محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
27۔ جدید پیش آمدہ مسائل کے دینی حل کے لیے بہترین طریقہ کیا سمجھتے ہیں ؟
مسائل خواہ جدید نوعیت کے ہوں یا قدیم ان کے حل کا طریقہ ایک ہی ہے جو 13 سو یا 14 سو سال پہلے تھا ۔ صرف نیت ہونی چاہیے ارادہ ہو نا چاہیے سب کچھ ممکنات میں سے ہے۔
لیکن مجھے اپنے دین کے طالب علموں اور اساتذہ سے ایک شکوہ عمومی طور پر رہتا ہے کہ فقہ الواقع ایک بہت ہی اہم ترین موضوع ہے جس سے کما حقہ آگاہی حاصل نہیں کی جا تی بالخصوص تجارت کے مسائل میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ ہمارے حل کا اسلوب وہاں تاجروں کو مطمئن نہیں کر رہا کہ ہمارے علماء کی اکثریت کو تجارت کے رموز و اسالیب سے واقف ہی نہیں ہوتی تو اس کا حل چہ معنی دارد؟
اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ علماء دین و داعیان اکرام کے لیے اپنے کے حالات و واقعات کا فہم کیوں ضروری ہے میرا خیال تو یہ ہے کہ اس کی معرفت کے بعد ہی ان پر شرعی حکم لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ اصول فقہ میں ایک اصول ہے جس کی رو سے کسی چیز پر لگایا گیا حکم ، اس چیز کے صحیح یا غلط تصورپر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس چیز کا فہم و تصور غلط ہے تو شرعی حکم بھی غلط ہوگا ۔اگر اس چیز کا فہم و تصور درست ہے تو شرعی حکم بھی درست ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالات و واقعات کا صحیح فہم ہی درحقیقت صحیح فتوے اور درست راہنمائی کی بنیاد ہے
اور میں جس بات کو فقہ الواقع کا نام دے رہا ہوں اس کے مطابق حالات و واقعات کا علم خواہ انفرادی زندگی کے ہوں /سماجی ہوں /سیاسی ہوں /ملکی ہوں یا بین الاقوامی ۔ان واقعات کے علم کا بڑا ذریعہ اخبارات ، میگزین اور نیوز چینلز وغیرہ ہیں۔ اور دوسرے نمبر پر حالات و واقعات کے پس منظر میں عوامل کا اصولی اور فنّی علم۔کیونکہ عوامل' واقعات کی اصل جڑ ہوتے ہیں اور عوامل کا علم بھی فقہ الواقع کااہم حصہ ہے اب یہ عوامل سماجی و سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور فکری و علمی بھی ۔
اور میں ساتھ میں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ فقہ الواقع دور جدید کا نیا علم نہیں بلکہ اس کو ہر دور کے دینی علماء نے سیکھا ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ(انعام:٥٥) ہم قرآن میں کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا راستہ اور طریق کار واضح ہوجائے ۔
یعنی فاسد اقوام و تہذیب کے افکار ونظریات اور اہداف و طریق کا رکو خوب واضح کرتے ہیں تاکہ کسی پر خیر و شر کے امور خلط و ملط نہ رہیں بلکہ اچھی طرح عیاں ہو جائیں
قرآن پاک میں مسجد ضرار کی آیات فقہ الواقع کی بہت عمدہ مثال ہے ۔ یہ آیات بتلاتی ہیں کہ بعض مساجد دھوکہ دھی ، فریب اور سازشوں کاگڑھ ہوتی ہیں ۔ ان کو گرا دینا چاہیے ۔ اسی طرح قرآن نے مشرکین ِ مکہ کی حقیقت بیان کی کہ ان کا کعبہ کامتولی ہونا اور حاجیوں کو پانی پلانا تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ لوگ مومن صحابہ کرام کے برابر ہر گز نہیں ہوسکتے (توبہ :١٩)۔یہ آیات فقہ الواقع کی بے حد عمدہ مثال ہے ۔ اسی طرح بقرہ ، احزاب اور سورۃ توبہ میں منافقین اور یہود کے حوالے سے فقہ الواقع کی زبر دست مثالیں موجود ہیں ۔
