• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

متعہ اور حلالہ میں مدت طے کرنا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اناللہ وانا الیہ راجعون
جب اللہ رب العالمین کسی کو اپنی رحمت سےمحروم کردے ، اور جب اس کی عقل مسخ ہوجائےتو رحمٰن اور شیطان میں تمیز ختم ہوجا تی ہے۔
اللہ تعالی ایسی گمراہی سے بچائے۔
اب نکاح حلالہ شرعی کو کوئی شیعوں کے نجس متعہ کے مترادف سمجھے، یا اسے بے شرمی، بے حیائی کا نام دے، یا اسے بدکاری ، زنا کاری قرار دے کر اس قانون رحمت خداندی کا کھلا مذاق اڑائے، کیا فرق پڑتا ہے۔( العیاذ باللہ)
کیا کسی مسلمان کا ایمان اجازت دے گا؟؟؟ ہر گز نہیں۔
یہ وہی بات کہے گا جس کے دل میں ایمان و ایقان کی جگہ بے شرمی و بے حیائی نے لے لی ہوگی۔


متعہ اور حلالہ شرعی میں فرق:
محترم متعہ اور ںنکاح حلالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن اللہ تعالی جس کی عقل ہی چھین لے ، سوائے ماتم کے ان کے بچتا کیا ہے؟؟
اس فرق کو میں چند نکات میں بیان کروں گا لیکن پہلے آپ کے نقطہ مدت پر آپ کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ اہل تشیع کے ہاں متعہ کے دو رکن، مدت کا تعین اور اجرت کا تعین ہیں۔
چنانچہ شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن طوسی نے لکھا ہے کہ " ذرارہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا معتہ صرف دو چیزوں سے منعقد ہو تاہے مدت کا تعین اور زجرت کا تعین ہو"۔ تہذیب الاحکام جلد 7 صفحہ 462
یعنی مرد و عورت میں جو مدت متعین ہوگی اس کی انتہا متعہ کو ختم کردیتی ہے۔
یعنی متعہ مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیںہوتی جیسا کہ ابو جعفر نے لکھا ہے کہ" محمد بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے ابو الحسن رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا اس سے بغیر طلاق علیحدگی ہوجاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں"۔ الاستبصار جلد3 صفحہ 101
جبکہ حلالہ شرعی میں مدت کی کوئی صورت نہیں اصل اختیار شوہر کو طلاق کا ہے ، طلاق کے بعد ہی میاں بیوی میں علیحدگی، جب تک شوہر طلاق نہ دے اس وقت تک جدائی ممکن نہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر گھر بسانے کی کوشش کرتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی راضی ہوتی ہے کہ ہم خود اپنا گھر بسالیں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی،
حلالہ میں جو مدت کا ذکر ہوتا ہے اس کا تعلق نیت سے ہے اور نکاح میں نیت کوئی معنی نہیں رکھتی ، طلاق اور اس کا قصد نکاح کو کو ختم کرتا ہے۔
لہذا شیعوں کے متعہ میں مدت اس کا رکن ہے، حلالہ میں مدت کا تعین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس مدت کا نکاح حلالہ میں کوئی اثر واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں کہ متعہ میں مدت کا تعین اور اجرت متعین ہے، جبکہ نکاح حلالہ میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔
امید ہے آپ کی عقل شریف میں بات بیٹھ گئی ہوگی۔
2۔اہل تشیع کے ہاں متعہ کا انعقاد لفظ متعہ اور ہر اس لفظ سے ہوتا ہے جو مادہ متعہ کو شامل ہو، جیسا کہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے روایت کیا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی! میں اتنے پیسوں کے عیوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں"۔ الفروع فی الکافی ، جلد 5، صفحہ 455
جبکہ نکاح حلالہ کا انعقاد لفظ نکاح ، لفظ تزویج اور ان الفاظ سے درست ہوتا ہے، جو فی الحال تملیک عین کے لئے موضوع ہوں۔
3۔نجس متعہ میں میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ " منصور بن صقیل سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ الاستبصار ،جلد 3، صفحہ 144
جبکہ نکاح حلالہ میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری ہے، مشرک عورت سے نکاح نہیں ہوتا۔
4۔ اہل تشیع کے نجس متعہ میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی،
اور حدیث شریف میں آتا ہے، زانیہ عورتیں وہ ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کریں۔ جامع ترمذی
جبکہ نکاح حلالہ بغیر گواہوں کے منعقد نہیں ہوتا۔
5۔شیعوں کی متعہ نجس میں عورتوں کی کوئی حد نہیں حتی کہ بیک وقت ستر یا اس سے زیادہ عوتوں سے بھی متعہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ" زرارہ کہتے ہیں ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا متعہ چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عیوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو"۔ الاستبصار ،جلد3، صفہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں بیک وقت صرف چار عوتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
6۔متعہ نجس میں فریقین ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی۔الاستبصار، جلد3،صفحہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں فریقین ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
7۔ اہل تشیع کے نجس متعہ والی عورت خرچہ کا حق نہیں رکھتی جیسا کہ خمینی نے متعہ کے احکام میں لکھا ہے کہ " متعہ والی عورت اگر چہ حاملہ ہوجائے خرچہ کا حق نہیں رکھتی"۔ توضیح المسائل صفحہ 329
جبکہ نکاح حلالہ میں منکوحہ نفقہ کا حق رکھتی ہے۔
8۔ شیعوں کے متعہ میں جدائی کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی ، اسی دن دوسرے سے متعہ کرلے، ابو جعفر کلینی نے لکھا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے ( متعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا) اس میں عدت نہیں ہے۔ الفروع فی الکافی ، جلد5، صفحہ 456
جبکہ نکاح حلالہ میں طلاق کے بعد مدخول بہا پر عدت لازم آتی ہے۔
محترم یہ اہل تشیع کے متعہ نجس اور نکاح حلالہ شرعی کے مابین فرق پر چند نکات بیان کئے ہیں،
محترم عامریونس صاحب ! آپ فرماتے ہیں کے متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہو اور اللہ تعالی کا خوف دامن گیر ہو تو وہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتا۔
اللہ تعالی آپ کو سمجھ دے، اور علم نافع عطا فرمائے۔
اس موضوع پر طویل گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ایسی جرح یا بحث یا دعوت فکر وہاں کار آمد ہوتی ہیں جہاں نزع اختلاف شبہات ومغالطات پر ہو، جہاں حکم شرعی کی کھلی مخالفت ہو وہاں یہ سب بیکار ہے، سوائے رحمت کی دعا کے۔
شکریہ

