• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لندن میئر: غُربت میں پلا صادق خان ارب پتی یہودی پر حاوی!

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
شکریہ محترم اشماریہ بهائی

جو اہل اسلام نہیں انکے اعمال کے وہ ذمہ دار ہیں ۔ انکی تعداد قلیل ہو یا اکثر ۔ مجہے اس تہریڈ میں عمر بهائی کا روشنی ڈالنے کا التماس اور اس پر آپ کے خواب سے غلط فہمی سی ہوئی کہ یہ بات پتہ نہیں کہاں سی نکلی کہاں جا رہی ہے ۔
سید طہ بهائی کی بات ووٹ کے ضمن میں تہی تو لگا کہ آپ انکی بات سے اتفاق نہیں کر رہے ہیں اور جو فقرہ آپکا میری سابقہ پوسٹ میں ہے اس فقرے کو بنیاد بنا کر معاملہ کو سمجہا رہے ہیں ۔
جاری ۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اسی فورم کے تہریڈ سے :

ﺍﺱ ﻣﻴﮟ ﺗﻴﻦ ﻗﻮﻝ ﭘﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻴﮟ:ﺍﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺻﺪﻳﻖ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﺍﺑﻰ ﻃﺎﻟﺐ، ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﻴﺪ، ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺯﺑﻴﺮ، ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﻰ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﮩﻢ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﻚ، ﺍﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭﺍﮨﻮﻳﮧ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺍﺻﺢ ﺗﺮﻳﻦ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﻣﻴﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﻰ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻳﻚ ﻗﻮﻝ ﻣﻴﮟ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﮔﺌﮯ ﮨﻴﮟ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﺯﻧﺎ ﺳﮯ ﺯﻳﺎﺩﮦ ﺳﺨﺖ ﮨﮯ، ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﻴﮟ ﺍﺱ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﻗﺘﻞ ﮨﮯ، ﭼﺎﮨﮯ ﺷﺎﺩﻯ ﺷﺪﮦ ﮨﻮ ﻳﺎ ﻏﻴﺮ ﺷﺎﺩﻯ ﺷﺪﮦ.ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﻰ ﻇﺎﮨﺮ ﻣﺬﮨﺐ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺩﻭﺳﺮﻯ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﻣﻴﮟ ﻳﮧ ﻛﮩﺘﮯ ﮨﻴﮟ ﻛﮧ: ﺍﺱ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﻧﻰ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ.ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﮧ ﻛﺎ ﻛﮩﻨﺎ ﮨﮯ :ﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﺯﺍﻧﻰ ﻛﻰ ﺳﺰﺍ ﺳﮯ ﻛﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﻌﺰﻳﺮ ﮨﮯ. "
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
تو بات اپنی ہو رہی ہے ۔ مثالیں بهی اپنی ہوں ۔ ہمیں دوسروں کے افکار سے کیا لینا ۔
والسلام
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تو کفر کا فتوی اس وقت لگتا ہے جب ایک حرام قطعی چیز کو حلال قرار دیا جائے بلا کسی تاویل مضبوط کے
محترم جناب اشماریہ صاحب!
آپ شرح عقیدہ الطحاویۃ لابن عز الحنفی کا مطالعہ کریں.
کفر کا معاملہ حساس ھے. اس لۓ مزید تبصرہ کرنے سے قاصر ھوں.
ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قانون بننا چاہیے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی سے اس فعل کے کرنے کی قانونا اجازت ہے۔
کیا ووٹ دینے کا مطلب یہ نہیں ھو سکتا کہ قانون الہی مکمل نہیں یا قانون الہی صحیح نہیں؟؟؟
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
محترم جناب اشماریہ صاحب!
آپ شرح عقیدہ الطحاویۃ لابن عز الحنفی کا مطالعہ کریں.
کفر کا معاملہ حساس ھے. اس لۓ مزید تبصرہ کرنے سے قاصر ھوں.

کیا ووٹ دینے کا مطلب یہ نہیں ھو سکتا کہ قانون الہی مکمل نہیں یا قانون الہی صحیح نہیں؟؟؟
میرے خیال میں ووٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضرت سمجھتے ہیں کہ ملک میں لواطت حلال ہونی چاہیے اور یہ کفر ہے

Sent from my Lenovo A536 using Tapatalk
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
Arshad Khan Aastik.


"یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود"
تحریر ارشد خان آستک۔ اردو شاعر و کالم نگار
صادق خان کا ایک یہودی کے مقابلے میں جیت حاصل کرنے کی وجہ ظاہر سی بات ہے با عمل اور پختہ عقیدہ مسلمان نہ ہونا ہی ہے۔ جو ایسے مسلمان ہیں ان کا تو اپنے ہی ممالک کے اندر جینا حرام کردیا جاتا ہے؛ ان کا سبز پاسپورٹ تک باہر جاتے وقت ان کے شرمندگی کے باعث بنتا ہے؛ تو لندن جیسے کثیر نصرانی اور یہودی آبادی پر مشتمل علاقے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے کسی مسلمان کو مئیر منتخب ہونے دیاجائے۔ صادق خان 2013 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق میں ووٹ دے چکا ہے جس وجہ سے کئی ایک علما نے ان پہ مرتد ہونے کے فتوے لگایئں۔ اس کے علاوہ کچھ ذرائع کے مطابق صادق خان مسلمانوں کے لئے شراب کا پینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اتنا کچھ ہے تو پھر یقیناََ اس صاحب کی نظر میں زنا و بے پردگی بھی کوئی ناپسندیدہ اعمال نہیں ہونگے۔ یاد رکھیں یہود و نصرٰی کو اس قسم کے مسلمانوں سے قطعاً کوئی مسلہ نہیں ہے اور ایسے مسلمانوں کو ان کی طرف سے اکرامات سے نوازنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کو نوازا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ یہ ہمارے تلوے چاٹنے سے کبھی منہ نہ موڑے بلکہ ان کو ملے ہوئے مراعات کو دیکھ دیگر مسلمان بھی لالچ کی وجہ سے ہمارے غلام بن جائیں۔ اپنےشہر میں اپنے یہودی پر اسےفوقیت دے کر جتوانا بھی انہی مراعات کا حصہ ہے۔ ایسے مسلمانوں کا ایمان for sale ہوتا ہے۔ جتنا معاوضہ و مراعات یہود کی طرف سے ملتے ہیں اس حساب سے یہ اپنی ایمان کا کوئی حصہ بدلےمیں انہیں بیچ ڈالتے ہیں۔ یہود و نصارٰی فری میں اتنا خاطر تواضح کسی کی نہیں بجا لاتے بدلے میں پھر کام بھی مانگتے ہیں۔اور ان کو یہ بھی پتا ہوتا ہے جیسا کہ انسانی فطرت ہے کہ جو بندہ کسی کے احسانات اپنے اوپر لے لیتا ہے اس کا پھر ضمیر بھی اسے اپنے محسن کی خواہشات اور منشاء کے خلاف چلنے نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے اعتماد کو کہیں ٹھیس نہ پہنچ جائے اس سلسلے میں وہ پرایا بندہ اپنے بندے سے زیادہ حساس ہوتا ہے جس پر احسانات برسائے گئے ہو۔ جیسا کہ مئیر منتخب ہونے کے بعد صادق خان صاحب کےالفاظ ہیں کہ وہ لندن کے یہودیوں کی ایک یہودی میئر کی نسبت کہیں زیادہ تعبدار رہے گا اور ان کی خدمت کرے گا کہ انہوں نے ایک یہودی کےمقابلے میں اسےسپورٹ کیا۔ایسے مسلمان اپنے یہودی آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئےاعمال رزیلہ میں یہودیوں کو بھی پیچھے چھوڑنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے بارے میں علامہ اقبال صاحب کی نظم شکوہ جواب شکوہ میں بہت مناسب اشعار موجود ہیں جیسا کہ:
وضع میں تم ہو نصٰرٰی تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
ہونکہ نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
اسی طرح مزید فرماتے ہیں
نہیں آتا جنہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
اس لئے پاکستانی مسلمانوں ؛ خاص کر جے یو آئی والوں جو اس وجہ سے صادق خان کی جیت پہ کچھ زیادہ ہی ایکسائٹڈ ہیں کہ یہ عمران مخالف پارٹی کا بندہ تھا؛ آپ لوگوں کو زیادہ جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صادق خان نے کوئی امیرامومنین نہیں بننا نہ ہی وہ لندن میں کوئی اسلام نافذ کرنے یا لندن کو اسلامی سلطنت بنانے جا رہا ہے۔ یہودو نصٰرٰی کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں کہ کسی سچے مسلمان کو وہ میئر منتخب کریں گے۔ جہاں پر ہماری سوچ ختم ہوتی ہے وہاں سے ان کی سوچ شروع ہوتی ہے۔ ایسے عہدوں سے وہ جن کو نوازتے ہیں تو ان کے بیک گراؤنڈ کی اچھی چھان بین انہوں نے کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے کلام۔پاک میں واضح کیا ہے کہ یہ یہودو نصارٰی تم سے اس وقت تک خوش نہیں ہونگے جب تک تم۔ان کے لئے اپنایہ دین نہ چھوڑو۔ یہاں پہ دین کو ترک کرنے کے دونوں ہی مطلب ہوئے یعنی ذین کو کُل یک مشت ترک کرنایا دین کو حصوں حصوں میں ترک کرناجب جب جس جس حصے کا ترک کرنا موقع و محل کے لحاظ سے یہودیوں کے لئے اہم ہو۔۔۔۔۔۔۔ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ عمران نے تو زیک گولڈ سمتھ کی حمایت اس لئے کی تھی کہ اس کا سالہ ہے یا تھا کسی دور میں ؛ لیکن فضل الرحمانیوں کی طرف سے ہم جنس پرستی و دیگر اعمال رزیلہ کے حمایتی جس کا ایمان صرف for sale ہے؛ اس کی حمایت کیوں کی جارہی ہے ؟ کہیں یہ بھی فضل الرحمانیوں کا کوئی رشتہ دار ہے؟ یاحمایت اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ اس میں اور فضل الرحمان میں دینداری for sale کی خاصیت مشترک ہے؟ smile emoticon
تحریر:
ارشد خان آستک؛اردر شاعر و کالم نگار

