• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی تحریریں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عورت کے مجرم تم ہو...........


ابوبکر قدوسی
جب پاکستان بنا تو حکومت میں سب لبرل تھے
کابینہ مکمل غیر مذہبی بلکہ کسی حد تک مذھب بیزار تھی
سکندر مرزا نشے میں دھت رہتا اور اس کی بیوی ایک آزاد خیال اور لبرل عورت تھی
ایوب خان کا مذھب سے دور کا علاقہ بھی نہ تھا
یحیی خان نشے کا عادی اور طوائفوں کی باہوں میں رات دن کرتا
بھٹو منہ سے کہتا تھا کہ تھوڑی سی پیتا ہوں
جنرل ضیا اسلام کا نام ضرور لیتا ، نمازیں پڑھتا ..اور بس
بے نظیر اسی بھٹو کی بیٹی تھی..اور مکمل لبرل کمیونٹی کی نمایندہ
نواز شریف کسی روز بھی مذہب کے نمائندہ نہ رہے ..ان کی کابینہ ہمیشہ لبرل اور سیکولر افراد پر مشتمل رہی
رہے مشرف...وہ تو آپ کے مائی باپ ہیں ان کا کیا ذکر کیا جائے
زرداری صاحب تو ہیں ہی ڈالر کیونوں کے سرپرست....لبرل کیا شرافت سے بھی دور
.....بیوروکریسی ہمیشہ سے لبرل اور سیکولر حضرات کے قبضے میں رہی..
اور پالیسیاں انہوں نے ہی تشکیل دیں کہ جو عورت کو ننگا نچانے پر ہی مصر ہیں
فوج کا کلچر ہی مذہب سے دور ہے.معاملہ نازک ہے لب آزاد نہیں
عدلیہ...مکمل لبرل اور کسی حد تک مذھب بیزار...قوانین انگریز کے تاحال جاری
وکلاء...سب تمہارے اور مذھب بیزار ..الا ما شا اللہ
...صحافت اور میڈیا میں تو قبضہ ہی لبرل حضرات کا ہے.مولوی کا تو وہاں داخلہ ہی ممنوع ہے...ہاں اگر کوئی ڈرامہ رچانا ہو تو
اخبارات کے صفحات گواہ ہیں جتنا عورت کو انہوں نے ننگا کیا اتنا توبازار حسن کے دلالوں نے بھی نہ کیا..دوپہر کے اخبارات ملاحظہ کیجئے
ٹی وی چینل ...سب لبرلز کے ہیں...جو چاہتے ہیں پراپیگنڈہ کرتے ہیں
ان سب اداروں میں اگر کبھی بھولے سے مولوی آ بھی گیا تو اس کی حالت وہی ہوتی تھی ہے جو ڈیفنس کے رہائشی کسی امیر ترین خانداں کی شادی میں کسی غریب رشتے دار کی آمد...بے حیثیت ، غیر اہم مگر سب سے نمایاں
اپنی عیاشی کے لیے ان کے دانش ور ، انسانی حقوق کے نام لیوا...عورت کی آزادی کے نام پر روشن خیال بن جاتے ہیں..دوسروں کی بیٹیاں ان کو ننگی دیکھنا پسند ہوتی ہے...اس کی ننگی تصاویر کو یہ آزادی کی برکات جانتے ہیں ...لیکن جب گھر کی باری آتی ہے تو اندر سے یہ بھی وہی تنگ نظر پاکستانی نکلتے ہیں
پنجابی کا محاورہ ہے جو ان کی منافقت کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے
"اپنا بچہ ..اور دوسرے کی بیوی ہمیشہ خوبصورت لگتی ہے"
....اب ان سے سوال ہے...ظالموں!
قوانین تم بناؤ... حکومت تم کرو...اسمبلیاں تمھاری ...اختیار تمہارا ...اقتدار تمہارا....میڈیا تمھارے قبضے میں...اخبارات پر تمہارا قبضہ....ملکی انتظامیہ پر تم براجمان....فوج ہمیشہ سے لبرل.. عدلیہ مکمل تمھاری........مولوی دور دور تک نہیں پھٹکتا...
تو کیوں نہ بناے قوانین ؟...کس نے روکا؟
بناؤ قانون کہ جو عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکے اس کے چہرے پر بھی ویسے ہی تیزاب پھینکا جاۓ....تب تمہیں مجرم کے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں
بناؤ قانون کہ جو عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرے اسے قتل کیا جائے ....
زنا بالجبر اور گروہ بنا کر عزت لوٹنا فساد میں آتا ہے بناؤ قانون کہ جو عورت کے ساتھ کرے اسے قتل کیا جائے گا
تم منافق تب کہتے ہو کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں
...تو بتاؤ ...عورت کے مجرم کون ہیں؟
ہاں ہاں...عورت کے مجرم تم ہو....
تم نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے جھوٹا ڈرامہ رچا رکھا ہے...تم کو اپنی عیاشی کے لیے...اپنی بدمعاشی کے لیے...اپنے بستر کی گرمی کے لیے دوسروں کی بیٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے..این کی دستیابی کے لیے تم نے عورت کی آزادی کا ڈرامہ رچایا....
اگر تم عورت کے حقوق کے علمبردار ہوتے تو سب سے پہلے "ہیرا منڈی" بند کرواتے کہ اختیار تمہارا تھا...کہ عورت کی بد ترین تذلیل وہاں ہوتی ہے..
تم ہی غیرت کے قتلوں کے اصل مجرم ہو....تم پہلے لوگوں کی بہو ، بیٹیوں کے سکینڈل آن ائر کرتے ہو...،،ڈرامے بازی کرتے ہو...ان کی کہانیاں سنسنی خیز انداز میں پیش کرتے ہو.... تم خود جھوٹی غیرت پیدا کرتے ہو....تم اشتعال دلاتے ہو......پھر جب کوئی قندیل بجھ جاتی ہے تو مگر مچھ کے آنسو بھاتے ہو....اور موم بتیاں لے کے نکل آتے ہو.........ہاں تم مجرم ہو عورت کی عزت کے اس کے وجود کے قاتل ہو...اس کی عزت کے دام بھی کھرے کرتے ہو...یہ تمہارا بزنس ہے..

................................................​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عورت براۓ فروخت ہے ... خریدیں گے ؟



