• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
جس طرح احناف اپنے ائمہ کے اقوال کا رکیک تاویلات کے ذریعے دفاع کرتے ہیں باکل اسی طرح طبقہء اہل ِحدیث بھی ایسی روایات کا رکیک تاویلات سےدفاع کرتے ہیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائی پہلے پڑھ تو لے پھر غیر متفق پر کلک کریں
میرے محترم بھائی ! آپ جتنا زور لگا لیں مگر میرا سوال اب بھی وہیں ہے کہ
کیا حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالٰی نے جھوٹا قرار دیا ؟
جب اس سوال کا جواب قرآن سے مل جائے تو مجھے بھی مطلع کر دیں ، عین نوازش ہو گی۔ میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آپ کی نظر میں روایت ہے اور ہماری نظر میں قرآن کی آیت ہے۔ فیصلہ پڑھنے والا خود ہی کر لیگا کہ اس نے قرآن کی بات ماننی ہے یا روایت کی ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
بھائی! نہ تو صحیح احادیث آپس میں ٹکراتی ہیں، نہ کوئی صحیح حدیث قرآن کریم سے ٹکراتی ہے نہ قرآن قرآن سے ٹکراتا ہے۔ یہ اصل میں ہمارا ناقص فہم اور ہماری جہالت ہوتی ہے جو ٹکرا رہی ہوتی ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنی جہالت کو دور کریں اور ان احادیث مبارکہ کا علم حاصل کریں تو تعارض اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا۔

جو لوگ بعض صحیح احادیث پر یہ اعتراض کریں کہ یہ قرآن سے ٹکرا رہی ہیں تو آپ ان قرآنی آیات کا کیا کریں جو آپس میں ظاہرا ٹکرارہی ہیں؟ مثلا یہ پوسٹ دیکھیں

@انس بھائی کی پوسٹ یہاں شیئر کر رہا ہو
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائی! نہ تو صحیح احادیث آپس میں ٹکراتی ہیں، نہ کوئی صحیح حدیث قرآن کریم سے ٹکراتی ہے نہ قرآن قرآن سے ٹکراتا ہے۔ یہ اصل میں ہمارا ناقص فہم اور ہماری جہالت ہوتی ہے جو ٹکرا رہی ہوتی ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ ہم اپنی جہالت کو دور کریں اور ان احادیث مبارکہ کا علم حاصل کریں تو تعارض اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا۔

جو لوگ بعض صحیح احادیث پر یہ اعتراض کریں کہ یہ قرآن سے ٹکرا رہی ہیں تو آپ ان قرآنی آیات کا کیا کریں جو آپس میں ظاہرا ٹکرارہی ہیں؟ مثلا یہ پوسٹ دیکھیں

@انس بھائی کی پوسٹ یہاں شیئر کر رہا ہو
میرے محترم !
ان آیات کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم روایات کو قرآن کا درجہ نہیں دے سکتے۔کسی نے شائد صحیح کہا ہے کہ جب انسان کسی چیز کی محبت میں اندھا ہو جاتا ہے تو وہ قرآن کو بھی عدالت کے کٹھرے میں لے آتا ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔
قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 02
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔
قرآن، سورت النساء، آیت نمبر 82
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٩﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر انکار ہی پر جمے رہے۔
قرآن، سورت الاسراء، آیت نمبر 89-88
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