(فیس بک سے)​
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
یہ مراسلہ دراصل بعض مخفی امور کو اجاگر کرتا ہے ۔ بعض امور جن پر سبکی سوچ نہیں پہنچ پاتی ۔ محترم یوسف صاحب کا شکریہ کہ ارشد صاحب کا مراسلہ یہاں پیش کیا ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یوسف بھائی ارشد کالمسٹ سے بہتر تو آپ خود بھی لکھ سکتے تھے تو اس کی کیا ضرورت تھی، وہی دوا باتیں جو وہاں بیٹھ کر ہر کوئی اندازہ سے جو چاہے اس پر لکھ سکتا ہے، ہو سکے تو برطانیہ سے کوئی پڑھا لکھا سلفی تلاش کریں اور اسے کہیں کہ میرے ساتھ اس فورم میں آپکی نمائندگی کر سکتا ہے، سمائل!

اگر صادق خان For sale جیسی بات ہوتی تو ارشد کالمسٹ کی سوچ کمزور ہے کیونکہ ڈیوڈ کیمرون سٹرونگ وزیر اعظم ہے اور زیک گولڈ سمتھ وزیر اعظم کی جماعت کا ممبر پارلیمنٹ ہے اس کا میئر ہونا ممکن تھا نہ کہ مخالف پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ۔

رہی بات سبز پاسپورٹ کی ویلیو کی تو اس کی ویلیو اتنی ہی ہے جتنی دوسرے ممالک کے پاسپورٹ کی ہے، اس پر یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ ہر ملک پر داخلہ کے کچھ قوانین ہیں انہی کے مطابق درخواست گزار کو اس مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے، اب برطانوی شہری کو پاکستان میں داخلہ کے لئے ویزہ چاہئے ہوتا ہے تو کیا کوئی یہ سمجھے گا کہ برطانوی پاسپورٹ کی کوئی ویلیو نہیں کہ پاکستان جانے کے لئے ویزہ لینا پڑتا ہے۔ ویزہ پر ایک مثال کہ گلف میں وزٹ ویزہ کی مدت 3 ماہ ہے سعودی عرب میں وزٹ ویزہ کی مدت شائد کچھ زیادہ ہو، مگر برطانیہ کے لئے وزٹ ویزہ کی مدت زیادہ سے زیادہ 10 سال ہے۔ کیا برطانیہ پاکستانی سبز پاسپورٹ کو ویزہ نہیں دیتا، تو پھر ہمارے لوگ یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سبز پاسپورٹ کی ویلیو نہیں۔ ارشد کالمسٹ کی طرف سے سبز پاسپوٹ کے حوالہ سے پنجابی کا ایک محاوہ ہے "جیرا جنے جوگا ہووے اودی سوچ کی اینی ہوندی اے"۔