کیا یہ سب عورت کے بیوپاری نہیں ؟ -

کبھی اس کی ادائیں فروخت کرتے اور کبھی اس کے ناز ، انداز و عشوے - گاہے اس کا ترنم بکتا اور کبھی اس کے سانسوں کی مہک تک کی قیمت لگتی ....
کبھی اس کے جسم پر شاعری ہوتی اور کبھی حسن کے فراز کو ہمالہ سے ملایا جاتا - اور کبھی کٹورا سی آنکھوں کو جھیل سے تشبیہ دی جاتی
پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کی عصمت کی ، اس کے جسم کی ، اور اس کے ہر ہر انگ کی قیمت لگتی ہے ، کبھی "منڈی مویشیاں " میں اک رات کے لیے بولی لگوائی جاتی -
لیکن کبھی دیکھا کہ عورت کے ناز انداز ، جسم و جان کی خریدار کوئی عورت ہو ؟ -
کبھی نہیں ملے گی ہاں مگر اس کے "بطن " سے پیدا ہونے والے مرد ہی اس کے خریدار ہوں گے - اس کو بیچنے والے ہوں گے ، اس کا مول لگائیں گے - اور پھر اس کو خرید کر کے لے جائیں گے -
کل رات ایک مجلس میں سوال رہا کہ اگر عورت اس فحاشی کا "سبب " ہے تو کیا مجرم بھی وہی ہے ؟؟
سوال کے جواب میں کتنے ہی سوالات تھے
بازار حسن کس کے دم سے آباد ہے ؟
جسم جان کے اس بازار میں گاہک کون بن کے آتا ہے ؟
قیمت کون لگاتا ہے ؟
ہوس کی تسکین کس کی ہوتی ہے ؟
بازار میں گاہک نہ ہو گا تو مال پڑا پڑا سڑ جاتا ہے ، منڈی اجڑ جاتی ہے ، دکان آگے بڑھانی پڑتی ہے - جی ہاں حضور ! مجرم مرد ہیں جنہوں نے اپنی ہوس کی تکمیل کو بازار سجائے ہوے ہیں ... اور عورت برائے فروخت کے بورڈ سجا رکھے ہیں -
کبھی بازار حسن جائیے ، وہاں ایک کردار ملے گا ، کاندھے پر مخصوص " پرنا " رکھے آپ کو منڈی میں موجود تازہ " مال " کی دستیابی کی اطلاع ہی نہ دے گا بلکہ اترتے چڑھتے " نرخ" سے بھی آگاہ کرے گا ...اسے دلال کہتے ہیں ، کوئی بھی اسے پسند نہیں کرتا لیکن اس کے لائے ہووے "مال" کو ہر کوئی اپنی "زنبیل " میں چھپانا چاہتا ہے -
معاملہ کچھ اس حد تک بگڑا کہ بازار کی حدود لا محدود ہو گئیں - دلال بیوباری بن گئے ، پورے معاشرے کو بازار سمجھ لیا - اور اب ہر عورت کو فروخت کا مال بنانے کی سعی نامشکور جاری ہے - آپ میڈیا دیکھ لیں ، آپ بازار میں نکل جائیں ، آپ اخبار اٹھا لیں ، مرد نے ہر طرف منڈی سجا لی - اس کی کوئی شے عورت کی نمائش کے بنا فروخت نہیں ہوتی ، اس کی کوئی کاروباری میٹنگ اس کے " حسین " ساتھ کے بغیر شروع نہیں ہوتی -
مرد نے عورت کی سوچ میں بہت ہولے ہولے نام نہاد آزادی کا تصور راسخ کیا ... وہ معصوم "چڑیا " اس جال میں آتی گئی - مرد نے آزادی کے تصور کے ساتھ ساتھ برابری کا نعرہ بھی اس کے منہ میں ڈالا - پھر جب معصوم فاختہ کے پر کٹ گئے ، اس کی نسوانیت بکھر گئی تو دھیرے سے جا کر اس کا ہمدرد بن کے اسے گلے سے دبوچ لیا - وہ "کملی" آزادی کو انجوائے کرتی کرتی بھت دور نکل گئی ، شام ہو گئی ، رات ڈھل گئی ، ستارے بھی ڈوب چلے اور گھر بہت دور نکل گیا ، سائبان کیا اس پناہ گاہ کا نشان بھی کھو گیا ، پناہ کہاں ملتی ، منزل کیسے آتی ؟ ... ہاں جب ہوش آیا تو آزادی تو تھی عورت مگر کہیں نہ تھی

سوال تھا کہ عورت مجرم ہے یا مرد ؟

بتائیے کون سی عورت ہے جو سر پر چادر نہیں چاہتی ؟ - کبھی اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی پوش علاقے میں نکل جائیے ، کسی جدید ہوٹل میں چلے جائیے - نیم برہنہ خواتین کے بیچ میں بیٹھ جائیے - آپ کی اہلیہ ایک دم اجنبی سی لگیں گی ...کیونکہ سر تا پا سیاہ عبایا میں ملبوس ، بظاہر ماحول خراب کرتیں ...لیکن یہ کیا کہ مرد ایک نظر ڈال کر اپنے دھیان میں مگن ...لیکن ان کے پہلو میں بیٹھی عورتیں گم سم ، مڑ مڑ کے سیاہ عبایا میں چھپی حور کو تکے جا رہی ہیں - آنکھوں میں رشک ، دکھ ، حسرت اور محض حسرت ..... میں اس منظر کا بہت بار کا شاہد ہوں - ان حسرت بھری آنکھوں کو بیسیوں بار دیکھا - کہ جہاں سے کراہیں نکل رہی ہوتی ہیں کہ کاش ہمارا ساتھی بھی ہمیں یوں ہی مستور کر کے باہر لاتا ، کاش ہم اس کے لیے ہی "خاص " ہوتیں -

یہ تو عام عورتیں رہیں ، جائیے میرا دعوی ہے کہ کبھی بازار حسن کی عورتوں کو جا کے پوچھئے کہ آپ کیا چاہتی ہیں ؟

کوئی ایک بھی نہ چاہیے کہ وہ برائے فروخت سامان کی بوری ٹہرے -
افسوس مرد کے اس معاشرے نے عورت کو براے فروخت اور ایک پراڈکٹ بنا ڈالا - اس کو بازار کی ایک جنس بنا دیا -

..............ابو بکر قدوسی

سال بھر پرانی میری یہ تحریر شائد آج بھی بھی ویسی ہی ہے کہ پھر شیر کر رہا ہوں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لو جی ! آج سے موسیقی حلال ہے .....