حنفیوں کا حلالہ اور شیعوں کا متعہ

حلالہ اور متعہ تقریباً دونوں ایک ہی ہیں جیسا کہ امام بغوی نے شرح السنہ ١٠١٩ پر لکھا ہے اور قاضی ابو یوسف جو فقہ حنفیہ کے سرتاج ہیں ان کے نزدیک حلالہ وقتی نکاح ہے اور فاسد ہے ملاحظہ کیجئے الجو ہرة النیرہ شرح قدوری ١٢٩٢، فتح القدیر ٣٤٤، فتاویٰ شامی ٥٤٠٢ وغیرہ۔ فقہ جعفریہ کے نزدیک متعہ بڑی با برکت چیز ہے اور اس کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ شیعہ کی تفسیر منہج الصادقین اور برہان المتعہ میں مرقوم ہے کہ ایک بار متعہ کرنے والا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، دوبار کرنے والا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، تین بار متعہ کرنے والا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درجہ پر اور چار بار متعہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک پہلے بھائی کے لئے حلال کرنے کی غرض سے یہ کام کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر پائے گا۔ متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں مین طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری کو خوب فروغ ملتا ہے۔

''لعنت سے مراد رحمت ہے''

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک اور جھوٹی تاویل
ان حضرات کے حیلے اور بہانوں کے لئے حلالہ کی تاویل فاسد پر مبنی یہ حوالہ بھی مد نظر رکھئے۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب کنزالدقائق کی شرح مستخلص الحقائق صفحہ ١٢٦ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث ''حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''کی تاویل یہ لکھی ہے کہ اگر یہ حدیث بشرط تحلیل کے متعلق ہے تو اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کا لفظ بول کر رحمت مراد لی ہو۔ حنفی حضرات کی اس دیدہ دلیری پر غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کو رحمت میں بدل دیا یعنی حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں رحمت کے مستحق ہیں۔ اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر اور بھی بہت سے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سارے برابر ہیں۔''

سود خور حضرات کہہ سکتے ہیں کہ فقہ حنفی ہمیں سود کھانے کی اجازت دیتی ہے۔ ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت کا استعمال کیا ہو اور مراد رحمت لی ہو۔ اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے:

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے مٰں دس افراد پر لعنت کی ہے نچوڑنے والا، نچڑوانے والا، پینے والال، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اسے اٹھایا جائے، شراب پلانے والا، بیچنے والا، اس کو خریدنے والاجس کے لئے اس کو خریدا جائے۔'' (ترمذی)
شرابی حضرات کے لئے نادر موقع ہے کہ کہہ دیں ، ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت ہی استعمال کیا ہو۔ مراد رحمت لی ہو اسی طرح دیگر امپور ملعونہ کے بارے میں بھی اس طرح کے احتمالات پیدا کرکے جواز کی گنجائش نکالنے والے نکال سکتے ہیں۔ فقہ حنفیہ میں اس طرح کے بے شمار حیلے موجود ہیں جو مختلف امور محرمہ سر انجام دینے کے لئے بڑے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انکے متعلق کسی دوسرے موقع پر گفتگو کریں گے انشاء اللہ ۔

آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ حنفی علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سڑف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میرے دوست ideal_man صاحب!

