محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
اناللہ وانا الیہ راجعون
جب اللہ رب العالمین کسی کو اپنی رحمت سےمحروم کردے ، اور جب اس کی عقل مسخ ہوجائےتو رحمٰن اور شیطان میں تمیز ختم ہوجا تی ہے۔
اللہ تعالی ایسی گمراہی سے بچائے۔
اب نکاح حلالہ شرعی کو کوئی شیعوں کے نجس متعہ کے مترادف سمجھے، یا اسے بے شرمی، بے حیائی کا نام دے، یا اسے بدکاری ، زنا کاری قرار دے کر اس قانون رحمت خداندی کا کھلا مذاق اڑائے، کیا فرق پڑتا ہے۔( العیاذ باللہ)
کیا کسی مسلمان کا ایمان اجازت دے گا؟؟؟ ہر گز نہیں۔
یہ وہی بات کہے گا جس کے دل میں ایمان و ایقان کی جگہ بے شرمی و بے حیائی نے لے لی ہوگی۔
متعہ اور حلالہ شرعی میں فرق:
محترم متعہ اور ںنکاح حلالہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لیکن اللہ تعالی جس کی عقل ہی چھین لے ، سوائے ماتم کے ان کے بچتا کیا ہے؟؟
اس فرق کو میں چند نکات میں بیان کروں گا لیکن پہلے آپ کے نقطہ مدت پر آپ کو دعوت فکر دینا چاہتا ہوں۔
1۔ اہل تشیع کے ہاں متعہ کے دو رکن، مدت کا تعین اور اجرت کا تعین ہیں۔
چنانچہ شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن طوسی نے لکھا ہے کہ " ذرارہ نے بیان کیا کہ عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا معتہ صرف دو چیزوں سے منعقد ہو تاہے مدت کا تعین اور زجرت کا تعین ہو"۔ تہذیب الاحکام جلد 7 صفحہ 462
یعنی مرد و عورت میں جو مدت متعین ہوگی اس کی انتہا متعہ کو ختم کردیتی ہے۔
یعنی متعہ مدت پوری ہونے پر خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ طلاق کی ضرورت نہیںہوتی جیسا کہ ابو جعفر نے لکھا ہے کہ" محمد بن اسماعیل کہتے ہیں میں نے ابو الحسن رضا علیہ السلام سے پوچھا کیا اس سے بغیر طلاق علیحدگی ہوجاتی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں"۔ الاستبصار جلد3 صفحہ 101
جبکہ حلالہ شرعی میں مدت کی کوئی صورت نہیں اصل اختیار شوہر کو طلاق کا ہے ، طلاق کے بعد ہی میاں بیوی میں علیحدگی، جب تک شوہر طلاق نہ دے اس وقت تک جدائی ممکن نہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر گھر بسانے کی کوشش کرتا ہے، اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ میاں بیوی راضی ہوتی ہے کہ ہم خود اپنا گھر بسالیں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی،
حلالہ میں جو مدت کا ذکر ہوتا ہے اس کا تعلق نیت سے ہے اور نکاح میں نیت کوئی معنی نہیں رکھتی ، طلاق اور اس کا قصد نکاح کو کو ختم کرتا ہے۔
لہذا شیعوں کے متعہ میں مدت اس کا رکن ہے، حلالہ میں مدت کا تعین کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی اس مدت کا نکاح حلالہ میں کوئی اثر واقع ہوتا ہے۔
ایک اور بات ذہن نشین فرمالیں کہ متعہ میں مدت کا تعین اور اجرت متعین ہے، جبکہ نکاح حلالہ میں ایجاب وقبول ہوتا ہے۔
امید ہے آپ کی عقل شریف میں بات بیٹھ گئی ہوگی۔
2۔اہل تشیع کے ہاں متعہ کا انعقاد لفظ متعہ اور ہر اس لفظ سے ہوتا ہے جو مادہ متعہ کو شامل ہو، جیسا کہ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے روایت کیا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا انہوں نے کہا تم یوں کہو اے اللہ کی بندی! میں اتنے پیسوں کے عیوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں"۔ الفروع فی الکافی ، جلد 5، صفحہ 455
جبکہ نکاح حلالہ کا انعقاد لفظ نکاح ، لفظ تزویج اور ان الفاظ سے درست ہوتا ہے، جو فی الحال تملیک عین کے لئے موضوع ہوں۔
