• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو محترم ابو الحسن علوی صاحب ( علمی نگران )

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
علمی نگران ابوالحسن(زبیر بھائی) کا انٹرویو
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اُمید کرتے ہیں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی فیملی کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور آپ کی ہر جائز خواہش کو پورا کرے آمین اور آپ سب کی زندگی میں آنے والے ہر دُکھ و پریشانی کو خوشیوں میں بدل دے آمین۔
اعلیٰ اخلاق، عالم باعمل، سنجیدہ و کم گو، فہم وفراست سے بھرپور، باریک بین، سلیم الطبع اور ماشاءاللہ ذہین شخصیت ہونے کے ساتھ بہت ہی محنتی ہیں۔ اختر علی بھائی کی طرح ابوالحسن علوی (زبیر بھائی) بھی محدث فورم کے اُن خاص رُکن میں ہیں جن کا محدث فورم کو نیٹ کی دنیا پر لانے میں ایک اہم کردار ہے۔ مزید ان کے بارے جاننے کےلیے ان سے کچھ سولات کرتے ہیں۔
1۔آپ کا مکمل نام ، اور آپ کی رہائش؟
2۔آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے ، ؟مزید اپنی دینی تعلیم کا سفر کیسے اور کہاں سے شروع کیا، اور کیا آپ کو اس دوران کسی مشکل کا سامنا ہوا؟
3۔آپ کا پیشہ کیا ہے؟
4۔عمرکتنی ہے ؟
5۔شادی ہوئی ؟ اولاد ہے ؟ ان کے نام کیا ہیں ؟ ان کو کیا بنانا چاہتے ہیں ؟
6۔مزاجا کیسی طبیعت کے مالک ہیں؟ آپ اجتماعیت پسند ہیں یا انفرادیت پسند؟
7۔انٹرنیٹ کی دنیا سے کب متعارف ہوئے ؟ اور اس پر دینی کام کرنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا ؟
8۔ ایسا کون سا کام ہےجس کو سرانجام دیکر آپ کو قلبی مسرت ہوتی ہے؟
9۔فرصت اور پریشان کن لمحات کن امور پر صرف کرتے ہیں؟ آپ کے روز مرہ کے مشاغل کیا ہیں؟
10آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
11۔وہ کون سی ایسی خواہش یا خواب ہے جو اب تک پورا نہ ہو سکا؟
12۔کس چیز سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں؟
13۔مستقبل میں ایسا کیا کرنا چاہتے ہیں ، جو ابھی تک نہیں کیا؟
14۔ کسی کے ساتھ پہلی مُلاقات میں آپ سامنے والے میں کیا ملاحظہ کرتے ہیں ؟
15. اِس پُرفتن دور میں دُنیا کے مجموعی حالات کو دیکھ کر آپ کیا سوچتے ہیں؟
16۔محدث لائبریری اور فورم ، یہ سفر کیسے مکمل کیا ؟؟ آغاز میں کیسی مشکلات سامنے آئیں؟
17محدث فورم کے وہ کون سے رکن ہیں ، جن کی تحاریر سے آپ متاثر ہوئے اور آپ کو ان رکن سے دینی فائدہ حاصل ہوا؟
18مسقبل میں کیا کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں ہمیں بھی اس سے آگاہ کیجئے ہوسکتا ہے آپ کو محدث فورم سے کوئی ہمنوا مل جائے ؟
19۔ہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے، مگر اللہ تعالی ایسے اسباب بنا دیتے ہیں ، جو ہدایت کا باعث بن جاتے ہیں ، آپ کی زندگی میں ان اسباب کا کیا کردار رہا؟؟
20۔زندگی کے اتنے ادوار گزار لینے کا بعد زندگی سے کیا سیکھا؟؟
21۔دین اسلام کی ترقی و بلندی کے لیے ، مسلمانوں میں کس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟؟
22۔نوجوان طبقے کے لیے وہ چند ضروری باتیں کون سی ہوں گی ، جن سے وہ راہ راست اختیار کر سکیں؟؟
23۔دین اسلام کے بیش بہا موضوعات میں سے وہ کون سا ایسا موضوع ہے ، جس کی محفل آپ کو بہت بھاتی ہے؟؟
24۔ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی شعبہ میں مہارت اور قابلیت رکھتا ہے ، اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کی تلاش کیسے ہوئی ؟ نیز اس مہارت اور قابلیت کا تذکرہ بھی کیجیئے۔
25۔دین اسلام پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کی کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ اور ان رکاوٹوں کا سدباب کس طرح کیا؟
26۔پاکستانی سیاست میں بطور عالم دین شمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں؟؟
27۔دین کے معاملے پر کس شخصیت پر رشک آتا ہے؟
28۔امور خانہ داری میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
29۔کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟؟اور اگر خود کھانا بنانا پڑے تو؟؟؟
30۔ کیا آپ کا تعلق دین دار گھرانے سے ہے ؟
31۔ ایسے افعال ، جن کو سرانجام دینے کے لیے لمبی زندگی کی دعا مانگتے ہوں؟
32۔ آپ کو غصہ کتنا آتا ہے اور اُس صورت میں کیا کرتے ہیں؟
33۔ادارہ محدث کے کاموں میں پہلے سے اب تک عملی طور پر شامل ہیں یا نہیں؟
34۔ اب تک محدث فورم کے کن کن اراکین سے آپ کی مُلاقات ہو چُکی ہے۔
35۔ بطورِ(علمی نگران) آپ محدث فورم کے اراکین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ابوالحسن علوی