مادام نور جہاں زندہ ہوتیں ، مہدی حسن حیات ہوتے ، استاد بڑے غلام علی نہ مرتے تو جناب کا منہ چوم لیتے اور یقینا وفود شوق سے ضرور پوچھتے کہ
"مفتی مکرم ثواب کے درجات کیا ہیں ؟..کس راگ کا کیا ثواب ہے ؟ - اور ہاں حضور لگے ہاتھوں طبلے ، سارنگی ،اور دیگر آلات "مقدسہ " کے فضائل بھی بتا دیجیے "
موسیقی میں ایک سر ہوتا ہے شدھ سر ... اور اس کے بالمقابل ایک وکرت سر ہوتا ہے .. وکرت سر کی مثال یوں جان لیجئے کہ جیسےکوئی شعر اپنے وزن سےگرا ہوا ہو ... میں ، مگر اس کو بے سرا ہی کہوں گا ...
سو بھائیو ! آج کل کچھ بے سرے اپنی راگنی پھر سے الاپ رہے ہیں ... کہ موسیقی حلال ہے.. اور میراں ہے کہ ناچے چلی جا رہی ہے ... دلائل وہی پرانے گھسے پٹے.. لے دے کے ایک واقعہ ان کو ملتا ہے کہ جب عید پر بچیاں دف بجا رہی تھیں .. اور نغمہ سرا تھیں .. اور مخبر صادق نے ان کو ایسا کرنے دیا کہ یوم عید تھا ، خوشی کا موقعہ تھا ... تو جناب من دف بجانے کو اور اس کی آواز پر نغمہ سرائی کو حرام کون کہتا ہے .. مگر آپ تو ملکہ ترنم کی واہیاتیوں سے لے کر نصیبو لعل کی بد مذاقیوں کو بھی حلال کرنے کو تلے ہووے ہیں ...
بردار عزیز " محمد موسی " نے اپنے فیس بک پیج پر اسی موسیقی کے چند نمونے پیش کیے ہیں اور مولوی صاحب سے حرام اور حلال بارے پوچھا ہے ، موسی صاحب کی پوسٹ کے چند جملے ملاحظہ کیجیے :
...................
......... صاحب سے مودبانہ اور علمی سوال پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ کیا درج ذیل قسم کی بھی موسیقی حلال ہے ؟
مادام نصیبو اپنی مدھر آواز میں پرلطف موسیقی کے ہمراہ فرماتی ہیں
ماہی جدوں ہیلدا اے میری منجی چیکاں مار دی
قوم کو اپنا غم طربیہ انداز میں کچھ یوں عرض گوش کرتیں ہیں
دودھ پی لے وے ظالماں میں کیدوں دی کھڑی
خوبصورت موسیقی کی لے کے ساتھ مذید فرماتی ہیں
میری گلاں اتے دندیاں وڈ وڈ کے منڈا مہر عشق دی لاوے
مفتیء وقت سے عاجزانہ گذارش ہے کہ موسیقی کی اس ادبی قسم کو سننے والے عاصیوں کے لیے خصوصی بشارت کا اعلان کیا جائے....(محمد موسی )
....................
ایک بار ایک صاحب جو چہرے کے پردے کے خلاف تھے کہنے لگے کہ بوڑھی اور ضعیف عورتوں پر پردہ ساقط ہو جاتا ہے میں نے عرض کیا کہ چہرے کے پردے کے تو آپ پہلے سے قائل نہیں تو یہ جو ساقط ہوا ہے وہ کیا ہے ؟؟ اورجو اترے گا وہ کون سا لباس ہو گا ؟؟؟
.. محترم دف کی دلیل کو تو آپ موسیقی کی حلت پر قیاس کرتے ہیں اور تمام تر موسیقی کو حلال کر لیتے ہیں ..تو جو احادیث اس کے حرام ہونے کی ہیں .. وہ کس موسیقی کے بارے میں ہیں؟ .. کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ "گجروں" والی ساری موسیقی حرام ہے .. مگر نصرت فتح علی خان والی حلال ہے .. حضور وہی تو سماع ہے نا جو صوفیا میں مروج تھا..؟ ...کس کو حد فاصل قرار دیں گے؟...
اور کس دلیل سے ان میں تخصیص کریں گے کہ ہاں جی یہ حرام ہے اور یہ حلال .....
یا پھر آپ یوں کیجئے کہ حرمت والی احادیث کا سرے سے انکار کیجئے اور جان بچائیے .. رہا تھک دنا دن تھک .. سرمحفل آپ ناچیے ، گائیے ... بلکہ پاؤں میں گنگھرو باندھیے ... حرام سہی کچھ دیر کو تو ہم بھی آ ہی جائیں گے ... کہ چلو آج میراں " بقلم خود" پگ میں باندھے گنگھرو ناچ رہی ہے ، داد ہی سہی ، تماشا ہی سہی ...
ہاں مگر اس وقت بارے مبشر کامل کہہ چکے ...
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ليكونن من أمتي أقوام يستحلون الحر والحرير والخمر والمعازف .. " ............ رواه البخاري ...السلسلة الصحيحة للألباني
" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقى حلال كر لينگے،
..........ابوبکرقدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اور ہاں یہ بھی سنو ! میں تنگ نظر ہوں


.................................................

جی ہاں میرا ایک ہی بیٹا ہے ....مسیّب قدوسی ...مجھ کو اس سے بہت محبت بھی ہے اور ہماری بہت زیادہ دوستی بھی ..ابھی گزرے روز اسلام آباد سے گھر واپس آیا ، راستے میں گاڑی خراب ہو گئی ، اس کی ماں کی جان حلق میں اٹکی رہی کہ بارہ گھنٹے سرراہ کھڑا رہا - ... میں بھی مضطرب ..........

اتنی محبت آپ کو بھی ہوتی ہے نا اپنی اولاد سے ؟ ... بیٹے قوت ہوتے ہیں ، بندے کا غرور ہوتے ہیں ، مان ہوتے ہیں ، اور کبھی اخلاق عالیہ کا مظہر ہوں تو بندے کی پہچان ہوتے ہیں .... ہوتے ہیں نا ؟

... اور ہاں سنیے ! ماں باپ یہودی ہوں ،عیسائی ہوں ، ملحد یا ہندو... جو بھی ہوں اگر کبھی مصیبت آ جائے ، کوئی طوفان ،کوئی موذی بلا ، کوئی ہنگام کہ جان لینے کو آ جائے ..کیا کرتے ہیں ؟.. یہی نا اپنی جان پر لے لیتے ہیں اور اپنے اپنے " مسیّب " کو بچاتے ہیں .. جی ہاں ہم مسلمان بھی آپ سے ہی جذباتی ہیں ، آپ جیسے ہی محبت کرنے والے ماں باپ ہیں - بپھرے سمندر میں ایک تختہ بچے ، جہاز ڈوب چلے تو ہم اس تختے کو اپنے اپنے " مسیّب " کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ....
اور
ایک آخری مسکراہٹ، ایک محبت بھرا بوسہ ، آنکھوں میں اتری نمی چھپا کے ... خود آرام سے ڈوب جاتے ہیں اور تختے کی جائے پناہ اپنے بیٹے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں .. ہاں ہم مسلمانوں کو بھی اپنی اولاد سے آپ سا ہی پیار ہے ......ہاں ہم بھی جیسے ہی ہیں -

آج بہت تکرار سے سمجھا رہا ہوں ؟-

حیران نہ ہوں ... آپ کی "جہالت " نے مجبور کر کے رکھ دیا -

.... واللہ ! اگر میرے نبی پاک کی شان ، آپ کی حرمت کی حفاظت میں اس کی جان چلی جایے ، اور میں اس کو کبھی نہ دیکھ سکوں ... تو یہ کوئی مہنگا سودا نہ ہو گا ....ہاں میں اس کو رو تو لوں لیکن اگر کبھی میرے نبی کی جوتی پر گرد لگی ہو اور کوئی آ کے مذاق میں کہے کہ "وہ دیکھوں تمہارے نبی کی جوتی پر مٹی پر ہے "

.. مجھے پسند ہو گا کہ میرے بیٹے کے لہو سے وہ گرد صاف ہو جائے اور کوئی اس جوتے کو بھی گدلا نہ بول سکے -

.....اور ہاں سنو ! میں تنگ نظر ہوں .. ہاں اپنے نبی کی ذات کے معاملے میں بہت تنگ نظر ہوں اور مجھے اس تنگ نظری پر کوئی افسوس نہیں ،کوئی پشیمانی نہیں نہ کوئی شرمندگی - جس نبی کی ختم نبوت کے تحفظ کے واسطے ہمارے سفید داڑھیوں والے بزرگوں نے اپنے لہو سے شاہراہیں گلرنگ کیں .. ان کی ذات عالی پر ، اگر کوئی دشنام کرے گا ، طنز کا تیر چلائے گا ... تو واللہ ہم بہت تنگ نظر ہوں گے .. ہاں جس نبی کی ذات کی حرمت کے واسطے ہمارے سفید ریش بزرگوں خود کو کٹوا لیا اس پر ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے -

...... ہماری ذات پر ہزار اعتراض کر لو ، ہمیں برا کہہ لو ، جاؤ ہمیں دشنام کر لو ، ہم سر جھکا کے سن لیں گے ، خاموش رہ لیں گے ، ہونٹ سی لیں گی کوئی شکایت لب پر نہ آنے دیں گے لیکن ان کی ذات اقدس و مقدس پر کوئی اگر سوال اٹھائے گا تو واللہ ہم بہت تنگ نظر ہیں -

