• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لندن میئر: غُربت میں پلا صادق خان ارب پتی یہودی پر حاوی!

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
صادق خان کی کامیابی کی خوشی اس لحاظ سے ہوئی کہ زیک اسمتھ کے مقابلے میں کامیاب ہوا ہے
اور جب وہ مسلمان ہے تو عمل میں جتنا بھی کمزور ہو بطور مئیر ایک یہودی سے بدرجہا بہتر ہے۔
سو فیصد متفق ۔
کمیاں ، کوتاہیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں ، صغیرہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہونے کا کس کو دعوی ہے ؟ اور کون یہ سمجھتا ہے کہ میں 100 فیصد اسلامی نظام والے ملک میں رہتا ہوں ؟
محترم کنعان صاحب کی یہ بات بہت قوی ہے کہ سمندر پار بیٹھ کر صادق خان کو کمانڈ دینے کی بجائے ، وہاں کے حالات و واقعات کا بھی خیال رکھنا ہوگا ۔ گو غلط ہر جگہ غلط ہی ہوتا ہے ، لیکن غلطی کرنے والے پر حکم لگانے کے لیے وہاں کے حالات و واقعات کو مد نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
صادق خاں طاغوتی نظام سے منتخب ہوگیا ، اسلام کا بہت بڑا نقصان ہوا ، اگر اس کے مقابلے میں یہودی منتخب ہوتا تو اس کے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فوائد حاصل ہونے تھے ؟
صادق خان کا موازنہ حسن بصری سے کرنے کی بجائے (ابتسامہ ) ، صادق خان کو ایک یہودی کے مقابلے میں دیکھیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم جناب اشماریہ صاحب!
آپ شرح عقیدہ الطحاویۃ لابن عز الحنفی کا مطالعہ کریں.
کفر کا معاملہ حساس ھے. اس لۓ مزید تبصرہ کرنے سے قاصر ھوں.

کیا ووٹ دینے کا مطلب یہ نہیں ھو سکتا کہ قانون الہی مکمل نہیں یا قانون الہی صحیح نہیں؟؟؟
اگر آپ میرے حنفی ہونے کے اعتبار سے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فرما رہے ہیں تو میں اس مسئلہ کو کافی عرصہ پہلے حاشیہ ابن عابدین اور دیگر کتب فقہ میں پڑھ چکا ہوں۔
تکفیر فقہ اسلامی کے حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اسی لیے اگر کسی کی بات میں ایک احتمال بھی اسلام کا ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی اس لیے فعل کفر یا کلمہ کفر ادا کرے کہ وہ جاہل ہو تو بعض صورتوں میں اس پر بھی تکفیر نہیں کی جاتی۔ تفصیل دیے ہوئے ربط میں ملاحظہ فرمائیں۔

باقی جو ووٹ دینے کا مطلب آپ نکال رہے ہیں اول تو یہ مطلب احتمال کفر کو ترجیح دینا ہے جو کہ درست نہیں۔ اور ثانیا یہ بھی اس وقت کہا جا سکتا تھا جب وہاں قانون الہی نافذ ہوتا۔ وہاں تو پہلے سے انگریزی قانون نافذ ہے اس میں مزید ایک چیز کا اضافہ کرنے سے قانون الہی کے خلاف ووٹنگ کیسے بنتی ہے۔

