اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
یہ تو ٹھیک ہے بھائی۔جزاک اللہ خیرا محترم بھائی میں بھی اپنی سمجھ اور علم کے مطابق دلائل تو دے سکتا ہوں حقیقی غلط صحیح تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون ہے ہاں ہم جتنی چیز کے مکلف بنائے گئے ہیں اور ہمیں جتنی نعمت (عقل و علم) دی گئی ہے اسکے تحت ہم غلط درست کا ایک نظریہ قائم کر سکتے ہیں اور اس میں بھی اللہ تعالی نے ہمیں ہماری سمجھ سے زیادہ مکلف نہیں بنایا واللہ اعلم
محترم بھائی میرے خیال میں یہ بات بالکل تقلید میں نہیں آتی جس کے لئے میں نے اوپر بدعت والی مثال دی ہے کہ جو چیز کسی شرعی حکم کا ذریعہ بن رہی ہوتی ہے وہ بھی بالواسطہ شرعی حکم بن جاتی ہے جیسے پانی پلانے کے حکم میں گلاس اٹھانا اور پھر ٹوٹی کھولنا وغیرہ خود بغود آ جاتا ہے کیونکہ اس پر عمل کے بغیر پانی پلانا ہی ممکن نہیں اسی طرح نحو و صرف کا علم بالواسطہ شرعی حکم بن جاتا ہےکیونکہ اسکے بغیر بہت سے بلا واسطہ شرعی احکامات پر عمل ممکن نہیں مثلا ولقد یسرنا القران لذکر فھل من مدکر پر عمل کے لئے بھی بہت سے علوم کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ کہتے ہیں کپ قرآن کو سمجھنے کے لئے سولہ علوم کی ضرورت پڑتی ہے
اسی طرح بلغو عنی ولو ایۃ ایک بلا واسطہ شرعی حکم ہے اس پر ہم نے عمل کرنا ہے
مگر سامنے ایک اور بلا واسطہ شرعی حکم نظر آ جاتا ہے کہ من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار
پس ڈر لگتا ہے کہ کہیں اسکی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو اس بارے میں قرآن و حدیث کے بلا واسطہ احکامات سے وضاحت طلب کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے
ان جاءکم فاسکم --------
یعنی ہمیں تحقیق کرنے کا حکم ملتا ہے
اب تحقیق کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے اسکے لئے ہمیں قرآن و حدیث سے عقل کو استعمال کرنے اور لوگوں سے پوچھنے کا حکم ملتا ہے
محترم بھائی یاد رکھیں عقل کا استعمال شریعت میں مطلقا منع نہیں ہے بلکہ یہ بھی بعض دفعہ جمہور کے نزدیک شریعت کا ایک ماخذ کہلاتا ہے جیسے قیاس ہے جس کو جمہور مانتے ہیں پس اس میں عقل ہی استعمال ہوتا ہے اور دیکھیں قیاس کو حجت نہ ماننے والوں کو دلیل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے دی جاتی ہے کہ انھوں نے بھی قیاس (عینی عقل کا استعمال) کیا تھا پس قیاس حجت ہے
تو میرے بھائی جب قیاس کی اصل بنیاد عقل اور مشاہدہ ہے تو قیاس کے حجت ہونے سے عقل حجت کیوں نہیں ہو سکتی
البتہ معتزلہ کی طرح ہم نہیں کہتے کہ جو عقل کو نقل پر مقدم رکھتے تھے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ عقل کو نقل کے تابع رکھنا ہے مگر مطلقا ممنوع نہیں قرار دینا
اب دیکھنا یہ ہیں کہ اوپر موضوع میں کیا عقل اور مشاہدہ کا ہی استعمال ہو رہا ہے اور وہ نقل کے تابع بھی ہے کہ نہیں
تو میرے بھائی صرف اور نحو میں جو اصول بنائے جاتے ہیں وہ بھی تمام کے تمام عقل اور مشاہدہ کے تابع ہوتے ہیں اسی طرح اسماء الرجال کا علم بھی عقل اور مشاہدہ کے تابع ہوتا ہے
پس جس طرح ہمیں کچھ شرعی احکام تک پہنچنے کے لئے عقلی طور پر وضع کیے گئے علم النحو اور علم الصرف کو شرعی بلواسطہ حجت ماننا پڑتا ہے اسی طرح ہمیں بلغو عنی ولو ایۃ وغیرہ کے شرعی احکامات کی بجاآوری کے لئے بھی اسماء الرجال جیسے عقل سے وضع کیے جانے والے علم کو شرعی حجت سمجھنا پڑتا ہے
پس ہم جب اسماءالرجال میں کسی محدث کی عقلی تحقیق کو مانتے ہیں تو وہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے علم النحو میں کسی نحوی کی عقلی تحقیق کو مانتے ہیں
Dua بہنا نے بھی شاید وضآحت پوچھی تھی کہ پھر کس کی تحقیق پر عمل کریں تو جیسے شروع میں بتایا گیا ہے کہ ہم اپنی سمجھ کے مکلف ہوتے ہیں جتنا سمجھ آتا ہے اسکی تحقیق کر لیں باقی میں ہم دوسرے کی بات پر اعتبار کر لیں یعنی کہیں اہل حدیث کو بھی تقلید کرنی پڑتی ہے واللہ اعلم
لیکن جرح کا جو حکم لگاتے ہیں محدثین اس پر اکثر کوئی دلیل نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر انہی جابر جعفی کے بارے میں امام ترمذی نے ابو حنیفہؒ سے نقل کیا ہے کہ جابر جعفی کذاب ہے۔
ابو حنیفہ نے یہ کیوں کہا؟ کوئی لڑائی یا حسد تو نہیں تھا؟ کوئی اور وجہ تو نہیں تھی؟ ممکن ہے ابو حنیفہ کا کوئی اور غلط مقصد رہا ہو۔
یہ سب عقلی امکانات ہیں۔ لیکن کیا ہم ان امکانات کو ایک طرف رکھ کر صرف جارح کے تقوی اور علم کو دیکھ کر اس کی بات نہیں مان لیتے؟