.....مغرب کے بد تہذیب اور یہاں کے ان کے مقامی چاکر ....اگر اس حقیقت کو اور ، اس جذبے کو جان سکیں کہ آپ کی ذات پر ہماری اولادیں بھی قربان ،.... ان کی ذہنی جہالت کبھی ان کو سوچنے اجازت دے ، تو ان کو معلوم پڑے ...کہ ہمارا ایمان ہم کو کیا سکھاتا ہے ..،ہماری تربیت ہی یہ ہے ...کہ ہمارے رسول کی ذات تو بہت بلند ہے ... اگر کوئی یہ بھی کہے بقول اقبال کہ

" تمہارے نبی نے قمیض میلی پہنی ہوئی تھی".... تو ہمارے لیے نا قابل برداشت ہے ......ہاں ہم اس معاملے میں تنگ نظر ہیں ...اور ہم کو اس پر کوئی شرمندگی نہیں

....ابوبکر قدوسی

......صلی اللہ علیہ وسلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تحفہ الاحوذی کیسے چھپی ؟
جذبوں کی زبان کہاں ہوتی ہے - اس کے تو آنسوں ہوتے ہیں ،اور یہ گہرا سمندر سب کہانی سنا دیتا ہے ..
جی ہاں تحفتہ الحوذی شرح جامع الترمذی لکھی جا چکی تھی حدیث کی عظیم الشان کتاب کی عالی مرتبت شرح مکمل ہو چکی تھی - شب و روز کی محنتیں کنارے لگ چکیں ، راتوں کا "جگ راتا " کاغذ و قرطاس پر اتر آیا ، جیسے کالی شب ہجر میں ایک دم کوئی ستارہ کسی بادل کی اوٹ سے نکل آئے اور رات کی تنہائی کا احساس ختم ہو جائے -
اب مولانا کو اس کو چھپوانے کی فکر دامن گیر تھی - اسی سوچ و بچار میں دن گذر رہے تھے کہ ایک روز اپنے کلکتے والے مریدوں کا خیال آیا -- جہاں روپے کی فراوانی تھی ، مسودہ اٹھایا اور کلکتے کو چل دیے -
تجار کے پاس پہنچے - ان کو اپنی آمد کی غرض بتائی ، اور ساتھ ہی اپنا مسودہ دکھایا - لیکن تاجر اگر ان کتابوں اور کاغذوں سے ایسا ہی شغف رکھتے ہوتے تو بھلا کاروبار ہی کرتے ؟- سو اپنی مجبوریوں کا اور کاروبار کے "مستقل " مندے کا رونا رو دیا - مولانا پر مایوسی کا عالم تھا -
اسی کیفیت میں اپنے ہی بنا کردہ مدرسے سراج العلوم پہنچے - مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے سراج العلوم کے نام سے دو مدرسے قائم کیے تھے ایک جھنڈا نگر میں دوسرا بونڈیہار بلرام پور ، اتر پردیش میں - مولانا بونڈیہار تشریف لائے -چہرے پر کچھ مایوسی کے بادل ، یہاں کے لوگوں کو مولانا کی دل شکستگی کی خبر ہوئی تو خود بھی پریشان سے ہو گئے -
باہم مشورہ کیا ، ایک مٹی کا مٹکا لایا گیا ، اس میں سب نے روپے ڈالنے شروع کر دیے - تب کاغذی کرنسی نہ ہوتی تھی ، دھاتی سکے ہوتے ، اور اتنی قدر رکھتے تھے کہ آسانی سی بسر ہو جاتی - سو روپے آتے گئے مٹکا بھرتا گیا -
سب بستی والوں نے مل کر کے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور مٹکا بھر گیا - متاع دل و جان لیے مولانا کی خدمات میں حاضر ہووے -
آنکھوں سے اشک رواں ، محبت کے ، عقیدت کے جذبات سے بوجھل لب تھرتھرا رہے ہیں :
"مولانا ہم کلکتے کے امیر تو نہیں ، ہاں ہم بونڈیہار کے غریب ہیں ، لیکن جو حاضر تھا لیے چلے آئے ہیں آپ اس روپے سے کتاب کی چھپائی کا آغاز کیجئے ، جب ختم ہو جائے گا ، اطلاع کیجئے گا ، مٹکا پھر بھر جائے گا "-
جذبوں کی زبان نہیں ہوتی ، اس کے تو آنسو ہوتے ہیں ، یہ گہرا سمندر سب کہانی سنا دیتا ہے الفاظ کی حاجت تو ہم ناکاروں کو ہوتی ہے - آج بونڈیہار کے اس روپے بھرے مٹکے کا ہر مسلمان مقروض ہے - تحفہ الاحوذی کے کتنے ہی ایڈیشن عالم عرب و عجم میں شائع ہو چکے - جن کی تعداد بلا مبالغہ دسیوں ہزار رہی ہو گی -
کیا کوئی جانتا تھا کہ بونڈیہار کے ان غریب اور متوسط لوگوں کے اس مٹکے میں اللہ نے ایسی برکت رکھ دینی ہے ؟..........ابوبکر قدوسی
** تحفتہ الاحوذی ، جامع ترمذی کی سب سے جامع اور عمدہ شرح ہے ..جو مولانا عبد الرحمان مبارک پوری رحمہ اللہ علیہ نے لکھی اور خود ہی شائع کروائی ..اب یہ کتاب بیروت (لبنان ) ، مصر اور پاکستان کے کتنے ہی اداروں نے شائع کی ہے اور مسلسل کر رہے ہیں.
*** اوپر بیان کردہ واقعہ عارف جاوید محمدی صاحب نے مولانا سلیمان میرٹھی کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا جو اپنے والد معروف خطیب مولانا محمد حسین میرٹھی رحمہ اللہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تحفہ الاحوذی کیسے چھپی ؟
جذبوں کی زبان کہاں ہوتی ہے - اس کے تو آنسوں ہوتے ہیں ،اور یہ گہرا سمندر سب کہانی سنا دیتا ہے ..
جی ہاں تحفتہ الحوذی شرح جامع الترمذی لکھی جا چکی تھی حدیث کی عظیم الشان کتاب کی عالی مرتبت شرح مکمل ہو چکی تھی - شب و روز کی محنتیں کنارے لگ چکیں ، راتوں کا "جگ راتا " کاغذ و قرطاس پر اتر آیا ، جیسے کالی شب ہجر میں ایک دم کوئی ستارہ کسی بادل کی اوٹ سے نکل آئے اور رات کی تنہائی کا احساس ختم ہو جائے -
اب مولانا کو اس کو چھپوانے کی فکر دامن گیر تھی - اسی سوچ و بچار میں دن گذر رہے تھے کہ ایک روز اپنے کلکتے والے مریدوں کا خیال آیا -- جہاں روپے کی فراوانی تھی ، مسودہ اٹھایا اور کلکتے کو چل دیے -
تجار کے پاس پہنچے - ان کو اپنی آمد کی غرض بتائی ، اور ساتھ ہی اپنا مسودہ دکھایا - لیکن تاجر اگر ان کتابوں اور کاغذوں سے ایسا ہی شغف رکھتے ہوتے تو بھلا کاروبار ہی کرتے ؟- سو اپنی مجبوریوں کا اور کاروبار کے "مستقل " مندے کا رونا رو دیا - مولانا پر مایوسی کا عالم تھا -
اسی کیفیت میں اپنے ہی بنا کردہ مدرسے سراج العلوم پہنچے - مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے سراج العلوم کے نام سے دو مدرسے قائم کیے تھے ایک جھنڈا نگر میں دوسرا بونڈیہار بلرام پور ، اتر پردیش میں - مولانا بونڈیہار تشریف لائے -چہرے پر کچھ مایوسی کے بادل ، یہاں کے لوگوں کو مولانا کی دل شکستگی کی خبر ہوئی تو خود بھی پریشان سے ہو گئے -
باہم مشورہ کیا ، ایک مٹی کا مٹکا لایا گیا ، اس میں سب نے روپے ڈالنے شروع کر دیے - تب کاغذی کرنسی نہ ہوتی تھی ، دھاتی سکے ہوتے ، اور اتنی قدر رکھتے تھے کہ آسانی سی بسر ہو جاتی - سو روپے آتے گئے مٹکا بھرتا گیا -
سب بستی والوں نے مل کر کے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور مٹکا بھر گیا - متاع دل و جان لیے مولانا کی خدمات میں حاضر ہووے -
آنکھوں سے اشک رواں ، محبت کے ، عقیدت کے جذبات سے بوجھل لب تھرتھرا رہے ہیں :
"مولانا ہم کلکتے کے امیر تو نہیں ، ہاں ہم بونڈیہار کے غریب ہیں ، لیکن جو حاضر تھا لیے چلے آئے ہیں آپ اس روپے سے کتاب کی چھپائی کا آغاز کیجئے ، جب ختم ہو جائے گا ، اطلاع کیجئے گا ، مٹکا پھر بھر جائے گا "-
جذبوں کی زبان نہیں ہوتی ، اس کے تو آنسو ہوتے ہیں ، یہ گہرا سمندر سب کہانی سنا دیتا ہے الفاظ کی حاجت تو ہم ناکاروں کو ہوتی ہے - آج بونڈیہار کے اس روپے بھرے مٹکے کا ہر مسلمان مقروض ہے - تحفہ الاحوذی کے کتنے ہی ایڈیشن عالم عرب و عجم میں شائع ہو چکے - جن کی تعداد بلا مبالغہ دسیوں ہزار رہی ہو گی -
کیا کوئی جانتا تھا کہ بونڈیہار کے ان غریب اور متوسط لوگوں کے اس مٹکے میں اللہ نے ایسی برکت رکھ دینی ہے ؟..........ابوبکر قدوسی
** تحفتہ الاحوذی ، جامع ترمذی کی سب سے جامع اور عمدہ شرح ہے ..جو مولانا عبد الرحمان مبارک پوری رحمہ اللہ علیہ نے لکھی اور خود ہی شائع کروائی ..اب یہ کتاب بیروت (لبنان ) ، مصر اور پاکستان کے کتنے ہی اداروں نے شائع کی ہے اور مسلسل کر رہے ہیں.
*** اوپر بیان کردہ واقعہ عارف جاوید محمدی صاحب نے مولانا سلیمان میرٹھی کے حوالے سے مجھ سے بیان کیا جو اپنے والد معروف خطیب مولانا محمد حسین میرٹھی رحمہ اللہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں۔
اسحاق بھٹی صاحب کی کسی کتاب میں پڑھا ہے کہ تحفۃ الاحوذی کی خطاطی کرنے والے مولانا اسماعیل سلفی صاحب کے والد گرامی ( نام غالبا ابراہیم ہے ) تھے ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حکمران کا انتخاب کیسے کریں