تکفیر کے سلسلے میں اس کا مطالعہ فرمائیے
https://islamqa.info/ar/85102
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
اگر آپ میرے حنفی ہونے کے اعتبار سے اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا فرما رہے ہیں تو میں اس مسئلہ کو کافی عرصہ پہلے حاشیہ ابن عابدین اور دیگر کتب فقہ میں پڑھ چکا ہوں۔
افسوس ھوا آپ کی بات سے محترم!
یہ کتاب میں نے پڑھی تھی اور مجھے بہت اچھی لگی لہذا میں نے آپکو پڑھنے کے لۓ بولا. اور بولتے وقت میرے ذہن میں ایسا کچھ نہیں تھا. خیر آپ کی مرضی ھے.
تکفیر فقہ اسلامی کے حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے
یہی تو میں نے بھی کہا ھے جناب کہ مسئلہ تکفیر پر زیادہ بحث نہیں کرنی چاہیۓ اور اس وقت جب علم نہ ھو تو بالکل نہیں کرنی چاہیۓ
اسی لیے اگر کسی کی بات میں ایک احتمال بھی اسلام کا ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے۔
وہاں کے مفتی صاحب نے شاید کچھ سوچ سمجھ کر فتوی دیا ھوگا (خیر آپ اسکو رد کر سکتے ھیں کیوں کہ یہ اندازہ لگانا ھوا. میں نے حسن ظن رکھتے ھوۓ کہا ھے. واللہ اعلم بالصواب)
اسی لیے اگر کسی کی بات میں ایک احتمال بھی اسلام کا ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی اس لیے فعل کفر یا کلمہ کفر ادا کرے کہ وہ جاہل ہو تو بعض صورتوں میں اس پر بھی تکفیر نہیں کی جاتی۔ تفصیل دیے ہوئے ربط میں ملاحظہ فرمائیں۔
جہالت کافر قرار دینے میں مانع ھے. اب میں بنا علم کے نہیں کہ سکتا کہ وہاں کے مفتی صاحب نے فتوی دیتے وقت ان باتوں کو دھیان میں رکھا تھا کہ نہیں
باقی جو ووٹ دینے کا مطلب آپ نکال رہے ہیں اول تو یہ مطلب احتمال کفر کو ترجیح دینا ہے جو کہ درست نہیں۔
میں مانتا ھوں کہ اسمیں احتمال تھا. لیکن کیا آپ مجھے اسکا مطلب سمجھا سکتے ھیں؟؟؟؟ آپ نے یہ الفاظ کیوں کہے؟؟؟
البتہ رہ گئی بات اس کے ہم جنس پرستی کے ووٹ کی۔ تو کفر کا فتوی اس وقت لگتا ہے جب ایک حرام قطعی چیز کو حلال قرار دیا جائے بلا کسی تاویل مضبوط کے۔ ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قانون بننا چاہیے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی سے اس فعل کے کرنے کی قانونا اجازت ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مرد و عورت کو جنسیات کے معاملے میں آزاد ہونا چاہیے۔
خاص طور سے ملون الفاظ کو سمجھائیں.
اور ثانیا یہ بھی اس وقت کہا جا سکتا تھا جب وہاں قانون الہی نافذ ہوتا۔
محترم مجھے بھی علم ھیکہ وہاں اسلامی حکومت نہیں ھے. لیکن شاید میں آپ کو سمجھا نہیں پایا.
قانون الہی سے میری مراد وہ قانون ھے جس کو ھر مسلمان کو فالو کرنا ھے چاہے وہ اسلامی حکومت میں ھو یا کفار کے ماتحت ھو. اب غالبا آپ سمجھ گۓ ھوں گے.
وہاں تو پہلے سے انگریزی قانون نافذ ہے اس میں مزید ایک چیز کا اضافہ کرنے سے قانون الہی کے خلاف ووٹنگ کیسے بنتی ہے۔
اب اوپر میری وضاحت کے بعد غالبا آپ اسکے علاوہ کچھ اور کہنا چاہیں گے.

جزاک اللہ خیرا.
محترم جناب @کنعان صاحب!
اگر آپ کے پاس وقت ھو اور جانکاری ھو تو براہ کرم آپ وہاں کے مفتی اور انکے فتوے کے بارے میں کچھ عرض کریں. اگر وقت ھو تو.
جزاک اللہ خیرا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