( تمام اراکین سے بصد احترام گزارش ہے کہ جب تک اوپر پیش کیے گئے سوال مکمل نہ ہوجائیں مزید کوئی سوال جواب یا تأثرات کا اظہار ( سوائے ریٹنگ کے ) نہ کریں ۔ تاکہ انٹرویو میں ایک تسلسل برقرار رہے ۔
اگر کسی رکن سے اس سلسلے میں تسامح ہوا تو ان کے پیغامات حذف کردیے جائیں گے ۔ منجانب : انٹرویو پینل )
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔آپ کا مکمل نام ، اور آپ کی رہائش؟
اصل نام محمد زبیر نام ہے۔ بعد میں تحریر میں حافظ محمد زبیر لکھنا شروع کر دیا۔ جب ڈاکٹریٹ مکمل ہو گئی تو اب ڈاکٹر حافظ محمد زبیر لکھتا ہوں۔

کبھی کبھی قلمی نام سے مضامین لکھتا ہوں جو کہ ابو الحسن علوی ہے۔ زمانہ طالب علم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ 'تیمی' لگاتا تھا اور مدرسہ کے اس دور کے کلاس فیلوز اب بھی میرے نام کے ساتھ 'تیمی' کی نسبت لگاتے ہیں اگرچہ میں نے خود سے یہ نسبت لگانا ترک کر دی ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے تعلق ویسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسا کہ زمانہ طالب علمی میں قائم ہو گیا تھا بلکہ انہیں مزید پڑھنے کے ساتھ یہ تعلق اور بھی مزید گہرا ہوا ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید میری فریکوئنسی ان سے بہت زیادہ ملتی ہے یعنی دینی مسائل میں ایک رائے قائم کرنے کے حوالہ سے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی مسئلہ درپیش آیا اور میں نے کچھ مطالعہ یا تحقیق کے بعد ایک رائے قائم کی اور دل میں یہ کہا کہ اب یہ رائے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بھی ہو گی، ان شاء اللہ۔ اور بعد میں ان کی رائے کا مطالعہ کیا تو وہ وہی نکلی۔ اس سے مجھے ان سے ایک نسبت پیدا ہو گئی۔

والد صاحب کا نام ملک نور خان ہے۔ اور ایک دفعہ والد صاحب سے کچھ شجرہ پوچھا تو انہوں نے یوں بتلایا: محمد زبیر، بن نور خان، بن سکندر خان، بن سمندر خان، بن قلندر خان۔ اعوان فیملی سے تعلق ہے۔

میری اصل رہائش اعوان فیملی کے گڑھ ضلع اٹک میں ہے۔ 1999 میں دینی تعلیم کے لیے لاہور آ گیا، اس وقت سے لاہور میں ہوں۔

والد صاحب زمیندار تھے، ان کی وفات 1998 میں ہو گئی۔ دیوبندی اشاعت التوحید والسنۃ مسلک سے تعلق تھا۔ نماز روزہ، تلاوت وغیرہ کے پابند تھے۔ والدہ کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے ہے، اہل تشیع کی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں لیکن شادی کے بعد وہ بھی والد صاحب کے ہم مسلک ہو گئیں۔ گیارہ بہن بھائی تھے، جن میں سے دو، ایک بھائی اور ایک بہن کی بچپن میں ہی وفات ہو گئی۔ اور اب نو بہن بھائی، تین بھائی اور چھ بہنیں ہیں۔ سب شادی شدہ ہیں۔ میں ساتویں نمبر پر ہوں۔ سب الحمد للہ نماز، روزے کے اہتمام اور دروس قرآن کے سننے وغیرہ کی حد تک مذہبی ہیں لیکن علم دین کے حصول کی نعمت اللہ تعالی صرف مجھ پر کی ہے۔
 
Last edited:

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
2۔آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے ، ؟مزید اپنی دینی تعلیم کا سفر کیسے اور کہاں سے شروع کیا، اور کیا آپ کو اس دوران کسی مشکل کا سامنا ہوا؟

دینی تعلیم میں تو فاضل درس نظامی ہوں جو کہ وفاق المدارس السلفیہ سے ہے۔ اور دنیاوی تعلیم میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی اور سیاسیات میں ایم اے کیا ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب یونیورسٹی ہی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ تخصص اصول فقہ میں ہے۔ قرآن مجید کے بعد زیادہ تر مطالعہ اور رغبت اسی علم کی طرف رہی ہے۔

