبر 76 تو کیا پھر بھی وہ اپنی اسی بحث میں پڑے رہے؟
ابراھیم علیہ السلام اس بات سے جو وہ کررہے تھے اس سے بیزار ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔

سورۃ یوسف12۔اپنے بزرگوں ابراہیم ؑ ، اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں ۔ در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔(38)

سورۃ ھود 11 میں جو قصہ اللہ نے بیان فرمایا وہ سورۃ الحجر میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے ۔
سورۃ الحجر15۔انہوں نے جواب دیا ’’ ڈرو نہیں ، ہم تمہیں ایک بڑے سیانے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں ۔‘‘ (53)ابراہیم ؑ نے کہا ’’ کیا تم اِس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو؟ ذرا سوچو تو سہی یہ کیسی بشارت تم مجھے دے رہے ہو‘‘ ؟ (54)انہوں نے جواب دیا ’’ ہم تمہیں برحق بشارت دے رہے ہیں، تم مایوس نہ ہو۔‘‘ (55)ابراہیم ؑ نے کہا ’’ اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (56)پھر ابراہیم ؑ نے پوچھا ’’ اے فرستادگانِ الٰہی ، وہ مہم کیا ہے جس پر آپ حضرات تشریف لائے ہیں‘‘ ؟ (57)وہ بولے ’’ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ (58)صرف لوط ؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں ، اُن سب کو ہم بچا لیں گے، (59)سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ )ہم نے مقدر کر دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی ۔‘‘ (60)

ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا عقیدہ کیا تھا۔اس کی وضاحت بھی دیکھیں۔
سورۃ مریم19۔
(انہیں ذرا اس موقع کی یاد دلائو ) جب کہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ ’’ابا جان ، آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ (42)ابا جان ، میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ، آپ میرے پیچھے چلیں ، میں آپ کو سیدھا راستہ بتائوں گا۔ (43)ابا جان ، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں ، شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ (44)ابا جان ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمان کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں۔‘‘ (45)باپ نے کہا ، ’’ابراہیم ، کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا۔‘‘ (46)ابراہیم ؑ نے کہا ’’سلام ہے آپ کو میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے میرا رب مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ (47)میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا ، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر نامراد نہ رہوں گا۔‘‘ (48)پس جب وہ اُن لوگوں سے اور ان کے معبودانِ غیر اللہ سے جدا ہوگیا تو ہم نے اس کو اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا (49)

سورۃ التوبہ 9آیت نمبر 114۔ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا ، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔(114)
٭صاف وضاحت ہے کہ وہ اپنی دعا سے بیزار ہوے ،اپنے باپ سے تعلق ختم کیا کیونکہ اللہ کا دشمن تھااور اپ کہتے ہیں یہ حدیث قرآن کے مطابق ہی ہے جو میں کوڈ کر چکاہوں کہ ابراھیم قیامت کے کہیں گے کہ میں رسوا ہو گیا ہوں کہ میرا باپ جہنم میں ہو گا۔۔۔۔۔اس طرح تو سب پیغمبر ہی رسوا ہو گئے ،اصحاب بھی رسوا ہو گئے سب مومن جن کے آبائو اجداد جہالت میں شرک کرتے رہے سب مومن ہی رسوا ہوں گے تو کیا اللہ سب کے گھر والوں کو مختلف جانوروں کی شکل میں جہنم میں داخل کرئے گا کیونکہ اللہ بے انصاف نہیں ہے ۔۔ان شائ اللہ ۔۔۔اللہ حق بات کرتا ہے اور حق یہ ہے کہ مشرک مشرک ہے چاہے کسی پیغمبر کا بیٹا ہوباپ ہو بیٹی ہو یا بیوی اللہ کے لئے سب ایک جیسے ہیں۔۔۔۔یہ میری گواہی ہے ۔۔۔ان شائ اللہ۔۔۔
سورۃ مریم 19۔
یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدمؑ کی اولاد میں سے ، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح ؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا ، اور ابراہیم ؑ کی نسل سے اور اسرائیل کی نسل سے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ۔ ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمن کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (58)