اپنا سوال مکمل لکھیں کس بات پر مفتی صاحب کے فتوی کی آپکو ضرورت ہے۔

والسلام
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم

اپنا سوال مکمل لکھیں کس بات پر مفتی صاحب کے فتوی کی آپکو ضرورت ہے۔

والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم!
اس بات پر کہ مفتی صاحب نے جو فتوی دیا تھا کیا وہ درست تھا؟؟؟ فتوی دینے کا پس منظر کیا تھا؟؟؟ کسی اور عالم یا مفتی صاحب نے انکی تردید نہیں کی؟؟؟ کیا مفتی صاحب نے شرائط وموانع کا لحاظ رکھا تھا؟؟؟ آپ شاید وہیں پر رھتے ھیں تو تصدیق بھی ھو جاۓ گی. (ان سوالات سے مفتی صاحب کی تحقیر وغیرہ مقصود نہیں صرف حقائق جاننا ھے).
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم!
اس بات پر کہ مفتی صاحب نے جو فتوی دیا تھا کیا وہ درست تھا؟؟؟ فتوی دینے کا پس منظر کیا تھا؟؟؟ کسی اور عالم یا مفتی صاحب نے انکی تردید نہیں کی؟؟؟ کیا مفتی صاحب نے شرائط وموانع کا لحاظ رکھا تھا؟؟؟ آپ شاید وہیں پر رھتے ھیں تو تصدیق بھی ھو جاۓ گی. (ان سوالات سے مفتی صاحب کی تحقیر وغیرہ مقصود نہیں صرف حقائق جاننا ھے).

کیا اس فتوی پر بات کر رہے ہیں؟


’ہم جنس پرستوں کو سزا نہ دی جائے کیونکہ۔۔۔‘
معروف سعودی مفتی کا ایسا فتویٰ کہ جان کر آپ کا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ جائے گا
05 مئی 2016

سٹاک ہوم (مانیٹرنگ ڈیسک) اکثر مسلم ممالک میں ہم جنسی پرستی کو سنگین جرم قرار دیا جاتا ہے اور اس کی سخت ترین سزا مقرر ہے، لیکن سویڈن کے دورے پر گئے ہوئے ایک سینئر سعودی سکالر نے یہ فرما کر دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ اس بد فعل کی کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے۔

ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ڈاکٹر سلمان العودا نے سویڈن کے اخبار سڈ سوینسگان کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”اگرچہ مذہبی کتابوں میں ہم جنس پرستی کو گناہ قرار دیا گیا ہے، تاہم اس دنیا میں اس فعل کی کوئی بھی سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے۔“ انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مذہب کی طرف سے انسان کو دی گئی آزادی کی طرف توجہ دلائی اور کہا، ”اسلام کی بنیادی باتوں میں سے ایک انسان کو دی گئی عمل کی آزادی ہے۔ انسان کو یہ آزادی ہے کہ وہ جو چاہے کرے، لیکن اسے نتائج کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔“

ڈاکٹر سلمان نے ہم جنس پرستی کو مذہب سے انحراف قرار دینے والوں پر بھی نتقید کی۔ ان کا کہنا تھا ”ہم جنس پرست اسلام سے منحرف نہیں ہیں۔ ہم جنس پرستی بہت بڑا گناہ ہے، لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم جنس پرست اسلام سے انحراف کررہے ہیں دراصل وہ خود انحراف کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم جنس پرستوں کو موت کی سزا دے کر وہ ہم جنس پرستی سے بھی بڑا گناہ کر رہے ہیں۔“

ڈاکٹر سلمان العودا انٹرنیشنل یونین فار مسلم سکالرز کے رکن ہیں اور وہ اسلام ٹوڈے کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ واضح رہے کہ ان سے قبل تیونس کے مشہور مذہبی سکالر راشد غنوچی بھی اسی قسم کی رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ فرانسیسی صحافی الیویئر راوانیلو کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ”ہم، ہم جنس پرستی کی حمایت نہیں کرتے، لیکن اسلام لوگوں کی جاسوسی نہیں کرتا۔ یہ نجی زندگی کا تحفظ کرتا ہے۔ ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور ہر کوئی اس کے لئے اپنے خالق کے سامنے جواب دہ ہے۔“

