• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٩﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر انکار ہی پر جمے رہے۔
قرآن، سورت الاسراء، آیت نمبر 89-88
قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے }النساء ( 59 ).

تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كو رد كيا تو وہ ہلاكت كے كنارے پر ہے " انتہى

اور حسن بن على بربھارى كہتے ہيں:

" جب تم كسى شخص كو حديث و اثار ميں طعن كرتے سنو، يا پھر وہ آثار كو رد كرتا يا آثار يعنى احاديث كے علاوہ كچھ اور چاہتا ہو تو آپ اس كے اسلام ميں تہمت لگا سكتے ہيں، اور آپ اسے بلاشك و شبہ بدعتى اور صاحب ہوى و خواہشات سمجھ سكتے ہيں.

اور جب آپ سنيں كہ كسى شخص كے پاس حديث آتى ہے تو وہ حديث نہيں چاہتا بلكہ قرآن چاہتا ہے، تو آپ اس ميں شك نہ كريں كہ وہ زنديق ہے، آپ اس كے پاس سے اٹھ جائيں اور اسے چھوڑ ديں " انتہى

ديكھيں: شرح السنۃ ( 113 - 119 ) اختصار كے ساتھ.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے رب سے جو بيان كيا ہے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے ہم اس كا معنى جانتے ہوں يا نہ جانيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم صادق المصدوق ہيں، اس ليے جو بھى كتاب و سنت ميں آيا ہے ہر مومن شخص كے ليے اس پر ايمان ركھنا واجب ہے، چاہے وہ اس كا معنى نہ بھى سمجھتا ہو " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 3 / 41 ).

