• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ابو بکر قدوسی صاحب کی تحریریں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
داڑھی والے


نفرت کا استعارہ بناے جا رہے ہیں ، ہر طرف ان کے بارے میں ایک نفرت کی فضاء ہے ...آج اخبار دیکھا تو دل غم زدہ ہو گیا .. چند مجرموں کے جرائم کی سزاء تمام طبقے کو دی جا رہی ہے ...

ایک طرف وہ ظالم ہیں جنہوں نے معصوم عوام کے ناحق قتل کو اپنا حق سمجھ لیا ہے - ان کا فہم دین یہ کہتا ہے کہ غیر حربی اور معصوم عوام کو ناحق قتل کر دینا جائز ہے ..سڑکوں اور بازاروں میں خود کش حملے ان کی نظر میں جائز ہیں اور جنت کا راستہ ... اصل میں یہ گروہ انتقام میں اندھا ہو چکا ہے اور اخلاقیات اور مذھب کو چھوڑ چکا ہے ... اور ان کا اپنا وجود معاشرے کے لیے ایسا ناسور بن چکا ہے جس کو کاٹ دینا مجبوری اور ضروری ہوتا ہے .... اس بات کا اطمینان ہے کہ پاک فوج نے پہلی بار آگے بڑھ کے افغانستان کی سرحدوں کے اندر جا کر کارراوئی کی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا .... کاش یہ کام پہلے ہی کر لیا ہوتا -

لیکن یہاں دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آج کی اخبارات پڑھ کے اور پچھلے چند دنوں کی خبروں سے بھی جو سامنے آ رہا ہے کہ :

کہیں ہم بھی رد عمل میں اسی رویے کا شکار تو نہیں ہو رہے جس کو بم دھماکے کرنے والے مجرموں نے اختیار کیا ؟ -

چند دن میں سو کے لگ بھگ جوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا ..یہاں سوال یہ ہے کہ عدالت کی کسی کارروائی کے بغیر ، خود ہی فیصلہ کر کے کہ یہ مجرم ہیں ، ایسا کرنا درست ہے ؟-

چلیے ہم آپ کے اس عمل پر اعتراض نہیں کرتے کہ آپ حالت جنگ میں ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا یہ عمل مزید رد عمل کو جنم دے ، بنا مجرم ثابت کیے ، ماورائے عدالت اس قتل و غارت سے مزید دہشت گرد پیدا ہوں جائیں - کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کسی کو یوں خود ہی فیصلہ کر کے قتل کر دیں تو اس کا باپ ، بھائی یا بیٹا انتقام میں اسی راہ پر چل پڑے ؟...

ہاں اگر آپ اس کا مقدمہ عدالت میں لے کر جاتے ہیں تو دوسرے فریق اور اس کے لواحقین کو مکمل موقعہ مل سکے گا کہ وہ خود کی صفائی پیش کر سکیں - اگر وہ مجرم ہے تو کم از کم اس کے لواحقین کو معلوم تو ہو گا کہ ان کا بیٹا مجرم تھا ، ان کے اندر انتقام کا جذبہ تو پیدا نہ ہو گا ...یہ کہنا کہ عدالت میں یہ چھوٹ جاتے ہیں ..یہ تو اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ تھا اور محض بے گناہ پکڑ لیا .. چلیے پھر بھی اگر آپ کو یقین ہے تو کوئی ایسی پالیسی بنا لی جائے کہ ایسے مجروموں کو تادیر جیل میں رکھا جائے ، لیکن قانونی پراسس کو نہ چھوڑا جائے -

.... یہ موجودہ دہشت گرد کوئی آسمان سے تو نہیں نازل ہوۓ ، یہ ہماری ایسی ہی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ... ہماری اشرافیہ کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے غیر متوازن عمل سے اس رد عمل نے جنم لیا ..

ایک تازہ مثال سامنے ہیے ... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل توہین کی جا رہی ہے جس سے عام مسلمانوں کے دل زخمی ہیں لیکن حکومتی ارکان ایسے بن گئے ہیں کہ جیسے یہ ان کا مسلہ ہی نہ ہو - انہوں نے مجرم پکڑے اور پکڑ کے چھوڑ دئیے ، جن میں سے دو فورا ملک سے باہر نکل گئے ... اور یہی نہیں اب وہ بھینسا وغیرہ سنا ہے پھر میدان میں ہیں اور نبی کریم کے بارے اب کھلی گالیاں بک رہے ہیں ...اب اگر کوئی نوجوان رد عمل کا شکار ہوتا ہے تو مجرم کون ہے ؟-

اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں عام مسلمان نوجوان کی بری طرح ذہنی شکست و ریخت ہوئی لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے اس بات کی طرف مطلق توجہ نہ دی اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ریاست سے مایوس جوان ریاست کے خلاف ہی ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں ..خدا کے لیے متوازن طرز عمل اختیار کیجئے - یہ بہت قیمتی نوجوان تھے ، ملک سے محبت کرنے والے اور سوچ و فکر رکھنے والے ... یہ محض گٹار پکڑ کے "دل دل پاکستان" گانے والے نہ تھے کہ آپ نے انہیں یوں ضائع کر دیا ....یہ اپنے شعور اور عقل کی بنیاد پر پاکستان سے محبت کرتے تھے یہ آج بھی واپس آ سکتے ہیں ..لیکن اگر آپ ان کو واپس نہیں لانا چاہتے تو کم از کم مزید تو پیدا نہ ہونے دیں -

بلا شبہ جتنے ادارے باخبر ہیں ، اور جتنے دماغ مل کر اس دہشت گردی کی بیخ کنی میں مصروف ہیں وہاں ہم جیسے عام سوچ و فکر رکھنے والوں کی پہنچ نہیں ...لیکن اقوام کی تاریخ پر جتنی نظر ہم نے ڈالی ہے تو یہی سمجھ آیا ہے کہ بے تحاشا سختی اور بلا امتیاز پکڑ دھکڑ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی ، اگر وقتی طور پر کچھ کمی آ بھی جائے تو کچھ وقت کے بعد رد عمل میں حالات مزید ہی بگڑتے ہیں .. سو یہاں محض سختی سے کام نہیں چلے گا ،حکمت اور غور فکر کی بھی ضرورت رہے گی ..دہشت گردی کے اسباب کو بہر حال دیکھنا پڑے گا ، ان اسباب کو ختم کرنا ہو -

اب ضروری ہو گیا ہے کہ علماء ، اداروں کے ذمہ داران اور ملک چلانے والی بیورو کریسی باہم مل بیٹھیں ... عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں اس دہشت گردی سے بچنے کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں ..... یہ معاملہ نہ تو محض بندوق سے حل ہو گا اور نہ ہی واعظ و نصیحت سے -

اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمے داری علمائے دیوبند کی ہے ..ان کو آپسی سیاسی اختلاف ختم کر کے بیٹھنا ہو گا ..ان عوامل پر غور کرنا ہو گا کہ ان کے نوجوان جو ہمیشہ محب وطن تھے ، یوں گمراہ کیوں ہو گئے ؟ -

ان کو اپنے آنے والے کل کی فکر کرنا ہو گی - ورنہ یہ سلسلہ انتقام در انتقام کی صورت اختیار کرنے کو جا رہا ہے ......

اللہ ہمارے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے
.
ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دل میں بت سجا رکھے ہیں :


..
ایک مضمون نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا ...عنوان تھا :

" مسلم بستیاں گندی کیوں ہوتی ہیں ؟...

دلی کے ایک صاحب ، غوث سیوانی ، کا لکھا تھا ، اور ہندوستان بھر کی مسلم بستیوں کے بارے میں لکھا تھا ، کچھ حالات تھے کچھ اسباب - خلاصہ یہ کہ :

" فسادات کا خوف امیر مسلمانوں کو بھی ان بستیوں سے باہر نکلنے سے روک رکھتا ہے ، آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور گنجائش کم - ظاہر ہے اس سبب سے ہی مسلم بستیوں کے مسائل بھی بڑھ چکے ہیں - سرکار بھی توجہ نہیں دیتی ، ان کا لکھنا تھا کہ ملک بھر میں پوش اور کھلی آبادیوں میں جابجا مساجد بے آباد نظر آتی ہیں جو اجڑ چکیں ، مگر ان سے خبر ملتی ہے کہ یہاں کبھی مسلمان آباد تھے .. ان کا یہ بھی لکھنا ہے کہ کبھی مسلمان آبادی میں مل کر رهتے تھے ، اور شہر بھر میں پھیلے ہوتے اسی سبب ہر طرف مساجد بھی تھیں لیکن فسادات کے خوف سے مخصوص علاقوں میں سمٹ آئے "-

مضمون پڑھا اور میں ماضی میں چلا گیا .. تاریخ کے ادوار برسوں کی طوالت لیے ہوتے ہیں ، وہ الگ بات کہ ہماری کتاب کے ایک یا دو صفحات پر برسوں اور عشروں کی کہانی سمٹ آتی ہے ...