محمد فیضان اکبر جو جاہل انسان ہے ،عقل مند اور علم والے علمائ سے بات کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے بات کرنے دی خضر حیات صاحب۔۔۔۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
حیرت تو مجھے بھی بہت ہے میرے پیارے بھائی۔۔۔چلیں اب دونوں ان آیات پر غور وفکر کرتے ہیں ۔۔ان شائ اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے اللہ سے دعا ہے کہ ہم دونوں کو غوروفکر کے ساتھ اور اچھے طریقے سے ایک دوسرے کو سمجھانے کی توفیق عطائ فرمائے ۔۔آمین۔
سورۃ ھود 40۔
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور ابل پڑا تو ہم نے کہا ’’ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو ، اپنے گھر والوں کو بھی۔ سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے ۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح ؑ کے ساتھ ایمان لائے تھے ۔(40)

٭٭نوٹ۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ نوح اپنے گھر والوں کو بھی اس کشتی میں سوار کر لو۔!٭٭اللہ نے نشاندہی کی اس کو سوار نہ کرنا یعنی کفار کو جنہوں نے نوح علیہ السلام کی بات نہیں مانی۔ یعنی جو ایمان نہیں لائے ۔نوح علیہ السلام کا بیٹا نوح علیہ السلام کو وہ دھوکہ دیتا تھا اس کی وضاحت آیت نمبر 45 میں ہے نوح علیہ السلام سمجھتے تھے ان کا بیٹا ایمان دار ہے اور ان کے گھر والوں میں شامل ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کو علم غیب ہے وہ ان کے بیٹے کی حرکتیں ،عمل، جھوٹ،دھوکا دہی،منافقت کو جانتا تھا اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا آیت نمبر 46 دیکھیں جب نوح علیہ السلام پر اپنے بیٹے کے عقیدہ کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت نمبر 46۔۔۔اب میرا سوال آپ سے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نمبر 46 نازل فرما دی تو اس کے بعد کیا ہواآیت نمبر 47 پر غور کریں ۔۔۔اب کیا قیامت کے دن نوح علیہ السلام دوبارہ اپنے بیٹے کے لئے کوئی دعا کریں گے؟جبکہ آیت نمبر45میں وہ اپنے بیٹے کے لئے واضح دعا کر رہے ہیں؟۔۔۔جی جواب دیں اس بات کا میں انتظار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔!
یہ ان کی لغزرش تھی یا ان کو اس کا علم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ایمان دار نہیں منافق ہے جو نوح علیہ السلام سے اپنے عقیدہ کو چھوپا کر رکھتا تھااور وہ اس کے عقیدہ سے انجان تھے اس کے عقیدہ کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے سامنے لے آیا کہ وہ ایمان دار نہیں آیت نمبر46۔

سورۃ ھود 36 تا 37۔
نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ، بس وہ لا چکے، اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑ و (36)اور ہماری نگرانی میں ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی بنانی شروع کر دو ۔ اور دیکھو جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے حق میں مجھ سے کوئی سفارش نہ کرنا ۔ یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔(37)نوح ؑ کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتا تھا وہ اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا ’’ اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں ،(38)عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر وہ بلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی ۔ (39)


سورۃ ھود 41 تا43۔
نوح ؑ نے کہا ’’ سوار ہو جائو اس میں ، اللہ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھیرنا بھی ، میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے ۔‘‘ (41)کشتی ان لوگوں کو لیے چلی جارہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرح اُٹھ رہی تھی ۔ نوح ؑ کا بیٹا دور فاصلے پر تھا ۔ نوح ؑ نے پکار کر کہا ’’ بیٹا ! ہمارے ساتھ سوار ہو جائو ، کافروں کے ساتھ نہ رہ ۔‘‘ (42)اس نے پلٹ کر جواب دیا ’’ میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچالے گا۔‘‘ نوح ؑ نے کہا ’’ آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے۔ ‘‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہوگئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔(43)حکم ہوا ’’ اے زمین ، اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان، رک جا ۔ ‘‘ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا ، فیصلہ چکا دیا گیا ، کشتی جُودی پرٹک گئی ، اور کہہ دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم!۔ (44)
٭٭٭٭نوح ؑ نے اپنے ربّ کو پکارا ۔ کہا ’’ اے ربّ ، میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔ ‘‘ (45)جواب میں ارشاد ہوا ’’ اے نوح ! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے ، وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے ، لہٰذا تو اُس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔ ‘‘ (46)نوح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)حکم ہوا ’’ اے نوح ؑ اُتر جا ، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں ، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامانِ زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا۔‘‘ (48)