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس لیے کہ طبقہء اہلِ حدیث کے کچھ حضرات بھی غیر شعوری طور پر شخصیت پرستی میں بُری طرح مبتلاء ہیں۔
حدیث و محدثین دشمنی میں آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ بات کس موضوع پر ہورہی ہے ۔ اس تھریڈ میں ابن حبان کی بات کو رد کیا گیا ہےکیا یہ شخصیت پرستی ہے ؟
اہل حدیثوں کو ہماری ضرورت نہیں لیکن آپ کی ضرورت ہے تا کہ اپنے بزرگوں کا دفاع کیا جا سکے - احناف کے خلاف یہاں پوسٹ لگائی گئی اور @محمد عامر یونس بھائی نے خوب کھری کھری باتیں کی ہیں لیکن یہاں جب اپنے بزرگوں کی بات آئ تو زبان گنگ ہو گئی
لیکن ان کا دعوا صرف دعوا ہی ہے
لیکن اس پر عمل نہیں
الله ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا کرے - آمین​
کیسے زبان گنگ ہوگئی ، ابن حبان کے موقف کی غلطی کا اعتراف نہیں کیا ؟ اور کیا ان پر کفر کا فتوی چاہتے ہیں آپ ؟ کیا اخبار میں اشتہار دیں کہ ابن حبان کا فلاں موقف غلط ہے ؟
انسان کو بات کرتے ہوئے اپنی اوقات دیکھنی چاہیے اور اپنے مطالبات دیکھنے چاہییں ۔ یہ کوئی اعتراض ہے کہ فلاں کی غلطیوں پر آپ نے کتاب چھاپی اور فلاں کی غلطیوں پر نہیں چھاپی ؟ کیا غلطی کی تردید کے الگ سے کتاب چھاپنا ضروری ہے ؟ اور اگر کوئی کتاب چھاپے گا تو کیا پتہ آپ کہہ دیں کہ فلاں کے رد میں تو آپ نے مہنگے کاغذ والی کتاب چھاپی ہے جبکہ فلاں کے رد پر آپ نے بالکل ہلکا کاغذ استعمال کیا ہے ۔
عقل تم کو مگر نہیں آتی ۔
کیا آپ حضرات امام بخاری ؒو مسلمؒ کی تمام روایات کو قرآن کی طرح من و عن نہیں مانتے ؟آپ اُن روایات کو بھی مان لیتے ہیں جن کی سند تو صحیح ہو مگر متن صحیح نہ ہو ۔
آپ اس بات کا موضوع سے کیا تعلق ہے ؟ ہر جگہ آپ حدیث دشمنی میں جلتے نظر آتے ہیں ،کام کی بات ایک بھی نہیں ، اسحاق سلفی صاحب آخر تک آپ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ صحیحین میں سے کوئی ایک روایت بمعہ ترجمہ لکھ دیں جو قرآن کے خلاف ہو ، جو آپ سے ابھی تک نہیں ہوسکا ۔ یہ آپ کی علمی قابلیت کا حال ہے ۔
میرے بھائی قرآن کا مقام ھماری نظر میں نمبر 1 پر ہے اور اس کے بعد صحیح احادیث دوسرے نمبر پر ہے
باقی وضاحت @خضر حیات بھائی کر دے گے
اہل علم کے ہاں مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن راجح موقف کے مطابق قرآن اور سنت دونوں پہلے نمبر پر ہیں ’’ حجت ‘‘ ہونے کے اعتبار سے۔
جبکہ ’’ فضیلت ‘‘ کے اعتبار سے ’’ سنت ‘‘ کا نمبر ’’ قرآن ‘‘ کے بعد آتا ہے ۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔
میرے بھائی آپ کی نظر میں بخاری و مسلم قرآن کی طرح ہیں اس لیے آپ اس کی کسی روایت پر تنقید کرنا حرام قرار دیتے ہیں مگر ہم قرآن پر کسی چیز کو ترجیح نہیں دے سکتے اس لیے اگر کوئی ہمیں اپنے اکابر کی تقلید میں منکرِ حدیث کہتا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بلکہ ہم اسےبل قالوا مثل ما قال الاولون کی طرح سمجھتے ہیں۔
آپ قرآن کی بھی نہیں مانتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ’’ وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ‘‘ کہ قرآن مجید میں مسائل اختصار کے ساتھ بیان ہوئے اور ان کی تفصیل اور تفسیر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ۔
عصر حاضر کے نام نہاد اہل قرآن ، اپنے بزرگوں کی تفسیریں تو حجت سمجھتے ہیں لیکن قرآن کی ’’ نبوی تفسیر ‘‘ میں شکوک شبہات پیدا کرکے قرآنی آیات کو اپنے ہوائے نفس کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔
آپ کے اکابر کون ہیں۔
شاید جن کو انہوں نے اکابر ماناہے ، وہ اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کےہاں ان کا نام لیا جائے ، اسی لیے نام نہیں لیں گے ۔
میرے محترم بھائی ! جو جمود ہمارے روایت پرست علماء نے صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے ہم پر طاری کیا ہوا ہے اس کے تناظر میں آپ کا کہنا بجا ہے۔ آپ کہہ دیں کہ بخاری و مسلم شک و شبہ سے بالکل پاک ہے اوران کتابوں میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں۔ بات ختم ہو جا ئے بس !