اسباب کا تجزیہ کوئی نہیں کرتا ، واقعات بیان کرتے ہیں ، فتوحات کے تذکرے چلتے ہیں ، کچھ اغلاط کی نشاندھی ہوتی ہے اور اگلا صفحہ پلٹ لیتے ہیں .... کب ہوا ، کیسے ہوا پر تو ہماری نظر رہتی ہے ، لیکن کیوں ہوا ، صحیح ہوا یا غلط ؟.. اس سے ہم صرف نظر کرتے ہیں ... کہ ہم نے دلوں میں اور دماغوں میں بت سجا رکھے ہوتے ہیں .. ہم مسلمان عمل کی ، تجزیے کی بے رحم دنیا سے دور افکار کی بھی الگ "گندی " بستی بسا کے رہنا پسند کرتے ہیں -

ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ یہ ہمارے پرکھوں کے عجیب و غریب فیصلے ہیں کہ جن کی سزا ہم سب بھگت رہے ہیں -

ہندستان میں مسلمان اول اول تاجر بن کے آئے ، ساتھ میں کچھ مبلغ بھی رہے ہوں گے .. ساحلی اور سرحدی علاقوں میں اسلام کے اثرات فاروقی دور میں بھی ملتے ہیں ..پھر محمد بن قاسم آئے اور ایک بڑا علاقہ باقاعدہ مسلم سلطنت کا حصہ بنا - اس کے بعد خراسان کی طرف سے فاتحین اتے رہے اور اپنی سلطنت کو وسیع کرتے رہے - چونکہ مسلم حکومتوں کا دور صدیوں پر محیط تھا اس لیے اسلام اورمسلمان کافی پھیل گئے کہ حکمرانوں کا مذھب قبولیت کا کافی سامان لیے ہوتا ہے اور ایک بڑی آبادی مسلمان ہو گئی - ورنہ مقامی ہندو آبادی میں قبولیت کی ایسی خو نہ تھی -

ہم اپنی رومانویت میں یہ ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہمارے فاتحین کو محض گنگا جمنی تہذیب کے دامن میں لپٹے سیم و جواہر کی کشش کشاں کشاں لیے آتی تھی اور محض .. تبلیغ دین ان کا باقاعدہ مقصد رہا ہو اور مغل تو تبلیغ دین سے کوسوں دور تھے ... اسی طرح ایک بات کو بہت مبالغہ کر کے بیان کیا جاتا ہے کہ اسلام یہاں صوفیا کے سبب پھیلا .. ناقابل تردید دلائل ہیں کہ اسلام صوفیا کے سبب نہیں داخل ہوا ..اور رہا پھیلاؤ میں ان کا حصہ ، تو جو ان کے سبب پھیلا وہ آپ دیکھ سکتے ہیں اور اس کا اسلام سے اور سنجیدگی سے کتنا تعلق ہے ..

سوال مگر یہ ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ آج اسی برصغیر میں مسلمان ٹکروں میں تقسیم اور ان کی آبادی کا تیسرا حصہ اپنے بھائیوں سے الگ یوں ، الگ بستیاں بنائے ، رہنے پر مجبور ہوا ؟

میں سمجھتا ہوں کہ جب ہندوستان میں مسلمان حکومت ختم ہوئی ، صدیوں کا سفر یوں رائیگاں ہوا کہ عمارت محض ایک ریت کا گھروندا رہا ، اورغلامی کا دو سو سالہ دور شروع ہوا تو ہم کو ایسی قیادت نہ مل سکی جو آنے والے برسوں ممکنہ پیش آمدہ مسائل کا ادراک کر سکتی ..

میں جب ماضی میں تحریک ہجرت کو دیکھتا ہوں تو کبھی کبھی سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہوں کہ ہمارے اسلاف لاکھ "عبقری " رہے ہوں لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کروڑوں لوگ اپنی زمینیں ، گھر بار ، جائداد ، رشتے ناتے ، زبان ،کلچر کیسے یوں تیاگ کے اجنبی دیس میں جا کے رہ سکتے ہیں ؟ - کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے ؟ -

مجھے معلوم ہے کہ کچھ دوستوں کو میری باتیں ہضم نہیں ہوں گی ...لیکن آپ بیرو میٹر کو جانتے ہیں ؟ تھرما میٹر کا معلوم ہے ؟ حرارت اور موسم کی خبر دیتا ہے نا . ..اسی طرح تحریک ہجرت آپ کی قیادت کا بیرو میٹر ہے ....اپنی عقل پر اس تحریک کا تجزیہ کیجئے ...چلیے تحریک خلافت کو دیکھ لیجئے ، جب انگریز ملک بھر سے آپ کے جوانوں کی بھرتی کر رہا تھا ، خلافت کے خلاف لڑائی کو ، تب تو چپکے پڑے رہے ، تب تو لوک گیت بن گئے کہ

" میں تو بالم کو بھرتی کروا ای رے "

اور جب خلافت کا "خاتمہ بالخیر " ہو گیا تو ملک بھر میں تحریک برپا کردی ..بجا کہ اس تحریک نے امت کو ایک شاندار قیادت فراہم کی ، لیکن کیا یہ بے وقت کی راگنی نہ تھی .... ؟ - خلافت کا ایک " ظاہری " مسلمان کے ہاتھوں ہوا ..بھلے اس میں انگریز کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں شامل رہی ہوں لیکن یہ فیصلہ ترکوں کا تھا ، جو مسلمان تھے کہ ہم نے نہ امت کی قیادت کرنی ہے نہ خلافت باقی رکھنی :

تمہاری امانت تمھارے حوالے
میں نے جب پچھلے دنوں ایک کتاب لکھی تو " بنگلہ دیش نا منظور تحریک " کے حالات پڑھ کے حیران ہوتا رہا ، اور مجبور ہو کر لکھ دیا کہ یہ گزرے سانپ کی لکیر پیٹنے والی بات تھی اور بس .. نہ جانے ہم اس رومان پسندی سے کب نجات پائیں گے ؟-

افسوس ہم نے فہم اور شعور کے خلاف اپنا "جہاد " ہمیشہ جاری رکھا .. ہندو یک سو تھے کہ انگریز اس ملک سے چلا جائے ، ملک کی زمام کار مقامی لوگوں کو دی جائے - سو وہ کانگرس کی صورت میں جدوجہد کر رہا تھا ... دوسری طرف مسلمان دو گروہوں میں تقسیم تھے - ایک طرف نیشلسٹ مسلمان کہ جو متحدہ ہندوستان کے حامی اور دوسری طرف نیا نعرہ لیے جناح کے مسلمان کہ "الگ ملک لے کر رہیں گے - "

کون درست تھا کون غلط ؟؟

بہت کچھ لکھا گیا ، بہت کچھ لکھا جائے گا ..اور تاریخ کی کتاب میں مگر اس کو دو چار صفحات ہی مل پائیں گے - ہم کبھی اپنے بتوں پر تنقید نہیں کریں گے .. ہم کو ان " بتوں " سے محبت ہے ، ہم ایسے " موحد " ہیں جو بت پرستی بھی شعار کرتے ہیں اور توحید کے علم بردار بھی - ہم کبھی ان بتوں کی محبت میں ان اجڑی مسجدوں کا نوحہ نہیں کہیں گے - ہم کبھی اس خون کا حساب نہ مانگیں گے کہ جو سرزمین پنجاب میں بہا -

مولانا ابوالکلام آزاد ہندستان کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا دماغ تھے ، لکن اپنے مزاج کے اسیر ، ان کے نظریہ ، ان کی سوچ کی اصابت کا آج ہر کوئی کھلے دل سے اور کبھی چھپ کے اقرار کرتا ہے ..لیکن ان کے مزاج ، یعنی "غیرعوامیت " کی مسلمانان ہند کو بھاری قیمت دینا پڑی -

دوسرا نظریہ جس نے مسمانوں کے وجود کو تار تار کر دیا ..اس کا حال اسی اجلاس سے جان لجیے .. ذہنی سطح کا اندازہ اسی سے کر لجیے کہ وائسرایے کے ساتھ ایک اجلاس میں مسلم لیگ کے ایک "مدر المہام " نے مطالبہ رکھا کہ "مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے بیچ میں کئی ہزار میل بھارت آتا ہے نا اس کے بیچوں بیچ ہمیں ایک چند کلومیٹر پٹی دی جائے جو پاکستان کا حصہ ہو اور ہم آزادانہ آ جا سکیں " -

اجلاس میں پہلے تو سناٹا چھا گیا اور پھر حیرت آمیز قہقہہ .....اب یہ نہ پوچھئے گا کہ یہ شاندار تجویز کس نے دی ...کچھ بت ٹوٹ گریں گے

.................ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بازار حسن کے نئے "آباد کار" ....
اور شیما کرمانی کا رقص