ح
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تاہم 2013ء میں برطانیہ میں رہنے والے پاکستانی مسلمانوں نے، ہم جنس پرستوں کی شادی کے منصوبے کے حق میں صادق خان کے ووٹ دینے پر انھیں شدید ملامت کا نشانہ بنایا۔ اس خبر کی بازگشت جب بریڈ فورڈ شہر کی مسجد کے امام تک پہنچی تو انھوں نے صادق خان کو مرتد قرار دیتے ہوئے انہیں دین سے خارج کردینے کا فتوی جاری کر دیا تھا۔
جناب عالی!
میں اس فتوے کی بات کر رھا ھوں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

جب آپ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور عمر میں بھی آپ بہت چھوٹے ہیں تو پھر اس کو سمجھنا آپ کے لئے مشکل ہے پھر بھی دوبارہ لکھ دیتا ہوں۔ ایک پاکستانی نژاد برطانوی مسلم پارلیمنٹ کا رکن ہے، ایک غیر ضروری کام پر ان کے اندر ووٹنگ ہوئی، اس نے اس کی فیور میں ووٹ کاسٹ کیا شائد پارٹی کی مرضی شامل ہو بات ووٹ تک ہی رہی، اب اس پر کہیں سے کسی مفتی نے صادق خان کے اس عمل پر اسے مرتد ہونے اور اسلام سے خارج ہونے پر اپنی رائے دی یا دوران جمعہ بیان دیا یا فتوی دیا اس پر اس کی ذات پر کیا اثر، دلوں کے حال اللہ جانتا ہے، گوگل میں جائیں ہر بڑے عالم فاضل، مفتی، مفتی اعظم محدثین کے ایک دوسرں پر مرتد کے فتوے اور اس پر مختصر بیان آپ کو مل جائیں گے، جو کرے گا سو بھڑے گا۔

والسلام
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
جزاک اللہ خیرا.
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
صادق خان جیت تو گئے، لیکنن لندن کی ترقی مشکل ہے!
کالم: احتشام شاہد
پير 9 مئ 2016

صادق خان پر یہ مسلسل دباؤ ہو گا کہ وہ پاکستانی مسلمان ہیں، اور اگر اُن کے کسی بھی فیصلے سے پاکستانیوں یا مسلمانوں کو اضافی سہولیات ملیں گی تو تنقید شروع نہ ہوجائے۔

جدید زمانے کے اتھینز اور دنیا کے سب سے زیادہ بارسوخ شہر لندن کے سیاہ اور سفید کا مالک بننا یقیناً ایک بڑا اعزاز ہے، لیکن اگر یہ اعزاز کسی ایسے شخص کو مل جائے جس کی پیدائش تو وہیں کی ہو لیکن آج بھی سرکاری دستاویزات میں لاکھوں دوسرے تارکین وطن کی طرح اپنی آبائی شناخت کے حوالے سے پاکستانی نژاد برطانوی کہلاتا ہو تو اِس خبر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

صادق خان یقیناً اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی مستقل مزاجی اور کبھی نہ ہار ماننے والی فطرت نے انہیں اس اعزاز کا حقدار بنا دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ صادق خان قسمت کے بھی دھنی ہیں اور ساتھ ساتھ چالاکی سے حالات کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ ان کے لئے یہ مقابلہ شروع سے ہی آسان نہیں تھا کیونکہ انہیں اپنی جماعت لیبر پارٹی کے اندر سے ہی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ ابتدائی طور پر یہی گمان کیا جا رہا تھا کہ لندن کے مئیر کے لیے لیبر پارٹی ٹیسا جوئل کو ہی نامزد کرے گی۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ 23 سالوں سے ممبر پارلیمنٹ ہیں، پھر اِس خصوصیت کے علاوہ دوسری اہم بات یہ تھی کہ اُن کے سابق لیبر وزیراعظم ٹونی بلیئر سے تعلقات بہت قریبی اور خوشگوار ہیں۔ لیکن اِس تمام تر گمان کے باوجود صادق خان نے ہمت نہیں ہاری بلکہ انہوں نے لیبر پارٹی میں موجود جریمی کوربین کے حمایتی اور مخالفین دونوں گروپس میں اپنے لئے حمایت پیدا کی اور اِس کامیاب مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ لندن کے میئر کا انتخاب صادق خان ہی لڑیں گے۔