قرآن اور بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ قرآن ’’ متن ‘‘ہے جبکہ ان کتابوں میں بیان کردہ احادیث نبویہ اس کی ’’ شرح ‘‘ ہیں ۔ قرآن میں ’’ حسن اجمال ‘‘ ہے ان کتابوں میں بیان کردہ حدیث نبوی میں ’’ تفصیل اور بیان ‘‘ ہے ۔
قرآن نے ’’ حدیث ‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ میرے اندر بیان کیے گئے احکام کی عملی تطبیق دیکھنی ہے تو ’’ رسول کی روز مرہ زندگی ‘‘ کو دیکھو ۔
منکرین کہتے ہیں کہ ہم قرآن مانتے ہیں لیکن قرآن جس کا حوالہ دیتا ہے اس کو نہیں مانتے ۔
کیا اللہ تعالی ’’ غلط بات ‘‘ کا حوالہ دے سکتا ہے ؟
اور اگر قرآن کی آیت وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم میں جس ’’ بیان ‘‘ کا ذکر ہے ، اگر وہ بخاری ومسلم اور حدیث کی کتابوں میں نہیں ہے تو کہاں ہے ؟ کیا بائبل کے اندر ہے ؟ گرنتھ کے اندر ہے ؟
آپ کے مطابق علم و حکمت ان علماء پر ختم ہو گئی اب ہمیں ان کا مقلد بن کر اپنی فہم پر قفل لگا لینا چاہیے۔ اگر آپ حضرات نےایسا فیصلہ کرہی لیا ہے تو دوسروں کو تو مجبور نہ کریں۔
قرآن اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بیان کردہ علوم و فنون تو ہمیشہ ہی تروتازہ ہوتے رہیں گے ، اور علماء ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے رہیں گے ، لیکن دشمنوں کی سازش کا شکار ہونےوالے کچھ محرومین ہی ہیں جو افتومنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض کی عملی تصویر بن جائیں گے ۔
یہ وہی لوگ ہیں جو آپ کی روایت پرستی سے دل برداشتہ ہو گئے تھے ۔اہل ِ حدیث کی روایت پرستی کو چھوڑ کر وہ ادھر ہی جانا پسند کرتے ہیں۔
جب اٹھتے جاگتے مستشرقین کے ناولوں کا مطالعہ ہو ، اور اسلامی علمی ورثے کو پڑھنے اور سمجھنےکی فرصت نہ ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ آدمی ’’ و من یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ‘‘ کا مصداق بن جاتاہے ۔ اصول حدیث اور فن رجال ، علم الجرح والتعدیل ذرا مشکل ہیں ، لیکن ذہین لوگوں کی دلچسپی کا اس میں بہت زیادہ سامان ہے ، بلکہ ذہین اور محنتی لوگ ہی اس میدان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ مجھے یہ قوی امید ہے کہ منکرین حدیث کے بزرگ مستشرقین کی کاوشوں سے پہلے اگر براہ راست ان علوم و فنون سے وابستہ ہو جاتے تو یقینا وہ ’’ گمراہی ‘‘ سے بچ سکتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔
قرآن، سور مریم، آیت نمبر 41
اس روایت کو سینے سے لگا کراور قرآن کی آیت کو نظر انداز کر کے آپ لوگ بڑی جسارت کر رہے ہیں۔ نبیﷺ سے اس روایت کا متن صحیح نہیں ہے۔
ایسی روایات اور اہلِ حدیثیت آپ ہی کو مبارک ہو کہ محض ایک ثقہ راوی کی ثقاہت پر آپ کو یقین کامل ہے مگر اللہ تعالٰی قرآن میں حضرت ابراہیم ؑ کو صدیق فرما رہا ہے اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالٰی کہہ رہا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ صدیق ہے مگر محض ایک روایت کے بل پہ ایک نبیؑ کو نعوذ باللہ ۔۔۔۔۔۔
آپ کی مصیبت یہ ہے کہ لفظ ’’ کذب ‘‘ کے معانی سے عدم واقفیت کی بنا پر اعتراض کی ساری عمارت کھڑی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ’’ کذب ‘‘ عربی کا لفظ ہے اور اردو کا لفظ ’’ جھوٹ ‘‘ اس کے مختلف معانی میں سے ایک ہے ۔ جو کہ یہاں مراد ہی نہیں ۔ اگر آپ حدیث میں ایسا لفظ دکھا دیں جس کا ’’ جھوٹ ‘‘ کے علاوہ اور کئی معنی بنتا ہی نہ ہو تو پھر آپ کی بات میں وزن ہے کہ قرآن کی آیت اور حدیث میں تناقض اور تعارض ہے ۔
محترم -
آپ کی بات سے متفق ہوں- لیکن خیال رہے کہ اگر دلیل نہ ہو تو کسی پر "منکرین حدیث" کا الزام لگانا اچھی عادت نہیں- ہاں اگر دلیل موجود ہے تو ضرور منکر ہونے الزام عائد کیا جا سکتا ہے -
آپ کے خیال میں ’’ کذبات ثلاثہ ‘‘ والی روایت کا انکار کرنے والے کو ’’ منکر حدیث ‘‘ کہاجاسکتا ہے کہ نہیں ؟
ابن القيسراني (المتوفى: 507هـ) کتاب ذخيرة الحفاظ (من الكامل لابن عدي) میں ایک روایت پر لکھتے ہیں