(ج) سیر ت النبی ؐ میں ہجرت حبشہ ، فتن کی احادیث ، غزوات ، بادشاہوں کو خطوط ، صلح حدیبیہ کے واقعات کو دیکھیں توہمیں معلوم ہوگا کہ نبی اکرم ؐ کی اپنے دور کے حالات پرگہری نظر تھی اور آپ نے اپنے دور کے مطابق بہترین بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ موجودہ علمائے دین کو بھی اپنے دور کے حالات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے ۔
(د)سورۃ روم کی ابتدائی آیات میں روم کے غلبہ کی بشارت دی گئی ۔ صحابہ کرام ؓ کی کسری کے مقابلے میں رومیوں سے ہمدردی رکھنا اور عالمی حالات پر نظر رکھنا اور اللہ تعالیٰ کا راہنمائی کرنا فقہ الواقع کی بہترین مثال ہے ۔ قیصر و کسریٰ کی باہمی جنگ سے صحابہ کرام کے اپنے مفادات کا تعلق اور اپنی ہمدردی و دلچسپی اسی طرح سے ہے جیسے موجودہ دور میں روس و امریکہ کی باہمی جنگ سے عالم ِ اسلام پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
(ر)نبی کریم ؐ کے بعد خلفاء راشدین اور ائمہ کرام خصوصاًامام احمد ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ اور امام عزؒبن عبد السلام وغیرہ کے دور کے حالات اور علماء کی شرعی راہنمائی فقہ الواقع کی عمدہ مثالیں ہیں ۔
عصر حاضر کا فہم /فقہ الواقع، عقیدہ کا تقاضا ہے ۔
شیخ عبد الرحمن بن سعدی ؒ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ مسلمان کے لیے اپنے دور کے حالات وواقعات سمجھنا کلمہ ''لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ '' کے لوازمات میں سے ہے ۔ فقہ الواقع کے ذریعے سے ہی ولاء و براء کا تحقق ممکن ہے ۔ اور ولاء و براء عقیدہ ئ توحید کے اصولوں میں سے بنیادی اصول ہے ۔
اس وقت عالم ِاسلام کے اکثر ممالک میں سیکولرزم نافذ ہے ۔ اور استعماری قوتوں کے ہر قسم کے سازشی منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور کے حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے سے غفلت کی اور نتیجے میں اپنے دشمنوں کے منصوبوں کا شکار ہوگئے ۔ خلیج کی جنگ میں مسلمانوں کے پاس اطلاعات کا واحد ذریعہ فقط کافروں کا میڈیا تھا اور اب بھی عام طورپر عالم ِ اسلام کی یہی صورت حال ہے ۔ اسی طرح کفار کا میڈیا دنیا کے تمام جہادی محاذات پر واقعات کی تشریح و توضیح اپنی پسند کے مطابق کرتاہے ۔
اب ہم اپنے دور کے بعض مسائل مثلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا حکم ،سوشل سائنسز کی عمومی تعلیم کا حکم ،کلوننگ وغیرہ کے بارے میں حل فقہ الواقع کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی فقہ الواقع کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو ہمارے دعاۃ کے پاس نہیں ہیں اور شاید عصر حاضر میں ہم فقہ الواقع میں غفلت کی وجہ سے اساسی و بنیادی خطاؤں کا شکار ہیں اور یہ غلطیاں بعض اوقات منہج میں بھی پائی جاتی ہیں اور کبھی کبھار اسلوب ِ دعوت میں بھی ہیں جس کی واضح مثال ملکی سیاست کے بارے میں کوئی واضح موقف کا نہ پایا جانا ہے
اب یا تو اس سے بلالکل لگ تھلگ ہوا جاتا ہے یا اس میں ضم ہو جاتے ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ جو فقہ الواقع میں مضبوط ہیں وہ شرعی علم میں کمزور ہیں جبکہ شرعی علوم میں مضبوطی کے حاملین کے پاس فقہ الواقع نہیں ہے