ایک مسلم کا فرض طاغوتی نظاموں کو اکھاڑ کر اس کی جگہ اسلامی نظام نافذ کرنا ہے ناکہ خود طاغوتی نظام کا حصہ بننا
جی بھائی آپ کے خیالات بہت اچھے ہیں مگر ایسا۔۔۔۔ جب تک اللہ سبحان تعالی نہ چاہے ناممکن ہے؟ پاکستان سے ہی لے لیں مسلم ملک ہے اور حکومت میں آپ کے مسلک سے فاضل بھی ہونگے تو کیا ایسا کر پائے۔ کچھ مثالوں سے، ایک طالب علم کا کیا کام ہے اسے سمجھیں، ایک اسلامیات کے پروفیسر کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے اسے سمجھیں، ایسے ہی ایک کمپنی یا سرکاری محکمہ میں کام کرنے والے ورکرز کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کی دوڑ کہاں تک ہوتی ہے اسے سمجھیں، ایک کونسلر، ایم پی اے، ایم این اے، میئر کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں انہیں سمجھیں، ان سب کا کام ہے اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر اگر انہیں مزید کسی چیز کی ضرورت ہے تو اس پر انہیں درخواست کرنا پڑتی ہے۔ صادق خان جو لندن میئر کی عہدہ پر فائز کیا گیا ہے وہ ممبر پارلیمنٹ بھی ہے، لندن کے مقامی لوگوں کو جو مشکلات ہیں اسی پر اس نے کام کرنا ہے، میئر کی کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس نے وہی نبھانی ہیں ایسا نہیں کہ یہاں جو روزمرہ کے کاروبارہ ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی مداخلت کرنا۔

والسلام
 
Last edited:

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بس ڈرائیور کا پاکستانی بیٹا " لندن کا میئر "
اتوار 8 مئی 2016م
ترکی الدخیل

برطانوی لیبر پارٹی کے پاکستانی نژاد رکن صادق خان لندن کے میئر بن گئے۔ غیرسرکاری حلقوں نے انتخابات کے نتائج سے قبل ہی اس استحقاقی جیت کا ذکر کر دیا تھا۔


بس ڈرائیور کا بیٹا یورپ کے اس اہم ترین دارالحکومت کا میئر بن گیا جو ایک طویل سامراجی اور تہذیبی تاریخ رکھتا ہے۔ تاہم صادق خان اپنی شناخت، مذہب یا پاکستانی نژاد ہونے کی بنیاد پر نہیں جیتا بلکہ ایک ایسے برطانوی ہونے کی بنیاد پر کامیاب ہوا جس کی اپنی اور کسی بھی دوسرے برطانوی کی ہم وطنی میں کوئی فرق نہیں۔ وہ ریاست، ہم وطنی اور ذاتی اہلیت کے حقیقی معنی کے ضمن میں جیت کا مستحق ٹھہرا۔

تقریبا دو دہائیوں سے یورپ اپنے افکار اور نظریات کے ذریعے ریاست کے معنی کی پختہ سالی میں مصروف عمل ہے۔ ہم وطنی کے تحت "سماجی معاہدے" کو زیربحث لا کر اس آئندہ معنی کو واضح کیا گیا۔ وہ معنی یہ ہے کہ انسان اپنی وابستگی کے مقام کی یا اپنی پیدائش کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔

صادق خان کی جیت ان ہزاروں افراد اور پناہ گزینوں کے سامنے ایک کامیاب اور شاندار نمونہ پیش کرتی ہے جو اچھی زندگی گزارنے کے واسطے یورپ کا رخ کرتے ہیں۔ یہ جیت اس بات کا پیغام ہے کہ یہ ممالک مضبوط اداروں اور نظام کے پابند ہیں اور یہ کہ اپنی مستقبل کی شناخت میں ضم ہو جانے سے آپ کے لیے اس ملک کے اصل باشندوں کے مساوی مواقع یقینی ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ قوانین، نظام اور ثقافت کی پاسداری کے ذریعے حاصل ہونے والے میل ملاپ، شناخت کی سمجھ بوجھ اور ہم وطنیت کے اثبات کا نتیجہ ہے۔

صادق خان، بس ڈارئیور کا بیٹا، مسلمان، پاکستان سے ہجرت کرنے والا، یہ تمام عوامل اسے انگریزوں کا مقابلہ کرنے اور اہل وطن کے ووٹوں کے ذریعے اس منصب تک پہنچنے سے نہ روک سکے۔ یہ ریاست سے تعلق، ہم وطنی کو یقینی بنانے اور میل ملاپ اور گھل مل جانے کی سادہ سی مثال ہے۔

بشکریہ روزنامہ "عکاظ "
(ترکی الدخیل العربیہ نیوز چینل کے جنرل مینجر ہیں)


ح
 
Top