وَهَذَا الحَدِيث وَإِن كَانَ مُسْتَقِيم الْإِسْنَاد؛ فَإِنَّهُ مُنكر الْمَتْن، لَا أعلم رَوَاهُ عَن ابْن عَيَّاش غير سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي.


اور یہ حدیث اگر اس کی اسناد مستقیم بھی ہوں تو یہ منکر المتن ہے اس کو ابْن عَيَّاش سے سوائے سُلَيْمَان بن أَيُّوب الْحِمصِي کے کوئی روایت نہیں کرتا
ابن القیسرانی نے ذخیرۃ الحفاظ میں کہاں یہ بات لکھی ہے اس کا حوالہ دے دیں ۔
قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جھوٹ بولا مگر یہ ”معجزہ“ فقط روایات کی کتابوں میں آیا ۔ دراصل آپ لوگوں کی نظر میں روایت کی اہمیت ہے اور ہماری نظر میں قرآن کی۔ قرآن مجید اعلان کر رہا ہے حضرت ابراہیمؑ سچے تھے مگر محض روایات کے بل بوتے پر ان کو العیاذ باللہ جھوٹا کہا جا رہا ہے صرف روایت کے نا جائز دفاع کے لیے ۔ اگر آپ لوگوں نے قرآن کی آیت نہیں ماننی تو نہ مانیں ۔ جس طرح آپ لوگ روایت کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح ہم قرآن کی آیت کو نہیں چھوڑ سکتے۔حضرت ابراہیمؑ کے سچے ہونے والی بات قرآن نے ہمارے ذہن میں ڈالی ہے یہ ہماری عقلی پیدا وار نہیں ہے مگر آ پ لوگوں کی عقل میں حضرت ابراہیمؑ کے العیاذ باللہ جھوٹا ہونے کی بات روایت نے ڈالی ہے،قرآن نے نہیں۔
اگر آپ کو صحیح بخاری کے معصوم رایوں کی ثقاہت محبوب ہے تو ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت محبوب ہے۔ ہمیں راویوں کی بات سے زیادہ اللہ تعالٰی کی بات پر یقینِ کامل ہے۔
اس روایت کی تاویل میں جن علماء نے کوشش کیں ہیں وہ معاملے کو بنانے کی بجائے اور بگاڑ دیتی ہیں براہِ کرم اس روایت کی تاویل میں جو رائے پیش کی گئی ہیں ان کا مطالعہ بھی کرلیں حقیقت واضح ہو جائی گی۔
قرآن لاکھ کہے کہ حضرت ابراہیم ؑ سچے تھے مگر ہماری روایت کہتی ہے نہیں نہیںلَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا۔ استغفر اللہ ۔
بھائی ایسے کہیں کہ یہ ’’ جھوٹے قرار دینے کامعجزہ ‘‘ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ، یہ بعض لوگوں کے فہم کی پیداوار ہے ۔ حدیث میں کہاں لکھا ہواکہ ’’ ابراہیم علیہ السلام معاذ اللہ جھوٹے تھے ‘‘ ۔ صرف لفظ ’’ کذب ‘‘ آپ کا دعوی ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’ کذب ‘‘ تو اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔
میرے محترم بھائی ! آپ جتنا زور لگا لیں مگر میرا سوال اب بھی وہیں ہے کہ
کیا حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالٰی نے جھوٹا قرار دیا ؟
جب اس سوال کا جواب قرآن سے مل جائے تو مجھے بھی مطلع کر دیں ، عین نوازش ہو گی۔ میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آپ کی نظر میں روایت ہے اور ہماری نظر میں قرآن کی آیت ہے۔ فیصلہ پڑھنے والا خود ہی کر لیگا کہ اس نے قرآن کی بات ماننی ہے یا روایت کی ؟
کیا کسی حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کو ’’ جھوٹا ‘‘ قرار دیا گیا ؟ حدیث کے الفاظ نقل کردیں ۔ اور قرآن کی وہ آیت یا کوئی حدیث بھی نقل کردیں جس میں ’’ کذب ‘‘ کا معنی جھوٹ ہونا ہی متعین ہو ۔ لغت سے بھی مدد لے لیں ، اہل زبان عرب سے بھی مدد لے لیں ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیرا ً محترم خضر حیات بھائی!
قریب ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتا!!!
حفظک اللہ!
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
حدیث و محدثین دشمنی میں آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ بات کس موضوع پر ہورہی ہے ۔ اس تھریڈ میں ابن حبان کی بات کو رد کیا گیا ہےکیا یہ شخصیت پرستی ہے ؟

