محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
17۔خود كو بہادر سمجھتے ہیں ؟ کن چیزوں سے ڈرتے ہیں ؟(ابتسامہ)
سچ تو یہ ہے کہ میں بہادر نہیں ہوں وقت کے ساتھ یہ بہادری ختم ہوتی جا رہی ہے
کراچی کے قتل و غارتگری کے حالات نے ہمیں ایک عجیب سے نفسیاتی خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے اور بالخصوص دین کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے اور شاید اس لیے کہ تاریخ کا طالب علم ہوں تو کبھار کبھار اپنی تحقیق کے مطابق حقائق کو برسر منبر بھی بیان کر دیتا ہوں لیکن پھر بعد میں ڈرتے رہتے ہیں کہ کئی مرتبہ دھمکیاں بھی ملی اور اپنی تحریروں پر بھی کئی مرتبہ دھمکیاں ملی جیسا کہ اس تحریر تو ریکارڈ دھمکیاں ملی جو حیات سید نا یزید رحمہ اللہ کے نام سے میں نے ایک مضمون لکھا تھا
البتہ ایک مرتبہ میں اآزادکشمیر اپنے گاوں بھمبھر جا رہا تھا وہاں مغرب کے بعد گاڑیاں بند ہو جاتی ہیں اور میں کچھ تاخیر سے پہنچا تھا اور اس علاقے میں لگڑبگھے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور ان کی ہنسی گو کہ انسانی ہنسی سے مشابہت رکھتی ہے لیکن رگوں میں خوف دوڑا دینے والی ہنسی ہوتی ہے اور جس سڑک پر میرا سفر تھا وہ تقریبا چار کلو میٹر طویل تھی اور دونوں اطراف زیادہ تر گھنے درخت تھے رات گیارہ بجے جب پہنچا تو کوئی یقین نہیں کر رہا تھا کہ میں اس علاقے سے گزر کر کس طرح پہنچا۔
اور اب ڈر لگتا ہے اپنے قلیل علم سے کہ اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو رہا بس اب کسی اور چیز سے ڈر نہیں لگتا سوائے جوابدہی کےاحساس سے کہ کیا ہو گا
سچ تو یہ ہے کہ میں بہادر نہیں ہوں وقت کے ساتھ یہ بہادری ختم ہوتی جا رہی ہے
کراچی کے قتل و غارتگری کے حالات نے ہمیں ایک عجیب سے نفسیاتی خوف و دہشت میں مبتلا کر رکھا ہے اور بالخصوص دین کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے اور شاید اس لیے کہ تاریخ کا طالب علم ہوں تو کبھار کبھار اپنی تحقیق کے مطابق حقائق کو برسر منبر بھی بیان کر دیتا ہوں لیکن پھر بعد میں ڈرتے رہتے ہیں کہ کئی مرتبہ دھمکیاں بھی ملی اور اپنی تحریروں پر بھی کئی مرتبہ دھمکیاں ملی جیسا کہ اس تحریر تو ریکارڈ دھمکیاں ملی جو حیات سید نا یزید رحمہ اللہ کے نام سے میں نے ایک مضمون لکھا تھا
البتہ ایک مرتبہ میں اآزادکشمیر اپنے گاوں بھمبھر جا رہا تھا وہاں مغرب کے بعد گاڑیاں بند ہو جاتی ہیں اور میں کچھ تاخیر سے پہنچا تھا اور اس علاقے میں لگڑبگھے بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور ان کی ہنسی گو کہ انسانی ہنسی سے مشابہت رکھتی ہے لیکن رگوں میں خوف دوڑا دینے والی ہنسی ہوتی ہے اور جس سڑک پر میرا سفر تھا وہ تقریبا چار کلو میٹر طویل تھی اور دونوں اطراف زیادہ تر گھنے درخت تھے رات گیارہ بجے جب پہنچا تو کوئی یقین نہیں کر رہا تھا کہ میں اس علاقے سے گزر کر کس طرح پہنچا۔
اور اب ڈر لگتا ہے اپنے قلیل علم سے کہ اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہو رہا بس اب کسی اور چیز سے ڈر نہیں لگتا سوائے جوابدہی کےاحساس سے کہ کیا ہو گا