آپ نے پوسٹ نمبر10 میں جو لمبی چوڑی تقریر کی، اور چند نقاط بیان کرکے متعہ اور حلالہ میں فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس پر بعد میں لکھتے ہیں ۔ اس سے قبل آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بھائی نے جو یہ حدیث پیش کی ہے۔
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے " سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس میں جو حلالہ کرنے والے اور کروانے پر لعنت کی گئی ہے۔ یہ کس قسم کا حلالہ ہے؟ ۔۔ جو فائل اور مفعول کو لعنتی ٹھہراتا ہے۔آپ اس کی وضاحت پیش فرمادیں۔شکریہ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم عامر یونس صاحب!
میں نے آپ کے گمراہ کن نقطہ نظر کو دلیل سے رد کیا ہے۔
آپ کے پاس اس کا جواب نہیں تو اس طرح کاپی پیسٹ نہ کریں ایک بات پر بات کا آغاز کریں۔
حلالہ کو کوئی شیعوں کے نجس عقیدہ کی طرح بابرکت نہیں کہتا، یہ قانون کن لوگوں کے لئے بنا ہے اور کیوں بنا ہے، یہ ایک حکمت رکھتا ہے۔

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں، (١) بشرطیکہ جان لیں کہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔
اللہ رب العالمین نے اس آیت کریمہ میں حلالہ کے ضابطہ و قانون کو بیان کیا ہے۔
میں اسی قانون کی بات کررہا ہوں، ہم اسے حلالہ کہتے ہیں شرعی اصطلاح میں آپ لوگ اسے بھی نکاح ہی کہتے ہیں۔
لفظوں کی بحث نہ چھیڑیں ، چلیں آپ اسے نکاح کہیں اور ہم اسے حلالہ،
بقول جمشید بھائی کے، بلی کالی ہو یا سفید، مطلب اس سے رکھنا چاہئے کہ چوہے زیادہ کونسی بلی پکڑتی ہے۔
ہاں ہمارے نزدیک حلالہ کے طریقہ کار کی چند صورتیں ہیں اس میں کونسی صورت جس پر لاعنت ہوئی ہے اور کونسی صورت جو جائز ہے، جہاں تک نکاح کا تعلق ہے کوئی بھی صورت ہو وہ اپنی شرائط نکاح پر قائم ہوجاتا ہے،
جس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لعنت کا ذکر ہے، اس صورت پر ہم بھی لعنت کا ذکر کرتے ہیں، اور اسی حدیث میں آپ کے باطل عقید کا زبر دست رد ہے۔
حدیث مبارکہ کے مطابق جب حلالہ قائم ہوا تو اس پر لعنت ہوئی۔
یہ عجیب تماشہ ہے کہ لعنت بھی ہوگئی اور نکاح حلالہ منعقدبھی نہ ہوا۔۔۔۔۔ واہ جناب
اس حدیث میں محلل( سابقہ شوہر کے لئے عورت کو حلال کرنے والا) اسی وقت ہوگا جب اس کا نکاح صحیح ہوجائےکیونکہ تحلیل کے لئے وطی ( ہمبستری ) بنکاح صحیح شرط ہے اگر نکاح صحیح نہ ہو تو اس کی وطی عورت کو سابق شوہر کے لئے حلال نہیں کرے گی اور وہ محلل نہیں ہوسکتا۔ جب اسے محلل فرمایا گیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے، اگر چہ یہ لعنت کا باعث ہے، حلالہ کرنے والا، کروانے والا اور عورت تینوں گناہ گار ہیں۔
واقعی عقل اور علم نافع اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے،
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اناللہ وانا الیہ راجعون
جب اللہ رب العالمین کسی کو اپنی رحمت سےمحروم کردے ، اور جب اس کی عقل مسخ ہوجائےتو رحمٰن اور شیطان میں تمیز ختم ہوجا تی ہے۔
اللہ تعالی ایسی گمراہی سے بچائے۔
اب نکاح حلالہ شرعی کو کوئی شیعوں کے نجس متعہ کے مترادف سمجھے، یا اسے بے شرمی، بے حیائی کا نام دے، یا اسے بدکاری ، زنا کاری قرار دے کر اس قانون رحمت خداندی کا کھلا مذاق اڑائے، کیا فرق پڑتا ہے۔( العیاذ باللہ)
کیا کسی مسلمان کا ایمان اجازت دے گا؟؟؟ ہر گز نہیں۔
یہ وہی بات کہے گا جس کے دل میں ایمان و ایقان کی جگہ بے شرمی و بے حیائی نے لے لی ہوگی۔