کیسے زبان گنگ ہوگئی ، ابن حبان کے موقف کی غلطی کا اعتراف نہیں کیا ؟ اور کیا ان پر کفر کا فتوی چاہتے ہیں آپ ؟ کیا اخبار میں اشتہار دیں کہ ابن حبان کا فلاں موقف غلط ہے ؟
انسان کو بات کرتے ہوئے اپنی اوقات دیکھنی چاہیے اور اپنے مطالبات دیکھنے چاہییں ۔ یہ کوئی اعتراض ہے کہ فلاں کی غلطیوں پر آپ نے کتاب چھاپی اور فلاں کی غلطیوں پر نہیں چھاپی ؟ کیا غلطی کی تردید کے الگ سے کتاب چھاپنا ضروری ہے ؟ اور اگر کوئی کتاب چھاپے گا تو کیا پتہ آپ کہہ دیں کہ فلاں کے رد میں تو آپ نے مہنگے کاغذ والی کتاب چھاپی ہے جبکہ فلاں کے رد پر آپ نے بالکل ہلکا کاغذ استعمال کیا ہے ۔
عقل تم کو مگر نہیں آتی ۔

آپ اس بات کا موضوع سے کیا تعلق ہے ؟ ہر جگہ آپ حدیث دشمنی میں جلتے نظر آتے ہیں ،کام کی بات ایک بھی نہیں ، اسحاق سلفی صاحب آخر تک آپ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ صحیحین میں سے کوئی ایک روایت بمعہ ترجمہ لکھ دیں جو قرآن کے خلاف ہو ، جو آپ سے ابھی تک نہیں ہوسکا ۔ یہ آپ کی علمی قابلیت کا حال ہے ۔

اہل علم کے ہاں مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن راجح موقف کے مطابق قرآن اور سنت دونوں پہلے نمبر پر ہیں ’’ حجت ‘‘ ہونے کے اعتبار سے۔
جبکہ ’’ فضیلت ‘‘ کے اعتبار سے ’’ سنت ‘‘ کا نمبر ’’ قرآن ‘‘ کے بعد آتا ہے ۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔

آپ قرآن کی بھی نہیں مانتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ’’ وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ‘‘ کہ قرآن مجید میں مسائل اختصار کے ساتھ بیان ہوئے اور ان کی تفصیل اور تفسیر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ۔
عصر حاضر کے نام نہاد اہل قرآن ، اپنے بزرگوں کی تفسیریں تو حجت سمجھتے ہیں لیکن قرآن کی ’’ نبوی تفسیر ‘‘ میں شکوک شبہات پیدا کرکے قرآنی آیات کو اپنے ہوائے نفس کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔

شاید جن کو انہوں نے اکابر ماناہے ، وہ اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کےہاں ان کا نام لیا جائے ، اسی لیے نام نہیں لیں گے ۔

قرآن اور بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ قرآن ’’ متن ‘‘ہے جبکہ ان کتابوں میں بیان کردہ احادیث نبویہ اس کی ’’ شرح ‘‘ ہیں ۔ قرآن میں ’’ حسن اجمال ‘‘ ہے ان کتابوں میں بیان کردہ حدیث نبوی میں ’’ تفصیل اور بیان ‘‘ ہے ۔
قرآن نے ’’ حدیث ‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ میرے اندر بیان کیے گئے احکام کی عملی تطبیق دیکھنی ہے تو ’’ رسول کی روز مرہ زندگی ‘‘ کو دیکھو ۔
منکرین کہتے ہیں کہ ہم قرآن مانتے ہیں لیکن قرآن جس کا حوالہ دیتا ہے اس کو نہیں مانتے ۔
کیا اللہ تعالی ’’ غلط بات ‘‘ کا حوالہ دے سکتا ہے ؟
اور اگر قرآن کی آیت وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم میں جس ’’ بیان ‘‘ کا ذکر ہے ، اگر وہ بخاری ومسلم اور حدیث کی کتابوں میں نہیں ہے تو کہاں ہے ؟ کیا بائبل کے اندر ہے ؟ گرنتھ کے اندر ہے ؟

قرآن اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بیان کردہ علوم و فنون تو ہمیشہ ہی تروتازہ ہوتے رہیں گے ، اور علماء ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے رہیں گے ، لیکن دشمنوں کی سازش کا شکار ہونےوالے کچھ محرومین ہی ہیں جو افتومنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض کی عملی تصویر بن جائیں گے ۔

