- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
بھٹی صاحب ! آپ جیسے لوگون کی مصیبت یہ ہوتی ہے ، کہ کسی ایک موضوع پر جم کر گفتگو نہیں کرسکتے ، یہ لڑی اس بنیاد پر ہے کہ ’’ لامذہب کون ؟‘‘
لیکن آپ کی پہلی پوسٹ ہی اس سے ہٹ کر تھی ۔
اور اس کے بعد پوسٹیں بھی کتنا موضوع سے مطابق ہیں ، وہ بالکل واضح ہے ۔
اگر اہل حدیث کسی کی تقلید نہ کرنے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں تو آپ کے امام صاحب پر بھی یہ وصف صادق آتا ہے ۔
اگر اہل حدیث قرآن وسنت کو براہ راست سمجھنے کی بنا پر لا مذہب ہیں تو یہ وصف آپ کے امام صاحب پر بھی صادق آتا ہے ۔
اگر اہل حدیث مذاہب اربعہ کے ظہور کے بعد ان کے پابند نہ ہونے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں ، تو یہ ثابت کریں ، ان مذاہب اربعہ کی پیروی کا حکم قرآن میں ہے ، حدیث میں ہے ، کہاں لکھا ہے کہ حنفی مذہب اختیار کرو ، مالکی بنو ، شافعی ہو جاؤ ، حنبلیت اختیار کر لو ؟
قرآن وسنت میں تو ’’ ما انزل إلیکم من ربکم ‘‘ کی اتباع کا حکم ہے ، قرآن کا حکم ماننے والا ’’ لامذہب ‘‘ ہے ؟
فاسئلوا أہل الذکر میں علماء سے رہنمائی لینا کا تو حکم موجود ہے ، لیکن اہل ذکر صرف حنفی ہیں ، یا صرف مالکی ہیں ، صرف شافعی ہیں ، صرف حنبلی ہیں ؟ قرآن کی اس آیت سے اگر مراد ہے کہ کسی ایک امام سے رہنمائی لینی چاہیے ، تو پھر آپ بتائیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس خواب میں رہنمائی لیتے ہیں ،
اگر اس سے مراد مطلقا علماء سے رہنمائی لینا ہے ، تو پھر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کی تخصیص کیوں ؟
اگر بقول آپ کے ہل حدیث قرآن وسنت کی بجائے اپنے علماء کی تقلید کرنے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں تو آپ اس کھاتے سے کیونکر باہر نکل سکتے ہیں ، آپ کون سا مسائل سیدھا امام ابو حنیفہ سے سیکھتے ہیں ، یا طحاوی کے پاس جاکر کلاس لیتے ہیں ، اگر امام ابو حنیفہ کو چھوڑ کر بعد والوں سے رہنمائی لینے سے آپ کی ’’ تقلید امام ‘‘ کا پٹہ نہیں کھلتا ، تو ہم کسی عالم دین سے قرآن وسنت کا مسئلہ پوچھ لینے سے کیونکر ’’ لا مذہب ‘‘ بن جاتے ہیں ؟
اور پھر ستم یہ ہے کہ آپ نے بحث کا دارو مدار ’’ مذاہب اربعہ ‘‘ کو بنا لیا ہے، حالانکہ اصل تو ’’ قرآن وسنت ‘‘ ہونا چاہییں ۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ جو مذاہب اربعہ کو نہیں مانتا وہ ’’ لا مذہب ‘‘ ہے تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم کہیں جو ’’ قرآن وسنت ‘‘ کی بجائے کسی اور کو قبلہ و کعبہ مانتا ہے وہ ’’ لا مذہب ‘‘ ہے ۔
آپ نے کہا کہ آپ کے پیدا ہوتا بچہ مسند اجتہاد پر فائز ہوجاتا ہے ، اس وزن پر ہم کہیں گے کہ آپ کا بوڑھا عالم دین مرتے دم تک بھی تقلید کی پرخار وادیوں میں گمراہ ہوتا رہتا ہے ۔
آؤ ہم قرآن وسنت کو ماننے والے ہیں ، ہم اپنے دلائل کی رو سے یعنی حکم قرآنی مان کر ’’ متبع قرآن وسنت ‘‘ اور ’’ اہل مذہب ‘‘ ہیں ، اور آپ اپنی فقہ کو ماننے والے ہیں ، اور عامی ہونے کی بنا پر آپ پر آپ کے علماء کا ہی حکم ہے کہ آپ ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں ۔