صادق خان کا اصل مقابلہ ہونا تھا کنزرویٹو پارٹی کے اُمیدوار زاک گولڈ سمتھ سے۔ چونکہ میں نے انتخاب کے ماحول کا خود موازنہ کیا ہے اس لیے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انتخاب سے چند ہفتے قبل تک زاک گولڈ اسمتھ ہی فاتح اُمیدوار قرار دیے جا رہے تھے، لیکن اُن کی ایک غلطی کے سبب اُن کی ساری مقبولیت دم توڑ گئی، اور وہ غلطی یہ تھی کہ انہوں نے صادق خان پر شدت پسندوں کا ساتھ دینے سے متعلق جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگانے شروع کر دیے۔ مقامی لوگوں نے اِس طرز کی مہم کو منفی انداز میں لیا اور سمجھ لیا کہ گولڈ اسمتھ لوگوں کو تقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ لندن کے 38 فیصد غیر سفید فام بشمول 13 فیصد مسلمانوں نے اس پر غصے کا اظہار کیا۔ بس یہی وہ وقت تھا جب صادق خان کو سمجھ آ گئی کہ ہوا نے اُن کے حق میں چلنا شروع کردیا ہے جس کا صادق خان نے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔

لندن میں پہلی مرتبہ براہ راست مئیر کا انتخاب 2000 میں ہوا،
اور اِس کا سہرا 1998 میں ہونے والے ریفرنڈم کو جاتا ہے جس میں لوگوں کی اکثریت نے اپنا پلڑا براہ راست انتخابات کے حق میں ڈالا تھا۔ اِس حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ لندن کی عوام نے لگاتار دو مئیرز کو دو دو بار مواقع دیے ہیں۔ کین لیونگ اسٹون وہ خوش قسمت فرد ہیں جن کو پہلی مرتبہ مئیر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اِس بار انہوں نے آزاد انتخاب لڑا تھا لیکن 2004ء میں لیبر پارٹی نے اُن کو ٹکٹ دیا اور وہ 8 لاکھ 28 ہزار 390 ووٹ لیکر ایک بار پھر کامیاب ہوگئے۔
2008ء میں بھی لیبر پارٹی نے لیونگ اسٹون کو ہی ٹکٹ دیا تھا لیکن اِس بار ان کو کنزرویٹو پارٹی کے بورس جانسن کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
پھر 2012ء میں بھی بورس جانسن ہی فتحیاب ہوئے تھے
اور 2016ء میں ایک بار پھر لیبر پارٹی نے میدان مارا اور اُن کے لیے یہ کامیابی صادق خان نے حاصل کی۔

اب تک ہونے والے پانچ انتخابات میں یہ نقطہ انتہائی قابل غور ہے کہ دونوں ہی جماعتوں کے پاس 45 فیصد ووٹر ایسے ہیں جو کبھی بھی مخالف پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے، جبکہ 10 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی ذہن سازی سے نتائج میں تبدیلی ممکن ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ لندن وہ شہر ہے جہاں سب سے زیادہ تارکین وطن رہتے ہیں اور ان تارکین وطن کی اکثریت کنزرویٹو سے اس لیے خائف ہیں کہ اُن کے دور میں تارکین وطن کے لیے ویزا پالیسی بھی سخت کردی جاتی ہے جبکہ ان کو ملنے والے فوائد میں بھی کٹوٹی کردی جاتی ہے۔ 2015ء کے انتخابات میں اگرچہ کنزرویٹو پارٹی کو ہی کامیابی ملی لیکن یہ بات نقطہ دلچسپ ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت نے لیبر پارٹی کو ہی ووٹ دیا، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ان انتخابات میں کل 13 مسلمان پارلیمنٹ میں پہنچے تھے جن میں 8 خواتین شامل ہیں، اور ان 13 میں سے 9 کا تعلق لیبر پارٹی سے تھا۔