اسلام نے اپنے نظام سیاسی میں بنیادی اصول اور ضابطے اس حد تک طے کر دئیے کہ جزیات تک زیر بحث آ گئیں ...انداز حکمرانی ہو یا نظام عدل ، حالت جنگ میں انسانی حقوق ، جنگ کے ضوابط ہوں یا امن کے دنوں میں مملکت کے معاملات چلانے کے طریق ...بچوں کی تربیت سے لے کر خواتین اور غلاموں کے حقوق حتی کہ راستوں کے جمادات اور نباتات تک کے حقوق ....
آپ کو قران و حدیث کے عظیم الشان ذخیرے میں کوئی پہلو تشنہ دکھائی نہیں دے گا- ..صرف ایک مثال دیتا ہوں ..جنگ کا میدان سجا ہوا ہے رسول مکرم اپنی تلوار اٹھاتے ہیں اور داد شجاعت کے طلب گار بن کے امیدواری کا سوال کرتے ہیں کہ کون ان کی تلوار لے کر اس کا حق ادا کرے گا ..رسول کریم کے چچا سمیت امیدوار نگاہوں سے صحابہ آگے بڑھتے ہیں ..آپ ایک صحابی کو تلوار دیتے ہیں ، جو داد شجاعت دیتے دشمن کی صفوں کو چیرتے عقب تک جا پہنچتے ہیں .. دیکھتے ہیں کہ ایک بلند قامت سیاہ پوش لشکر کے سواروں کا حوصلہ بڑھانے کو رجزیہ اشعار اور حوصلہ مندی کی باتیں کر کے انگیخت کر رہا - صحابی چشم زدن میں اس کے سر پر جا پہنچتے ہیں ..تلوار جو بلند کی تو اندازہ ہو گیا کہ خاتون ہے کہ جو سیاہ لباس پہنے میدان میں پہنچی ہوئی ہے ...پہچان بھی گۓ کہ (سیدہ ) ہندہ تھیں ...قبل از اسلام ...
تلوار کو روک لیا کہ ہادی و مرشد نے عورتوں کو قتل کرنے سے روکا تھا ......
مثال کا مقصود یہ تھا کہ نظام حیات کی اس قدر جزیات طے کر دینے والا دین نظام حکمرانی کے اہم ترین جزو بارے خاموش ہے ... یعنی حکم ران کا چناؤ کیسے کیا جائے گا ؟ ----

خلفائے راشدین( سب ) کے چناؤ کا طریقہ مختلف تھا - سیدنا ابو بکر کو مختصر لیکن تلخ اختلاف رائے کے بعد چنا گیا اور جب چن لیا گیا تو ان پر اتفاق بھی کر لیا گیا اور ان کی سب نے بیعت بھی کر لی - لیکن اس بیعت سے پہلے جو لوگ سیدنا علی کو خلافت کا حق دار سمجھتے تھے ان کے پاس دلیل قرابت داری اور بنی ہاشم کا ہونا تھا ، اب رک کے ذرا سوچیے کہ جناب علی کے حامی بھی صحابہ رسول تھے اور ان کا فہم خاندانی اور نسبی بنیاد پر جانشینی کو غلط نہیں سمجھتا تھا .... جب کہ انصار کا موقف تھا کہ وہ مدینے کی زمینوں کے مالک ، اسلام اور پغمبر اسلام کے میزبان اور رکھوالے ہیں سو خلافت ان کا حق ہے .. مہاجرین کا موقف اپنی قربانیوں کی داستان لیے ہووے تھا اور ان میں بلا شبہ برگزیدہ ترین شخصیت سیدنا ابوبکر ہی تھے ...