متعہ اور حلالہ شرعی میں فرق:
محترم متعہ اور ںنکاح حلالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن اللہ تعالی جس کی عقل ہی چھین لے ، سوائے ماتم کے ان کے بچتا کیا ہے؟؟
اس فرق کو میں چند نکات میں بیان کروں گا لیکن پہلے آپ کے نقطہ مدت پر آپ کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ اہل تشیع کے ہاں متعہ کے دو رکن، مدت کا تعین اور اجرت کا تعین ہیں۔
چنانچہ شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن طوسی نے لکھا ہے کہ " ذرارہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا معتہ صرف دو چیزوں سے منعقد ہو تاہے مدت کا تعین اور زجرت کا تعین ہو"۔ تہذیب الاحکام جلد 7 صفحہ 462
یعنی مرد و عورت میں جو مدت متعین ہوگی اس کی انتہا متعہ کو ختم کردیتی ہے۔
یعنی متعہ مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیںہوتی جیسا کہ ابو جعفر نے لکھا ہے کہ" محمد بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے ابو الحسن رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا اس سے بغیر طلاق علیحدگی ہوجاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں"۔ الاستبصار جلد3 صفحہ 101
جبکہ حلالہ شرعی میں مدت کی کوئی صورت نہیں اصل اختیار شوہر کو طلاق کا ہے ، طلاق کے بعد ہی میاں بیوی میں علیحدگی، جب تک شوہر طلاق نہ دے اس وقت تک جدائی ممکن نہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر گھر بسانے کی کوشش کرتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی راضی ہوتی ہے کہ ہم خود اپنا گھر بسالیں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی،
حلالہ میں جو مدت کا ذکر ہوتا ہے اس کا تعلق نیت سے ہے اور نکاح میں نیت کوئی معنی نہیں رکھتی ، طلاق اور اس کا قصد نکاح کو کو ختم کرتا ہے۔
لہذا شیعوں کے متعہ میں مدت اس کا رکن ہے، حلالہ میں مدت کا تعین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس مدت کا نکاح حلالہ میں کوئی اثر واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں کہ متعہ میں مدت کا تعین اور اجرت متعین ہے، جبکہ نکاح حلالہ میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔
امید ہے آپ کی عقل شریف میں بات بیٹھ گئی ہوگی۔
2۔اہل تشیع کے ہاں متعہ کا انعقاد لفظ متعہ اور ہر اس لفظ سے ہوتا ہے جو مادہ متعہ کو شامل ہو، جیسا کہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے روایت کیا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی! میں اتنے پیسوں کے عیوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں"۔ الفروع فی الکافی ، جلد 5، صفحہ 455
جبکہ نکاح حلالہ کا انعقاد لفظ نکاح ، لفظ تزویج اور ان الفاظ سے درست ہوتا ہے، جو فی الحال تملیک عین کے لئے موضوع ہوں۔
3۔نجس متعہ میں میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ " منصور بن صقیل سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ الاستبصار ،جلد 3، صفحہ 144
جبکہ نکاح حلالہ میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری ہے، مشرک عورت سے نکاح نہیں ہوتا۔
4۔ اہل تشیع کے نجس متعہ میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی،
اور حدیث شریف میں آتا ہے، زانیہ عورتیں وہ ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کریں۔ جامع ترمذی
جبکہ نکاح حلالہ بغیر گواہوں کے منعقد نہیں ہوتا۔
5۔شیعوں کی متعہ نجس میں عورتوں کی کوئی حد نہیں حتی کہ بیک وقت ستر یا اس سے زیادہ عوتوں سے بھی متعہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ" زرارہ کہتے ہیں ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا متعہ چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عیوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو"۔ الاستبصار ،جلد3، صفہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں بیک وقت صرف چار عوتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
6۔متعہ نجس میں فریقین ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی۔الاستبصار، جلد3،صفحہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں فریقین ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
7۔ اہل تشیع کے نجس متعہ والی عورت خرچہ کا حق نہیں رکھتی جیسا کہ خمینی نے متعہ کے احکام میں لکھا ہے کہ " متعہ والی عورت اگر چہ حاملہ ہوجائے خرچہ کا حق نہیں رکھتی"۔ توضیح المسائل صفحہ 329
جبکہ نکاح حلالہ میں منکوحہ نفقہ کا حق رکھتی ہے۔
8۔ شیعوں کے متعہ میں جدائی کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی ، اسی دن دوسرے سے متعہ کرلے، ابو جعفر کلینی نے لکھا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے ( متعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا) اس میں عدت نہیں ہے۔ الفروع فی الکافی ، جلد5، صفحہ 456
جبکہ نکاح حلالہ میں طلاق کے بعد مدخول بہا پر عدت لازم آتی ہے۔
محترم یہ اہل تشیع کے متعہ نجس اور نکاح حلالہ شرعی کے مابین فرق پر چند نکات بیان کئے ہیں،
محترم عامریونس صاحب ! آپ فرماتے ہیں کے متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہو اور اللہ تعالی کا خوف دامن گیر ہو تو وہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتا۔
اللہ تعالی آپ کو سمجھ دے، اور علم نافع عطا فرمائے۔
اس موضوع پر طویل گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ایسی جرح یا بحث یا دعوت فکر وہاں کار آمد ہوتی ہیں جہاں نزع اختلاف شبہات ومغالطات پر ہو، جہاں حکم شرعی کی کھلی مخالفت ہو وہاں یہ سب بیکار ہے، سوائے رحمت کی دعا کے۔
شکریہ
صحابہ رضی اللہ عنہم دین کا زیادہ علم رکھتے تھے یا بعد والے لوگ زیادہ علم رکھتے تھے حلالہ کے بارے میں

سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے!!!