چلیں اب مسلمانوں کا ذکر آ ہی گیا ہے تو میرا صادق خان کی کامیابی کے باوجود ایک بار پھر مسلمانوں کے سیاسی شعور پر سوالیہ نشان اٹھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ ایسا کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس ووٹ کرنے کے لیے جارج گیلووے کا آپشن بھی موجود تھا۔ یقیناً کچھ لوگ پریشان ہو رہے ہونگے کہ گیلووے یہاں کہاں سے آ گئے؟ تو جناب معاملہ کچھ یوں ہے کہ جارحانہ بیانات اور دہشت گردی کے خلاف اپنے حق میں مبنی سوالات اٹھانے کے لئے مشہور جارج گیلووے کے بارے میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی تھی کہ فلسطین، عراق اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی اور مظالم کے خلاف گیلووے کی آواز بہت نمایاں ہے۔ لیکن شاید صرف کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی کل آبادی کا 38 فیصد حصہ لندن میں مقیم ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اُن کے ووٹ سے جارج گیلووے کی فتح کا کوئی امکان نہیں تھا اور جارج خود بھی یہ بات جانتے تھے لیکن اگر مسلمان جارج کو ووٹ دیتے تو نہ صرف برطانیہ میں بلکہ دنیا بھر میں یہ پیغام ضرور جاتا کہ مسلمان ہر اُس فرد کی حمایت کریں گے جو ان کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز بلند کریگا۔ یوں گیلووے کو بھی اعتماد ملتا کہ اُن کی آواز پر مسلمان لبیک کہہ رہے ہیں اور مخالفین کو بھی پیغام ملتا کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا اتحاد مثالی ہے۔

اب آتے ہیں اِس نقطے کی طرف کہ کیا صادق خان کامیاب ہو سکیں گے؟ وہ وعدے پورے کر سکیں گے جو انہوں نے انتخابی مہم میں عوام سے کیے تھے؟ کیا بطور مسلمان وہ مسلمانوں کے لیے کچھ کرسکیں گے؟ تو ان تمام سوالات کا جواب کم از کم میرے پاس تو ’نا‘ میں ہے۔ اِس ’نا‘ کی سب سے بڑی وجہ وہاں کا میڈیا ہے جو ابھی سے تعصب کی گند میں کود چکا ہے۔ ابھی صادق خان کو منتخب ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہاں کی معروف ویب سائٹ ’ٹیلی گراف‘ نے صادق خان اور لیبر پارٹی کے تجربہ کار رہنما جیرمی کوربین کے درمیان غلط فہمی کی بنیاد ڈال دی۔ اخبار کہتا ہے کہ صادق خان نے فتح حاصل کرنے کے بعد جیرمی کوربین کو نظرانداز کر دیا۔

نا‘ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ صادق خان پر یہ مسلسل دباو ہو گا کہ وہ پاکستانی مسلمان ہیں، اور اگر اُن کے کسی بھی فیصلے سے پاکستانیوں یا مسلمانوں کو اضافی سہولیات ملیں گی تو تنقید شروع نہ ہو جائے۔ بس اِس احتیاط کے چکر میں وہ اپنے ووٹرز سے دور ہوتے جائیں گے اور جتنا وہ دور ہوتے رہیں گے اُن کے لیے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس طرح وہ عوام کی فلاح کے کام سے زیادہ انہی مسائل کو دور کرنے میں اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔ میرے ان خیالات کو ٹھیک حلف برداری کی تقریب بالکل ثابت کرتی ہے جو صادق خان کے کہنے پر چرچ میں منعقد ہوئی کیونکہ صادق خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ اس لیے چاہتے ہیں کہ تقریب چرچ میں ہو تاکہ مسلمانوں کے علاوہ بھی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو محسوس ہو کہ وہ سب کے مئیر ہیں۔

 
Top