..
رضوان اسد خان نے خبر دی کہ بازار حسن میں نئے آباد کار آنے کو ہیں - آپ جب کبھی ہاکی یا فٹ بال کا میچ ٹی وی پر دیکھتے ہیں اور کھیل روک کے کھلاڑی بدلا جاتا ہے ... تو اس نئے آنے والے کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں ... جدھر جدھر کیمرہ جاتا ہے وہی نظر آتا ہے ..جیسے :
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ..
بس یہی کچھ آج کل بازار حسن پر گزر رہی ہے ....اس کے باسی ، پرانے مکین اداس ہیں کہ یہ جو " بارہویں اور متبادل کھلاڑی" ہیں ، ان کی روزی کے درپے ہیں ...اپنی پھرتیوں سے ان کی کارکردگی کو مات کیے دے رہے ہیں ...اور ہر طرف یہی نظر آ رہے ہیں ... روایت کی طوائف تو قصہ پارینہ بنی سو بنی یہ جو اس کے " سہولت کار " تھے وہ بھی بے روزگار ہونے کو ہیں ...
قصہ یوں ہوا کہ لال شہباز قلندر کی درگاہ پر بم دھماکہ ہوا ..کتنے ہی بے گناہ مارے گئے .. ہر طرف غم کے بادل چھا گئے ..ہم جیسے رقص و سرود اور مزارات کے "منکر " بھی غم زدہ رہے اور اس حیوانیت کی مذمت کی .... لیکن ان نئے آباد کاروں کی اپنی مجبوریاں اور نظریات کہ جھٹ سے ایک رقاصہ خاتون شیما کرمانی درگاہ جا پہنچیں ... اور رقص " فرما " کر کے غم غلط کیا ....بات یہاں تک رہتی تو بھی ہم چپکے پڑے رهتے کہ
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
لیکن ایک صاحب اس رقص کے سبب گھر بیٹھے ہی وجد میں آ گئے ...ہم تب بھی خاموش ہی رهتے ، لیکن صاحب نے کمال یہ کیا کہ صوفیاء بارے لکھتے ہیں :
"۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے طوائف کے نہان خانہِ دل کو خدا کے عرش کی صورت میں دیکھا ہے۔ "....
کیا خیال ہے میں نے غلط کہا تھا کہ بازار حسن کے نئے آباد کار اس کھلاڑی سے بھی آگے نکلنے کو ہیں جو مدت مدید سے کوٹھوں پر تھرکتے بدنوں کے لیے "سہولت کاری " کا کام کر رہا تھا ...جی آپ کسی کاندھے پر " ڈبیوں والا پرنا" رکھے دلال سے جا پوچھئے کہ "ہاں بھائی آج جو تمھاری بائی رقص کرے گی اس کے نہاں خانہ دل کو رب عظیم کا عرش کہہ لیں تو مائنڈ تو نہ کرو گے " .
..آپ یقین کیجئے وہ پان کی پیک سے آپ کو رنگدار کرتے ہووے دشنام نہ بھی کرے تو یہ ضرور کہے گا "صاحب داغدار ضرور ہوں ، بدن کی کمائی کھاتا ہوں ، حرام کھاتا ہوں لیکن خوں رگوں میں حرام نہیں دوڑتا کہ جو یوں رب کے عرش کی کی توہین کروں اس عرش کی جس کو رب کے برگزیدہ فرشتے اٹھائے ہووئے ہیں -"

"آباد کار " اوہ معاف کیجئے گا قلم کار لکھتے ہیں :

شیما کرمانی کا رقص ککلتہ کی عدالت میں انگریز مجسٹریٹ کے روبرو دیا جانے والا ابولکلام آزاد کا وہ بیان ہے جو تاریخ کی دستاویز میں جرات رندانہ کی روشن مثال کے طور پر “قول فیصل” کے عنوان سے درج ہے۔ ایک جملے میں خلاصہ یہ کہ
“میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں”
کمال نہیں کر دیا ؟ صاحب نے ، انہوں نے بہت مثالوں سے ہمیں سمجھانا چاہا ، کبھی منصور اور کبھی سقراط اور کبھی مارٹن لوتھر کنگ کو شیما کرمانی کا پچھلا جنم بنا ڈالا لیکن حیرت ہمیں آزاد کے حوالے سے ہوئی .... میں بتاتا ہوں ، حریت فکر کے اس پیامبر کو جب سامراج کی عدالت نے جیل دے دی ، .. تو اسی دوران محبوب بیوی بیمار ہو گئی ... پھر خبر آی کہ راہ تکتے تکتے جان ہار گئی ، جی ہاں کانگرس کے صدر ، ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما ..حکومت نے پیشکش کی کہ
اگر آپ چاہیں تو پیرول پر جنازے کے لیے رہائی مل سکتی ہے ... لیکن سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرنے والے نے بہت دھیرے سے انکار کر دیا ...اور جب اپنے وقت پر رہائی ملی تو سیدھے "جان کی دیوی " کی قبر پر گئے ، گلے میں پڑا پھولوں کا ہار ہولے سے قبر پر رکھا اور تب پھر کہا " میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں ...محض عدالت کا قصہ نہیں ، انہوں نے زندگی بھر ایسا ہی کہا اور کر کے دکھایا .... برس ہا برس جیل میں گذار دیے ..اور یہاں لچکتی کمر کے چند بل عمر بھر کی ریاضت کا بدل ٹہرے ....
ہاں ایک بات بہت خوب کہی ، دل کو چھو گئی . بندہ سچا ہو تو ایسا .. لکھتے ہیں کہ :

....................

"قیہانِ بے توفیق کو یہ طرز ملامت مبارک۔ ہم کو شیما کا رقص بہت ہے
لکھ لکھ فتوے لا میرے تے
میں فیروی گھنگھرو پاواں گی
جے سجدے وچ نا ملیا تے
میں نچ کے یار مناواں گی"

...........................
یہ انہوں نے درست لکھا کہ ہم کو "فقیھان بے توفیق" سے غرض نہیں ، شیما کا رقص ہی بہت ہے ..لیکن شیما کسی اور کی بیٹی ہو ، کسی اور کا جگر گوشہ ہو ، کسی اور کی عزت ہو ..اپنی شیما ہم گھر میں ہزار پرتوں میں چھپا کے رکھتے ہیں ....
اور ایک جھوٹ جو مسلسل بولا جاتا ہے ، یہاں بھی پوری آب و تاب سے موجود تھا .." فقیہان بے توفیق " بارے ، اصل میں احساس کمتری کے مارے ہمارے دوست کچھ کر نہیں سکتے لیکن جب مولویوں کو یہاں بھی خدمت انسانیت میں آگے بڑھتا پاتے ہیں تو الزام تراشی پر اتر آتے ہیں -

میرا ان سے سوال ہے کہ جب وہاں لاشے گر رہے تھے ، جب درگاہ پر آئی معصوم خواتین کے سہاگ اجڑ رہے تھے ، جب سیندور لگائے دلھنیں مانگ میں بیوگی سجائے رو رہی تھیں ، ماؤں کی گود اجڑ رہی تھی ...تب شیما کرمانی کے رقص کے طلبگار کہاں تھے ...تب شیما کرمانی کے یہ بھائی کہاں تھے ..کوئی ایک ہی آیا ہوتا ، کوئی ایک ایمبولینس ، کوئی زخم پر رکھنے کو پھاہا ہی بھیجا ہوتا ، کچھ تو ہوتا ...یہ کیا جب زخم سل گئے ، قبروں کی مٹی خشک ہو گئی تو چلے آئے کہ "می رقصم "-

ہاں لیکن اس روز یہی "فقیہان بے توفیق " نکلے تھے .... مذھب کے اختلاف کے باوجود "فلاح انسانیت فاونڈیشن " والے درجنوں ایمبولینسں اور بیسیوں کارکنوں کو ساتھ لیے آئے ..یہ وہ تھے جو مزارات ، رقص ، نذرانوں اور چڑہاووں کو گناہ سمجتھے ہیں ..لیکن انسانیت کے ناتے آئے ، لاشیں اٹھائیں ، زخمیوں کو گلے سے لگایا ..اور بنا صلے کی تمنا کے چل دئیے ...... اور شیما کے رقص کے "طلب گار " اور "خریدار " وہاں بننے والے ہسپتال کے پیسے بھی کھا گئے ............

ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کاش مولانا مودودی زندہ ہوتے


...
تو اک بار ضرور ان کے سامنے مودبانہ عرض گذارتا کہ حضرت بجا کہ آپ کی تحاریر نے اک زمانے کے قلوب و اذہان کو بدل ڈالا ...
کوئی شک نہیں کہ آپ کے قلم کی جولانیاں بہت سوں کو الحاد اور تشکیک کی دنیا سے باہر نکل لائیں ..
کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک میں سیکولر ازم کے راستے میں آپ ایک بڑی دیوار تھے ...
لیکن حضرت !
دیکھئے ذرا پلٹ کے یہ بھی دیکھئے کہ آپ کے بعد منظر کیا ہو گیا ... جن نے لبرل ہونا تھا جی ہاں جنہوں نے لبرل ہونا تھا ہو چکے جن نی بچنا تھا بچ گئے ..
لیکن ایک طبقہ اور بھی پیدا ہو گیا کہ جن کو راہ آپ کی کتاب نے سجھائی ...آپ تو لکھ کے چل دئیے کہ حدیث ایک ظنی شے ہے ، درست بھی ، غلط بھی ہو سکتی ہے .. آپ بنو امیہ کی بات کر کے سیدنا عثمان سے بھی گذر گئے ، لیکن دروازہ تو کھل گیا نا ...
لیجئے ! یہ مسلمان ہیں ، لیکن صبح شام ان کا کام صحابہ پر اعتراض ، ان کے بارے میں بد گوئی ، دشنام طرازی کرنا ہے ....
مولانا آپ کو کیا معلوم تھا کہ کبھی ایک فیس بک بھی ہو گی .. جہاں اتنے مفکر ہوں گے کہ ممکن ہے کارپوریشن کو ان آوارہ مفکروں کی تلفی کے لیے بھی مہم چلانے پڑے اور انعام کا اعلان بھی کہ "جو ایک دم لے کے آئے گا اتنے پیسے پائے گا " -
مولانا آپ نے جس "تحقیق " کی بنیاد رکھی تھی ، وہ برگ و بار لانے لگی ہے ... آپ کے متاثرین میں ایک غامدی صاحب تھے ، بھلے وہ اب خود "درجہ اجتہاد " پر فائز ہوۓ لیکن کبھی آپ کے خوشہ چین تھے ... آپ نے محض ایک دروازہ کھولا تشکیک کا اور انہوں نے اسے چوراہا بنا دیا -

توں کیہ گھڑھنا چاہندی سیں
تے کس سانچے وچ ڈھلیا میں

کوئی شبہ نہیں کہ غامدی صاحب مہذب اور متمدن انسان ہیں - لیکن غامدی صاحب نے "انکار حدیث " کے جو "اصول" قائم کیے اور امت کے صدیوں پرانے اصولوں سے انحراف کیا ، اس کا نتیجہ ہے کہ آج انکار حدیث کا عفریت صحابہ کی عظمت وعفت کے در پے ہے ...

اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ فتنہ اپنی موت آپ مر جائے گا ، طبعی عمر پوری کر کے گھر کو جائے گا ، لیکن فی الوقت تو افسوس یہ ہے کہ بعض معصوم اذہان بھی اس کا شکار ہو کے ایمان کھو بیٹھے ہیں -

غامدی صاحب کے ڈھکے چھپے انکار نے آج لوگوں کو حوصلہ دیا کہ کھل کر صحابہ پر تبراء کریں ... مولوی حنیف ڈار کے بعد کچھ اور افراد بھی اس مکروہ کھیل میں شریک ہو گئے ہیں گو محدود سا حلقہ رکھتے ہیں لیکن جھوٹ کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ لوگ "کمال تحقیق ہے جی " کے آوازے لگا رہے ہوتے ہیں ...معصوم لوگ نہیں جانتے کہ پرانے اعتراضات ہوتے ہیں کہنہ برس شراب نئے برتنوں میں سجا کے پیش کرتے ہیں - لیکن یہ فکری یتیم اور زمانے بھر کے "سارق" اس کو اپنی تحقیق اور نتیجہ فکر بنا کے پیش کرتے ہیں -

رات میں نے مختصر لکھا تو احباب نے پوچھا کہ کن کے بارے میں لکھا ہے ...سو دوستو! کل دو احباب نے منکرین حدیث کے دو نئے "مفکرین " کی پوسٹ بھجوائیں ... ایک صاحب کوئی لیکچرر تھے حیدر آباد کے اور پوسٹ میں امام بخاری کے لتے لیے ہووے تھے اور پوسٹ ان پیج میں ڈیزائن کر کے تصویر بنائی ہوئی تھی تھی بلا شبہ اس طرح زیادہ شیر share ہوتی ہے ...دوسرے کوئی برطانوی ہیں ، محمد ف علوی ..باریش مولوی ڈار صاحب کی کاپی ...ان کی زبان بھی وہی مولوی صاحب والی ہے .... اخلاق سے کوسوں دور ..حضرت ابو ہریرہ کا تذکرہ یوں کیا ہے جیسے کوئی ان سے کمتر انسان ہو..

ان اخلاق باختہ لوگوں سے کوئی پوچھے کہ ایک طرف آپ لوگ الزام راویوں پر دیتے ہو کہ انہوں نے جھوٹ بولے ، احادیث گھڑہیں ، اگر یہ بات مان لی جائے تو صحابی تو بے قصور رہے ..اور محض بے قصور ؟.. نہیں جناب مظلوم کہ جن کا "ناحق" نام برتا گیا .... تو پھر کس اصول کے تحت ایک مظلوم صحابی پر دشنام کرتے ہو ، ان کی عیب جوئی کرتے ہو ...صاف نظر آتا ہے کہ ان کا مقصد راویان حدیث کو برا کہنا نہیں بلکہ صحابہ کی عزت کو سر بازار تار تار کرنا ہے ... ...خود ایسے لوگوں کا یہ عالم ہے کہ ان کو ان کی گلی میں کوئی نہیں جانتا ... لیکن یہاں پورے دنوں کے مفکر بن بیٹھتے ہیں....

آج مجھے یہی دکھ مولانا مودودی کی یاد دلا گیا ..مولانا ہوتے تو میں ضرور ان کے سامنے دو زانو ہو کے سوال کرتا :

"مولانا ! ہمارے بزرگ اسمٰعیل سلفی نے آپ کو منع نہیں کیا تھا ، کہ اصل مصادر تک رسائی کے بنا ، کسی کی پارسائی کو رسوائی میں نہ بدلیے ....لیجئے اب دیکھئے ...."

ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا ہم منافق ہوتے ہیں ؟


....
طویل تحریر کی پیشگی معذرت
....
احساس کمتری کے دامن میں لپٹا ایک ہی راگ بھیرویں کہ جس کو سن سن کے کان کے پردے بھی شکوہ کناں ہیں کہ "یار اب بس کرو .. بندہ ایسا بھی کیا بے سرا ہوا " -
راگ یہ کہ ہم منافق ہوتے ہیں اور اہل مغرب نفاق سے پاک - سو اسی وجہ سے ترقی کی معراج پر جا پہنچے -
مضمون نگار نے پہلے تو اہل مغرب کے مقابل اہل مشرق کا لفظ استعمال کیا ...پھر شاید احساس ہوا کہ اہل مشرق میں تو چین بھی آتا ہے اور جاپان بھی کہ جن کی بنی اشیا اور ایجادات سے اہل مغرب کا کوئی گھر خالی نہیں رھا ہے اور جن سے تجارت میں عدم توازن نے اہل مغرب کے ماہرین معیشت کو پریشان کر رکھا ہے اور ہاں یہ والے ، اہل مشرق ، وہاں کوکین نہیں بھیجتے بلکہ "خالص " اور دیسی سائنسی آلات وغیرہ ہی بھیج کے معاشیات کے اس توازن کو خراب کیے ہوۓ ہیں ....
خیر صاحب مضمون کا چولا جلد ہی اتر گیا اور مضمون کے آخر تک اہل مشرق کی جگہ مسلمان اور پھر آخر میں "گندے " پاکستانی بھی آ گئے-
ذکر تھا کہ اہل مغرب سور کھاتے ہیں ، شراب پیتے ہیں ، ماں باپ کو اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں ، بے تکلفانہ اور بے حجابانہ جنسی زندگی گذارتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ ترقی پر ہیں اور ہم پس ماندہ -
اور اس کی وجوہات اپنے یعنی پاکستانی معاشرے کی "منافقت" میں تلاش کی گئی تھی ...حیرت ہوتی ہے کہ یہ روشن خیال جب اتنا شور منافقت کا کرتے ہیں تو اس سے خود کو کیسے الگ کرتے ہیں ؟ کیا یہ اس معاشرے کا حصہ نہیں ؟ کیا یہ اس اشرافیہ کا جزو لاینفک نہیں جس نے برسوں سے اس ملک پر حکومت کی ، اس کے قوانین بنائے ، جس کے قبضے میں یہاں کی بیوروکریسی ، میڈیا ، عدلیہ ،انتظامیہ اور مقننہ ہے ... تو اصل منافق تو آپ ہوۓ نا ، عوام تو نہ ہوے ... ہاں یہ کمال ہم آپ کا مانتے ہیں کہ آپ مسلسل منافقت بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ میں اس کی مذمت بھی ...ہر کسی میں ایسا حوصلہ نہیں ہوتا کہ شراب کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کے بولے :
" حہ حہ یار حہ حہ یہ شراب حہ حہ پینا حہ حہ بہت بری بات ہے "-
اس کے لیے واقعی "عالی مقام نفاق" کی ضرورت ہوتی ہے ، جس کو ہمارے معاشرے کا ایک ہی طبقہ حاصل کر سکا ہے اور وہ یہی جن کا اس ملک پر قبضہ ہے اور صبح شام اس ملک اور اس کے عوام کو برا بھلا کہتے ہیں -
رہا مغرب اور اس کی ترقی ...دو لفظی بات ہے کوئی مانے نہ مانے ..میرا یہی تجزیہ ہے اور یہی تاریخ کا آخری سچ ...کوئی ترقی نہیں کوئی انسانیت کی معراج نہیں ...صرف اسلحہ سازی کی ترقی ہے .اور بے محابا طاقت کا حصول ..اور جب اس کے ساتھ ساتھ آپ اصولوں سے محروم ہو جائیں تو آپ بھی "مغرب " ہیں ...آپ بھی دنیا کے حکمران ہیں ... ہمارے ہاں ایک عام غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز ان کے اصول ضوابط میں دھرا ہوا ہے ...اس غلط فہمی کو نکال دیجئے ...اسپین میں جب مسمان ہارے ، عیسائی حکومت قائم ہوئی تو کون سے اصول تھے جن نے فتح حاصل کی ؟ مسلمان ذاتی زندگی میں ان سے کہیں صاف ستھرے تھے ، مہذب تھے ، جھوٹ نہ بولنے والے دیانت دار مگر حکومت اور اقتدار کے لیے بنیادی خوبی اور ضرورت طاقت ہوتی ہے اتحاد اور یک سوئی ہوتی ہے جس سے محروم تھے ...
آپ بھول گئے مگر تاریخ کی کتابیں بھری پڑیں ہیں ان مظالم کی تصویر کشی سے...آپ شام کے مظالم دیکھ لیں یہ اسپین سے ابھی کچھ کم ہی ہیں...بولئے کون سی تھذیب تھی کون سے اصول تھے کون سی خوبیاں تھیں جو عیسائیوں نے اختیار کیں اور مسلمان ہار گئے ..محض فوجی برتری اور بہتر عسکری حکمت عملی ....
اور آج کی بات کیجئے ...
لندن کی صاف ستھری گلیاں نہ دیکھئے ..میں ہیٹن کے روشن چوراہے کو مت نظر میں لایئے ... پیرس کے ستھرے بازار نہ دیکھئے .....ترقی یہ نہیں ہوتی ...لائین میں لگے مہذب افراد ، جھوٹ نہ بولنے والے ، ٹیکس چوری نہ کرنے والے کاروباری ، کرپشن نہ کرنے والے ملازم پیشہ ...... یہی خوبیاں ہوتی ہیں نا کہ آپ احساس کمتری سے اپنی عوام کو حقیر جاننے لگتے ہیں ...؟؟
ہوں گی خوبیاں مگر ترقی کا راز یہ نہیں ، دنیا پر ان کی حکومت کا سبب یہ نہیں ...ابھی پرسوں کی بات ہے کہ ایک سی ون تھرٹی کابل کے ہوائی اڈے سے اڑا ..اس کے پیٹ میں اکیس ہزار پونڈ وزنی بم تھا جو دو کلومٹر میں ہر شے تباہ کر دیتا ہے ...اس کو ننگر ہار کے علاقے میں گرا دیا گیا ..میں سوال کرتا ہوں
اس بم کو کیسے پتا چلا کہ یہ دہشت گرد ہے اور یہ عام عوام ؟
کیا وہ نیچے اترا ، گلیوں میں پھرا ..دہشت گردوں کے آئی ڈی کارڈ چیک کیے ..آخر ان کو اکٹھا کیا اور پھٹ گیا ؟؟؟
جی نہیں اس نے دو کلومیٹر میں ہر شے تباہ کر دی .... سینکڑوں ؟؟
نہیں ہزاروں معصوم لوگ قتل ہو گئے ... اور کمال یہ ہے کہ خبر تک نہیں آنے دی مذمت کا کیا سوال ...ایک معمولی سی خبر کہ ایک سو دہشت گرد مارے گئے ...اگر ایسا ہی ہے تو کئی بلین ڈالر کے بم بنانے والے ، اس کو چلانے والے اور چلانے کا فیصلہ کرنے والے تمام نالائقوں کو بھاٹی چوک میں ایک لائن میں مرغا بنا کے جوتے مارنے چاہیے -
چلیے یہ بتایے کہ تمام عالم مغرب میں سے کون بولا ان تین دنوں میں ، کہ :
"اہل مغرب ہم پہلے بھی ایٹم بم چلا چکے ، ہمیں شرم آنی چاھیے انسانیت کے خلاف پھر وہی جرم کرتے "
لیکن شرم ہوتی تو آتی نا .... اس کو کہتے ہیں منافقت ..... سو اللہ کا شکر ہے کہ اگر ہم نے ترقی نہیں کی تو ہم ایسے منافق بھی نہیں ہیں ... رہے آپ احساس کمتری کے مارے ...آپ کا تو یہ حال ہے کہ محلے کے بد معاش ابّا کو مارنے لگے تو ناہنجار بیٹا پاس سے آوازے لگانے لگا:
"اور مارو . بس مجھے نہ مارو "-