''ایک آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔
''(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸، التلخیص الحبیر باب موانع النکاح۱۰۳۹،۳/۱۷۱۔ تحفہ الاحوذی۲/۱۷۵، امام حاکم نے فرمایا۔
یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر ہے اور امام ذہبی نے تلخیص مستدرک میں امام حاکم کی موافقت کی ہے)۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا۔''
(مصنف عبدالرزاق ۲/۲۶۵، سن سعید بن منصور ۲/۴۹'۵۰ بیہقی۷/۲۰۸) فتوے سے بھی ہوتی ہے کہ ان کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ''یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکہ دہی کے علاوہ ہو۔'' (بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)

اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ:
''کہ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں ، وہ زناہی کرتے رہیں گے۔'' (مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم عامر یونس صاحب!
میں نے آپ کے گمراہ کن نقطہ نظر کو دلیل سے رد کیا ہے۔
آپ کے پاس اس کا جواب نہیں تو اس طرح کاپی پیسٹ نہ کریں ایک بات پر بات کا آغاز کریں۔
حلالہ کو کوئی شیعوں کے نجس عقیدہ کی طرح بابرکت نہیں کہتا، یہ قانون کن لوگوں کے لئے بنا ہے اور کیوں بنا ہے، یہ ایک حکمت رکھتا ہے۔


اللہ رب العالمین نے اس آیت کریمہ میں حلالہ کے ضابطہ و قانون کو بیان کیا ہے۔
میں اسی قانون کی بات کررہا ہوں، ہم اسے حلالہ کہتے ہیں شرعی اصطلاح میں آپ لوگ اسے بھی نکاح ہی کہتے ہیں۔
لفظوں کی بحث نہ چھیڑیں ، چلیں آپ اسے نکاح کہیں اور ہم اسے حلالہ،
بقول جمشید بھائی کے، بلی کالی ہو یا سفید، مطلب اس سے رکھنا چاہئے کہ چوہے زیادہ کونسی بلی پکڑتی ہے۔
ہاں ہمارے نزدیک حلالہ کے طریقہ کار کی چند صورتیں ہیں اس میں کونسی صورت جس پر لاعنت ہوئی ہے اور کونسی صورت جو جائز ہے، جہاں تک نکاح کا تعلق ہے کوئی بھی صورت ہو وہ اپنی شرائط نکاح پر قائم ہوجاتا ہے،
جس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لعنت کا ذکر ہے، اس صورت پر ہم بھی لعنت کا ذکر کرتے ہیں، اور اسی حدیث میں آپ کے باطل عقید کا زبر دست رد ہے۔
حدیث مبارکہ کے مطابق جب حلالہ قائم ہوا تو اس پر لعنت ہوئی۔
یہ عجیب تماشہ ہے کہ لعنت بھی ہوگئی اور نکاح حلالہ منعقدبھی نہ ہوا۔۔۔۔۔ واہ جناب
اس حدیث میں محلل( سابقہ شوہر کے لئے عورت کو حلال کرنے والا) اسی وقت ہوگا جب اس کا نکاح صحیح ہوجائےکیونکہ تحلیل کے لئے وطی ( ہمبستری ) بنکاح صحیح شرط ہے اگر نکاح صحیح نہ ہو تو اس کی وطی عورت کو سابق شوہر کے لئے حلال نہیں کرے گی اور وہ محلل نہیں ہوسکتا۔ جب اسے محلل فرمایا گیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے، اگر چہ یہ لعنت کا باعث ہے، حلالہ کرنے والا، کروانے والا اور عورت تینوں گناہ گار ہیں۔
واقعی عقل اور علم نافع اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے،

سنی بھائیوں میں حلالہ کا طریقہ
اناللہ وانا الیہ راجعون
اس ویڈیو کو دیکھیں کہ اس عورت کے ساتھ کس طرح ظلم کیا گیا !!!
آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ حنفی علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سڑف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اناللہ وانا الیہ راجعون
جب اللہ رب العالمین کسی کو اپنی رحمت سےمحروم کردے ، اور جب اس کی عقل مسخ ہوجائےتو رحمٰن اور شیطان میں تمیز ختم ہوجا تی ہے۔
اللہ تعالی ایسی گمراہی سے بچائے۔
اب نکاح حلالہ شرعی کو کوئی شیعوں کے نجس متعہ کے مترادف سمجھے، یا اسے بے شرمی، بے حیائی کا نام دے، یا اسے بدکاری ، زنا کاری قرار دے کر اس قانون رحمت خداندی کا کھلا مذاق اڑائے، کیا فرق پڑتا ہے۔( العیاذ باللہ)
کیا کسی مسلمان کا ایمان اجازت دے گا؟؟؟ ہر گز نہیں۔
یہ وہی بات کہے گا جس کے دل میں ایمان و ایقان کی جگہ بے شرمی و بے حیائی نے لے لی ہوگی۔