اصل ٹاپک کیا تھا اور بات کہاں سے کہاں چلی گئی
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے دوسرا گروہ اس ایک روایت کو لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے ۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے ، اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے ۔
یہ حدیث ، جس میں حضرت ابراہیمؑ کے تین " جھوٹ " بیان کیے گئے ہیں، صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے ۔ کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے ۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں ۔ ان میں سے ایک " جھوٹ " کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ " جھوٹ " کا اطلاق نہیں کر سکتا، کجا کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے معاذ اللہ اس سخن نا شناسی کی توقع کریں ۔ رہا : اِنِّی سَقِیْمٌ والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی ان کو نہ تھی۔
اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہو سکتا ۔ قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں بائیبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی اور اس عمر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا ۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے (پیدائش، باب 12) حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے " جھوٹ " کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے ۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے ؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں ۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,787
پوائنٹ
1,069
میرے محترم !
ان آیات کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم روایات کو قرآن کا درجہ نہیں دے سکتے۔کسی نے شائد صحیح کہا ہے کہ جب انسان کسی چیز کی محبت میں اندھا ہو جاتا ہے تو وہ قرآن کو بھی عدالت کے کٹھرے میں لے آتا ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔
قرآن، سورت البقرۃ، آیت نمبر 02
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴿٨٢﴾
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔
قرآن، سورت النساء، آیت نمبر 82
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٩﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر انکار ہی پر جمے رہے۔
قرآن، سورت الاسراء، آیت نمبر 89-88
میرے بھائی جس طرح قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے اسی طرح احادیث بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہیں -

صحيح سنت نبويہ اللہ كى جانب سے وحى ہے !!!

ہر مسلمان كے دل اور عقل ميں يہ بات بيٹھ جانى چاہيے كہ سنت ـ وہ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے افعال يا اقوال يا تقرير كى طرف منسوب كى جائے ـ وحى الہى كى دو قسموں ميں سے ايك قسم ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كى گئى، اور وحى كى دوسرى قسم قرآن كريم ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:


{ اور وہ ( نبى ) اپنى خواہش سے كوئى بات نہيں كہتے وہ تو صرف وحى ہے جو اتارى جاتى ہے }النجم ( 3 - 4 ).


مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.

خبردار جو رسول اللہ نے حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام كيا ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2664 ) ترمذى نے اسے غريب من ھذا الوجہ كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے " السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2870 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.


ہمارے دين حنيف سے سلف صالحين رحمہ اللہ تو يہى سمجھے تھے.

حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھے جس طرح ان پر قرآن لے كر نازل ہوتے "

ديكھيں: الكفايۃ للخطيب ( 12 ) اسے دارمى نے سنن دارمى ( 588 ) اور خطيب نے الكفايۃ ( 12 ) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ( 13 / 291 ) ميں بيہقى كى طرف منسوب كيا ہے كہ انہوں نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.


سنت كى اہميت اس سے بھى واضح ہوتى ہے كہ سنت نبويہ كتاب اللہ كا بيان اور اس كى شرح كرنے والى ہے، اور پھر جو احكام كتاب اللہ ميں ہيں ان سے كچھ احكام زيادہ بھى كرتى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }النحل ( 44 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كا بيان رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب سے دو قسموں ميں ہے:

پہلى قسم:

كتاب اللہ ميں جو مجمل ہے اس كا بيان مثلا نماز پنجگانہ اور اس كے اوقات، اور نماز كے سجود و ركوع اور باقى سارے احكام.

دوسرى قسم:

كتاب اللہ ميں موجود حكم سے زيادہ حكم، مثلا پھوپھى كى اور خالہ كى موجودگى ميں اس كى بھتيجى اور بھانجى سے نكاح كرنا يعنى دونوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا حرام ہے " انتہى

ديكھيں: جامع بيان العلم و فضلہ ( 2 / 190 ).

دوم:

جب سنت نبويہ وحى كى اقسام ميں دوسرى قسم ہے تو پھر اللہ كى جانب سے اس كى حفاظت بھى ضرورى اور لازم ہو گى تا كہ وہ اس سے دين ميں تحريف يا نقص يا ضائع ہونے سے محفوظ ركھے.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).

