مدارس کے نصاب خرابی کی جڑ ہیں ؟ :
خرابی کی جڑ نصاب میں ہے - اس جلمے کی خبر برادر عزیز نوفل ربانی کے ایک طویل مضمون سے ہوئی - ایک صاحب نے مدارس کی "اصلاح " کی خاطر "درد سے ڈوبا " کالم لکھا ، جس کا عمدہ جواب نوفل نے دیا -
مدارس اور ان کی بعض خرابیوں کے سبب ہمیں بھی شکوہ ہے ، لیکن یہ نہیں کہ اس کے نصاب کو ہی ہدف تنقیید بنایا جائے - حیرت ہوتی ہے کہ ماضی میں وہ لوگ بھی مدارس کے نصاب کو ہدف تنقید بناتے رہے ہیں ہیں کہ جن کا مدرسے سے بس اتنا لینا دینا ہوتا ہے کہ ابّا مرحوم ہو جائیں تو ان کے ختم پر مدرسے کے بچوں کی ضرورت آن پڑتی ہے کہ صاحب اور ان کی آل اولاد ، دادا کے لیے سورہ یٰسین بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے - گو صاحب مضمون تو ایسے نہیں لیکن مدرسے کے نصاب پر عمومی اعتراضات اسی لبرل اور روشن خیال طبقے کی طرف سے آتے رہے ہیں کہ جن کا مدرسے سے کچھ بھی لینا دینا کبھی بھی نہیں رہا -
اس اعتراض کا بنیادی سبب محض مغرب کی نقالی ہے ورنہ اعتراض کرنے والے سے اگر یہ سوال کر لیا جائے کہ :
"جناب خرابی تو مان لی ، اصلاح کی خاطر نصاب میں کچھ تبدیلی کی تجویز بھی دیجئے "
تو یقین کیجئے صاحب کی حالت دیکھنے والی ہو گی - اصل میں یہ اعتراض اہلیان مغرب کا ہے اور انہی کا اگلا ہوا لقمہ ہمارے ہاں کے لبرلز چباتے ہیں - اہلیان مغرب کا مسلہ مدرسہ نہیں مولوی ہے - وہی مولوی ، اسلام اور دین کہ جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کود ے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
جی ہاں یہ ملّا ہی تو ہے جس نے اس امت کو ڈیڑھ ہزار پرانی تھذیب سے یوں جوڑ رکھا ہے کہ جدا کرنے سے بھی جدا نہیں ہو پاتی - اس لیے مغرب نے ناکامی سے الجھ کر راگ بھیرویں کی طرح "نصب تبدیل کرو " کا راگ الاپنا شروع کیا ہوا ہے -
سوال یہ ہے کہ نصاب میں کیا تبدیلی کی جائے ؟
مدارس میں بچے دین کی تعلیم پڑھنے جاتے ہیں ، لامحالہ عربی پڑھنا اس کا بنیادی تقاضا ہے ، سو بچے پڑھتے ہیں اور ایسی اچھی عربی جانتے ہیں کہ ایک بار علامہ احسان الہی ظہیر فرمانے لگے کہ:
" مجھے ایک عرب استاد نے کہا کہ آپ کے ہاں کے مدرسے کے فارغ بچے جب ہماری یونیورسٹیوں میں مزید تعلیم کے لیے آتے ہیں تو ان کی عربی گرائمر اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ گاہے ہم بھی گھبرا جاتے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی صرف ، نحو کی غلطی نہ ہوئی جائے "
رہے دوسرے اسلامی علوم ان پر بھی ہمارے مدارس میں ایسا ہی عمدہ معیار تعلیم ہے -
پھر اصل معاملہ کیا ہے ؟ جی جناب اصل معامله وہی ہے کہ :
روح محمد کو اس کے بدن سے نکال دو
میرے خاندان میں چونکہ دنیاوی اور دینی تعلیم کے حامل بچے یکسانیت سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں - سو مجھے خاصی معلومات ہیں ، ذاتی امور کو کم لکھتا ہوتا ہوں لیکن آج لکھ رہا ہوں کہ میری ایک بیٹی ڈاکٹر بن چکی ، بیٹا پاکستان کی سب سے اعلی یونورسٹی میں انجینئر ہو رہا ہے ، اور دوران تعلیم فکر انہی کی طرف رہی کہ تعلیمی اداروں کا ماحول ان پر اثر انداز نہ ہو - الحمدللہ میں اس معاملے میں خوش قسمت رہا لیکن کیا سب کے ساتھ ایسا ہی ہے ؟
