• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اسلام علیکم!
سورۃ البقرہ میں یہ آیت ہے کس کتاب پر ایمان لانا پہلے لازم ہے۔؟وہ کون سی کتاب ہے جو پہلے موجود کتابوں کی تصدیق کرتی ہے؟

٭اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لائو ۔ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی ، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اُس کے منکر نہ بن جائو ۔ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میرے غضب سے بچو ۔(41)
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

صحیح بخاری
كتاب الرقاق​
کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں

باب صفة الجنة والنار:
باب: جنت و جہنم کا بیان​

حدیث نمبر: 6565


ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔



کیا یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی ہے؟ کیا یہ قرآن مجید کے مطابق ہے؟​
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اس حدیث کو دیکھیں جو واقع قرآن مجید کی شان ،قدر بیان کر رہی ہے ۔

صحیح بخاری
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ”اہل کتاب سے دین کی کوئی بات نہ پوچھو“
حدیث نمبر: 7363
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔


اس کو کہتے ہیں حق بات۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

صحیح بخاری
كتاب الرقاق​
کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں

باب صفة الجنة والنار:
باب: جنت و جہنم کا بیان​

حدیث نمبر: 6565


ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔



کیا یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی ہے؟ کیا یہ قرآن مجید کے مطابق ہے؟​
السلام علیکم!
ہے کوئی بندہ جو گواہی دے سکے کہ یہ حدیث قرآن مجید کے مطابق ہے مخالف نہیں اور یہ واقع نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اگر کوئی ہے تو میں اس سے بات کرنا چہتا ہوں۔۔۔۔۔شکریہ

لیکن میں گواہی دیتا ہوں اس میں ایسے الفاظ ہیں جو واضح ثابت کرتے ہیں کہ یہ باطل ہے،جھوٹ ہے،نبی کریم ﷺ کا نام لے کر ان پر تہمت لگائی گئ ہے۔
میں ثابت بھی کر سکتا ہوں ان شائ اللہ۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

٭کہتے ہیں کوئی حدیث بھی قرآن مجید کی مخالفت نہیں کرتی ۔۔اچھا تو پھر اس کا جواب دیں۔۔۔اور اس پوسٹ کو سب کے لئے ظاہر کریں خضرحیات صاحب آپ سے یہ ایک رکویسٹ ہے۔ شکریہ۔یہ دین کا معاملہ ہے دین صرف واحد اللہ تعالیٰ کا ہے میرا یا آپ کا نہیں۔۔۔۔حق قرآن مجید اور پھر صحیح احادیث جو قرآن کے مطابق ہوں۔۔۔۔۔۔ایمان تو غور و فکر کرنے والے ہی لاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے بھی ہیں۔


السلام علیکم سلامتی ہو ان پر جو غور و فکر کرتے ہیں تقلید نہیں کرتے قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور جب حق ان کے سامنے آجاتا ہے تو اسے قبول کرتے ہیں ضد بازی نہیں کرتے ۔

کیا یہ حدیث قرآن مجید کے مطابق ہے ؟
کیا کوئی گواہی دے سکتا ہے؟کیا کوئی گواہی دے سکتا ہے کہ یہ حدیث واقع نبی کریم ﷺ کی ہے اور قرآن کے مخالف نہیں ؟


صحیح بخاری

كتاب أحاديث الأنبياء

کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں

باب قول الله تعالى: {واتخذ الله إبراهيم خليلا}:

باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) فرمان کہ ”اور اللہ نے ابراہیم کو خلیل بنایا“
حدیث نمبر: 3350

ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے بھائی عبدالحمید نے خبر دی، انہیں ابن ابی ذئب نے، انہیں سعید مقبری نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

میرے سوالات!
٭وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توپھر اس بات کا کیا معنی و مفہوم لیتے آپ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یہ ایک بات سچ ہے کہ ہر کافر ،مشرک اس دن کہے گا کہ کاش میں نے کفر و شرک نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔
٭ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا(یہ الفاظ بھی قرآن کے مطابق ہیں۔۔٭آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔۔۔ کیاابراھیم علیہ السلام کے یہ الفاظ قرآن کے مخالف نہیں؟ جو اس غلط حدیث میں بیان کئے جا رہے ہیں!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کیا آپ یہ الفاظ قرآن مجید کے مطابق سمجھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
٭پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاوں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس عمل کا کیا مقصد تھا؟بیان فرما دیں آپ میں سے کوئی علم والا بڑی مہربانی ہو گی کیا یہ عمل بھی قرآن کے مطابق ہے؟

٭میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث میں سچ اور جھوٹ ملایا گیا ہے ۔۔۔۔۔یہ حدیث کہنے کے لائق نہیں یہ تہمت ہے نبی کریم ﷺ پر ابراھیم علیہ السلام پر۔۔۔۔۔۔اس میں ایسے الفاظ ہیں جو واضح قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔۔۔اس لئے اس کا میں رد کرتا ہوں قرآن مجید کی آیات سے کہ یہ حدیث نہیں جھوٹ اور کچھ سچ اس میں مکس ہےاس لئے اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔

٭٭میری گواہی دلیل کے طور پر قرآن مجید کی یہ آیت۔۔۔۔
سورۃ التوبہ9۔
٭ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا ، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔(114)



٭قرآن مجید واضح گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراھیم علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ آپ کے والد اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سےمعافی مانگی اور اپنی دعا سے بیزار ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔یہ میری گواہی ہے ۔۔۔ان شائ اللہ خاک مقدر ان لوگوں کی جو قرآن کے مخالف کلمات کا رد نہیں کرتے۔۔۔۔




 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
٭آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں۔۔۔ کیاابراھیم علیہ السلام کے یہ الفاظ قرآن کے مخالف نہیں؟ جو اس غلط حدیث میں بیان کئے جا رہے ہیں!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر کیا آپ یہ الفاظ قرآن مجید کے مطابق سمجھتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
فورم پر اس طرح کی جہالت کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے ،۔۔۔۔۔۔۔۔محترم شیخ @خضر حیات صاحب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فورم پر اس طرح کی جہالت کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے ،۔۔۔۔۔۔۔۔محترم شیخ @خضر حیات صاحب
میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ انہیں اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت ہو ۔ لیکن پھر بھی اگر فورم کے معزز اراکین کی ایک معتدبہ تعداد اس اعتراض میں آپ کی تائید کرے ، تو میں اپنی سوچ سے ہٹ کر ایسے مواد کو فورم سے ہٹانے کے لیے تیار ہوں ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میں سمجھتا ہوں کہ محترم فیضان اکبر صاحب کے پیش کیے گئے اعتراضات کو جہالت سے تعبیر کرنا اور ان کاجواب دیے بغیر ان کی پوسٹ حذف کر دینا نا انصافی پر مبنی ہوگا ۔ اس طرزِ عمل سے ان کے مؤقف کو مزید تقویت ملے گی۔ انصاف کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان کے اعتراضات کو علمی انداز سے رفع کیا جائے ۔ شکریہ !
 
Top