دینی تعلیم کا نقطہ آغاز چھٹی کلاس میں حفظ کی ابتداء سے ہوا۔ والد محترم کو یہ شوق تھا کہ ان کا کوئی ایک بیٹا حافظ قرآن ہو۔ سب سے بڑے بھائی محمد سہیل کے لیے انہوں نے کوشش کی لیکن وہ حفظ نہ کر سکے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر والے بھائی محمد صہیب کو حفظ پر ڈالا جو مجھ سے دو سال بڑے ہیں لیکن ان بھائی صاحب نے یہ شرط لگائی کہ چھوٹے کو بھی حفظ پر لگائیں تو میں کروں گا ورنہ اکیلے نہیں کروں گا۔ والد صاحب نے مجھے کہا کہ تم کم از کم ایک پارہ اس کے ساتھ حفظ کر لو جب یہ چل پڑے گا تو تم آگے بے شک نہ کرنا۔ اس طرح ہم دونوں بھائیوں نے اکھٹے حفظ شروع کیا۔ میری عمر اس وقت 11 سال جبکہ بڑے بھائی کی 13 سال تھی۔ بڑے بھائی تو مکمل حافظ نہ بن سکے جبکہ اللہ نے مجھ پر کرم کیا اور میں نے 15 سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ تقریبا 5 سال لگے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اسکول کے ساتھ حفظ کیا ہے یعنی چھٹی کلاس میں شروع کیا اور دسویں میں مکمل ہو گیا۔

والدہ صاحبہ نے بچپن میں ہم بہن بھائیوں کے ساتھ بہت محنت کی۔ والدہ محترمہ نے نہ تو اسکول کی ایک کلاس پڑھی ہے اور نہ ہی مدرسے کا نورانی قاعدہ۔ بلکہ اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتیں۔ دوران حفظ ترتیب یہ تھی کہ صبح اذان کے وقت والدہ صاحبہ ہم دونوں بھائیوں کو بیدار کرتی تھیں۔ ہم مدرسہ میں جا کر صبح کی نماز پڑھتے تھے اور نماز کے بعد پہلے تو روزانہ کا سبق سناتے تھے، پھر منزل سناتے اور پھر قاری صاحب سے اگلا سبق لیتے تھے۔ اس کے بعد ساڑھے سات بجے کے قریب مدرسہ سے چھٹی لے کر گھر آتے، ناشتہ کرتے اور اسکول چلے جاتے جو تقریبا ساڑھے آٹھ بجے لگتا تھا۔ اسکول سے ظہر کے وقت گھر آتے، دوپہر کا کھانا کھاتے اور دوبارہ مسجد چلے جاتے۔ مسجد میں ظہر سے عصر کے مابین پہلے تو قاری صاحب کو صبح کا نیا سبق یاد کر کے سناتے۔ پھر پچھلے سات سبق دہرا کر سناتے اور عصر کی نماز پڑھ کر گھر آ جاتے۔ مغرب کی نماز پھر مسجد میں پڑھتے اور مغرب سے عشاء کے مابین منزل یاد کرتے تھے یا بعض اوقات درمیان میں قاری صاحب سے نظر بچا کر گپیں مارتے تھے۔ اس کے بعد عشاء پڑھ کر گھر آ جاتے اور فورا سو جاتے۔ پھر صبح کو بیدار ہو جاتے۔ مدرسے کے لڑکپن کے ان پانچ سالوں کے ساتھ کافی یادیں وابستہ ہیں۔

اس کے بعد میٹرک سائنس کے ساتھ کی۔ پھر پری انجینیئرنگ کے ساتھ ایف ایس سی کی۔ پھر ڈبل میتھ کے ساتھ گریجویشن کی۔ اس کے بعد ایم ایس سی میتھ کا ارداہ تھا لیکن مکمل نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ ایف ایس سی کے دوسرے سال کے دوران تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ رابطہ ہوا۔ ان کے ساتھ مل کر کافی وقت گزارا۔ اس رابطے سے دین کی طرف رجحان شعوری کیفیت میں داخل ہوا۔ گریجویشن کے دوران ڈاکٹر اسرار صاحب کی جماعت، تنظیم اسلامی سے رابطہ ہوا اور ان کی مقامی لائبریری سے ان کی کچھ کیسٹس سننے کا اتفاق ہوا۔ دین کا علم حاصل کرنے کا بیج میرے دل میں ڈاکٹر صاحب ہی نے پیدا کیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تقاریر میں اکثر وبیشتر اس بات پر زور دیتے تھے کہ اپنی زندگی میں سے کم از کم ایک سال نکال کر قرآن مجید کا ترجمہ، بنیادی عربی گرامر اور دین کی مبادیات کا علم حاصل کر لو جس کے لیے انہوں نے قرآن اکیڈمی، لاہور میں گریجویٹس کے لیے ایک سال کا قرآن فہمی کا کورس شروع کیا ہوا تھا۔

اواخر جولائی 1999 میں جبکہ میں گریجویشن کے پیپرز پنجاب یونیورسٹی سے دے چکا تھا اور والد صاحب کی وفات کو بھی تقریبا ایک سال ہونے کو تھا، ایک واقعہ ہوا۔ بیرون کی ایک تبلیغی جماعت کے کچھ احباب ہمارے محلے کی مسجد میں آئے اور انہوں نے میرے بڑے بھائی سے تقاضا کیا کہ وہ ان کے ساتھ چالیس دن تبلیغ میں لگائیں۔ بڑے بھائی صاحب اگرچہ تبلیغ والوں کو پسند کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھتے بھی ہیں لیکن اس وقت ان کے حالات نہیں تھے کہ وہ تبلیغ میں نکل سکتے کیونکہ والد صاحب کی وفات کے بعد اب گھر کی معاشی ذمہ داری انہی پر تھی۔ انہوں نے تبلیغ والوں سے کہا کہ میری جگہ میری چھوٹے بھائی زبیر کو لے جاو۔ اس طرح میں چالیس دن کے لیے رائے ونڈ آ گیا۔ منڈی بہاو الدین اور پتوکی میں تبلیغی کام کے لیے تشکیل ہوئی۔ اخراجات بڑے بھائی صاحب نے اٹھائے۔

