مشکٰوۃ
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 23، 2013
- پیغامات
- 1,466
- ری ایکشن اسکور
- 939
- پوائنٹ
- 237
بڑوں کے لئے کام ہو رہا ہے اور بہت ہو رہا ہے۔ماشاء اللہ ۔۔۔میں بچوں کے لئے کام کرناچاہتی ہوں چاہے وہ کسی بھی انداز میں ہو ۔یعنی مجھے لغویات کا شوق ہے اور مزید یہی کام سرانجام دینا چاہتی ہوں۔ابتسامہ18۔ مستقبل میں کیا کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں ہمیں بھی اس سے آگاہ کیجئے ہوسکتا ہے آپ کو محدث فورم سے کوئی ہمنوا مل جائے ؟
ابتدا اچھی ہو تو انتہا پر خود ہی آسانی ہو جاتی ہے لیکن ہم انتہا پر پہنچ کر ابتدا چاہتے ہیں۔شروع سے ہی بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا تھا اورہے بقول آپی کے"یہ بچوں کے معاملے میں پاگل ہے"چونک کر ہماری طرف دیکھتے ہوئے"مشکٰوۃ! اصل والا پاگل نہیں کہہ رہی دوسرے والا کہہ رہی ہوں" ابتسامہ
بچے چاہے خاندان کے ہوں یا جانے ان جانے محلے بھر کے بچے ،جب بڑے اپنی "گفتگو" میں مصروف ہوں تو میں بچو ں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دیتی ہوں ،ان کی معصوم ، چھوٹی چھوٹی بغیر لگی لپٹی باتیں،تجربات،شرارتیں سب اچھا لگتا ہے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محسوس ہو رہا ہے کہ بچوں میں بچپن نہیں رہایا بچے بہت" سمجھ دار" ہوگئے ہیں ،معصوم معصوم باتوں کی جگہ شکوے شکایتوں نے لی ہے ،اپنے ہی اعزاء کی برائیاں ،مہینوں پرانی باتیں،عجیب الفاظ سن کر بہت افسوس ہوتا ہے ،سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں کبھی سوچتی ہوں قصور بچوں کا نہیں ہے،والدین کی ذمہ داری ہے انہیں احساس ہونا چاہیئے رویوں اور عمل میں اپنے بچوں سے بہت کچھ چھینتے جا رہے ہیں۔۔والدین بہت کچھ چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن عمل کر کے نہیں دکھاتے اور بچے عمل، مشاہدے کے حریص۔۔۔
دینی معاملات میں والدین کی شکایت ہوتی ہے نماز نہیں پڑھتےنماز پڑھنے کا کہوں تو چار پانچ سال کے بچےکہتے ہیں " باجی ! امی تو پڑھتی نہیں ہیں،ہم کیسے پڑھیں؟"
معاشرت رویوں پرجھوٹ ،غیبت سے روکوں تو جواب آتا ہے " باجی امی فلاں آنٹی سے یہ کہہ رہی تھیں ،ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا"
کزنز کے ساتھ مل جل کر کھیلنے کا کہو تو " میری امی کہتی ہیں ان کی امی نے ہمارے ساتھ ایسے ایسے کیا ،ہم کیوں ان سے بات کریں،ان کو کوئی چیز کیوں دیں ،اپنی لے کر آئیں ۔۔۔دادو نے یہ کیا ۔۔۔چچی ایسی ہیں ۔۔۔چاچو ویسے ہیں۔۔۔۔خالہ نے ایسے کہا تھا۔۔ماموں ہمیں یوں کہتے تھے اپنے بچوں کوکچھ نہیں کہتے۔۔۔"پتہ نہیں ہمارا بچپن کہاں گزر گیا تھا۔
پڑھائی کے نام پر اس قدر بوجھ ہے کہ دو منٹ کو فرصت نہیں۔بوجھ سمجھتے ہوئے ،مستقبل بہتر کرنے کے نام پرطویل دورانیے کے سکولز،ٹیوشن کی تلاش رہتی ہے کہ سر سے بلا ٹلی رہے۔بچوں کی اپنی زندگی ہے ،والدین اپنی دنیا میں مگن ہیں۔
اوپر سے میڈیا کی بھر مار ہے ذرا بچے نے چوں چاں کی تو کارٹون لگا دو ،چپ کر جائے گا ،کچھ کھلانے پلانے کے لئے بھی موبائل ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے کہ توجہ ادھر بٹی ہے آرام سے کھا لے گا۔
اور بچے بھی تفریح کے لئے ایسے لایعنی سے نام لیتے ہیں جن کی سمجھ نہیں آتی۔"چھوٹا بیم" لگا دو ، آپ نے "اڈورا" کے کارٹون نہیں دیکھے۔۔بلا بلا بلا۔۔۔دین ،ثقافت،انسانیت سے دوری ۔۔۔پتہ نہیں آنے والا دور کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
واضح ہوکہ کوئی اپنے الفاظ یہ کہہ کر ضائع نہ کرے کہ جب خود پر پڑے گی تو پتہ چلے گا،پہلے پہل بہت باتیں کرنی آتی ہیں "کیونکہ یہ سب سننے کو ملتا رہتا ہے لہذا کہنی ہے تو کوئی نئی بات کہی جائے۔۔۔ابتسامہ