متعہ اور حلالہ شرعی میں فرق:
محترم متعہ اور ںنکاح حلالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن اللہ تعالی جس کی عقل ہی چھین لے ، سوائے ماتم کے ان کے بچتا کیا ہے؟؟
اس فرق کو میں چند نکات میں بیان کروں گا لیکن پہلے آپ کے نقطہ مدت پر آپ کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ اہل تشیع کے ہاں متعہ کے دو رکن، مدت کا تعین اور اجرت کا تعین ہیں۔
چنانچہ شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن طوسی نے لکھا ہے کہ " ذرارہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا معتہ صرف دو چیزوں سے منعقد ہو تاہے مدت کا تعین اور زجرت کا تعین ہو"۔ تہذیب الاحکام جلد 7 صفحہ 462
یعنی مرد و عورت میں جو مدت متعین ہوگی اس کی انتہا متعہ کو ختم کردیتی ہے۔
یعنی متعہ مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیںہوتی جیسا کہ ابو جعفر نے لکھا ہے کہ" محمد بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے ابو الحسن رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا اس سے بغیر طلاق علیحدگی ہوجاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں"۔ الاستبصار جلد3 صفحہ 101
جبکہ حلالہ شرعی میں مدت کی کوئی صورت نہیں اصل اختیار شوہر کو طلاق کا ہے ، طلاق کے بعد ہی میاں بیوی میں علیحدگی، جب تک شوہر طلاق نہ دے اس وقت تک جدائی ممکن نہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر گھر بسانے کی کوشش کرتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی راضی ہوتی ہے کہ ہم خود اپنا گھر بسالیں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی،
حلالہ میں جو مدت کا ذکر ہوتا ہے اس کا تعلق نیت سے ہے اور نکاح میں نیت کوئی معنی نہیں رکھتی ، طلاق اور اس کا قصد نکاح کو کو ختم کرتا ہے۔
لہذا شیعوں کے متعہ میں مدت اس کا رکن ہے، حلالہ میں مدت کا تعین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس مدت کا نکاح حلالہ میں کوئی اثر واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں کہ متعہ میں مدت کا تعین اور اجرت متعین ہے، جبکہ نکاح حلالہ میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔
امید ہے آپ کی عقل شریف میں بات بیٹھ گئی ہوگی۔
2۔اہل تشیع کے ہاں متعہ کا انعقاد لفظ متعہ اور ہر اس لفظ سے ہوتا ہے جو مادہ متعہ کو شامل ہو، جیسا کہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے روایت کیا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی! میں اتنے پیسوں کے عیوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں"۔ الفروع فی الکافی ، جلد 5، صفحہ 455
جبکہ نکاح حلالہ کا انعقاد لفظ نکاح ، لفظ تزویج اور ان الفاظ سے درست ہوتا ہے، جو فی الحال تملیک عین کے لئے موضوع ہوں۔
3۔نجس متعہ میں میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ " منصور بن صقیل سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ الاستبصار ،جلد 3، صفحہ 144
جبکہ نکاح حلالہ میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری ہے، مشرک عورت سے نکاح نہیں ہوتا۔
4۔ اہل تشیع کے نجس متعہ میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی،
اور حدیث شریف میں آتا ہے، زانیہ عورتیں وہ ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کریں۔ جامع ترمذی
جبکہ نکاح حلالہ بغیر گواہوں کے منعقد نہیں ہوتا۔
5۔شیعوں کی متعہ نجس میں عورتوں کی کوئی حد نہیں حتی کہ بیک وقت ستر یا اس سے زیادہ عوتوں سے بھی متعہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ" زرارہ کہتے ہیں ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا متعہ چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عیوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو"۔ الاستبصار ،جلد3، صفہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں بیک وقت صرف چار عوتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
6۔متعہ نجس میں فریقین ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی۔الاستبصار، جلد3،صفحہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں فریقین ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
7۔ اہل تشیع کے نجس متعہ والی عورت خرچہ کا حق نہیں رکھتی جیسا کہ خمینی نے متعہ کے احکام میں لکھا ہے کہ " متعہ والی عورت اگر چہ حاملہ ہوجائے خرچہ کا حق نہیں رکھتی"۔ توضیح المسائل صفحہ 329
جبکہ نکاح حلالہ میں منکوحہ نفقہ کا حق رکھتی ہے۔
8۔ شیعوں کے متعہ میں جدائی کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی ، اسی دن دوسرے سے متعہ کرلے، ابو جعفر کلینی نے لکھا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے ( متعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا) اس میں عدت نہیں ہے۔ الفروع فی الکافی ، جلد5، صفحہ 456
جبکہ نکاح حلالہ میں طلاق کے بعد مدخول بہا پر عدت لازم آتی ہے۔
محترم یہ اہل تشیع کے متعہ نجس اور نکاح حلالہ شرعی کے مابین فرق پر چند نکات بیان کئے ہیں،
محترم عامریونس صاحب ! آپ فرماتے ہیں کے متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہو اور اللہ تعالی کا خوف دامن گیر ہو تو وہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتا۔
اللہ تعالی آپ کو سمجھ دے، اور علم نافع عطا فرمائے۔
اس موضوع پر طویل گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ایسی جرح یا بحث یا دعوت فکر وہاں کار آمد ہوتی ہیں جہاں نزع اختلاف شبہات ومغالطات پر ہو، جہاں حکم شرعی کی کھلی مخالفت ہو وہاں یہ سب بیکار ہے، سوائے رحمت کی دعا کے۔
شکریہ