اور ارشاد ربانى ہے:

{ كہہ ديجئے ميں تو تمہيں اللہ كى وحى كے ذريعہ آگاہ كر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہيں سنتے جبكہ انہيں آگاہ كيا جائے }الانبياء ( 45 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے خبر دى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام وحى ہے، اور بغير كسى اختلاف كے وحى ذكر ہے، اور ذكر نص قرآنى كے ساتھ محفوظ ہے، تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى كلام اللہ كى حفاظت كے ساتھ محفوظ ہے، ہمارے ليے مضمون ہے كہ اس ميں سے كچھ ضائع نہيں ہوا، جب اللہ تعالى كى جانب سے يہ محفوظ ہے تو يقينا اس ميں سے كچھ بھى ضائع نہيں ہو سكتا، اور يہ سارى كى سارى ہمارى جانب منقول ہے، اس طرح ہم پر ہميشہ كے ليے حجت قائم ہو چكى ہے " انتہى

ديكھيں: الاحكام ( 1 / 95 ).

سوم:

جب يہ ثابت ہو گيا كہ سنت نبويہ وحى الہى ہے تو يہاں ايك چيز پر متنبہ رہنا چاہيے كہ اس سنت اور حديث ميں ايك فرق ہے، اور وہ فرق يہ ہے كہ قرآن مجيد تو اللہ كى كلام يعنى كلام اللہ ہے، اسے اپنے لفظوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف نازل فرمايا، ليكن سنت بعض اوقات كلام اللہ نہيں ہو سكتى، بلكہ وہ صرف وحى ميں شامل ہو گى، پھر يہ لازم نہيں كہ آپ اس كے الفاظ كى ادائيگى كريں، بلكہ معنى اور مضمون كے اعتبار سے ادا ہو سكتى ہے.

اس فرق كو سمجھ جانے سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ سنت نبويہ كے نقل ميں معتبر معنى اور مضمون ہے، نہ كہ بذاتہ وہ الفاظ جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بولے، شريعت اسلاميہ تو اللہ كى حفاظت سے محفوظ ہے، اللہ تعالى نے قرآن مجيد كى مكمل حفاظت فرمائى، اور سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اجمالى طور پر اور اس كے معانى كى حفاظت كى، اور سنت نبويہ نے جو كتاب اللہ كى وضاحت و تبيين كى اسے محفوظ ركھا، نا كہ اس كے الفاظ و حروف كى.

اس كے ساتھ ساتھ امت كے علماء نے كئى صدياں گزرنے كے باوجود شريعت اور سنت نبويہ كى حفاظت كا ذمہ اٹھائے ركھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے الفاظ اسى طرح ہم تك نقل كيے جو آپ نے فرمائے تھے، اور اس ميں سے غلط اور صحيح اور حق و باطل ميں امتياز كيا.

اور عزيز سائل جو ايك ہى حديث كى كئى روايات ديكھتا ہے ا سكا معنى يہ نہيں كہ سنت نبويہ كے نقل كرنے اور اس كى حفاظت ميں كوئى كوتاہى ہے، بلكہ كئى ايك اسباب كى بنا پر روايات مختلف ہيں جب يہ ظاہر ہو جائيں تو جواب واضح ہو جائيگا.

تو يہ كہا جاتا ہے:

چہارم:

روايات كئى ايك ہونے كے كئى اسباب ہيں:

1 - حادثہ اور واقعہ كئى بار ہوا ہو:

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب معنى ايك ہى ہو تو روايات كا مختلف ہونا حديث ميں عيب نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ جب آپ كوئى حديث بيان كرتے تو اسے تين بار دھراتے، اس طرح ہر انسان اپنى سماعت كے مطابق نقل كرتا، جب معنى ايك ہو تو روايات ميں يہ اختلاف اس مين شامل نہيں ہوتا جو حديث كو كمزور كر دے " انتہى

ديكھيں: الاحكام ( 1 / 134 ).

2 – روايت بالمعنى:

كسى ايك حديث كى كئى روايات ہونے كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ مہم تو حديث نقل كرنا اور اس كے مضون اور اس حديث ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى ادائيگى ہے، رہے حديث كے الفاظ تو يہ قرآن مجيد كى طرح تعبدى نہيں.

اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" انما الاعمال بالنيات " اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے.