قصہ مختصر اختلاف کے بعد سب کا اتفاق سیدنا ابو بکر پر ہو گیا ...لیکن یہ اختلاف رائے ظاہر کرتا ہے کہ حکمران کے چناؤ کا کوئی طریقہ واضح نہ تھا جو اختلاف ہوا ---

سیدنا عمر کا انتخاب سابقہ خلیفہ کی ذاتی صوابدید ، اور براہ راست نام زدگی کے ذریعے ہوا...یہ پچھلے انتخاب سے یک سر مختلف تھا

جب سیدنا عمر زخمی ہو کے جان بلب ہو گئے تو انہوں نے چھ رکنی کمیٹی بنائی اور کہا خود میں سے کسی کو منتخب کر لو .... چار اصحاب اپنے حق سے دست بردار ہو گئے ....میدان میں جناب عثمان اور سیدنا علی رہ گئے ..اب معاملہ سیدنا عبد الرحمان بن عوف کے سپرد کیا گیا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کریں ..... اب رک کے دیکھئے کہ کیا انہوں نے اپنی رائے اور مرضی سے فیصلہ کیا ؟.... وہ مدینے کے بازاروں میں نکل گئے ، نخلستانوں کا رخ کیا ، پردہ دار بیبیوں کی طرف گئے ...کہتے ہیں :
"میں نے سب سے پوچھا خلیفہ کس کو چاہتے ہو ؟...اکثریت نے عثمان کی طلب کی ".... سو فیصلہ سیدنا عثمان کے حق میں آ گیا ... کیا اس طریقے کو ہم ایک چھوٹا موٹا انتخاب کہہ سکتے ہیں ؟..

تین خلفاء تینوں کا طریقہ انتخاب فرق ..اس سے کیا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ اسلام نے حکمرانوں کا چناؤ عوام کی ذاتی صوابدید پر رکھ چھوڑا ہے ..کہ وہ جیسے چاہیں اپنا حکمران منتخب کر لیں ....

لیکن حکمران منتخب ہونے بعد اسلام کے ان ان ضوابط کا پابند ہو گا ....اسلام کے قانون کو نافذ کرے گا ..دین کی اقدار کی حفاظت کرے گے ...اور عوام بھی اس کی اطاعت کریں گے ..بھلے وہ کسی طریقے سے منتخب ہوا ہو گا ......

اب میں سوچ رہا ہوں کہ اگر جمہوری طریقے سے کوئی اپنا حکمران منتخب کر لیتا ہے تو اس میں اسلام کے کس حکم کی خلاف ورزی ہے ؟؟؟؟
...

ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
پنجابی کی تو "پھوک" نکل چکی ....اب اردو کی باری ہے

..
اگلے روز میں دوا خانے پر دوا لینے کو رکا..تو ایک عمر رسیدہ پنجابی خاتوں وہاں اپنا "فشار خون " جس کو آپ آج کل بلڈ بریشر بولتے ہیں ، چیک کروانے کو کھڑی تھیں ...اب اماں بی کچھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں " زائد از ضرورت " گفتگو کر رہی تھیں ..اسی دوران دکان دار نے فشار خون جانچنے والا آلہ ( بی پی آپریٹس ) ان کے بازو پر باندھا..اور مشین چلا دی اور ہوا بھرنے لگی ..
منتظر خاتون بولیں :
" اس میں جو " پھوک " بھری جا رہی ہے خود ہی نکل جائے گی؟؟"
مسکراہٹ میرے لبوں پر تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم نے اپنی زبان کی خود ہی "پھوک" نکال دی ہے .. ہوا یوں کہ جب پاکستان بنا تو ہم نے پنجابی کا " جوا " اپنے گلے سے یوں اتار کے پھینکا کہ جیسے کوئی بلائے ناگہانی تھی ، جو ہم کو چمٹ گئی تھی -
ہمارے دفتروں سے ، گلی محلوں سے ، مجلسوں سے پنجابی کو دیس نکالا تو ملا سو ملا ، ہمارے گھروں میں بھی اپنی ہی اس ماں بولی کے ساتھ سوتیلی اولاد سا سلوک ہونے لگا - وہ یوں کہ ان پڑھ میاں بیوی بھی آپس میں لڑنے کے لیے اور بات کرنے کے لیے پنجابی بولتے مگر بچے سے جو بھی بات کرنی ہوتی اس کے لیے اردو بولی جاتی - وہ الگ بات ہے کہ دن بھر محبت پیار سے بات کرنے کو اردو زبان کو اختیار کرنے والے یہ میاں بیوی لڑائی کے وقت پنجابی کی کمک حاصل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں -لیکن باہمی گفتگو کے لیے پنجابی متروک ہونے لگی ..
رفتہ رفتہ شہروں سے یہ وبا دیہاتوں میں جا پہنچی ..اور پنجابی اپنے ہی دیس میں اجنبی ہوتی چلی گئی ، اب دیہاتوں میں میں نے اپنے عزیزوں کے ہاں یہ منظر عام دیکھا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے اردو میں بات کرتے ہیں وہ الگ بات کہ وہ اردو پنجابی کی کڑاہی میں تلی ہوتی ہے -
ایک اور دل چسپ امر ہے کہ بنجابی کی اس لٹتی آبرو کو بچانے کے لیے وہ لوگ آگے آئے کہ جن کے اپنے گھروں میں اردو بھی "اجنبی مخلوق" ہے ..جن کے بچے منہ ٹیڑھا کر کے "انگریجی" بولنے کو پسند کرتے ہیں ، لیکن "بزنس " کا معاملہ تھا ...جھٹ ایک سے بڑھ کے ایک این جی او بنتی چلی گئی اور کھانے پینے کا سلسلہ چل نکلا --- سو بنجابی تو کیا بچتی ان کی اپنی خوب موج لگی .. ہندوستانی پجاب کے دورے ، .کانفرنسیں اور نہ جانے کیا الا بلا ...اچھا اب آپ اس " الا بلا " کی تفصیل میں نہ جائیں ، ویسے کچھ معتبر اور واقفان حال سے سنا ہے کہ پنجابی کے یہ پرچارک ہم سایہ ملک جاتے ہی "پنجابی " کے گلے پڑ جاتے ہیں ..ساری پنجابی کو ایک بوتل میں انڈھیل کے پھر ندیدے پین سے برف اور سوڈے کا انتظار کیے بنا غٹاغٹ پی جاتے ہیں -
....سو دوستوں ! پنجاب میں پنجابی کی " پھوک" تومدت ہوئی نکل چکی..اب تو اردو کو بچانے کا مرحلہ ہے اردو بے چاری کا بھی حال پتلا ہی ہے آج ہی اپنے کسی بچے کو پوچھئے "اڑسٹھ " کیا ہوتا ہے ؟ اس کو پتہ نہیں چلے گا ..آپ پھر اسے بتائیں گے کہ "سکسٹی ایٹ " .... تو اسے فورآ سمجھ آ جایے گی آج ہی آزما لیجئے .....