یہ چالیس دن اگست کے آخر میں ختم ہوئے اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں ڈاکٹر اسرار صاحب کی قرآن اکیڈمی میں ایک سالہ کورس کا آغاز ہو رہا تھا۔ ان چالیس دن سے علم دین کے حصول کے لیے اللہ کے رستے میں مزید کچھ وقت لگانے کا عزم پیدا ہوا اگرچہ وسائل نظر نہیں آ رہے تھے لیکن چالیس دن کے اختتام پر گھر جانے کی بجائے سیدھا قرآن اکیڈمی چلا آیا۔ یہاں ایک سالہ کورس کے طلباء کے انٹرویوز ہو رہے تھے۔ میں نے بھی دیا۔ انہوں نے بتلایا کہ قرآن اکیڈمی کا نظام مدرسے کا نہیں ہے، اگرچہ مجھے مدرسے کے نظام کا بھی ابھی کچھ بھی پتہ نہیں تھا، بلکہ یہاں آپ کو میس کا خرچہ اور رہائش کا خرچہ بھی خود برداشت کرنا پڑے گا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ہاں کر دی۔ اللہ سے دعا کی اور پھر بڑے بھائی سے بات کی کہ ایک سال کے لیے وہ اگر مجھے کچھ خرچہ دے دیں تو میں یہ دین کا علم حاصل کر لوں۔ انہوں نے حامی بھر لی اگرچہ ان کے لیے اس وقت یہ بہت مشکل تھا۔ تقریبا ایک سال تک انہوں نے مجھے ایک ہزار روپیہ دیا جس سے میں میس اور کتب اور گھر آنے جانے کا خرچہ پورا کرتا تھا جبکہ رہائش قرآن اکیڈمی کی طرف سے مفت فراہم ہو گئی۔ یہ بڑے بھائی صاحب کا ایک بہت بڑا احسان اور صدقہ جاریہ ہے کیونکہ یہ کام انہوں نے اس وقت کیا جبکہ ان کی کل تنخواہ چھ ہزار تھی اور ان کی اپنی فیملی بھی تھی اور ساتھ میں ہم 6 بہن بھائی اور والدہ بھی ان کی کفالت میں تھے۔ میری نظر میں یہ ایک ہزار نہیں تھا بلکہ وہ اپنی کمائی کا چھٹا حصہ اللہ کے لیے نکال رہے تھے۔ اللہ تعالی ان کے اس صدقہ جاریہ کو قبول فرمائے۔

ڈاکٹر صاحب کی قرآن اکیڈمی میں ایک سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد مزید تعلیم کا شوق پیدا ہوا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا ہمارے پاس تو مزید تعلیم کا اہتمام نہیں ہے۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد چلے جاو لیکن اس کے لیے میرے حالات نہ تھے۔ پس قرآن اکیڈمی میں ایک عربی کی کلاس پڑھانا شروع کر دی جس کا ایک ہزار وظیفہ مل جاتا تھا جس سے اپنا خرچہ پورا ہو جاتا تھا۔

اسی دوران جامعہ اشرفیہ، لاہور (حنفی دیوبندی مدرسہ) والوں نے گریجویٹس کے لیے تین سالہ درس نظامی کا ایک کورس شروع کیا۔ اس میں اس امید پر داخلہ لے لیا کہ چلو تین سال میں درس نظامی کے نصاب سے گزر جاوں گا۔ لیکن ایک سال مکمل کر کے چھوڑ دیا۔ اس دوران رہائش اکیڈمی میں ہی تھی کیونکہ یہاں ایک عربی کی کلاس پڑھا رہا تھا۔ قرآن اکیڈمی سے جامعہ اشرفیہ کا فاصلہ تقریبا 5 کلومیٹر ہے۔ اتنا کرایہ نہیں ہوتا تھا کہ جامعہ جا سکوں۔ ایک دوست آفتاب مشہدی نے اپنی سائیکل ادھار پر دی، اس پر جامعہ آتا جاتا تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ سائیکل جامعہ سے اٹھائی گئی، اس کا رنج ہوا لیکن دوست نے سائیکل کا تقاضا نہ کیا۔ یہ اس کا احسان تھا کیونکہ میں اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اسے کچھ رقم دے سکتا۔ کچھ باتیں ایسے ہی یاد ہیں کہ ایک دن جامعہ سے واپس قرآن اکیڈمی کے لیے نکلا ہوں تو جیب میں صرف ایک روپیہ تھا، اس وقت نیو کیمپس تک بڑی بسیں چلتی تھیں۔ بس والے کو ایک روپیہ دیا، اس نے کیمپس اتارا اور وہاں سے پیدل اکیڈمی آیا۔ ایک بار تو جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں تھا اور جون کے مہینے کی گرمی تھی۔ جامعہ سے اکیڈمی پیدل ہی آیا۔ ایک دفعہ اکیڈمی میں میس کے پیسے دینے کے لیے ایک روپیہ نہ تھا۔ میس والوں کے بار بار کے تقاضے سے بہت شرمندگی ہوتی تھی لیکن یہ کہہ کر ٹال دیتا تھا کہ دے دوں گا۔ بعد میں اللہ سے کافی دعا کی تو غیر متوقع جگہ سے انتظام ہو گیا۔ لیکن ان تکالیف کے باوجود باطنی طور ایک خوشی کا احساس برقرار رہتا تھا۔