جب اٹھتے جاگتے مستشرقین کے ناولوں کا مطالعہ ہو ، اور اسلامی علمی ورثے کو پڑھنے اور سمجھنےکی فرصت نہ ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ آدمی ’’ و من یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ‘‘ کا مصداق بن جاتاہے ۔ اصول حدیث اور فن رجال ، علم الجرح والتعدیل ذرا مشکل ہیں ، لیکن ذہین لوگوں کی دلچسپی کا اس میں بہت زیادہ سامان ہے ، بلکہ ذہین اور محنتی لوگ ہی اس میدان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ مجھے یہ قوی امید ہے کہ منکرین حدیث کے بزرگ مستشرقین کی کاوشوں سے پہلے اگر براہ راست ان علوم و فنون سے وابستہ ہو جاتے تو یقینا وہ ’’ گمراہی ‘‘ سے بچ سکتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔


آپ کی مصیبت یہ ہے کہ لفظ ’’ کذب ‘‘ کے معانی سے عدم واقفیت کی بنا پر اعتراض کی ساری عمارت کھڑی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ’’ کذب ‘‘ عربی کا لفظ ہے اور اردو کا لفظ ’’ جھوٹ ‘‘ اس کے مختلف معانی میں سے ایک ہے ۔ جو کہ یہاں مراد ہی نہیں ۔ اگر آپ حدیث میں ایسا لفظ دکھا دیں جس کا ’’ جھوٹ ‘‘ کے علاوہ اور کئی معنی بنتا ہی نہ ہو تو پھر آپ کی بات میں وزن ہے کہ قرآن کی آیت اور حدیث میں تناقض اور تعارض ہے ۔

آپ کے خیال میں ’’ کذبات ثلاثہ ‘‘ والی روایت کا انکار کرنے والے کو ’’ منکر حدیث ‘‘ کہاجاسکتا ہے کہ نہیں ؟

ابن القیسرانی نے ذخیرۃ الحفاظ میں کہاں یہ بات لکھی ہے اس کا حوالہ دے دیں ۔

بھائی ایسے کہیں کہ یہ ’’ جھوٹے قرار دینے کامعجزہ ‘‘ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ، یہ بعض لوگوں کے فہم کی پیداوار ہے ۔ حدیث میں کہاں لکھا ہواکہ ’’ ابراہیم علیہ السلام معاذ اللہ جھوٹے تھے ‘‘ ۔ صرف لفظ ’’ کذب ‘‘ آپ کا دعوی ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’ کذب ‘‘ تو اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

کیا کسی حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کو ’’ جھوٹا ‘‘ قرار دیا گیا ؟ حدیث کے الفاظ نقل کردیں ۔ اور قرآن کی وہ آیت یا کوئی حدیث بھی نقل کردیں جس میں ’’ کذب ‘‘ کا معنی جھوٹ ہونا ہی متعین ہو ۔ لغت سے بھی مدد لے لیں ، اہل زبان عرب سے بھی مدد لے لیں ۔
خضر حیات بھائی ان میں فرق کی وضاحت کر دیں
اصول حدیث اور فن رجال ، علم الجرح والتعدیل
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
حدیث و محدثین دشمنی میں آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ بات کس موضوع پر ہورہی ہے ۔ اس تھریڈ میں ابن حبان کی بات کو رد کیا گیا ہےکیا یہ شخصیت پرستی ہے ؟

کیسے زبان گنگ ہوگئی ، ابن حبان کے موقف کی غلطی کا اعتراف نہیں کیا ؟ اور کیا ان پر کفر کا فتوی چاہتے ہیں آپ ؟ کیا اخبار میں اشتہار دیں کہ ابن حبان کا فلاں موقف غلط ہے ؟
انسان کو بات کرتے ہوئے اپنی اوقات دیکھنی چاہیے اور اپنے مطالبات دیکھنے چاہییں ۔ یہ کوئی اعتراض ہے کہ فلاں کی غلطیوں پر آپ نے کتاب چھاپی اور فلاں کی غلطیوں پر نہیں چھاپی ؟ کیا غلطی کی تردید کے الگ سے کتاب چھاپنا ضروری ہے ؟ اور اگر کوئی کتاب چھاپے گا تو کیا پتہ آپ کہہ دیں کہ فلاں کے رد میں تو آپ نے مہنگے کاغذ والی کتاب چھاپی ہے جبکہ فلاں کے رد پر آپ نے بالکل ہلکا کاغذ استعمال کیا ہے ۔
عقل تم کو مگر نہیں آتی ۔