مثال زکریا علیہ السلام کی۔
سورۃ مریم 19آیت نمبر 7 تا 10۔
(جواب دیا گیا ) ’’ اے زکریا ؑ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ؑ ہوگا ۔ ہم نے اس نام کا کوئی آدمی اس سے پہلے پیدا نہیں کیا۔‘‘ (7)عرض کیا ، ’’پروردگار ، بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا ، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں‘‘ ؟ (8)جواب ملا ’’ایسا ہی ہوگا۔ تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لیے ایک ذرا سی بات ہے ، آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔‘‘ (9)زکریا نے کہا ، ’’ پروردگار ، میرے لیے کوئی نشانی مقرر کر دے ۔‘‘ فرمایا ’’ تیرے لیے نشانی یہ ہے کہ تو پیہم تین دن لوگوں سے بات نہ کر سکے ۔‘‘ (10)

٭٭اب یہاں ایک پیغمبر ہیں زکریا علیہ السلام اللہ نے لڑکے کی بشارت دی لیکن جواب میں کہتے ہیں بھلا میرے ہاں کیسے بیٹا ہوگا جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔۔۔۔۔۔
جواب ملا ایسا ہی ہوگا تیرا رب فرماتا ہے کہ یہ تو میرے لئے ایک ذرا سی بات ہے ۔۔۔۔آخر اس سے پہلے میں تجھے پیدا کر چکا ہوں جب کہ تو کوئی چیز نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
آیت نمبر 10 پر غور کریں جب اللہ نے واضح انہیں نصیحت کو وہ کیسے اس بات پر ایمان لائے اور جلدی سے کہنے لگے کہ آیت نمبر 10 پڑھیں اور غور و فکر کریں۔۔۔کہ جب اللہ واضح نصیحت فرماتا ہے تو پیغمبر کیسے اس پر ایمان لاتے ہیں۔۔۔

سورۃ ابراھیم آیت نمبر 36۔
پروردگار ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کر دیں ، لہٰذا اُن میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ (36)

یہ ابراھیم علیہ السلام کےنرم دل مزاج کی وجہ ہے جیسا کہ اپنے باپ کے لئے دعا کی جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس دعا سے بیزار ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔۔۔۔۔
٭اس آیت کا کیا کریں گے۔۔۔

سورۃ البقرہ 2۔اب کون ہے ،جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے نفرت کرے؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ، اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا ۔ (130)
سورۃ البقرہ 2۔یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہِ راست پائو گے ۔ عیسائی کہتے ہیں : عیسائی ہو ، تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو : ’’ نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم ؑ کا طریقہ۔ اور ابراہیم ؑ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘ (135)
سورۃ البقرہ 2۔مسلمانو! کہو کہ: ’’ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوب ؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئی تھی ۔ ہم اُن کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ ‘‘ (136)
سورۃ آل عمران 3۔اللہ نے آدمؑ اور نوح ؑ اور آلِ ابراہیم ؑ اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے ) منتخب کیا تھا۔(33)

اس آیت کا کیا کریں اور ان کا کیا کریں جس میں ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہے

سورۃ ال عمران 3۔اے نبی ﷺ ، کہو کہ ’’ ہم اللہ کو مانتے ہیں ، اُس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے ، اُن تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم ؑ ، اسمٰعیل ؑ ، اسحاقؑ ، یعقوب ؑ اور اولادِ یعقوبؑ پر نازل ہوئی تھیں ، اور ان ہدایات پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے ربّ کی طرف سے دی گئیں۔ ہم اُن کے درمیان فرق نہیں کرتے ، اور ہم اللہ کے تابع فرمان (مسلم ) ہیں۔‘‘ (84)

٭ اب مجھے یہ بتائیں کہ جو ابراھیم علیہ السلام کے دین کے سوا کوئی اور دین منتخب کرتا کیا وہ کافر نہیں ؟کیا وہ مشرک نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی دلیل دیں!!!!میں انتظار کرتا ۔۔آل عمران آیت نمبر 95 پر غور وفکر کیں ۔۔اگر ہاں وہ مشرک و کافر ہے تو واضح ان کے والد مشرک و کافر تھے پھر کیا یہ منافقت نہیں جو آپ کر رہے ہیں؟
میں پھر کہوں کو پیغبر اپنے نرم دل ہونے کی وجہ سے جو لغزرش کر گئے اور اس پر واضح ان کو نصیحت بھی مل گئی پھر بھی آپ ان کی ان نرم دلی کی وجہ سے جو لغزرشیں ہیں انہی پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہی فیصلہ کر ئے گا ان شائ اللہ ۔۔باقی قرآن کس نے پڑھنا اور کس نے اس پر ایمان لانا۔۔۔