یا خود کو ’’ لا مذہب ‘‘ مان لیں ، یا اپنے علماء کی تقلید سے دستبرداری کا اعلان کردیں ۔
لیکن آپ کی پہلی پوسٹ ہی اس سے ہٹ کر تھی ۔
اور اس کے بعد پوسٹیں بھی کتنا موضوع سے مطابق ہیں ، وہ بالکل واضح ہے ۔
اگر اہل حدیث کسی کی تقلید نہ کرنے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں تو آپ کے امام صاحب پر بھی یہ وصف صادق آتا ہے ۔
اگر اہل حدیث قرآن وسنت کو براہ راست سمجھنے کی بنا پر لا مذہب ہیں تو یہ وصف آپ کے امام صاحب پر بھی صادق آتا ہے ۔
اگر اہل حدیث مذاہب اربعہ کے ظہور کے بعد ان کے پابند نہ ہونے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں ، تو یہ ثابت کریں ، ان مذاہب اربعہ کی پیروی کا حکم قرآن میں ہے ، حدیث میں ہے ، کہاں لکھا ہے کہ حنفی مذہب اختیار کرو ، مالکی بنو ، شافعی ہو جاؤ ، حنبلیت اختیار کر لو ؟
قرآن وسنت میں تو ’’ ما انزل إلیکم من ربکم ‘‘ کی اتباع کا حکم ہے ، قرآن کا حکم ماننے والا ’’ لامذہب ‘‘ ہے ؟
فاسئلوا أہل الذکر میں علماء سے رہنمائی لینا کا تو حکم موجود ہے ، لیکن اہل ذکر صرف حنفی ہیں ، یا صرف مالکی ہیں ، صرف شافعی ہیں ، صرف حنبلی ہیں ؟ قرآن کی اس آیت سے اگر مراد ہے کہ کسی ایک امام سے رہنمائی لینی چاہیے ، تو پھر آپ بتائیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس خواب میں رہنمائی لیتے ہیں ،
اگر اس سے مراد مطلقا علماء سے رہنمائی لینا ہے ، تو پھر حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کی تخصیص کیوں ؟
اگر بقول آپ کے ہل حدیث قرآن وسنت کی بجائے اپنے علماء کی تقلید کرنے کی بنا پر ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں تو آپ اس کھاتے سے کیونکر باہر نکل سکتے ہیں ، آپ کون سا مسائل سیدھا امام ابو حنیفہ سے سیکھتے ہیں ، یا طحاوی کے پاس جاکر کلاس لیتے ہیں ، اگر امام ابو حنیفہ کو چھوڑ کر بعد والوں سے رہنمائی لینے سے آپ کی ’’ تقلید امام ‘‘ کا پٹہ نہیں کھلتا ، تو ہم کسی عالم دین سے قرآن وسنت کا مسئلہ پوچھ لینے سے کیونکر ’’ لا مذہب ‘‘ بن جاتے ہیں ؟
اور پھر ستم یہ ہے کہ آپ نے بحث کا دارو مدار ’’ مذاہب اربعہ ‘‘ کو بنا لیا ہے، حالانکہ اصل تو ’’ قرآن وسنت ‘‘ ہونا چاہییں ۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ جو مذاہب اربعہ کو نہیں مانتا وہ ’’ لا مذہب ‘‘ ہے تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم کہیں جو ’’ قرآن وسنت ‘‘ کی بجائے کسی اور کو قبلہ و کعبہ مانتا ہے وہ ’’ لا مذہب ‘‘ ہے ۔
آپ نے کہا کہ آپ کے پیدا ہوتا بچہ مسند اجتہاد پر فائز ہوجاتا ہے ، اس وزن پر ہم کہیں گے کہ آپ کا بوڑھا عالم دین مرتے دم تک بھی تقلید کی پرخار وادیوں میں گمراہ ہوتا رہتا ہے ۔
آؤ ہم قرآن وسنت کو ماننے والے ہیں ، ہم اپنے دلائل کی رو سے یعنی حکم قرآنی مان کر ’’ متبع قرآن وسنت ‘‘ اور ’’ اہل مذہب ‘‘ ہیں ، اور آپ اپنی فقہ کو ماننے والے ہیں ، اور عامی ہونے کی بنا پر آپ پر آپ کے علماء کا ہی حکم ہے کہ آپ ’’ لا مذہب ‘‘ ہیں ۔
یا خود کو ’’ لا مذہب ‘‘ مان لیں ، یا اپنے علماء کی تقلید سے دستبرداری کا اعلان کردیں ۔