ابو بکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یقینا بسنت منانا بہت ضروری ہے :


16602804_1366266170099370_5938328718759556862_n.jpg
.
کیوں نہ ہو آخر ثقافت کی بقا مطلوب ہے ، کہ جو دم توڑتی جا رہی ہے - کبھی رہا ہو گا موسمی تہوار لیکن ہم نے تو دیکھا کہ اس تہوار نے ہمیشہ جانیں لیں - معصوم بچے ذبح کیے ماؤں کی گود اجاڑی -

یہ ١٩٨٦ کا سن تھا ، میں کالج سے پڑھ کے اپنے والد محترم کی دکان مکتبہ قدوسیہ آیا ..وہاں ایک صاحب گورے چٹے سیاہ داڑھی والے بیٹھے تھے اور اپنا قصہ سنا رہے تھے - ان کے چہرے پر زخم کا نشان جو بھرنے کو تھا ، اور ہاتھ پر بھی گہرے کٹاو کا مندمل ہوتا زخم ...بتا رہے تھے کہ اگلے روز موٹر سائکل پر سوار جا رہے تھے کہ ظالم ڈور نے آ لیا ...جان بچی لیکن شدید زخم آئے .. بعد میں معلوم ہوا کہ یہ عبد الرشید قمر تھے جو پاکستان کے معروف خطاط ہیں ....-

پھر سولہ برس پہلے میں اس جنازے میں تھا ، میں ان دنوں کچھ عرصے کو سمن آباد میں اسلامیہ پارک کے جوار میں رہائش پذیر تھا .ہمارے ہمسائے انجینیر اشفاق صاحب تھے .. متدین نمازی با شرع .. بیٹے کے ساتھ موٹر سائکل پر جا رہے تھے .. بیٹا پیچھے بیٹھا تھا ، ڈور آئی اور باپ کو چھوڑتی ہوئی پیچھے بیٹھے بیٹھے کو تاک لیا اور گلے کو کاٹتی چلی گئی ... سامنے سے آتی تو ممکن تھا باپ فوری سواری کو روک لیتا ..لیکن قیامت اب کے سامنے سے نہیں پیچھے سے آئی ...فوری معلوم ہی نہ پڑا کہ کیا گزر گئی ... موٹر سائکل روکی تو شہ رگ کٹ چکی تھی .... باپ بیٹا کو اٹھا کے ہسپتال بھاگا ....لیکن بیٹا تو جا چکا تھا اور گئے لوگ بھی بھلا واپس آتے ہیں - آٹھ نو برس کا سرخ سپید بیٹا لاش کی صورت باپ کے ساتھ گھر آ گیا .. میانی صاحب قبرستان کی جناز گاہ میں باپ نے خود جنازہ پڑھایا ..کمال ضبط کہ جو دین سے گہری وابستگی کی خبر دے رہا تھا ..لیکن باپ تھا ، کیسا بھی ضبط ہو درد سے تو چھٹکارا نہیں .... میں آج تک اس جنازے کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکا .. باپ کی آواز میں ایسا درد تھا ، ایسا سوز ، اتنی تڑپ کہ میں کئی روز تک بے چین رہا اور اپنی اہلیہ سے اس کا تذکرہ کرتا رہا -

پھر انہی دنوں کا ایک اور قصہ سناتا ہوں ...ہم بھول جاتے ہیں نا ، ہماری یادداشت بہت کمزور ہے ..یہ نعمت ہی تو ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں اور جو بھولتے نہیں وہ میری طرح رات رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں ، اپنی جان کو جلاتے رهتے ہیں ...وہ اپنے باپ کا اکیلا بیٹا تھا اور ایک ہی بیٹی ...انجیبرنگ یونی ورسٹی لاہور میں گزیٹڈ آفیسر باپ .... زندگی اچھی گزر رہی تھی ، امیدیں جوان ہو رہی تھیں - دو ہی بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی - دونوں بچے اب جوان ہو چلے تھے پڑھ لکھ رہے ، ماں باپ کی آنکھوں میں امید کے دیپ زیادہ ہی روشن تھے کہ منزل اب قریب تھی ....بیٹی کا امتحان تھا ، بھائی اسے لے کر کر جا رہا تھا ..لاہور سٹیشن سے ذرا آگے ریلوے پل ہے جسے گڑھی شاہو کا پل کہتے ہیں .... وہاں ڈور آئی اور نوجوان کا گلا کاٹ گئی ... موٹر سائکل گری تو پیچھے سے ٹرک چڑھا آ رہا تھا ...دونوں بچے کچلے گئے اور جان کی بازی ہار گئے .... عمر بھر کی کمائی برسوں میں ختم ہو گئی ..اور ہاں ایک اور بات بھی بتا دوں جو اخبار میں نہ آ سکی ... کیونکہ واقعہ پرانا ہو چلا تھا خبر آ کے گذر گئی تھی ....مجھے ایک واقف حال نے برسوں بعد بتایا کہ وہ باپ پاگل ہو گیا تھا ....
لیکن اس کے باوجود میں کہوں گا کہ بسنت منانا بہت ضروری ہے .. وہ اس لیے کہ :

ہمیں اپنی ثقافت بھی تو بچانی ہے جو ساری کی ساری اس موئی بسنت میں سمٹ آئی ہے ..اور بسنت کی رات کوٹھوں پر ہونے والے مجروں میں اس کا اظہار ہوتا ہے ..جب جام الٹائے جاتے ہیں شراب لنڈھائی جاتی ہے - جی ہاں یہی تو ہماری ثقافت ہے اگر کسی کو مجھ سے اختلاف ہے تو مجھے بتائے کیا یہ چار کام اب بسنت کا مستقل حصہ نہیں ...؟ -
  • کیا طوائفوں اور گرل فرینڈز کے بنا بسنت کا تصور ہے ؟
  • کیا شراب کے بغیر اسے ادھورا تصور نہیں کیا جاتا ؟
  • کیا کان پھاڑنے والے انڈین اور لچر پنجابی گانوں کے بغیر یہ پھیکی نہیں جانی جاتی ؟
  • کیا لاہور کے ہوٹل اس روز زنا کے اڈوں اور طوائف کے کوٹھوں میں نہیں بدل جاتے ؟-

...اور جو "عقل کے کورے " اور دانش کے "بزرجمہر " اس کے لیے تاریخ سے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے "دلائل " لاتے ہیں کہ اس کا ہندو ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ..بھلے نہ ہو یہ ہندوں کا چھوڑ مسلمانوں کا ہی تہوار رہا ہو لیکن کیا اس قتل و غارت گری کو ثقافت کہا جا سکتا ہے ؟ ...

اور میں ان سے بھی ایک سوال پوچھتا ہوں جو مغرب کے زرخرید "دانش ور " ہیں کہ مغرب میں شخصی آزادی کا یہ تصور ہے کہ اگر کوئی اپنے بیڈ روم میں بھی اونچی آواز میں میوزک لگائے اور ہمسایہ بے آرام ہو تو وہ پولیس کو بلا سکتا ہے لیکن اس بسنت میں چھتوں پر اس قدر بلند آواز میں میوزک لگایا جاتا ہے ..کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟ -

ایک جھوٹ جو مسلسل بولا جاتا ہے کہ جب سے دھاتی ڈور آئی تب سے یہ ہلاکتیں شروع ہوئیں ... میرا سوال ہے کہ جو چھت سے گر گے مرتے ہیں ، جو پتنگ لوٹتے گاڑیوں کی زد میں آ کی جان ہارتے ہیں اور جو شراب کے نشے میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی اندھی گولیوں سے مارے جاتے ہیں وہ کیا ہووے ؟--

آپ تیس برس، چالیس برس پرانے اخبارات اٹھا کے دیکھ لیجئے - بسنت سے اگلے روز سے اخبارات ان خبروں سے بھرے ہووے ہوں گے .. اصل میں ہوا یوں کہ قتل و غارت گری حد سے بڑھ گئی ، دھاتی ڈور نے اس میں نمایاں اضافہ کر دیا تو "جرم " کو ثقافت کے چھپانا ممکن نہ رہا ..اور ظاہر ہے کثافت کب تک ثقافت کے پردے میں چھپائی جا سکتی ہے ؟-

اس کے حامیوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس معاشرے میں بے حیائی کیسے پھیلانی ہے ، اس کی اخلاقی اقدار کو کیسے تباہ کرنا ہے ؟ سو ان کی حمایت بھی اسی ایجنڈے کے پیش نظر ہے .......یہ طبقہ اتنا ظالم ہے کہ اپنی تفریح کے لیے دوسروں کے گلے کٹنے پر بھی ان کے دلائل یہ ہوتے ہیں ..