سورۃ آل عمران 3۔کہو ، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے ، تم کو یکسو ہو کر ابراہیم ؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے ، اور ابراہیم ؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا ۔(95)
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
٭آپ نے کہا تھا۔
دوسرا یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ابراھیم علیہ السلام کے والد کو ایک مذبوح جانور کی ہیت و صورت میں تبدیل کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے تاکہ ابراہیم علیہ السلام کی میدانِ محشر میں رُسوائی نہ ہو اور لوگ ان کے والد کو پہچان نہ پائیں۔

میر ے پیارے بھائی یہ بات جو آپ نے کی شاید آپ کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ حق کو حق ہی دیکھاتا ہے چاہے کوئی خوش ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔
اللہ نے اس قرآن میں سب کچھ واضح فرما دیا کہ لوط کی بیوی ایمان والی نہیں تھی فلاں کا بیٹا ایمان والا نہیں اور قیامت کے دن وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے اللہ تعالیٰ حق اور سچ کے معاملہ میں بہت کسی قسم کی ار نہیں رکھتا ۔قیاس نہ کریں یہ دین کا معاملہ ہے قیاس وہاں چلتا ہے جہا ں قرآن سے جواب نہ ملے اور نہی ہی صحیح حدیث سے قیاس وہا ں چلتا ہے۔۔۔
جب قرآن نے واضح کر دیا کہ مشرک پلید ہے،مشرک ہمیشہ جہنم میں رہے گا،شرک کے علاوہ کوئی گناہ ہو اللہ چاہیے گا تو معاف فرما دے گا اللہ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے،جب پیغمبروں کے ایمان کی درستگی کر دی گئی مجھےکیا آپ ایک مثال دئے سکتے ہیں کہ جب کسی پیغمبر سے لغزرش ہوئی اور اس پر اللہ تعالیٰ نے واضح نصیحت فرما دی تو کیا پھر بھی وہ پیغمبر اسی لغزرش میں قائم رہا؟صرف ایک دلیل ۔اور اللہ نے تو سارے عالم کو واضح بتادیا کہ ابراھیم علیہ السلام کا والد کافر تھا مشرک تھا کیا یہ رُسوائی نہیں تھی؟ جواب کا انتظار کروں گا! کیا لوگ بھول جائیں گے کہ ابراھیم علیہ السلام کا والد کافر مشرک تھا؟!!!!!!!!
آپ نے جو جو کچھ آیات کوڈ کی واضح نصیحت آنے سے پہلے کی ہیں اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو اللہ کی لعنت ہو مجھ پر۔۔ان شائ اللہ اللہ مجھے حق اور سچ سامنے لانے کی توفیق عطائ فرمائے گا۔ اللہ سے خالص مدد چاہئے اور قرآن مجید اور صحیح حدیث کا علم ہی مکمل دین اسلام ہے۔

سورۃ الانبیائ 21۔اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا ۔ یاد کرو جب کہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اورسمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے ۔ آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا ۔ ’’ نہیں ہے کوئی خدا مگر تو ، پاک ہے تیری ذات ، بے شک میں نے قصور کیا ۔‘‘ (87)
سورۃ الصفت 37۔اب اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا(143)تو روزِ قیامت تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا(144)آخر کار ہم نے اسے بڑی سقیم (نڈھال) حالت میں ایک چٹیل زمین پر پھینک دیا۔(145)
سورۃ القلم 68۔اچھا، اپنے ربّ کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کیجیے، اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام ) کی طرح نہ ہو جائے جب اُس نے پکارا تھا (اپنے ربّ کو) اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔(گھٹا ہُوا تھا) (48)اگر اُن کے رب کی مہربانی اس کے شاملِ حال نہ ہو جاتی (ربّ کا فضل اس کی دست گیری نہ کرتا) وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پھینک دیے جائیں ۔(49)