اس کے بعد جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاون (اہل حدیث مدرسہ) میں داخلہ لیا۔ یہاں مزید دو سال میں ہر فن کے کچھ منتخب اسباق پڑھے۔ اس طرح اکیڈمی، جامعہ اشرفیہ اور جامعہ رحمانیہ کے کل ملا کر چار سال کی تعلیم ہوئی۔ اس کے بعد جامعہ میں ہی اگلے دو سالوں میں تقریبا تمام فنون پڑھائے۔

جامعہ رحمانیہ کے دن بھی دلچسپ ہیں۔ دوستوں اور اساتذہ کا خیال ہے کہ کافی محنت سے پڑھا ہے لیکن میرے خیال میں اتنی نہیں تھی جتنا ان کا حسن ظن ہے۔ جامعہ میں آٹھ سال کا درس نظامی تھا۔ میرا ٹیسٹ ہوا، تیسری کلاس میں داخلہ ملا لیکن چھ سال لگانے کی ہمت نہ تھی۔ استاذ محترم حافظ حمزہ مدنی صاحب، جو اس وقت جامعہ میں مدیر بھی تھے، نے منتخب کلاسز میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ اس طرح دو سالوں میں مشکوۃ، بلوغ المرام، سنن ترمذی، فقہ السنۃ، البلاغۃ الوضحۃ، تیسر المنطق، ہدایۃ النحو، مقامات حریری، اصول فقہ پر ایک نظر، الوجیز، مقدمہ اصول تفسیر، درایت تفسیری، اطیب المنح، تیسیر مصطلح الحدیث، عقیدہ واسطیہ، عقیدہ طحاویہ، وراثت اور شاطبیہ کے اسباق پڑھے۔ جامعہ کے دوسرے سال میں وفاق کے عالمیہ کے امتحان کے لیے داخلہ بھیج دیا اور مدرسے میں اول پوزیشن حاصل کی جبکہ وفاق میں غالبا دوسری تھی لیکن چونکہ یہ داخلہ ایک پرائیویٹ طالب علم کے طور تھا لہذا اسے باقاعدہ پوزیشن شمار نہیں کیا گیا۔ جامعہ ہذا میں شاید پہلی مرتبہ یہ تصور عام ہوا کہ مدرسے کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے آٹھ سال ضروری نہیں بلکہ کچھ لوگ چار، تین سالوں میں بھی اس کا جوہر اچھی پختگی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے بعد پھر کافی لوگوں نے اکیڈمی وغیرہ سے مدرسہ میں منتخب اسباق لینے کا سلسلہ شروع کیا جبکہ اس سے پہلے مدرسہ کی طرف سے بھی اس کی اجازت نہیں تھی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
3۔آپ کا پیشہ کیا ہے؟
پیشے کے اعتبار سے استاذ ہوں لیکن اپنے آپ کو ریسرچرسمجھتا ہوں کیونکہ تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے زیادہ بحث وتحقیق اور لکھنے لکھانے میں وقت گزرتا ہے۔ آج کل کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں ہیومینیٹیز ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کام کر رہا ہوں۔

پہلی باقاعدہ جاب جامعہ رحمانیہ میں بطور استاذ کے تھی۔ اس کے بعد قرآن اکیڈمی لاہور میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ جاب کی، جس میں تدریس اور تحقیق دونوں ذمہ داریاں تھیں۔ یہ جاب دسمبر 2004 سے فروری 2012 تک رہی۔ اس کے بعد مارچ 2012 سے مئی 2012 تک یونیورسٹی آف سرگودھا میں شعبہ علوم اسلامیہ میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر جاب کی۔ اگست 2012 سے تاحال کامساٹس لاہور میں ہوں۔

زیادہ تر وقت بحث وتحقیق میں گزرتا ہے۔ دوسرے نمبر پر درس وتدریس کا کام ہے۔ اور تیسرے مرحلے میں دعوت وتبلیغ کی کچھ سرگرمیاں ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
5۔شادی ہوئی ؟ اولاد ہے ؟ ان کے نام کیا ہیں ؟ ان کو کیا بنانا چاہتے ہیں ؟
شادی دسمبر 2004 کو ہوئی۔ شادی سے پہلے مدرسہ رحمانیہ میں تدریس کر رہا تھا لیکن یہ جز وقتی تدریس تھی کیونکہ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ ہی جاری تھا۔ جامعہ سے اس کا وظیفہ اس وقت 2750 رو پے ملتا تھا۔ دسمبر 2004 میں قرآن اکیڈمی کے شعبہ تحقیق اسلامی کو بطور ریسرچ ایسوی ایٹ جوائن کیا اور یہاں 6200 تنخواہ مقرر ہوئی۔ اب یہ سوچ پیدا ہوئی کہ شادی کر لینی چاہیے۔ رشتہ کی بات پہلے سے ہی استاذ محترم مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب کے ہاں چل رہی تھی۔ لہذا نومبر 2004 میں بات طے ہوئی اور دسمبر 2004 میں شادی ہو گئی۔ شادی کے وقت کل متاع ایک سائیکل تھی جبکہ مدنی صاحب کی فیملی معاشی اعتبار سے بہت بہتر تھی لیکن مدنی صاحب نے اپنی سب بیٹیوں کے نکاح اسی طرح دینداروں میں کیے ہیں، پتہ نہیں ہم دیندار ہیں یا نہیں لیکن مدنی صاحب کے اعتبار سے بات کر رہا ہوں۔ یہ ان کی اور ان کی اولاد کا بھی عزیمت کا پہلو ہے کہ انہوں نے اپنے رشتوں میں علم دین اور دینداری کو رشتہ داری اور مال پر ترجیح دی۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی سے میری شادی ہوئی ہے۔