3۔نجس متعہ میں میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری نہیں، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ " منصور بن صقیل سے روایت ہے کہ ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجوسی (آتش پرست) عورت سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ الاستبصار ،جلد 3، صفحہ 144
جبکہ نکاح حلالہ میں عورت کا مسلمان یا کتابیہ ہونا ضروری ہے، مشرک عورت سے نکاح نہیں ہوتا۔
4۔ اہل تشیع کے نجس متعہ میں گواہوں کی ضرورت نہیں ہوتی،
اور حدیث شریف میں آتا ہے، زانیہ عورتیں وہ ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کریں۔ جامع ترمذی
جبکہ نکاح حلالہ بغیر گواہوں کے منعقد نہیں ہوتا۔
5۔شیعوں کی متعہ نجس میں عورتوں کی کوئی حد نہیں حتی کہ بیک وقت ستر یا اس سے زیادہ عوتوں سے بھی متعہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ" زرارہ کہتے ہیں ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا گیا کیا متعہ چار عورتوں سے کیا جاسکتا ہے؟ انہوں نے کہا متعہ اجرت کے عیوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو"۔ الاستبصار ،جلد3، صفہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں بیک وقت صرف چار عوتوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
6۔متعہ نجس میں فریقین ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جیسا کہ ابو جعفر طوسی نے لکھا ہے کہ متعہ میں فریقین کے درمیان میراث نہیں ہوتی۔الاستبصار، جلد3،صفحہ 137
جبکہ نکاح حلالہ میں فریقین ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں۔
7۔ اہل تشیع کے نجس متعہ والی عورت خرچہ کا حق نہیں رکھتی جیسا کہ خمینی نے متعہ کے احکام میں لکھا ہے کہ " متعہ والی عورت اگر چہ حاملہ ہوجائے خرچہ کا حق نہیں رکھتی"۔ توضیح المسائل صفحہ 329
جبکہ نکاح حلالہ میں منکوحہ نفقہ کا حق رکھتی ہے۔
8۔ شیعوں کے متعہ میں جدائی کے بعد کوئی عدت نہیں ہوتی ، اسی دن دوسرے سے متعہ کرلے، ابو جعفر کلینی نے لکھا ہے کہ " ابو عمر کہتے ہیں میں ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے ( متعہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا) اس میں عدت نہیں ہے۔ الفروع فی الکافی ، جلد5، صفحہ 456
جبکہ نکاح حلالہ میں طلاق کے بعد مدخول بہا پر عدت لازم آتی ہے۔
محترم یہ اہل تشیع کے متعہ نجس اور نکاح حلالہ شرعی کے مابین فرق پر چند نکات بیان کئے ہیں،
محترم عامریونس صاحب ! آپ فرماتے ہیں کے متعہ اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہو اور اللہ تعالی کا خوف دامن گیر ہو تو وہ ایسی بہکی بہکی باتیں نہیں کرتا۔
اللہ تعالی آپ کو سمجھ دے، اور علم نافع عطا فرمائے۔
اس موضوع پر طویل گفتگو کرنے کا ارادہ تھا، لیکن ایسی جرح یا بحث یا دعوت فکر وہاں کار آمد ہوتی ہیں جہاں نزع اختلاف شبہات ومغالطات پر ہو، جہاں حکم شرعی کی کھلی مخالفت ہو وہاں یہ سب بیکار ہے، سوائے رحمت کی دعا کے۔
شکریہ
حنفیوں کا حلالہ اور شیعوں کا متعہ
حلالہ اور متعہ تقریباً دونوں ایک ہی ہیں جیسا کہ امام بغوی نے شرح السنہ ١٠١٩ پر لکھا ہے اور قاضی ابو یوسف جو فقہ حنفیہ کے سرتاج ہیں ان کے نزدیک حلالہ وقتی نکاح ہے اور فاسد ہے ملاحظہ کیجئے الجو ہرة النیرہ شرح قدوری ١٢٩٢، فتح القدیر ٣٤٤، فتاویٰ شامی ٥٤٠٢ وغیرہ۔ فقہ جعفریہ کے نزدیک متعہ بڑی با برکت چیز ہے اور اس کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ شیعہ کی تفسیر منہج الصادقین اور برہان المتعہ میں مرقوم ہے کہ ایک بار متعہ کرنے والا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، دوبار کرنے والا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے درجہ پر ، تین بار متعہ کرنے والا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے درجہ پر اور چار بار متعہ کرنے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک پہلے بھائی کے لئے حلال کرنے کی غرض سے یہ کام کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر پائے گا۔ متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں مین طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری کو خوب فروغ ملتا ہے۔
''لعنت سے مراد رحمت ہے''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک اور جھوٹی تاویل
ان حضرات کے حیلے اور بہانوں کے لئے حلالہ کی تاویل فاسد پر مبنی یہ حوالہ بھی مد نظر رکھئے۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب کنزالدقائق کی شرح مستخلص الحقائق صفحہ ١٢٦ پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث ''حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو''کی تاویل یہ لکھی ہے کہ اگر یہ حدیث بشرط تحلیل کے متعلق ہے تو اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کا لفظ بول کر رحمت مراد لی ہو۔ حنفی حضرات کی اس دیدہ دلیری پر غور کیجئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کو رحمت میں بدل دیا یعنی حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں رحمت کے مستحق ہیں۔ اس منطق کو مان لیا جائے تو پھر اور بھی بہت سے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔ مثلاً حدیث میں آتا ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سارے برابر ہیں۔''
سود خور حضرات کہہ سکتے ہیں کہ فقہ حنفی ہمیں سود کھانے کی اجازت دیتی ہے۔ ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت کا استعمال کیا ہو اور مراد رحمت لی ہو۔ اسی طرح ایک حدیث میں وارد ہے:
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے مٰں دس افراد پر لعنت کی ہے نچوڑنے والا، نچڑوانے والا، پینے والال، اس کو اٹھانے والا، جس کی طرف اسے اٹھایا جائے، شراب پلانے والا، بیچنے والا، اس کو خریدنے والاجس کے لئے اس کو خریدا جائے۔'' (ترمذی)
شرابی حضرات کے لئے نادر موقع ہے کہ کہہ دیں ، ممکن ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لعنت ہی استعمال کیا ہو۔ مراد رحمت لی ہو اسی طرح دیگر امپور ملعونہ کے بارے میں بھی اس طرح کے احتمالات پیدا کرکے جواز کی گنجائش نکالنے والے نکال سکتے ہیں۔ فقہ حنفیہ میں اس طرح کے بے شمار حیلے موجود ہیں جو مختلف امور محرمہ سر انجام دینے کے لئے بڑے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انکے متعلق کسی دوسرے موقع پر گفتگو کریں گے انشاء اللہ ۔
آخر میں صرف اتنی عرض ہے کہ حنفی علماء کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہونے کے باوجود صرف اس لئے ایک حرام چیز کو بھی تاویلیں کر کے حلال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہ ان کی اندھی تقلید کا تقاضا ہے۔ مقلدوں نے اپنے اپنے اماموں کے ناموں پر فرقے کھڑے کر دیئے اور پھر اپنے امام کی ہر بات کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ ان کی ہر بات کو صحیح سمجھا جائے۔ یہ مقام امتیوں کو دینے کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خرافات میں ڈوب گئے ہیں اور انہی خرافات کی وجہ سے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر طعن کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سڑف کتاب و سنت کے راستے پر چلائے۔ آمین