صرف یہ بتا دیں کہ کیا یہ حلالہ کا طریقہ درست ہے یا نہیں
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
محترم ideal_man صاحب

آپ بس ہمیں یہ بتائیں کہ جس حلالہ کے فاعل اور مفعول پر لعنت کی گئی ہے۔ یہ حلالہ کس قسم کا ہوتا ہے ؟ کیسے کیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ابھی دلائل دلول نہ ہم نے پوچھے ہیں۔ اور نہ آپ بیان کریں۔ اور نہ ناموں کی بات کی ہے۔ لعنت زدہ حلالہ کی وضاحت فرما دیں۔ وہ بھی بغیر دلیل کے۔
 
شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
سنی بھائیوں میں حلالہ کا طریقہ
اناللہ وانا الیہ راجعون
اس ویڈیو کو دیکھیں کہ اس عورت کے ساتھ کس طرح ظلم کیا گیا !!!
آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ حنفی علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سڑف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین


سنی بھائیوں کے مولوی نہ اس عورت کا ایک دن کی مدت کا حلالہ کروایا ثبوت کہ لئے ویڈیو دیکھیں کہ یہ عورت اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی طلاق مرد نے دی اور سزا عورت کو دی گئی کیا یہ عورت پر ظلم نہیں !
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
میرے دوست ideal_man صاحب!

آپ نے پوسٹ نمبر10 میں جو لمبی چوڑی تقریر کی، اور چند نقاط بیان کرکے متعہ اور حلالہ میں فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس پر بعد میں لکھتے ہیں ۔ اس سے قبل آپ ہمیں یہ بتائیں کہ بھائی نے جو یہ حدیث پیش کی ہے۔
محترم گڈمسلم صاحب!
میں آپ کی طرح دادی اماں جان کی کہانیاں اور امیر حمزہ کی داستانیں نہیں سناتا اور نہ ہی آئیں بائیں سائیں کرتا ہوں۔
میں نے چند نقات میں دلائل پیش کئے ہیں،
اس میں جو حلالہ کرنے والے اور کروانے پر لعنت کی گئی ہے۔ یہ کس قسم کا حلالہ ہے؟ ۔۔ جو فائل اور مفعول کو لعنتی ٹھہراتا ہے۔آپ اس کی وضاحت پیش فرمادیں۔شکریہ
محترم ! ہمارے ہاں اسکی مکمل تشریح موجود ہے اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں،
جو سوال آپ نے کیا ہے اس کے جواب سے بھی واقف ہیں، بحث در بحث کے لئے نادان بننے کی کوشش نہ کریں ، اللہ کا خوف کریں، اگر واقعی آپ یا آپ کے مولوی صاحبان اس سوال کے جواب کو سمجھ ہی نہیں سکے یا ان میں اہلیت ہی نہیں تو میرے جواب سے کیا سمجھ آجائے گا؟؟؟؟
میری کوشش ہے کہ میں اس سوال کا جواب آپ کو سمجھا ؤں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ میرے سوال کا جواب دیں۔
قصہ مختصر


ایک عورت کو تین طلاقیں ہوجاتی ہیں، اب دوسری جگہ سے اس عورت کے لئے نکاح کا پیغام آتا ہے، عورت اسے قبول کرلیتی ہے، دونوں کا نکاح ہوجاتا ہے، اب مرد جب عورت کے قریب جاتا ہے تو کپڑے کے پلو کی مانند وہ ہمبستری کے لائق نہیں ہوتا، مجبورا بعد میں عورت اس سے طلاق لے لیتی ہے، یا مرد از خود اسے طلاق دے دیتا ہے، دوسری صورت مرد و عورت کے ملاپ سے قبل ہی مرد کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب سوال ہے کہ:
1۔کیا ان کا نکاح صحیح ہوا یا غلط ؟؟؟
2۔ کیا یہ عورت اپنے سابقہ شوہر کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟؟؟

