محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
داڑھی والے
نفرت کا استعارہ بناے جا رہے ہیں ، ہر طرف ان کے بارے میں ایک نفرت کی فضاء ہے ...آج اخبار دیکھا تو دل غم زدہ ہو گیا .. چند مجرموں کے جرائم کی سزاء تمام طبقے کو دی جا رہی ہے ...
ایک طرف وہ ظالم ہیں جنہوں نے معصوم عوام کے ناحق قتل کو اپنا حق سمجھ لیا ہے - ان کا فہم دین یہ کہتا ہے کہ غیر حربی اور معصوم عوام کو ناحق قتل کر دینا جائز ہے ..سڑکوں اور بازاروں میں خود کش حملے ان کی نظر میں جائز ہیں اور جنت کا راستہ ... اصل میں یہ گروہ انتقام میں اندھا ہو چکا ہے اور اخلاقیات اور مذھب کو چھوڑ چکا ہے ... اور ان کا اپنا وجود معاشرے کے لیے ایسا ناسور بن چکا ہے جس کو کاٹ دینا مجبوری اور ضروری ہوتا ہے .... اس بات کا اطمینان ہے کہ پاک فوج نے پہلی بار آگے بڑھ کے افغانستان کی سرحدوں کے اندر جا کر کارراوئی کی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا .... کاش یہ کام پہلے ہی کر لیا ہوتا -
لیکن یہاں دوسرا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آج کی اخبارات پڑھ کے اور پچھلے چند دنوں کی خبروں سے بھی جو سامنے آ رہا ہے کہ :
کہیں ہم بھی رد عمل میں اسی رویے کا شکار تو نہیں ہو رہے جس کو بم دھماکے کرنے والے مجرموں نے اختیار کیا ؟ -
چند دن میں سو کے لگ بھگ جوانوں کو دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا ..یہاں سوال یہ ہے کہ عدالت کی کسی کارروائی کے بغیر ، خود ہی فیصلہ کر کے کہ یہ مجرم ہیں ، ایسا کرنا درست ہے ؟-
چلیے ہم آپ کے اس عمل پر اعتراض نہیں کرتے کہ آپ حالت جنگ میں ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا یہ عمل مزید رد عمل کو جنم دے ، بنا مجرم ثابت کیے ، ماورائے عدالت اس قتل و غارت سے مزید دہشت گرد پیدا ہوں جائیں - کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کسی کو یوں خود ہی فیصلہ کر کے قتل کر دیں تو اس کا باپ ، بھائی یا بیٹا انتقام میں اسی راہ پر چل پڑے ؟...
ہاں اگر آپ اس کا مقدمہ عدالت میں لے کر جاتے ہیں تو دوسرے فریق اور اس کے لواحقین کو مکمل موقعہ مل سکے گا کہ وہ خود کی صفائی پیش کر سکیں - اگر وہ مجرم ہے تو کم از کم اس کے لواحقین کو معلوم تو ہو گا کہ ان کا بیٹا مجرم تھا ، ان کے اندر انتقام کا جذبہ تو پیدا نہ ہو گا ...یہ کہنا کہ عدالت میں یہ چھوٹ جاتے ہیں ..یہ تو اپنی کمزوری کا اعتراف ہے کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ تھا اور محض بے گناہ پکڑ لیا .. چلیے پھر بھی اگر آپ کو یقین ہے تو کوئی ایسی پالیسی بنا لی جائے کہ ایسے مجروموں کو تادیر جیل میں رکھا جائے ، لیکن قانونی پراسس کو نہ چھوڑا جائے -
.... یہ موجودہ دہشت گرد کوئی آسمان سے تو نہیں نازل ہوۓ ، یہ ہماری ایسی ہی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں ... ہماری اشرافیہ کو سمجھنا ہو گا کہ ان کے غیر متوازن عمل سے اس رد عمل نے جنم لیا ..
ایک تازہ مثال سامنے ہیے ... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل توہین کی جا رہی ہے جس سے عام مسلمانوں کے دل زخمی ہیں لیکن حکومتی ارکان ایسے بن گئے ہیں کہ جیسے یہ ان کا مسلہ ہی نہ ہو - انہوں نے مجرم پکڑے اور پکڑ کے چھوڑ دئیے ، جن میں سے دو فورا ملک سے باہر نکل گئے ... اور یہی نہیں اب وہ بھینسا وغیرہ سنا ہے پھر میدان میں ہیں اور نبی کریم کے بارے اب کھلی گالیاں بک رہے ہیں ...اب اگر کوئی نوجوان رد عمل کا شکار ہوتا ہے تو مجرم کون ہے ؟-
اسی طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن میں عام مسلمان نوجوان کی بری طرح ذہنی شکست و ریخت ہوئی لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے اس بات کی طرف مطلق توجہ نہ دی اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ریاست سے مایوس جوان ریاست کے خلاف ہی ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں ..خدا کے لیے متوازن طرز عمل اختیار کیجئے - یہ بہت قیمتی نوجوان تھے ، ملک سے محبت کرنے والے اور سوچ و فکر رکھنے والے ... یہ محض گٹار پکڑ کے "دل دل پاکستان" گانے والے نہ تھے کہ آپ نے انہیں یوں ضائع کر دیا ....یہ اپنے شعور اور عقل کی بنیاد پر پاکستان سے محبت کرتے تھے یہ آج بھی واپس آ سکتے ہیں ..لیکن اگر آپ ان کو واپس نہیں لانا چاہتے تو کم از کم مزید تو پیدا نہ ہونے دیں -
بلا شبہ جتنے ادارے باخبر ہیں ، اور جتنے دماغ مل کر اس دہشت گردی کی بیخ کنی میں مصروف ہیں وہاں ہم جیسے عام سوچ و فکر رکھنے والوں کی پہنچ نہیں ...لیکن اقوام کی تاریخ پر جتنی نظر ہم نے ڈالی ہے تو یہی سمجھ آیا ہے کہ بے تحاشا سختی اور بلا امتیاز پکڑ دھکڑ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی ، اگر وقتی طور پر کچھ کمی آ بھی جائے تو کچھ وقت کے بعد رد عمل میں حالات مزید ہی بگڑتے ہیں .. سو یہاں محض سختی سے کام نہیں چلے گا ،حکمت اور غور فکر کی بھی ضرورت رہے گی ..دہشت گردی کے اسباب کو بہر حال دیکھنا پڑے گا ، ان اسباب کو ختم کرنا ہو -
اب ضروری ہو گیا ہے کہ علماء ، اداروں کے ذمہ داران اور ملک چلانے والی بیورو کریسی باہم مل بیٹھیں ... عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں اس دہشت گردی سے بچنے کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں ..... یہ معاملہ نہ تو محض بندوق سے حل ہو گا اور نہ ہی واعظ و نصیحت سے -
اس معاملے میں سب سے زیادہ ذمے داری علمائے دیوبند کی ہے ..ان کو آپسی سیاسی اختلاف ختم کر کے بیٹھنا ہو گا ..ان عوامل پر غور کرنا ہو گا کہ ان کے نوجوان جو ہمیشہ محب وطن تھے ، یوں گمراہ کیوں ہو گئے ؟ -
ان کو اپنے آنے والے کل کی فکر کرنا ہو گی - ورنہ یہ سلسلہ انتقام در انتقام کی صورت اختیار کرنے کو جا رہا ہے ......
اللہ ہمارے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے
.
ابوبکر قدوسی