طوالت کا خوف ہے ورنہ بتاتا کہ ہمارے اس معاشرے میں کیسے خیرات ہوتی ہے ، کس طرح غریب بھی اپنے دل کے اور جیب کے دریچے وا کر دیتے ہیں ...کتنے فری ہسپتال گلی گلی پھیلے ہوۓ ہیں ، مذہبی تنظیموں کی کتنی فری ایمبولینسیں ملک بھر میں بھاگتی پھرتی ہیں ، کیا کسی کو معلوم ہے کہ جب گلشن اقبال دھماکہ ہوا تو آنٹیاں لبرٹی چوک میں موم بتیاں لے کر کھڑی ہو گئیں اور جماعت الدعوه کے کارکن جناح ہسپتال میں ان کا سایہ بن کے ..میں حیران ہوا جب معلوم ہوا کہ مہینہ بھر زخمیوں کو اور ان کے گھر والوں کو کھانا دیتے رہے -
آپ کو تو رمضان کی مہنگائی کے طعنے دینے اور پوسٹیں بنانی آتی ہیں ، رمضان میں جو غریبوں کے لیے اربوں جی ہاں اربوں روپے بانٹے جاتے ہیں ...ان کا آپ کو کیا معلوم ..بھلا لبرل بھی رمضان کا سواد جانتے ہیں ؟

.....ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
"دیانت داری " کے دعوے داروں کی بد دیانتی

جی یہ لاکھوں حدیثیں آ کہاں سے گئیں ؟؟

آپ نے بہت سے متجددین اور انکار حدیث کرنے والوں کی زبان سے اور تحاریر میں ایک جملہ عام سنا ہو گا :

" لیں جی امام بخاری نے جو لاکھوں احادیث میں سے محض سوا سات ہزار احادیث منتخب کیں ، تو کیا گارنٹی ہے کہ ان لاکھوں میں سے منتخب کردہ بھی درست ہوں "

اس کے علاوہ ان کا ٹھٹھہ کرنے کا بنیادی نقطۂ "احادیث " کی کثرت بھی ہوتی ہے ....پھر یہ "سانس دان " اور "ریاضی دان" حساب لگانے لگ جاتے ہیں ... کہ جی ایک بندہ دن میں کتنی بات کر سکتا ہے ، اس کی بات کو کتنوں نے سنا ، کتنی محفوظ رہ گئیں - اور یہ لاکھوں باتیں یاد کس نے رکھیں ؟؟؟-
سو یہ ریاضی دان ، کہ جو گھر کے سودا سلف کا حساب بتانے میں بھی بیگم سے دس بار ڈانٹ کھاتے ہیں ، خوب خوب اس بات کا یعنی لاکھوں کا مذاق بناتے ہیں ...
اب صورت حال کیا ہے ، ذرا اس طرف بھی نظر کیجئے
محدثین کے ہاں اسناد کو بھی حدیث کہا جاتا ہے ، اور متن کو بھی - اسناد اس chain یعنی افراد کے سلسلے کو کہتے ہیں کہ جنہوں نے ایک کے ایک سے بات سنی اور آگے پہنچائی .
تو بات یوں ہوئی کہ :
علم حدیث میں کسی بھی حدیث کے دو حصے مانے جاتے ہیں: ایک حصہ اس کی سند اور دوسرا متن۔ "سند" سے مراد وہ حصہ ہوتا ہے جس میں حدیث کی کتاب کو ترتیب دینے والے امامِ حدیث (Compiler) سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک کے تمام راویوں (حدیث بیان کرنے والے) کی مکمل یا نامکمل زنجیر (Chain of Narrators) کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔
"متن" حدیث کا اصل حصہ ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالات بیان کئے گئے ہوتے ہیں۔
اب محدثین جب لاکھوں احادیث کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد یہی افراد ہوتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے استاد پھر اس سے اگلے ، پھر اس سے اگلے استاد سے بات سنی ..اور آگے پہنچائی
مزید سہولت کے لیے یوں سمجھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں بات کی ، جہاں چند صحابہ موجود تھے ، ان میں سے ایک صحابی نے وہ بات اپنے مجلس درس میں روایت کی جس کو بالفرض پچیس افراد نے سنا ..اب اگر پچیس میں سے پندرہ بھی کاروبار دنیا میں الجھ گئے اور درس و تدریس کی طرف نہ آئے مگر باقی دس افراد علم کی دنیا کے شناور ہو گئے
اب اس تیسری نسل تک آتے آتے مسلمان طالب علم بہت بڑھ چکے تھے ..سو ان کے شاگرد بھی سینکڑوں میں چلے گئے بالفرض ان دس افراد نے ایک حدیث عمر بھر صرف سو افراد کو سنائی تو یہ ایک ہزار تک جا پہنچے یعنی ایک حدیث میں چوتھے واسطے تک جاتے جاتے سننے سنانے والے سوا ہزار کے لگ بھگ جا چکے تھے-
تو آٹھ دس واسطوں میں کیسی کثرت ہو گئی ہو گی ...تو جناب یہ تھے لاکھوں افراد ..اور ان کا سلسلہ الذھب ..کہ جو بجا طور پر سلسہ الذھب تھا یعنی سونے کی لڑی
اب محدثین نے یہ کیا کہ ضعیف اور صحیح احادیث کو الگ کرنے کے لیے ان لاکھوں افراد کی ایک ایک کر کے جانچ کی ، ان کے حالات درج کیے ، ان کی عادات و اطوار نقل کیے ، ان کے مزاج ، خوبی اور خامیوں پر کتابیں لکھ دیں ..اگر کسی کا حافظہ کمزور تھا ، کوئی جھوٹ بول جاتا تھا ، کوئی بھول جاتا تھا سب لکھ دیا
اور یہ وہ علم تھا کہ جس نے یورپ کے اہل علم کی آنکھیں چندھیا دیں - کچھ معترف ہووے کچھ حسد کا شکار -
ان لاکھوں اسانید میں سے چند ہزار افراد کی احادیث کو منتخب کیا اور کسی محدث نے یہ دعوی نہ کیا کہ میں غلطی سے پاک ہوں ، البتہ کسوٹی کے اصول مقرر کر دیے کہ لو یہ میدان تحقیق ہے جو چاہے کر لے
اب متن کی بات بھی سن لیجئے ...آپ سمجھ چکے کہ حدیث کا متن وہ حصہ ہوتا ہے جو قول رسول یا عمل رسول ہو ..تو برادران عزیز یہاں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ جی لاکھوں احادیث سے محدثین کو چند ہزار ہی ملیں ؟
اصل معاملہ یوں تھا کہ متن یعنی افعال و اقوال نبی محض ہزاروں میں ہی تھے ... بلا شبہ اسانید لاکھوں میں تھیں . یہ محققین سب جانتے تھے لیکن یہود صفت تھے سو عوام کو بھٹکا دیا ..
البتہ یہ ضرور ہے کہ چند جدید " مفکر " ایسے بھی ہیں کہ جو یہ بنیادی بات بھی نہیں جانتے اور پہاڑہ پڑھنا شروع ہو جاتے ہیں ...اک دونی دونی دو دونی چار .... یعنی اسی طرح پڑھا تھا اسی طرح پڑھائیں گے ..جہالت کی گود میں پل کر فکر جوان ہوئی تھی سو جہالت ہی پھیلائیں گے -
لیکن آپ حضرات جان لیجئے کہ احادیث ( یعنی متن ) قطعی طور پر لاکھوں میں نہ تھیں ، ہزاروں میں تھیں اور ان میں سے صحیح ترین کو جمع کرنے کی کوشش محدثین نے کی -
اور ہاں آخر میں ان سے ایک سوال - کہ خطبہ حجتہ الوداع میں کتنے لوگ تھے ، آخر نبی کی بات تھی ، آخری آخری باتیں ، نصیحتیں ، وصیتیں ...پھر ان دسیوں ہزار نے اپنے اپنے علاقے ، محلے ، خاندان میں کیا نبی کی بات نہ سنائی ہو گی ؟ پھر جس جس نے سنی کیا مشکل ہے کہ چھلکتی آنکھوں سے پانچ دس کو بھی سنائی ہو گی لیجئے لاکھوں راوی تو یہاں ہو گئے ...جناب "علم دین " صاحب ان روات کے الگ الگ بیان کو بھی حدیث ہی کہا جاتا ہے ..لاکھوں راوی ، لاکھوں احادیث مگر متن ایک