محترم پہلے آپ میرے سوال کا جواب عنایت فرمادیں ،آپ ہی کے جواب میں میرا جواب اور اس مسئلہ کا حل موجود ہوگا۔ انشاء اللہ
Muhammad Aamir Younus
آپ پہلے اپنے علماء کی خدمت میں دوزانوں بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ حلالہ کیا ہوتا ہے؟؟؟؟
آپ سرے سے حلالہ سے واقف ہی نہیں۔
آپ وہ چیزیں بیان کررہے ہیں جس پر ہمارے مابین کوئی اصولی اختلاف ہے ہی نہیں۔
آپ جس کو لعنت شدہ مانتے ہیں ہم بھی اسے لعنت شدہ مانتے ہیں تو پھر نزع اختلاف کیا ہے؟؟؟؟
یہ آپ پہلے اپنے مولوی صاحبان سے درس لے کر آئیں۔
شکریہ
عورت پر ظلم کی بات نہ کرنا، ورنہ بات بہت دور تلک جائے گی۔
اس فورم پر جو کھلی اجازت آپ لوگوں کو حاصل ہے ہمیں حاصل نہیں، لہذا ایسے موضوع کی طرف نہ جائیں کہ آپ کی انتظامیہ کو ناانصافی کا گناہ سر لینا پڑے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
محترم گڈمسلم صاحب!
میں آپ کی طرح دادی اماں جان کی کہانیاں اور امیر حمزہ کی داستانیں نہیں سناتا اور نہ ہی آئیں بائیں سائیں کرتا ہوں۔
میں نے چند نقات میں دلائل پیش کئے ہیں،

محترم ! ہمارے ہاں اسکی مکمل تشریح موجود ہے اور آپ اس سے بخوبی واقف ہیں،
جو سوال آپ نے کیا ہے اس کے جواب سے بھی واقف ہیں، بحث در بحث کے لئے نادان بننے کی کوشش نہ کریں ، اللہ کا خوف کریں، اگر واقعی آپ یا آپ کے مولوی صاحبان اس سوال کے جواب کو سمجھ ہی نہیں سکے یا ان میں اہلیت ہی نہیں تو میرے جواب سے کیا سمجھ آجائے گا؟؟؟؟
میری کوشش ہے کہ میں اس سوال کا جواب آپ کو سمجھا ؤں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ میرے سوال کا جواب دیں۔
قصہ مختصر


ایک عورت کو تین طلاقیں ہوجاتی ہیں، اب دوسری جگہ سے اس عورت کے لئے نکاح کا پیغام آتا ہے، عورت اسے قبول کرلیتی ہے، دونوں کا نکاح ہوجاتا ہے، اب مرد جب عورت کے قریب جاتا ہے تو کپڑے کے پلو کی مانند وہ ہمبستری کے لائق نہیں ہوتا، مجبورا بعد میں عورت اس سے طلاق لے لیتی ہے، یا مرد از خود اسے طلاق دے دیتا ہے، دوسری صورت مرد و عورت کے ملاپ سے قبل ہی مرد کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب سوال ہے کہ:
1۔کیا ان کا نکاح صحیح ہوا یا غلط ؟؟؟
2۔ کیا یہ عورت اپنے سابقہ شوہر کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟؟؟

محترم پہلے آپ میرے سوال کا جواب عنایت فرمادیں ،آپ ہی کے جواب میں میرا جواب اور اس مسئلہ کا حل موجود ہوگا۔ انشاء اللہ
Muhammad Aamir Younus
آپ پہلے اپنے علماء کی خدمت میں دوزانوں بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ حلالہ کیا ہوتا ہے؟؟؟؟
آپ سرے سے حلالہ سے واقف ہی نہیں۔
آپ وہ چیزیں بیان کررہے ہیں جس پر ہمارے مابین کوئی اصولی اختلاف ہے ہی نہیں۔
آپ جس کو لعنت شدہ مانتے ہیں ہم بھی اسے لعنت شدہ مانتے ہیں تو پھر نزع اختلاف کیا ہے؟؟؟؟
یہ آپ پہلے اپنے مولوی صاحبان سے درس لے کر آئیں۔
شکریہ
عورت پر ظلم کی بات نہ کرنا، ورنہ بات بہت دور تلک جائے گی۔
اس فورم پر جو کھلی اجازت آپ لوگوں کو حاصل ہے ہمیں حاصل نہیں، لہذا ایسے موضوع کی طرف نہ جائیں کہ آپ کی انتظامیہ کو ناانصافی کا گناہ سر لینا پڑے۔

ideal_man نے کہا ہے
آپ پہلے اپنے علماء کی خدمت میں دوزانوں بیٹھیں اور ان سے پوچھیں کہ حلالہ کیا ہوتا ہے؟؟؟؟
ھمیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ھے-



نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''۔
(مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، ابودائود۲۰۷۶٠٧٦)
اسی طرح فرمایا حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈھ کی طرح ہے۔ (ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)

اب آپ کے مولوی آپ کو کچھ بھی بتائے تو کیا آپ کے مولوی کی بات مانوں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانوں
 
Top