آپ اس بات کا موضوع سے کیا تعلق ہے ؟ ہر جگہ آپ حدیث دشمنی میں جلتے نظر آتے ہیں ،کام کی بات ایک بھی نہیں ، اسحاق سلفی صاحب آخر تک آپ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ صحیحین میں سے کوئی ایک روایت بمعہ ترجمہ لکھ دیں جو قرآن کے خلاف ہو ، جو آپ سے ابھی تک نہیں ہوسکا ۔ یہ آپ کی علمی قابلیت کا حال ہے ۔

اہل علم کے ہاں مختلف فیہ مسئلہ ہے لیکن راجح موقف کے مطابق قرآن اور سنت دونوں پہلے نمبر پر ہیں ’’ حجت ‘‘ ہونے کے اعتبار سے۔
جبکہ ’’ فضیلت ‘‘ کے اعتبار سے ’’ سنت ‘‘ کا نمبر ’’ قرآن ‘‘ کے بعد آتا ہے ۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔

آپ قرآن کی بھی نہیں مانتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ’’ وأنزلنا إلیک الذکر لتبین للناس ما نزل إلیہم ‘‘ کہ قرآن مجید میں مسائل اختصار کے ساتھ بیان ہوئے اور ان کی تفصیل اور تفسیر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ۔
عصر حاضر کے نام نہاد اہل قرآن ، اپنے بزرگوں کی تفسیریں تو حجت سمجھتے ہیں لیکن قرآن کی ’’ نبوی تفسیر ‘‘ میں شکوک شبہات پیدا کرکے قرآنی آیات کو اپنے ہوائے نفس کے مطابق استعمال کرتے ہیں ۔

شاید جن کو انہوں نے اکابر ماناہے ، وہ اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کےہاں ان کا نام لیا جائے ، اسی لیے نام نہیں لیں گے ۔

قرآن اور بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ قرآن ’’ متن ‘‘ہے جبکہ ان کتابوں میں بیان کردہ احادیث نبویہ اس کی ’’ شرح ‘‘ ہیں ۔ قرآن میں ’’ حسن اجمال ‘‘ ہے ان کتابوں میں بیان کردہ حدیث نبوی میں ’’ تفصیل اور بیان ‘‘ ہے ۔
قرآن نے ’’ حدیث ‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ میرے اندر بیان کیے گئے احکام کی عملی تطبیق دیکھنی ہے تو ’’ رسول کی روز مرہ زندگی ‘‘ کو دیکھو ۔
منکرین کہتے ہیں کہ ہم قرآن مانتے ہیں لیکن قرآن جس کا حوالہ دیتا ہے اس کو نہیں مانتے ۔
کیا اللہ تعالی ’’ غلط بات ‘‘ کا حوالہ دے سکتا ہے ؟
اور اگر قرآن کی آیت وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم میں جس ’’ بیان ‘‘ کا ذکر ہے ، اگر وہ بخاری ومسلم اور حدیث کی کتابوں میں نہیں ہے تو کہاں ہے ؟ کیا بائبل کے اندر ہے ؟ گرنتھ کے اندر ہے ؟

قرآن اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بیان کردہ علوم و فنون تو ہمیشہ ہی تروتازہ ہوتے رہیں گے ، اور علماء ان کی خدمت کا شرف حاصل کرتے رہیں گے ، لیکن دشمنوں کی سازش کا شکار ہونےوالے کچھ محرومین ہی ہیں جو افتومنون ببعض الکتب و تکفرون ببعض کی عملی تصویر بن جائیں گے ۔

جب اٹھتے جاگتے مستشرقین کے ناولوں کا مطالعہ ہو ، اور اسلامی علمی ورثے کو پڑھنے اور سمجھنےکی فرصت نہ ہو تو ایک وقت آتا ہے کہ آدمی ’’ و من یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی ‘‘ کا مصداق بن جاتاہے ۔ اصول حدیث اور فن رجال ، علم الجرح والتعدیل ذرا مشکل ہیں ، لیکن ذہین لوگوں کی دلچسپی کا اس میں بہت زیادہ سامان ہے ، بلکہ ذہین اور محنتی لوگ ہی اس میدان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ مجھے یہ قوی امید ہے کہ منکرین حدیث کے بزرگ مستشرقین کی کاوشوں سے پہلے اگر براہ راست ان علوم و فنون سے وابستہ ہو جاتے تو یقینا وہ ’’ گمراہی ‘‘ سے بچ سکتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔


آپ کی مصیبت یہ ہے کہ لفظ ’’ کذب ‘‘ کے معانی سے عدم واقفیت کی بنا پر اعتراض کی ساری عمارت کھڑی کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ’’ کذب ‘‘ عربی کا لفظ ہے اور اردو کا لفظ ’’ جھوٹ ‘‘ اس کے مختلف معانی میں سے ایک ہے ۔ جو کہ یہاں مراد ہی نہیں ۔ اگر آپ حدیث میں ایسا لفظ دکھا دیں جس کا ’’ جھوٹ ‘‘ کے علاوہ اور کئی معنی بنتا ہی نہ ہو تو پھر آپ کی بات میں وزن ہے کہ قرآن کی آیت اور حدیث میں تناقض اور تعارض ہے ۔

آپ کے خیال میں ’’ کذبات ثلاثہ ‘‘ والی روایت کا انکار کرنے والے کو ’’ منکر حدیث ‘‘ کہاجاسکتا ہے کہ نہیں ؟

ابن القیسرانی نے ذخیرۃ الحفاظ میں کہاں یہ بات لکھی ہے اس کا حوالہ دے دیں ۔

بھائی ایسے کہیں کہ یہ ’’ جھوٹے قرار دینے کامعجزہ ‘‘ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ، یہ بعض لوگوں کے فہم کی پیداوار ہے ۔ حدیث میں کہاں لکھا ہواکہ ’’ ابراہیم علیہ السلام معاذ اللہ جھوٹے تھے ‘‘ ۔ صرف لفظ ’’ کذب ‘‘ آپ کا دعوی ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ ’’ کذب ‘‘ تو اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

کیا کسی حدیث میں ابراہیم علیہ السلام کو ’’ جھوٹا ‘‘ قرار دیا گیا ؟ حدیث کے الفاظ نقل کردیں ۔ اور قرآن کی وہ آیت یا کوئی حدیث بھی نقل کردیں جس میں ’’ کذب ‘‘ کا معنی جھوٹ ہونا ہی متعین ہو ۔ لغت سے بھی مدد لے لیں ، اہل زبان عرب سے بھی مدد لے لیں ۔
میں نےاس روایت کی حقیقت سب کو بتادی ہے جس میں اسحاق سلفی صاحب بھی شامل ہیں اگر کوئی جان بوجھ کر انجان بن رہا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ ایسی روایات آپ ہی کو مبارک ہوں ۔ اس لیے کہ ایسی روایات کی جگہ انہی کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔قرآن ایسے افتراء سے پہلے بھی پاک تھا اور آئندہ بھی پاک ہی رہے گا۔
یہ بھی خوب ہے کہ ایک شخص قرآن کی آیت پیش کرے تو اس کو حدیث دشمن کہہ کر مشہور کیا جائے، خیر کوئی بات نہیں ۔ آپ کو یہ روایت مبارک ہو اور مجھے قرآن کی آیت ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
میں نےاس روایت کی حقیقت سب کو بتادی ہے جس میں اسحاق سلفی صاحب بھی شامل ہیں اگر کوئی جان بوجھ کر انجان بن رہا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ ایسی روایات آپ ہی کو مبارک ہوں ۔ اس لیے کہ ایسی روایات کی جگہ انہی کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔قرآن ایسے افتراء سے پہلے بھی پاک تھا اور آئندہ بھی پاک ہی رہے گا۔
یہ بھی خوب ہے کہ ایک شخص قرآن کی آیت پیش کرے تو اس کو حدیث دشمن کہہ کر مشہور کیا جائے، خیر کوئی بات نہیں ۔ آپ کو یہ روایت مبارک ہو اور مجھے قرآن کی آیت ۔
آپ کا کام ہی ہمشہ راے فرار اختیار کرنا ہے۔پہلے بہت اچھل کرد کرتے ہو آخرمیں بھاگ جاتے ہو
اگر ہمت ہے ۔ تو ڈٹ کر سامنا کر کے دکھاؤ اگر خود بحث نہیں کر سکتے تو اپنے کسی عالم کو لے آؤ
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ خیرا ً محترم خضر حیات بھائی!
قریب ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتا!!!
حفظک اللہ!

 
Top