٭٭٭مچھلی والے کی طرح نہ ہونا واضح نصیحت اللہ تعالیٰ کی۔پھر یونس علیہ السلام غم سے بھرے ہوئے تھے یعنی اپنی غلطی پر افسوس تھا اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگی اب اللہ نے بخش بھی دیا بخشنے کے بعد وہ ایسے ہو گئے جیسے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو قیامت کے دن ان پر کوئی رنج نہیں ہوگا،کوئی پریشانی نہیں ہوگی،وہ خوش ہوں گے اللہ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے ۔۔۔۔۔کیا آپ کا یہ ایمان نہیں؟!!!!انتظار کروں گا ۔۔۔

سورۃ عبس80۔ترش رُو ہو اور بے رخی برتی (1)اس بات پر کہ وہ اندھا اِن کے پاس آ گیا ۔ (عبد اللہ ؓ ابن ام مکتوم ) (2)تمہیں کیا خبر ، شاید وہ سدھر جائے (شاید وہ اپنی اصلاح کرتا) (3)یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو؟ (4)جو شخص بے پروائی برتتا ہے (5)اُس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، (6)حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمّے داری ہے؟ (7)اور جو خود تمہارے پاس دوڑ تا ہُوا آتا ہے، (8)اور ڈر رہا ہوتا ہے، (9)اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ (10)ہر گز نہیں ! یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے،(11)جس کا جی چاہے اسے قبو ل کرے۔ (اس سے یاد دہانی حاصل کرے ) (12)یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مُکَرَّم (لائقِ تعظیم ) ہیں،(13)جو بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ (صحیفے) ہیں،(14)مُعَزَّز اور نیک (با وفا)کاتبوں کے (15) ہاتھوں میں رہتے ہیں۔(16)

٭٭ان آیات پر غور کریں اور دیکھیں شاید کہ کچھ علم حاصل ہو جائے آپ کو۔
٭٭میرا آپ سے سوال جب سورۃ عبس نازل ہو گئ گیا گیا نبی کریم ﷺ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ویسا عمل کبھی دوبارہ کیا جیسا عمل انہوں نے اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا؟

٭٭غور وفکر تو وہی کرتے ہیں جو حق کو واضح تسلیم کرتے ہیں اور اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں۔۔۔ان شائ اللہ شاید کہ آپ غور کریں۔
شکریہ
محترمی !
مذکورہ روایت قرآن مجید کی اس آیت(وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ﴿٨٧﴾) کے بارے میں بتا رہی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالٰی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رُسوائی اور ذلت سے کیونکر بچائیں گے ؟ ظاہر ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے باپ کے جہنم میں جانے کی رسوائی سے بڑھ کر اور کیا رسوائی ہو گی ؟لہذا اللہ تعالی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کو ایک بجو کی شکل میں تبدیل کر کے ان کو قیامت کی رسوائی سے بچا لیں گے ۔ اس میں اعتراض والی کیا بات ہے؟
اللہ تعالٰی کا حضرت نوح علیہ السلام کو واضح ارشاد تھا کہ :-

احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ
وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾

یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام تمام ایمان والوں کو کشتی میں سوار کر لیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان والے نہیں ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدائی حکم کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اس لیے سوار نہیں کرتے کیوں کہ وہ ایمان والوں میں سے نہیں تھا۔لہذا معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کے کفر کے متعلق مطلع تھےمگر شفقتِ پدری کے تحت محض جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے بیٹے کی شفارش کر دی۔ مزید یہ کہ حضرت نوح علیہ السلام کو اتنی سخت تنبیہ صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہے جبکہ حضرت نوح علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے کفر کے بارے میں علم ہو اگر ان کو علم نہ ہوتا تو اتنے سخت الفاظ میں تنبیہ نہ کی جاتی۔الفاظ ملاحظہ ہوں :-

يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ﴿٤٦﴾

اب دیکھیں جب حضرت نوح علیہ السلام خدائی حکم کے با وجود جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے بیٹے کے حق میں بات کر سکتے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے والد کے متعلق بات کرنے پر اعتراض کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اعتراض تو اس صورت میں وارد ہو سکتا تھا جب اللہ تعالٰی ان کی سفارش قبول فرما کر ان کے والد کو جہنم سے آزاد کر دیتا ۔

واللہ اعلم !
 
Top