...ابوبکر قدوسی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یہ منہ اور مسور کی دال

....
مجھے تو حیرت اس بات پر ہے کہ ایک " صاحب " محض چرب لسانی کی بنا پر امام ابن تیمیہ رح کے بارے میں بد زبانی کر رہے ہیں ... مجھے ان سے تعارف نہ تھا ، حیرت ہوئی کہ یہ صاحب سیدنا امیر معاویہ کہ جو صحابی رسول تھے نبی کریم کے برادر نسبتی تھے ، خلیفہ المسلمین تھے ، ان کے بارے میں بھی بدزبانی کر چکے ہیں - جملہ سنا اور سن ہو کے رہ گیا ، بولتے ہیں اور ہاں تھذیب مانع ہے ورنہ یوں نہ کہتا کہ "بولتے "ہیں ، خیر "بولتے " ہیں کہ :
منشی لایا سی تسی کا تب وحی بنا دتا "
نبی کا تو خیر منشی کیا جوتے کی خاک جھاڑنے والا بھی ہمیں اپنی جان سے عزیز ہے لیکن ان "نیم مولبی " صاحب کا مقصد سیدنا امیر رض کی تحقیر تھا محض -
زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ موصوف درست عربی بولنا یا لکھنا تو کجا سمجھنے پر بھی قادر نہیں ، لیکن فرماتے ہیں کہ
" میں پانچ گھنٹے تک امام کی کتاب پر لیکچر دے سکتا ہوں " -
کیونکہ ان کو سمجھ ہوتی تو بتاتے امام نے کہاں لکھا ہے کہ جو چاہے اٹھے اور توہین کے نام پر قتل عام کر دے ..رہا گستاخ کی سزا موت تو یہ امام نے تو نہیں شروع کی ..اکثریت فقہا امام سے پہلے بھی اسی مسلک پر تھے -
حیرت کا مقام ہے کہ اس بے علمی میں بھی غرور کا یہ عالم ہے اور اگر چار لفظ پڑھنے کے قابل ہوتے تو نہ جانے کیا گل کھلاتے ، جانے کس کس کی پگڑی اچھالتے - آپ ان کی ویڈیو دیکھ لیں ، غرور اور تکبر سے بھرا لہجہ ...بتاتا ہے کہ ایک اور " ٹیچی ٹیچی " کی آمد ہے ..کیا آپ جانتے ہیں غلام احمد بھی جب تک "نبی " نہیں "بنا" تھا ایسے ہی علماء بارے بدزبانی کرتا اور تکبر سے مغلوب کبھی کسی کو گالی اور کبھی کسی کو دشنام ..اور آخر ٹیچی ٹیچی نے آ کر سنبھالا کہ "حضور بس کیجئے آپ اب "نبی " ہیں " ...لیکن بس کہاں صاحب ..برسوں کی منہ کو لگی ہوئی کہاں چھٹتی ہے -
.... اچھا یہ صاحب بھی بھولے بن کے کہتے ہیں کہ
" شائد امام کی کتاب الصارم المسلول کا اردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے انڈیا سے " -
حہھھہ واہ نی پولئیے تیریاں سادگیاں ....ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کتاب کا انڈیا سے ترجمہ نہیں ہوا ...پاکستان سے ہوا ہے ، غلام احمد حریری صاحب جو جامعہ سلفیہ کے استاد بھی تھے ، ان نے ترجمہ کیا ..اردو بازار کے ایک ادارے جو کتبستان کا ذیلی ادارہ تھا اس نے شائع کیا ..پھر مدت تک متروک رہا ، حتی کہ اس خادم نے اپنے ادارے کی تحت چند برس پیشتر اسے شائع کیا ...اسی کی فوٹو لے کر ہمارے ایک دوست نے اب ہندستان سے شائع کیا ..یعنی کئی برس بعد .... آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کو خبر نہیں اس تمام کہانی کی ؟
حضرت نہیں ، ایسا نہیں ..ان کو سب خبر ہے .. اصل میں خود انہوں نے محض اردو ترجمہ پڑھ رکھا ہے ، اسی کے بل بوتے پر یوں اچھل رہے ہیں .. ورنہ پلے کجھ وی نہیں ... اصل عربی کتاب کا ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ سکتے ...موصوف اس ویڈیو میں بھی غلط عربی الفاظ بول رہے تھے جو مجھ سا کم علم بھی سن کے ہنس رہا تھا ....یہ جو انڈیا کے اردو ترجمے کا ڈرامائی انداز میں ذکر تھا ..
اصل میں شو یہ کرا رہے تھے کہ انھیں اردو کا کیا معلوم یہ تو عربی نسخہ پڑھتے ہیں ...حہھھہ اور عربی غلط تلفظ سے پڑھتے ہیں ....لیکچر یہ صاحب گورمکھی میں دیں گے ...امام ابن تیمیہ بارے ان صاحب نے جو زبان بولی ، جو دشنام کیے اس سے ہی ان کا جاہل ہونا ثابت ہوتا ہے ...کیونکہ علماء کا یہ پرغرور انداز نہیں ہوتا کہ:
"میں اب تین نہیں پانچ گھنٹے لیکچر دے سکتا ہوں -"
اور نودولتیوں سا انداز کہ میری وڈیو اتنے لوگ دیکھتے ، کل سے اتنوں نے دیکھی ، حہھہ جملہ سنیے ....اور سر دھنیے .... "یہ سب سوشل میڈیا کی برکات ہیں ...."
ایک اور درفنتنی چھوڑی کہ "امام زندہ ہوتے تو میں ان پر انٹر نیشنل عدالت میں مقدمہ کرتا" ...ہم اتنا ہی کہیں گے کہ حضور جانے دیجیے ..مسور کی دال آپ کو اب بھی نصیب نہ ہو گی
...ابوبکر قدوسی
اس پوسٹ کو share کرنا امام کا حق ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اصلی مجرم آپ ہیں نہ کہ فوج :
.
ایک ٹویٹ نے بہت سوں کی نیند حرام کر دی ، ہر طرف سوال کھڑا ہو گیا کہ فوج ملازم ہے ؟ ریاست کی مالک نہیں ..
دیکھئے اگر ترازو رکھ کے ایک طرف باٹ ڈال دئیے جائیں اور دوسری طرف سامان ، تو بات ایسے ہی درست ہے کہ فوج ریاست کی سروس میں ہے ، مالک نہیں - کاغذی "حقائق " یہی ہیں کہ وزیر دفاع آرمی چیف کے "صاحب" ہیں اور چیف ان کے زیردست ....
لیکن کاغذی حقائق سے "اصلی " حقائق کی دنیا الگ ہوتی ہے اور وہ "حقائق" یہ ہیں کہ وزیر صاحب تو دور کی بات وزیر اعظم بھی بالادست نہیں -
سوال مگر یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
پاکستان میں پہلے مارشل لا سے لے کر آخری مارشل لاء تک فوجی نیتاؤں کو عوامی طاقت کس نے فراہم کی ؟
سوال تو اٹھے گا -اور اس سوال سے مفر نہیں - اگر کوئی میری تحریر سے یہ نتیجہ اخذ کرے کہ میں سیاست دانوں کے خلاف ہوں اور فوج کے سیاسی کردار اور حرکیات کا حامی تو شروع میں ہی بتا دیتا ہوں کہ میں مذہبی آدمی ہونے کے باوجود "مذہبی چیف مارشل لا " ضیاء الحق کے اتنا ہی خلاف رہا ہوں جتنا کہ لبرل مشرف کے مارشل لاء کے خلاف ...
اور مجھے یاد ہے کہ ضیا مارشل لاء کے خلاف لاہور میں جو چند بڑے جلسے ہوۓ تھے ان میں اپنے بچپن کے باوجود موجود تھا ..اور مجھے ابھی بھی وہ لاٹھیاں یاد ہیں جو اپنے وجود پر برداشت کیں تھیں جو ضیاء حکومت کے خلاف نکلتے جلوسوں میں پڑی تھیں ...اور مجھے اپنے والد کی تار تار لاش آج بھی اپنے ہاتھوں میں یاد ہے جو ضیاء آمریت کا شکار ہو گئے تھے ....لیکن سوال آج سیاست دانوں سے ہے -
جب بھی پاکستان میں مارشل لگا فوری طور پر رد عمل کیا رہا ؟
میں بتاتا ہوں حزب اقتدار تو لامحالہ سیاسی شہید ہوئی ..لیکن جمہوریت کی نام لیوا حزب اختلاف کے کارکن سڑکوں پر مٹھائی لیے نکل آئے -
ان کی یہ تربیت کس نے کی ؟-
کیا ایسا ہوتا نہیں رہا ؟
اب ہونا کیا چاہیے تھا ؟
..ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب بھی کوئی فوجی مارشل لاء لگاتا تو تو حزب اقتدار اور اختلاف کے کارکن سب اکھٹے ہو جاتے ، سڑکوں پر نکلتے احتجاج کرتے یا کوئی بھی صورت اختیار کرتے لیکن یک جان ہو جاتے ..ہمارے ہاں ہوتا مگر یوں تھا ..کہ
جن کا اقتدار جاتا وہ تو فوجیوں کے ہاتھوں جیل جاتے ، ان کے احتساب کے نعرے بلند کیے جاتے ، محسوس یوں ہوتا کہ بس اب پاکستان بدل جائے گا ، ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگ جائیں گی کیونکہ جو "گند " تھا اب وہ جیل میں " بند " ہے ... اور پاک پوتر ، مومن مومن بندے باہر ہیں جو ملک چلائیں گے ... اب یہ "پاک پوتر" بندے اتفاقا وہی ہوتے تھے جو حزب اختلاف کے تھے اور پچھلے مارشل لاء میں یہ اندر "بند " تھے ...
اب یہ موجودہ مارشل لاء کے لیے "عوامی " چہرہ بنتے اور چار چھ ماہ میں جو پہلی عوامی کابینہ بنتی یہ اس کے وزیر ہوتے ء
یہ تمام رام کتھا بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چار کے چار مارشل میں یہی طریقه کار یکسانیت کے ساتھ دہرایا گیا ..اور ہر آمر کے لیے سیاست دان وزیر بننے کو ہر دم وافر "مقدار " میں موجود رہے
ایوب خان کو بھٹو صاحب ڈیڈی ڈیڈی کہتے نہ تھکتے تھے ..جب دیکھا کہ ایوب جانے کو ہے تو ڈیڈی کو چھوڑ دیا اور جمہوریت اور احتساب کے پرچارک بن گئے اور اب موصوف کو قائد عوام کہا جاتا ہے ...
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کسی عوامی جلسے میں موصوف نے عوام سے ایک آمر کی حمایت کرنے پر ، پاکستانی عوام کے غاصب کا مدت تک دست راست رہنے پر معافی مانگی ہو - ؟
اقرار کیا ہو کہ ہاں میں نے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا تھا -؟
آج نواز شریف صاحب کو بھی ماضی بھول گیا - آج ان کو محبت اقتدار اور مشرف دشمنی میں جمہوری قدریں ستاتی ہیں مگر کس جلسہ عام میں ، کس جگہ آن دی ریکارڈ انہوں نے ضیاء الحق کو آمر کہا . اپنے تب کے افعال و اعمال پر شرمندگی کا اظہار کیا ؟؟
کب یہ کہا کہ ہاں میں ضیاء دور میں غاصب وزیر اعلی تھا ؟
یہ تو بڑوں کا حال ہے .. رہے سیاست کے چھوٹے ... کہ جن کی معراج محض وزیر بننا ہوتا ہے ..ان کی بات نہ کیجئے نہ خود ان کو یہ باتیں زیب دیتی ہیں کہ فوج بارے کہیں کہ وہ ریاست کے ملازم کون ہوتے ہیں ٹویٹ کرنے والے کہ ہم نہیں مانتے ؟
ان سب کا ماضی داغدار ہے ..اگر کوئی کہے کہ چلیے یہ ماضی کے قصے کب تک دہرائیں گے ؟
تو میرا ان سے ایک ہی سوال ہے کہ کیا اس بات کی گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ کل کلاں کو پھر کسی کے دماغ میں حکمرانی کا شوق اتر آئے اور اس کو برگیڈ ٹرپل ون کی ضرورت آن پڑے- اور جب اس کو کابینہ یعنی فوجی کابینہ بنانی پڑے تو اس کو پاکستان بھر میں کوئی ڈیڈی ڈیڈی کہنے والا بھٹو نہیں ملے گا ؟
اس کو کوئی میاں شریف نہیں ملے گا جو اپنے "معصوم "
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
برصغیر کے اسلام کا " مقامی پن "