يہ حديث " العمل بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى مروى ہے، اور " انما الاعمال بالنيات " كے الفاظ سے بھى، اور " الاعمال بالنيۃ " كے الفاظ سے بھى، اس تعدد روايت كا سبب روايت بالمعنى ہے، كيونكہ حديث كا مخرج ايك ہى ہے اور وہ يحي بن سعيد عن محمد بن ابراہيم التيمى عن علقمۃ عن عمر رضى اللہ تعالى عنہ ہے، ديكھيں كہ ان سب جملوں سے جو معنى سمجھ ميں آتا ہے وہ ايك ہى ہے، تو پھر تعدد روايات يعنى حديث كا كئى ايك روايات سے مروى ہونے ميں كيا ضرر ہے ؟!

اور علماء كرام اپنا زيادہ كرنے كے ليے كہ راوى نے حديث كا معنى صحيح نقل ہے روايت بالمعنى صرف اس راوى كى قبول كرتے تھے جو عربى زبان كا ماہر اور علم ركھتا ہو، پھر علماء كرام اس راوى كى روايت كا دوسرے ثقات راويوں كى روايت سے مقارنہ اور موازنہ كرتے اس طرح ان كے ليے نقل ميں جو غلطى ہوتى وہ واضح ہو جاتى، اس كى مثاليں بہت ہيں ليكن يہ اس كے بيان كرنے كا مقام نہيں.

3 - راوى كا حديث كو مختصر كر كے روايت كرنا:

يعنى راوى كو پورى اور مكمل حديث حفظ ہے ليكن وہ فى الحال وہ اس كا جزء اور حصہ ہى نقل كرنے پر اكتفا كرتا ہے، اور كسى دوسرى حالت ميں مكمل حديث بيان كر ديتا ہے، اس كى مثال درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ظہر كى نماز ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے بھولنے كے قصہ كے متعلق ذكر كردہ روايات ميں سارى روايات ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ ہى سے مروى ہيں اور قصہ بھى ايك ہے، اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ روايات كا اختلاف راوى كا روايت اختصار كے ساتھ بيان كرنا ہے.

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 714 ) اور ( 715 ) اور ( 1229 ).

4 - غلطى و خطا:

كسى راوى سے غلطى اور خطا واقع ہو جاتى ہے تو وہ حديث كو اس كے علاوہ روايت كر ديتا جس طرح دوسرے راوى روايت كرتے ہيں، اس غلطى و خطا كى پہچان دوسرى روايات كے ساتھ مقارنہ و موازنہ كرنے سے ہو جاتى ہے، اور كتب سنہ اور كتب تخريج ميں اہل علم نے يہى كام كيا ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن اللہ تعالى نے اس امت كے ليے جو نازل كيا ہے اس كى حفاظت فرمائى ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ہم نے ذكر نازل كيا ہے اور ہم ہى اس كى حفاظت كرنے والے ہيں }الحجر ( 9 ).

چنانچہ قرآن كى تفسير يا نقل حديث يا اس كى شرح ميں جو غلط ہے اللہ تعالى امت ميں ايسے شخص پيدا فرمائيگا جو اس غلطى كو صحيح كرينگے، اور غلطى كرنے والے كى غلطى اور جھوٹ بھولنے والے كے كذب كى دليل بيان كرينگے، كيونكہ يہ امت كسى گمراہى و ضلالت پر جمع نہيں ہو سكتى، اور ہر وقت اس ميں حق پر ايك گروہ موجود رہيگا حتى كہ قيامت قائم ہو جائے، كيونكہ امتوں ميں سے يہ سب سے آخرى امت ہے ان كے نبى كے بعد كوئى اور نبى نہيں، اور ان كى كتاب كے بعد كوئى اور كتاب نہيں.

پہلى امتوں نے جب اپنے دين ميں تبديلى و تغير كر ليا تو اللہ تعالى ان ميں نبى مبعوث فرما ديا كرتا تھا جو انہيں حكم ديتا اور برائى سے منع كرتا، ليكن محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد كوئى نبى نہيں، اور پھر اللہ تعالى نے جو ذكر نازل كيا ہے اسے محفوظ ركھنے كى ضمانت لے ركھى ہے " انتہى

ديكھيں: الجواب الصحيح ( 3 / 39 ).