مسائل خواہ جدید نوعیت کے ہوں یا قدیم ان کے حل کا طریقہ ایک ہی ہے جو 13 سو یا 14 سو سال پہلے تھا ۔ صرف نیت ہونی چاہیے ارادہ ہو نا چاہیے سب کچھ ممکنات میں سے ہے۔
لیکن مجھے اپنے دین کے طالب علموں اور اساتذہ سے ایک شکوہ عمومی طور پر رہتا ہے کہ فقہ الواقع ایک بہت ہی اہم ترین موضوع ہے جس سے کما حقہ آگاہی حاصل نہیں کی جا تی بالخصوص تجارت کے مسائل میں اتنی جدت آ چکی ہے کہ ہمارے حل کا اسلوب وہاں تاجروں کو مطمئن نہیں کر رہا کہ ہمارے علماء کی اکثریت کو تجارت کے رموز و اسالیب سے واقف ہی نہیں ہوتی تو اس کا حل چہ معنی دارد؟
اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ علماء دین و داعیان اکرام کے لیے اپنے کے حالات و واقعات کا فہم کیوں ضروری ہے میرا خیال تو یہ ہے کہ اس کی معرفت کے بعد ہی ان پر شرعی حکم لگایا جا سکتا ہے ۔
چونکہ اصول فقہ میں ایک اصول ہے جس کی رو سے کسی چیز پر لگایا گیا حکم ، اس چیز کے صحیح یا غلط تصورپر مبنی ہوتا ہے۔ اگر اس چیز کا فہم و تصور غلط ہے تو شرعی حکم بھی غلط ہوگا ۔اگر اس چیز کا فہم و تصور درست ہے تو شرعی حکم بھی درست ہوگا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالات و واقعات کا صحیح فہم ہی درحقیقت صحیح فتوے اور درست راہنمائی کی بنیاد ہے
اور میں جس بات کو فقہ الواقع کا نام دے رہا ہوں اس کے مطابق حالات و واقعات کا علم خواہ انفرادی زندگی کے ہوں /سماجی ہوں /سیاسی ہوں /ملکی ہوں یا بین الاقوامی ۔ان واقعات کے علم کا بڑا ذریعہ اخبارات ، میگزین اور نیوز چینلز وغیرہ ہیں۔ اور دوسرے نمبر پر حالات و واقعات کے پس منظر میں عوامل کا اصولی اور فنّی علم۔کیونکہ عوامل' واقعات کی اصل جڑ ہوتے ہیں اور عوامل کا علم بھی فقہ الواقع کااہم حصہ ہے اب یہ عوامل سماجی و سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور فکری و علمی بھی ۔
اور میں ساتھ میں اس امر کی وضاحت بھی کرتا چلوں کہ فقہ الواقع دور جدید کا نیا علم نہیں بلکہ اس کو ہر دور کے دینی علماء نے سیکھا ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: وَکَذَلِکَ نفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ(انعام:٥٥) ہم قرآن میں کھول کھول کر نشانیاں بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا راستہ اور طریق کار واضح ہوجائے ۔
یعنی فاسد اقوام و تہذیب کے افکار ونظریات اور اہداف و طریق کا رکو خوب واضح کرتے ہیں تاکہ کسی پر خیر و شر کے امور خلط و ملط نہ رہیں بلکہ اچھی طرح عیاں ہو جائیں
قرآن پاک میں مسجد ضرار کی آیات فقہ الواقع کی بہت عمدہ مثال ہے ۔ یہ آیات بتلاتی ہیں کہ بعض مساجد دھوکہ دھی ، فریب اور سازشوں کاگڑھ ہوتی ہیں ۔ ان کو گرا دینا چاہیے ۔ اسی طرح قرآن نے مشرکین ِ مکہ کی حقیقت بیان کی کہ ان کا کعبہ کامتولی ہونا اور حاجیوں کو پانی پلانا تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کردے یہ لوگ مومن صحابہ کرام کے برابر ہر گز نہیں ہوسکتے (توبہ :١٩)۔یہ آیات فقہ الواقع کی بے حد عمدہ مثال ہے ۔ اسی طرح بقرہ ، احزاب اور سورۃ توبہ میں منافقین اور یہود کے حوالے سے فقہ الواقع کی زبر دست مثالیں موجود ہیں ۔
