حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی تحقیق
چونکہ اس حدیث کو امام ابوعوانہ نے تین راویوں سے بیان کیا ہے لہٰذا یہ تین حدیثوں کے حکم میں ہے۔ اس لئے امام ابو عوانہ نے انتہائی دیانت داری کے ساتھ روایات کے اختلاف کا بھی ذکر فرما دیا ہے۔ کسی نے کہا:
''یحاذی بھما'' (منکبیہ) اور کسی نے کہا:
حذو منکبیۃ اسی طرح کسی نے کہا:
لا یرفعھما (یعنی بین السجدتین) اور کسی نے کہا: ''
لا یرفع بین السجدتین''
لیکن ان سب کا مطلب ایک ہی ہے۔ امام ابوعوانہ نے کہا:
''والمعنی واحد'' یعنی معنی (مطلب) ایک ہی ہے۔
صحیح مسلم میں سفیان بن عیینہ ـ(جو کہ مسند ابی عوانہ کا راوی حدیث ہذا ہے) سے چھ ثقہ
''لا یرفعھما بین السجدتین'' کا لفظ ذکر کرتے ہیں۔
امام احمد وغیرہ
''لا یرفع بین السجدتین'' کا لفظ بیان کرتے ہیں۔
بیہقی میں ہے (سعدان تک سند بالکل صحیح ہے)۔ اس میں ہے:
رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ حتی یحاذی منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و بعد ما یرفع من الرکوع ولا یرفع بین السجدتین (ج۲ ص۲۹)
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث اثبات رفع الیدین کی زبردست دلیل ہے۔ اس لئے ''الحافظ الثقۃ الکبیر'' امام ابوعوانہ اس کو
باب رفع الیدین فی افتتاح الصلوۃ قبل التکبیر بحذاء منکبیہ و للرکوع و لرفع راسہ من الرکوع و انہ لا یرفع بین السجدتین کے باب میں لائے ہیں۔
بعض نا سمجھ لوگوں نے
لا یرفعھما کو پچھلی عبارت سے لگا دیا ہے حالانکہ درج بالا دلائل ان کی واضح تردید کرتے ہیں۔
1-مسند ابی عوانہ کے مطبوہ نسخہ سے عمداً یا سہواً ''واؤ'' گرائی گئی ہے یا گر گئی ہے۔ یہ ''واؤ'' مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخوں اور صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔
2- سعدان کی روایت بھی اثبات رفع الیدین کی تائید کرتی ہے۔
3-ابوعوانہ کی تبویب بھی اسی پر شاہد ہے۔
4۔ امام شافعی، امام ابوداؤد اور امام حمیدی کی روایات بھی اثبات رفع الیدین عند الرکوع و بعدہ کے ساتھ ہیں جن کے بارے میں ابوعوانہ نے ''نحوہ'' ۔۔۔ ''بمثلہ''۔۔۔ اور ''مثلہ'' کہا ہے۔
5 اس حدیث کو ''اہل الرائے والقیاس کے پہلے علماء'' (مثلاً زیلعی وغیرہ) نے عدم رفع الیدین کے حق میں پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک یہ روایت بنی ہی نہیں تھی لہٰذا وہ پیش کیسے کرتے؟
معلوم ہوا کہ اس روایت کے ساتھ عدم رفع پر استدلال باطل اور چودھویں صدی کی
''ڈیروی بدعت'' ہے۔
مسند ابی عوانہ قدیم دور میں بھی مشہور و معروف رہی ہے۔ کسی ایک امام نے بھی اس کی محولہ بالا عبارت کو ترک و عدم رفع یدین کے بارے میں پیش نہیں کیا۔ (نور العینین ص۷۱ تا۷۴)