شادی کے موقع پر بڑے بھائی محمد صہیب نے کافی مدد کی۔ میرے پاس تو اخراجات نہیں تھے، اس نے ولیمہ کا سارا خرچہ اپنے ذمے لے لیا۔ کچھ بہنوں نے مدد کی اور شادی ہو گئی۔ اس وقت بہن بھائیوں کے بھی معاشی حالات اتنے اچھے نہیں تھے لہذا ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ عرصہ شادی میں تاخیر کر لو لیکن میں نے کہا کہ میری عمر تقریبا 25 سال ہو گئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی بھی 25 سال کی عمر میں ہی ہوئی، میں نے اس سے زیادہ تاخیر نہیں کرنی۔ بہر حال سب بہن بھائیوں نے ممکن مدد کی اور شادی ہو گئ۔

شادی کے موقع پر کل جمع پونچی تقریبا 10 ہزار تھی۔ جن میں سے 5 ہزار کا ایک بیڈ لیا اور دو ہزار کا ایک سیکنڈ ہینڈ گدا لیا۔ اہلیہ کو ان کی والدہ نے 5 ہزار دیا جس کے انہوں نے گھر کے برتن وغیرہ لیے۔ کچھ والدہ اور بہنوں نے بستر وغیرہ دیے۔ شادی کے بعد 2750 روپے کا تو کرائے کا ایک چھوٹا سا مکان دیکھ لیا، مدرسے کا وظیفہ اس میں لگ جاتا تھا جبکہ اکیڈمی کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ شادی کے شروع شروع میں خوب سائیکل دوڑائی ہے۔ بعد میں اللہ سبحانہ وتعالی نے بائیک دے دی۔ اب گاڑی بھی دے دی۔ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی کسی قابل قدر نعمت کی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالی بس شکر کی توفیق دیے رکھے۔

ما شاء اللہ دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا ہے جو 8 سال کا ہے۔ اس کا نام عبد اللہ بن زبیر ہے۔ کلاس تھری میں ہے۔ ساتھ میں آخری دو پارے حفظ مکمل کر لیے ہیں۔ تا حال اسکول کے ساتھ حفظ کر رہا ہے۔ چھوٹی بیٹی 5 سال کی ہے۔ اس کا نام رجاء بنت زبیر ہے۔ کلاس ون میں ہے اور ابھی نورانی قاعدہ مکمل کرنے والی ہے۔

جہاں تک اولاد کو کچھ بنانے کی بات ہے تو پہلے تو یہی خواہش ہے کہ اچھے انسان ، اچھی اولاد اور اچھے مسلمان بنیں۔ اس کے علاوہ دونوں کو حفظ کروانا ہے اور دین کا عالم بنانا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کا جو بننا ہو گا، وہ بن جائیں گے۔ ابھی کوئی واضح پلان نہیں ہے۔ جیسے جیسے بڑے ہوں گے، سوچ لیں گے، دیکھ لیں گے اور اللہ کے حکم سے کچھ کر لیں گے۔ فوری پلان تو یہی ہے کہ حفظ اور مدرسے کی تعلیم کے ساتھ میں او لیول، اے لیول کر لیں۔ یہ بھی مبہم سی سوچ ہی ہے۔ میرے ذہن میں یہ بھی ہے کہ انہیں مدرسے کے کچھ اسباق خود سے گھر پر پڑھاوں جیسا کہ ترجمہ قرآن، عربی گرامر وغیرہ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ وہ میٹرک کے لیول پر ہوں۔ اس سے پہلے صرف حفظ ممکن ہے یا کچھ ذہنی، فکری اور عملی تربیت کی طرف توجہ دی جا سکتی ہے۔

اہلیہ ما شاء اللہ حافظ قرآن ہیں، ایم اسلامیات ہیں، مدرسہ میں بھی پڑھا ہے۔ بیکن ہاوس وغیرہ میں پڑھاتی رہی ہیں۔ آج کل ایک اسلامک ہائی اسکول کی پرنسپل ہیں جو اسلامک ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت ہے۔ میرے دونوں بچے اسی اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ اسی اسکول میں ہی حفظ کی کلاس بھی ہے اور عبد اللہ بن زبیر یہاں ہی اسکول ہی سے حفظ بھی کر رہا ہے۔ اہلیہ دونوں بچوں پر ما شاء اللہ بہت محنت کرتی ہیں۔ فی الحال ہماری رہائش اسکول میں ہی ہے۔ نیچے اسکول ہے جبکہ اوپر رہائش ہے۔ بچوں گھر سے اترے اور اسکول میں پہنچے یا گھر سے اترے اور قاری صاحب کے پہنچے۔ یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ گھر ہی میں اسکول اور مدرسہ میسر ہے۔ اسکول میں آمد غالبا 2011 میں ہوئی تھی۔
 