(ج) سیر ت النبی ؐ میں ہجرت حبشہ ، فتن کی احادیث ، غزوات ، بادشاہوں کو خطوط ، صلح حدیبیہ کے واقعات کو دیکھیں توہمیں معلوم ہوگا کہ نبی اکرم ؐ کی اپنے دور کے حالات پرگہری نظر تھی اور آپ نے اپنے دور کے مطابق بہترین بصیرت کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ موجودہ علمائے دین کو بھی اپنے دور کے حالات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنی چاہیے ۔
(د)سورۃ روم کی ابتدائی آیات میں روم کے غلبہ کی بشارت دی گئی ۔ صحابہ کرام ؓ کی کسری کے مقابلے میں رومیوں سے ہمدردی رکھنا اور عالمی حالات پر نظر رکھنا اور اللہ تعالیٰ کا راہنمائی کرنا فقہ الواقع کی بہترین مثال ہے ۔ قیصر و کسریٰ کی باہمی جنگ سے صحابہ کرام کے اپنے مفادات کا تعلق اور اپنی ہمدردی و دلچسپی اسی طرح سے ہے جیسے موجودہ دور میں روس و امریکہ کی باہمی جنگ سے عالم ِ اسلام پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
(ر)نبی کریم ؐ کے بعد خلفاء راشدین اور ائمہ کرام خصوصاًامام احمد ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ اور امام عزؒبن عبد السلام وغیرہ کے دور کے حالات اور علماء کی شرعی راہنمائی فقہ الواقع کی عمدہ مثالیں ہیں ۔
عصر حاضر کا فہم /فقہ الواقع، عقیدہ کا تقاضا ہے ۔
شیخ عبد الرحمن بن سعدی ؒ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ مسلمان کے لیے اپنے دور کے حالات وواقعات سمجھنا کلمہ ''لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ '' کے لوازمات میں سے ہے ۔ فقہ الواقع کے ذریعے سے ہی ولاء و براء کا تحقق ممکن ہے ۔ اور ولاء و براء عقیدہ ئ توحید کے اصولوں میں سے بنیادی اصول ہے ۔
اس وقت عالم ِاسلام کے اکثر ممالک میں سیکولرزم نافذ ہے ۔ اور استعماری قوتوں کے ہر قسم کے سازشی منصوبے کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور کے حالات و واقعات کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے سے غفلت کی اور نتیجے میں اپنے دشمنوں کے منصوبوں کا شکار ہوگئے ۔ خلیج کی جنگ میں مسلمانوں کے پاس اطلاعات کا واحد ذریعہ فقط کافروں کا میڈیا تھا اور اب بھی عام طورپر عالم ِ اسلام کی یہی صورت حال ہے ۔ اسی طرح کفار کا میڈیا دنیا کے تمام جہادی محاذات پر واقعات کی تشریح و توضیح اپنی پسند کے مطابق کرتاہے ۔
اب ہم اپنے دور کے بعض مسائل مثلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا حکم ،سوشل سائنسز کی عمومی تعلیم کا حکم ،کلوننگ وغیرہ کے بارے میں حل فقہ الواقع کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے ۔
اس کے علاوہ دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی فقہ الواقع کی بہت زیادہ ضرورت ہے جو ہمارے دعاۃ کے پاس نہیں ہیں اور شاید عصر حاضر میں ہم فقہ الواقع میں غفلت کی وجہ سے اساسی و بنیادی خطاؤں کا شکار ہیں اور یہ غلطیاں بعض اوقات منہج میں بھی پائی جاتی ہیں اور کبھی کبھار اسلوب ِ دعوت میں بھی ہیں جس کی واضح مثال ملکی سیاست کے بارے میں کوئی واضح موقف کا نہ پایا جانا ہے
اب یا تو اس سے بلالکل لگ تھلگ ہوا جاتا ہے یا اس میں ضم ہو جاتے ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ جو فقہ الواقع میں مضبوط ہیں وہ شرعی علم میں کمزور ہیں جبکہ شرعی علوم میں مضبوطی کے حاملین کے پاس فقہ الواقع نہیں ہے