ایک بسنتی وزیر کا بیان اخبارات میں چھپا تھا کہ :

"اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ، ڈکیتیوں ، ٹریفک حادثات اور خود کشیوں میں ہوتی ہیں ، ا س پر کوئی نہیں بولتا۔" (نوائے وقت)

یہ ہیں خیالات اور سطحی پن ہمارے ان "انسان دوست ثقافتیوں " کا ......

...ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کچی شراب سے پکی شراب تک –


ابوبکر قدوسی

گداگر کی بات نہ کیجیے کہ ہر چوک میں ہاتھ پھیلا کے اپنی عزت نفس کو کب کے کچل چکے، لیکن بہت سے ایسے لوگ تھے کہ جو تنگی حالات کے ہاتھوں مارے گئے. کسی کا کاروبار تباہ ہوا، کسی کی ملازمت ختم ہوئی. تعلیم، ہنر، فن اور کاریگری سب مقدر کی نذر ہوئے. عزت نفس لیکن ہر ہر قدم پر ہاتھ پھیلانے سے روکتی رہی لیکن تا بکے ؟ اک روز بچوں کا بلکنا نہ دیکھا گیا.. بہت مجبور ہو کر، جی ہاں! بہت ہی مجبور کہ مسجد کو جا نکلا .. کبھی مسجد میں نماز کے لیے شاذ ہی آنا ہوتا تھا، اگر کبھی قسمت کے ”مارے“ آ بھی گئے تو نکلتے دم تک مولویوں کو برا بھلا ہی کہتے باہر نکلے، لیکن اسی مولوی نے بہت محبت سے ان کی تنگی حالات کا اعلان کیا .. بہت نہ بھی ہوا تو اتنا تو ہو ہی گیا کہ ہفتہ بھر کا راشن گھر میں آ گیا..

جی یہ ایک مسجد کا قصہ نہیں، ہر مسجد میں ہر نماز کے بعد کا منظر ہوتا ہے، کوئی حق دار ہے یا نہیں، ضرورت مند ہے یا پیشہ ور، کسی کو اس بات سے غرض نہیں، پھیلے ہاتھ اور جھولی بھر دی جاتی ہے. اور آپ لبرل جلاپے کا شکار اس طرح کی پوسٹیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں کہ ”غریب بھوکا مرگیا، پیسہ مسجد میں لگ گیا.“

میرا سوال ہے کہ انسانی حقوق کے محافظ کون ہیں؟ مولوی، مسجد کے نمازی، یہ داڑھیوں والے، ٹوپی والے. چلیے چھوڑیے. ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ شہر بھر کی سڑکوں پر آپ کی کتنی ایمبولینسیں چلتی ہیں اور ان مولویوں کی کتنی؟ میں نے ایک روز جناح ہسپتال جانا تھا، پہنچا تو دیکھا دروازے پر ایک طرف بڑا سا کیبن سجا ہے فلاح انسانیت والوں کا اور آدھی درجن ایمبولینسیں کھڑی ہیں جو مفت چلائی جاتی ہیں. میں آپ کی ”موم بتی“ کے نشان والی کوئی ایک ایمبولینس ڈھونڈتا ہی رہ گیا .. ابھی کل ہی مجھے الخدمت والوں کی ایمبولینس والوں نے بھی بہت”تنگ“ کیا، وہ بھی راستہ بھر میری گاڑی کے آگے آگے چلتا رہا .. یہ بھی تو مولوی ہی ہیں، ہر طرف اڑتے پھرتے ہیں..

پانچ برس پرانی بات ہے کہ مجھے اپنی ایک بہن کا سعودیہ سے فون آیا کہ امی کے نام کا کنواں کھدوانا ہے کہ جہاں پیاسے پانی کو ترستے ہیں، کوشش کی کہ میں بھی کوئی ”غیر مولوی“ ڈھونڈھوں لیکن مجبور ہو کر خالد سیف کو فون کیا کہ تمھاری جماعت سنا ہے بہت کنویں کھودتی ہے ”قوم“ کے لیے .. ایک میرا بھی بنوا دو، سو بن گیا..

کبھی چوبرجی چوک میں آئیں، ایک بڑا سا ثریا عظیم ہسپتال نظر آئے گا.. چار پانچ منزلہ کتنے کنالوں پر پھیلا یہ ہسپتال جماعت اسلامی چلا رہی ہے .. ایک بڑا ہسپتال علامہ احسان ہسپتال بھی ہے..

کشمیر زلزلے میں تمام کے تمام لبرل اور انسانیت کے نام کی روٹیاں کھانے والے مل جائیں تو مولویوں کے کام کا سواں حصہ بھی نہ کر سکے..

اچھا چلیں ایک آپ کے دل جلانے والی بات کہوں .. میں آپ کا یہ موم بتی جیسا جلتا دل مزید جلانا تو نہیں چاہتا لیکن بات ہی ایسی ہے..

اصل معاملہ معلوم ہے کہ کیا ہے ؟

لوگ آپ سے، ہاں! آپ کے لبرل ازم سے آپ کے وجود سمیت نفرت کرتے ہیں .. آپ پر اعتماد ہی نہیں کرتے .. سو خیرات، رفاہی کام کے لیے، آپ کو ایک روپیہ دینا بھی نہیں پسند کرتے .. لاکھ مولویوں پر تنقید کریں، ان کا مذاق بنائیں لیکن جب کبھی ابا میاں کے نام پر کنواں کھدوانے کو جی چاہے تو مولوی کو ڈھونڈ کے پیسے دیں گے، ان کو معلوم ہے کہ ایمانداری سے کسی رفاہی کام میں لگا دے گا .. من کا کمزور بھی ہوا، نفس کا پجاری بھی ہوا تو کچھ کھا لے گا کچھ لگا دے گا، اور کھا بھی لے گا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ موٹر سائکل لے لے گا ، موبائل لے لے گا، باقی پیسے لگا ہی دے گا، بھلے کنویں کی دیوار کچی رہ جائے..

اور دوسری طرف آپ ہیں .. معلوم ہے لوگ آپ کو پیسہ کیوں نہیں دیتے؟

ان کو معلوم ہے کہ لبرل ہے .. آخرت پر یقین نہ مذہب سے کوئی علاقہ .. معصوم شکل بنا کے پسہ بٹورے گا، انسانیت کی دہائی دے گا، مگر سارے کا سارا خود کھا لے گا .. اگر کوئی معمولی سی ”رمق“ انسانیت کی ہوئی بھی تو دس بیس فیصد ہی لگائے گا …باقی کی رقم، لوکل سطح کا لبرل ہوگا تو کچی شراب لے آئے گا، اور ذرا لبرٹی چوک والا ہوگا تو ”پکی“ لے آئے گا اور ساتھ میں رات کی رات پلانے والی … اور ابا میاں کے نام کا کنواں جنت کے بجائے ”علاقہ غیر“ میں کھد جائے گا .. سو لوگ بھلے جیسے بھی مولوی بیزار ہوں .. لیکن جب چیرٹی کی باری آتی ہے تو آپ کی موم بتی بجھا دیتے ہیں … پھونک مار کے

https://daleel.pk/2017/02/12/30489
 
Top