سنت نبويہ اس وجہ پر جو ہم پہلے بيان كر چكے ہيں كہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے وحى ہے: يہ لوگوں كے ليے نازل كردہ كتاب كى وضاحت و تبيين كرتى ہے، اور انہيں ان كے دين كے ضرورى احكام سكھاتى ہے، اگرچہ اس كى تفصيل يا اس كى اصل كتاب اللہ ميں آئى ہے، ہم يہ كہينگے:

اس طريق اور وجہ سے سنت نبويہ نبوت كے خصائص ميں شامل ہوتى ہے؛ اور يہ كام اور وظيفہ نبوت كے وضائف ميں سے ہے، اور اب تك لوگ سنت كو اس وجہ اور طريق سے ہى ديكھتے ہيں، جو كتب ميں موجود ہے، يا بعض الفاظ كے اختلاف كے ساتھ زبانى روايات ميں پائى جاتى ہے، يا حديث كے كئى ايك سياقات ميں، اور اس ميں ايسى كوئى چيز نہيں جو اس كے مقام و مرتبہ ميں شك پيدا كرتى ہو، يا اس كى حفاظت ميں كوئى قلق و پريشانى كا باعث ہو، يا اس كى حجيت ميں تردد و اختلاف پيدا كرے، اور لوگوں كو اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ لوگ كثرت سے علمى و عملى مسائل ميں اختلاف و تردد كا شكار ہو چكے ہيں.

علامہ شيخ عبد الغنى عبد الخالق رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہم غزالى اور آمدى اور بزدوى اور ان كے طريقوں كے سب متبعين جو اصولى مؤلف ہيں ان كى كتب اس كى تصريح نہيں پاتے اور نہ ہى كوئى اس مسئلہ ميں اختلاف كا اشارہ ہى پاتے ہيں، اور يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے سے قبل سابقہ لوگوں كى كتابيں اور مذہب كا پيچھا كيا، اور ان كے اختلافات كو كا تتبع كيا حتى كہ شاذ قسم كے اختلافات كا بھى، اور اس كے رد كا بہت زيادہ خيال كيا "

پھر انہوں نے " مسلّم " كے مؤلف سے كتاب و سنت اور اجماع و قياس كى حجيت سے نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ: يہ علم كلام ميں سے ہے، ليكن دو اصولوں اجماع اور قياس كى حجيت پر كلام كى ہے، كيونكہ بےوقوف قسم كے خوارج اور رافضيوں ( اللہ انہيں ذليل كرے ) نے ان دونوں سے ہى اكثر دليل لى ہے اور وہ ان ميں مشغول ہوئے ہيں.

رہى كتاب و سنت كى حجيت تو دين كے سب آئمہ اس كى حجيت پر متفق ہيں اس كے ذكر كرنے كى كوئى ضرورت نہيں " انتہى

ديكھيں: حجيت السنۃ ( 248 - 249 ).

اور مزيد آپ سوال نمبر ( 93111 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/77243
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,122
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ﴿٨٨﴾ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ﴿٨٩﴾
کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوہم نے اس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر اکثر انکار ہی پر جمے رہے۔
قرآن، سورت الاسراء، آیت نمبر 89-88
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,569
پوائنٹ
791
اتنی لمبی لمبی پوسٹیں آپ نے لگادیں ۔
ان میں صرف رواۃ حدیث کو مشکوک بنانے کیلئے بتکرار ان کے غیر معصوم ہونے کی بات ۔
ابھی وہ حدیث جو صحیح بخاری میں ہو اور سنداً صحیح اور متناً غلط ہو ،،آپ سامنے نہ لا سکے؟
آپ وہ حدیث بالاسناد یہاں نقل کیوں نہیں کرتے،اور اس کا خلاف قرآن حصہ نمایاں کیوں نہیں کرتے۔؟؟
 
Top