مجھے ایک قریبی عزیز نے ان کی حالیہ تصویر دکھائی ، احباب کے زبانی تبصرے بھی ذکر کیے - کچھ حیرت ہوئی ، لیکن میرے لیے یہ کوئی ایسے غیر متوقع نہ تھے کہ کرسی موڑ کراورقلم چھوڑ کر بیٹھ جاتا - یوں جانئے کہ امکان میں تھا کہ ایسا کبھی بھی سکتا ہے -
گو اجنبی دستک تھی مگر میں نے درِ جاں
یہ سوچ کے کھولا کہ امکاں میں تم تھے
مبشر حسین کہ جو اب ڈاکٹر مبشر حسین ہیں ، اور امریکہ میں ہیں ، ان سے تب ملاقات ہوئی جب وہ "مبشر حسین لاہوری" تھے - ہم نے تفسیر ابن کثیر پر کچھ کام کروانا تھا ، مبشر احمد ربانی صاحب سے بات کی ، انہوں نے اپنے زیر سایہ یہ کام لاہوری صاحب سے کروا دیا - پھر یہ تعلق بہت مضبوط ہو گیا - اور بہت سے کام ان کی کتب کے ہمارے ہاں سے ہوۓ - میرے چھوٹے بھائی ابوالحسن علی قدوسی ان دنوں پریس کے انچارج تھے اور مبشر صاحب کا آنا جانا ان کے پاس لگا رہتا تھا - اتفاق دیکھئے کہ ابوالحسن بھی پی ایچ ڈی کرنے بیرون ملک چلے گئے ، اور ڈاکٹریٹ کر کے وہیں ریسرچ سے وابستہ ہو گئے ..البتہ ان کا میدان کیمکل انجینرنگ ہے اور مبشر صاحب کا اسلامیات -
مبشر حسین اسلام آباد چلے گئے لیکن ان سے دل کا تعلق شائد آج بھی ویسے ہی ہے - سو عزیز نے جب ان کی تصویر دکھائی تو دکھ سا ہوا لیکن کوئی ایسے منفی جذبات ان کی ذات بارے من میں پیدا نہ ہوے - خیال رہا اور ہے کہ چلو ابھی ان کی صبح کا وقت ہے شام ڈھلے گھر لوٹ آئیں گے - ان شا اللہ -
- مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ فیس بک پر بھی ہوتے ہیں ...آج فرصت تھی ..وال وال ، گلیوں گلیوں پھرتے ان کے بارے میں ایک دوست کی تند و تیز پوسٹ دیکھی ، اور پھر مزید دوازے کھلتے گئے ...
داڑھی کے معاملے پر ان کا عمل جو بھی ہوا ، اس پر اعتراض کے باوجود یہ سراسر ان کا "ذاتی " معاملہ رہنا تھا ...اس پر تبصرے کرنا ، پوسٹ کرنا بے مقصد ہوتا ، محض عیب جوئی -
لیکن اپنے اس عمل پر مبشر حسین لاہوری صاحب کی بحث ، مقابل میں افراد کے شدید رد عمل میں جوابی رد عمل اور تند تیز دلائل - اس کے بعد یہ معاملہ ان کا ذاتی نہیں رہا کہ جس پر بات کرنا نا مناسب ہو - اس سب کے باوجود میں ان کی داڑھی بارے بات نہیں کروں گا ان کے دلائل کا رد یا اتفاق میرے پیش نگاہ نہیں - داڑھی کے حوالے سے تو مجھے صرف اتنا ہی لکھنا ہے ، اور یہی لکھا کافی ہے کہ میرے برادر عزیز نے جتنے بھی دلائل دیے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ترمذی کی حدیث سے نقل کیا ، ابن عمر رض کا دو مہینے بعد کاٹنے کا عمل بیان کیا - عبث دلائل دئیے اور بیان کیا ..کیونکہ یہ دلائل شیخ البانی کی تائید کے ساتھ بھی ایسی داڑھی کے بارے میں نہیں ہیں جو عزیز نے اختیار کی ...اس لیے بہتر ہوتا کہ داڑھی کی اختیار کردہ تحدید کے حوالے سے دلائل دئیے جاتے نہ کہ ایک حد سے زیادہ بال کاٹنے کے موقف کو اپنے لیے بطور دلیل برتا جاتا - کیونکہ کاٹنے اور مونڈنے میں بہرحال فرق تو ہے - کیونکہ ایک مشت سے زائد بال کاٹنے کو کسی بھی صورت داڑھی منڈوانے کے لیے دلیل کے طور پر اختیار نہیں کیا جا سکتا - اور ذکر کرتا چلوں کہ ایک مشت سے زائد بال کاٹ لینا برصغیر کے اس "مقامی " اسلام میں کوئی ایسا اجنبی نہیں کہ جس پر عمل کرنے سے آپ کے احباب آپ سے الجھ جاتے ، اور ان کی آنکھیں حیرت سے کھل جاتیں - کیونکہ ہمارے ہاں کے بہت سے علماء کا یہ طریق ہے اور وہ ایسا کرتے ہیں-
میں تو محترم کی ایک اور بات پر چونکا کہ آپ لکھتے ہیں کہ :
.................
عالم عرب کے جو اہل علم داڑھی سے متعلقہ روایات کی "سنن العاداۃ" کے پس منظر میں تشریح کرتے ہیں، ان کی راے اور دلایٗل کا اظہارمیں نے 2005 میں اپنی ایک کتاب "لباس کے اسلامی احکام" میں تفصیل سے کیا تھا جس کا اندراج اس وقت اپنی کتابوں کی فہرست میں شامل اشاعت بھی کر دیا تھا مگر کچھ دوستوں کے مشورہ پر یہ کتاب آج تک شایع نہیں کر سکا۔امریکہ میں اسلامی سنٹروں اور کانفرنسوں/سیمیناروں وغیرہ میں دنیا بھر سے آنے والے اہل علم سے تبادلہ خیال کے بعد اس راے کی معقولیت میں مزید وزن محسوس ہوا اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ برصغیر کا اسلام باقی عالم اسلام سے کتنا مختلف اور اپنے اندر کتنا "مقامی پن" رکھتا ہے۔ جب یہی بات ڈاکٹر محمود احمد غازی اور ظفر اسحاق انصاری جیسے اہل علم سے سنتے تھے تو کسی قدر "عجیب" لگتی تھی
...............
سوال یہ ہے کہ "مقامی پن" سے کون سا مذھب بچ سکا ہے ...؟
عام افراد کہ جو کبھی نام کے مسلمان ہوتے ہیں اور کبھی کام کے مسلمان ، سب ہی تو مقامی پن کو اپنے اندر لیے ہوتے ہیں ..عمر قدوسی بھائی کچھ ماہ امریکہ میں رہ کے آئے ، بتا رہے تھے کہ ایک مقامی مسلمان خاتون تھی کہ جو آٹھ بچوں کی ماں تھی ..اس کے چار اپنے خاوند سے تھے ..اور چار "مقامی " پن کا شکاراور ولدیت کی تلاش میں تھے - اس کے باوجود وہ مسلمان ہی تھی -
میں نے ایک مغربی ملک کے بڑے عالم دین کا ایک فتاوی شائع کیا ..اس میں سائل نے سوال کیا تھا کہ کہ سگریٹ پینے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ... تو مفتی صاحب کا جواب تھا کہ وضو نہیں ٹوٹتا ...کیا یہ جواب "مقامی" اسلام کا شاہ کار نہیں؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یورپ کا اسلام بھی وہاں کے مقامی پن کا شکار ہو گیا ؟ ..کہ جس معاشرے میں شراب اور زنا سے اپنے بچوں کو بچانا مشکل ہو چلا ہو وہاں سگریٹ کی کیا حیثیت ؟ -
میرا خیال ہے کہ ان کے لیے بہتر ہوتا کہ اپنے عمل کے دفاع کے لیے برصغیر کے تمام تر اسلام کو مقامی پن کا طعنہ نہ دیتے - ہم عرض کر چکے کہ مقامی پن ہر مذھب میں ہوتا ہے ..اور اس "مقامی پن" سے مذھب کے دلائل نہیں بدل جاتے ، اس کے لیے بہتر تھا کہ آپ " رویہ " کا لفظ اختیار کرتے -
آپ اب یورپ میں ہیں ، وہاں کی مسیحی خواتین کا پردے کے بارے میں کیا طرز عمل ہے اور برصغیر کی مسیحی خوتین کا کیا عمل ہے ..؟؟
اصفہان کے یہودی علماء کیا یہودیت کی وہی تعبیر رکھتے ہیں جو یورپ کے یہودی علماء کا شعار ہے اور یروشلم کے صیہونی علماء کا طریق ہے ؟؟
دنیا بھر میں پھیلی عیسایت کیا ہر جگہ مقامی رنگ کو ساتھ ساتھ لیے نہیں چلتی ؟
اسلام کی بات کر لیجئے کون سا خطہ ہے جہاں اہلیان اسلام مقامی رنگ سے متاثر نہیں ہووے - اگر میں کہوں کہ آپ کا اسلام " ولایت " جا کر وہاں کے مقامی پن کا شکار ہو گیا تو کس حد تک بے جا ہو گا ؟
خدا لگتی کہوں علامہ رشید رضا نے کہا تھا کہ برصغیر کے علماء حدیث کی خدمات کا بیڑا نہ اٹھاتے تو ممکن ہے یہ علم خطرے کا شکار ہو چکا ہوتا -
اور شیخ البانی تو اس سے بھی آگے نکل گئے کہ برصغیر کے اہل حدیث حضرات کا ایک صدقہ جاریہ تو میں ہوں -
مقامی پن کے شکار علماء کی جلالت علمی کا یہ عالم تھا کہ جب مدینہ یونیورسٹی میں شیخ الحدیث کی نششت خالی ہوئی اس کے لیے ان "مقامی پن کے شکار علماء " کے استاد حافظ گوندلوی رح کو بلوایا گیا ...
اسی طرح بیسیوں مثالیں ہیں - اور ہر طبقے میں ہیں -
میرے بھائی آپ رد عمل میں اپنی ہی بنیادوں کو ڈھانے چلے ، ایسا تو نہیں ہوتا نا -
میرا خیال ہے کہ آپ بات کچھ اور کہنا چاہتے تھے ...آپ کو گلہ ہے ہمارے ہاں ابھی تاک سادہ سادہ سے ، دنیا کے رنگ بو سے بے غرض ، صبح شام قال قال رسول کہنے والے اور تھوڑی سے تنخواہ پر گزارا کر جانے والے شیوخ الحدیث ابھی تک کیوں پائے جاتے ہیں .....لیکن چھوڑیے ...میں آپ کو ناصر کاظمی کا ایک شعر سناتا ہوں
بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیار
خدا کرے تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بردار عزیز ! یہ جو مقامی پن کا شکار اسلام ہے نا ، اس نے ابھی بہت کچھ بچا کے رکھا ہوا ہے ...اس لیے ہمیں شہر کی ہوا نہ ہی لگے ، رہے آپ ، آپ سے ہمیں پیار ہے ...جب کبھی لوٹ کے آئیے گا ..دروازے کھلے ملیں گے ..ان شا اللہ
.......ابوبکر قدوسی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ بھی اندازہ ہوا کہ برصغیر کا اسلام باقی عالم اسلام سے کتنا مختلف اور اپنے اندر کتنا "مقامی پن" رکھتا ہے۔
اس طرح کی جملہ بازی کوئی نئی نہیں ، آپ دنیا کے کسی خطے اور ملک میں چلے جائیں ،اس میں اگر کوئی نیکی اور خیر کا پہلو موجود ہوگا ، تو وہاں کے لبرل و سیکولر لوگ ، اس کی مخالفت اسی انداز سے کریں گے ، اور لوگوں کو ان خصائل حمیدہ سے بیزار کرنے کے لیے اسی قسم کی ’ مقامی پن ‘ جیسی اصطلاحیں تراشیں گے ۔
چلو اسلامی اخلاق و آداب کا کچھ حصہ ، عربی کلچر ہوگیا ، کچھ برصغیر کا مقامی پن ہوگیا ، جس طرف یہ لوگ بلا رہے ہیں ، وہ کہاں کا ’ مقامی پن ‘ ہے ، اس طرح کے لوگوں کو ایسی بحثیں کرتے ہوئے ، حیا بھی نہیں آتی کہ اگر یہی سوال کسی نے ہم سے کرلیا تو ہم کس منہ سے ’ اپنے پن ‘ کا مظاہرہ کرسکیں گے ۔
 
Top