دوسری طرف ایک بھتیجا جو پنجاب یونورسٹی کے دو سمسٹر پڑھ کے مدرسے کو نکل گیا ، اس کی طرف سے خاصی بے فکری رہتی ہے -
آج اس روشن خیالی کے سبب ان جدید تعلیمی اداروں کا ماحول کس درجہ برباد ہو چکا کہ دور سے اندازہ لگانا ہی ممکن نہیں - پریوائیٹ ادارے محض کاروباری جاگیر ہی نہیں بلکہ رقص و سرود کی محفلوں کے مرکز بن چکے ، ہر تیسرے دن کسی نہ کسی بہانے سے محفل موسیقی ہو رہی ہوتی ہے ، سرکاری ادارے بھی اس "کارخیر " میں کسی سے کم نہیں - گلی محلے کے ادارے بھی اپنی سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر کسی "مزاحیہ فنکار " کو یا کسی گلوکار کو بلانا پسند کرتے ہیں - اگر طبع نازک پر بوجھ نہ ہو تو یاد دلاتا چلوں چند عشرے پہلے ہی ان "فنکاروں " کو کنجر کہہ کے پکارا جاتا تھا جو آج آپ کے تعلیمی اداروں کے مہمانان خصوصی ہو چکے ..اور کسے یاد نہیں کہ معروف ملزمہ "ایان علی " کو کراچی یونیورسٹی میں لیکچر کے لیے مدعو کا گیا تھا -
چلتے چلتے ایک اور بات بھی لکھتا چلوں ، اخبارات اٹھائیے اور پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہووے ہیں ان کے جو " ماسٹر مائنڈ " پکڑے گئے ان کی اکثریت انہی " ماسٹروں کی پڑھی ہوئی نکلتی رہی - بہتر ہے ان ماسٹروں کا "نصاب زندگی " بدلا جائے - یہ الگ موضوع ہے کہ مذھبی لڑائی کا روپ دھارتی اس جنگ کے ماسٹر مائنڈ مدارس کی بجائے یونیورسٹیوں اور کالجز کے سپوت ہی کیوں نکلتے ہیں ، مختصر یہ کہ یہ بھی آپ کی لبرل انتہا پسندی کا رد عمل ہے -
نصاب بدلنے کا سوال تو ہمارے ان جدید تعلیمی اداروں کے بارے میں بنتا ہے کہ جن سے پڑھے "بچوں " اور ' با صلاحیت " افراد نے ملک کو جہنم زار بنا رکھا ہے - یہ پڑھے لکھے افراد جدھر گئے داستان چھوڑ آئے - کرپشن کی داستانیں تو جو رقم کیں سو کیں ، انتظامی امور میں ایسے نا اہل ثابت ہووے کہ الامان --کس پہلو کا ذکر کیجیے
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
آپ کسی طرف نکل جائیے ، بیوروکریسی ہو یا عدلیہ ، مقننہ ہو یا انتظامیہ --سب چھوڑئیے روف کلاسرا کے کالم ہی پڑھ لیجیے ، یہاں کے پڑھے لکھوں کا اصل چہرہ سامنے آ جایے گا - سو حضور پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی "گناہ " نہ کیا ہو - ہاں ہم کہتے ہیں کہ آپ " پڑھے لکھے مل کر مدارس کو پہلا پتھر مارئے لیکن اس سے پہلے
پاکستان کی کسی ایک یونیورسٹی کو دنیا میں ٹاپ ٹین میں لے آئیے
یہاں کے نظام انصاف کو ایسا مضبوط کر دیجئے کہ کسی کو باد از وفات بے گناہ نہ قرار دینا پڑے
غربت کا خاتمہ کر دیجئے کہ بہتے آئل ٹینکر دو دو سو افراد کی ارتھی نہ جلا سکیں
یہاں غریب کا بچہ بھی محض کردار کے سبب الیکشن میں جیت سکے
یھاں کے حکمران خود کو عوام کا ملازم سمجھیں
تعلیمی ادارے جو "گروپ آف انڈسٹری " بن چکے ہیں ، علم کا میدان بن جائیں
ہم نہیں کہتے کہ مدارس میں ، وہاں کے نظام میں کوئی خرابی نہیں ، وہاں بھی سب اچھا نہیں - لیکن جن لوگوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا ، اس ملک کی ہر اینٹ گروی رکھ کے اپنی نسلیں سنوار لیں ، اس دیس کی ہر رگ سے لہو تک کو نچوڑ لیا ، ان کے منہ سے نکلے جملے کہ " مدارس کے نصاب میں خرابی ہے" کوئی اہمیت نہیں رکھتے -
.ابوبکر قدوسی