Last edited:

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
6۔مزاجا کیسی طبیعت کے مالک ہیں؟ آپ اجتماعیت پسند ہیں یا انفرادیت پسند؟
انبیاء اور رسل کے علاوہ تو کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ اور ہم تو کمال تو بہت دور، اس کے قریب قریب بھی کسی قطار شمار میں نہیں آتے۔ انسان بہت ہی کمزور ہے، اپنے بارے ہمیشہ خوش گمان ہوتا ہے اور مثبت پہلو ہی بیان کرتا ہے۔ ویسے بھی اللہ تعالی نے ہمیں اپنی کمیاں کوتاہیاں چھپانے کا حکم دیا ہے۔ (ابتسامہ) لہذا اپنے مزاج کے اچھے پہلو بیان کیے دیتا ہوں کہ جس کا اظہار بعض دوسرے لوگ بھی بعض مواقع پر کر دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ کوئی خامی نہیں ہے، بہت ہیں:
1-کم گو ہوں، بعض رشتہ دار اسے میری خامی قرار دیتے ہیں کہ ضرورت کی جگہ بھی نہیں بولتے اگرچہ مجھے خوش فہمی ہے کہ یہ خوبی ہے۔ شادی کے بعد کچھ بہتری آئی ہے کہ کم گوئی کم ہوئی ہے۔
2۔مزاج میں نرمی اور رقت ہے، عام طور کسی کو تکلیف میں دیکھ کر جلدی آنسو نکل آتے ہیں۔

مزاجا خلوت کو پسند کرتا ہوں۔ شادی سے پہلے تو یہ خلوت رہبانیت کی سرحدوں کو چھو رہی تھی۔ عصر کے بعد گاوں میں اکیلے میں پہاڑوں پر نکل جانا، کافی عرصہ معمول رہا۔ مجھے پہاڑ بہت اچھے لگتے ہیں، معلوم نہیں کیوں؟ شاید کبھی غور بھی نہیں کیا۔ تنہائی کو کافی انجوائے کرتا تھا۔ شادی کے بعد کافی تبدیلی آئی ہے۔ اب تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ لیکن جب پریشان ہوں تو اب بھی تنہا رہنے کو بہت دل کرتا ہے بلکہ ممکن تنہائی میں چلا جاتا ہوں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
7۔انٹرنیٹ کی دنیا سے کب متعارف ہوئے ؟ اور اس پر دینی کام کرنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا ؟
جب سے قرآن اکیڈمی میں جاب شروع کی، اس وقت سے انٹرنیٹ سے تعارف ہوا یعنی دسمبر 2004 میں۔ اس سے پہلے صرف نیٹ کا سنا ہوا تھا لیکن استعمال نہیں کیا تھا۔ قرآن اکیڈمی میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر تھی اور جاب کی نوعیت بھی کسی قدر ریسرچ کی تھی لہذا نیٹ پر ریسرچ کرنا شروع کی اور بالآخر اس میں کافی درک حاصل کر لی بلکہ میری رائے میں تو ریسرچ کے لیے براوزنگ بھی ایک فن ہے جو سیکھنا چاہیے یا انسان بعض اوقات کثرت استعمال سے خود ہی سیکھ جاتا ہے۔

آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں لائبریریوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ عالم عرب میں جو کتاب شائع ہوتی ہے وہ دس سال بعد بھی ہمارے مکتبات سے مشکل ہی سے ملتی ہے۔ پس پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھتے وقت اکثر کتب نیٹ پر تلاش کیں جس سے انٹرنیٹ پر موجود علوم اسلامیہ کی بلاشبہ لاکھوں یونی کوڈ، پی ڈی ایف اور دیگر فارمیٹ میں موجود کتب، مقالہ جات، مضامین اور مباحث کے مصادر ومآخذ سے آگاہی ہوئی۔ پس انٹرنیٹ کا تعارف دینی تحقیق کی ضرورت سے پیدا ہوا۔

جہاں تک نیٹ پر دینی کام کرنے کے رجحان کا تعلق ہے تو اس کا آغاز 3 سال قبل 2011 میں محدث فورم جوائن کرنے سے ہوا اور اس کا سبب جناب انس نضر ہیں۔ اس سے پہلے عربی فورم مثلا ملتقی اہل الحدیث وغیرہ کو کبھی کبھار وزٹ کر لیتا تھا لیکن اس میں بھی مقصود اپنی مطلوبہ ابحاث یا کتب کی تلاش ہوتا تھا۔ فورم کے خصائص کا اتنا علم نہ تھا۔ انس صاحب، جو میرے برادر ان لاء بھی ہیں اور استاذ بھی، اس معنی میں کہ میں نے ان سے وراثت پڑھی ہے، نے مجھے فورم میں کام کرنے کی نہ صرف ترغیب دلائی بلکہ اس کے فوائد بھی بیان کیے۔ ان کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا تو بہت اچھا لگا۔ یہاں بہت کچھ دوستوں سے سیکھنے کو ملا، اس میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں کہ جنہوں نے میری سوچ کے انداز اور رخ کو بھی بدل ڈالا، بہر حال اللہ سبحانہ وتعالی ان سب بھائیوں کو جزائے خیر دے کہ جن میں سےکسی کی حوصلہ افزائی نے مجھے مضبوط کیا تو کسی کی تنقید نے میری تربیت کی۔ بعد ازاں مارچ 2012 میں سرگودھا یونیورسٹی میں جاب ہو گئی اور وہاں جانے کی وجہ سے فورم سے ایک تعطل پیدا ہو گیا کیونکہ وہاں رہائش گاہ میں نیٹ کی سہولت میسر نہ تھی۔ کبھی کبھی نیٹ کیفے چلا جاتا تھا لیکن اس کا ماحول ایسا نہ تھا کہ انسان انتہائی ضرورت کے بغیر وہاں جاتا۔ پھر کچھ عرصہ بعد سرگودھا یونیورسٹی کو خیر آباد کہا اور لاہور واپس آ گیا لیکن ایک بار کے تعطل کے بعد دوبارہ فورم سے رابطہ بحال نہ ہو سکا۔ اس کی ایک اور وجہ یونیورسٹی کے علاوہ کی بھی کچھ مصروفیات ہیں، بس اللہ تعالی انہیں قبول فرمائے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
8۔ ایسا کون سا کام ہےجس کو سرانجام دیکر آپ کو قلبی مسرت ہوتی ہے؟
ویسے تو کافی سارے کام انسان کی دلی خوشی کا باعث بنتے ہیں لیکن کسی ضرورت مند کی مدد کر کے کافی قلبی سکون ملتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
9۔فرصت اور پریشان کن لمحات کن امور پر صرف کرتے ہیں؟ آپ کے روز مرہ کے مشاغل کیا ہیں؟
فرصت کے لمحات کم ہی ملتے ہیں اور میرے خیال میں مصروفیت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ فراغت بعض اوقات انسان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ لیکن جو کچھ فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں یا نکالتے ہیں تو اس میں فیملی کے ساتھ باہر کھانے پینے نکل جانا، یا پارک چلے جانا، یا سسرال چلے جانا، یا گھر میں ہوں تو تاریخی کہانیاں پڑھنا، یا فیس بک کی ورق گردانی کرنا اور اس پر دوستوں نے جو ویڈیوز شیئر کی ہوتی ہیں، خاص طور انہیں دیکھنا یا کبھی کبھار اپنے بیٹے عبد اللہ بن زبیر کے ساتھ مل کر کارٹون دیکھنا، خاص طور اینیمیٹڈ مجھے کافی پسند ہیں۔ لیکن وہ بھی کوئی بہت اچھے ہوں تو ضرور دیکھتا ہوں جیسا کہ کنگ فو پینڈا، آئس ایج، مڈغاسکر، ایڈوینچر آف ٹن ٹن، فائنڈنگ نیمو اور ہاو ٹو ٹرین یور ڈریگن وغیرہ۔

پریشان کن لمحات میں دو میں سے ایک کام کرتا ہوں یا تو قرآن مجید کی تلاوت سنتا ہوں، اس سے رونا آتا ہے اور کتھارسز ہو جاتا ہے یا ویسے ہی سکون مل جاتا ہے۔ یا کسی دوست کے ساتھ باہر کھانے پینے نکل جاتا ہوں، اس سے گفتگو کر لی اور اپنا بوجھ ہلکا کر لیا۔ میرے خیال میں ایک اچھا اورمخلص دوست اللہ تعالی کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس پر خاص طور الحمد للہ کہنا چاہیے۔

صبح فجر کے وقت بیدار ہوتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں، اس کے بعد یونیورسٹی جانے کی تیاری کرتا ہوں، پھر ناشتہ کرتا ہوں، مدرسہ رحمانیہ جاتا ہوں، وہاں ترجمہ کی کلاس لیتا ہوں، اس کے بعد یونیورسٹی آ جاتا ہوں، یونیورسٹی میں 08:30 سے 04:30 کی ٹائمنگز ہیں۔ اس کے بعد گھر آ جاتا ہوں، دوپہر اور شام کا اکھٹا کھانا کھاتا ہوں، عصر پڑھتا ہوں، اس کے بعد قرآن مجید کا ایک پارہ تلاوت کرتا ہوں اور گھر والوں کے ساتھ کچھ بات چیت کرتا ہوں، پھر مغرب پڑھتا ہوں، مغرب کے بعد کبھی تو گھر والوں کے ساتھ باہر آوٹنگ پر نکل جاتا ہوں، کبھی گھر میں ہوں تو اکثر اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتا ہوں، پھر اللہ تعالی جتنی ہمت دیں، رات تک کچھ لکھنے لکھانے کا کام کر لیتا ہوں، یا اگر کسی دن کام کرنے کو دل نہ ہو تو کوئی ٹاک شو جیسا کہ حسب حال یا کیپیٹل ٹاک وغیرہ دیکھ لیتا ہوں۔
 
Top