وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ﴿٤١﴾
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے۔
قرآن، سور مریم، آیت نمبر 41
اس روایت کو سینے سے لگا کراور قرآن کی آیت کو نظر انداز کر کے آپ لوگ بڑی جسارت کر رہے ہیں۔ نبیﷺ سے اس روایت کا متن صحیح نہیں ہے۔
انتہائی محترم T H K بھائی -
حضرت ابراہیم علیہ سلام کی تین جھوٹ والی حدیث میں آپ کو تھوڑا سا مغالطہ ہوا ہے-کہ اس کا متن قرآن سے متعارض ہے- جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے -
یہ حدیث مسلم شریف اور بخاری شریف میں تفصیل سے بھی موجود ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لم يكذب إبراهيم إلا في ثلاث كذبات : ثنتين منهن في ذات الله قوله ( إني سقيم ) وقوله ( بل فعله كبيرهم هذا ) وقال : بينا هو ذات يوم وسارة إذ أتى على جبار من الجبابرة فقيل له : إن ههنا رجلا معه امرأة من أحسن الناس فأرسل إليه فسأله عنها : من هذه ؟ قال : أختي فأتى سارة فقال لها : إن هذا الجبار إن يعلم أنك امرأتي يغلبني عليك فإن سألك فأخبريه أنك أختي فإنك أختي في الإسلام ليس على وجه الأرض مؤمن غيري وغيرك فأرسل إليها فأتي بها قام إبراهيم يصلي فلما دخلت عليه ذهب يتناولها بيده . فأخذ - ويروى فغط - حتى ركض برجله فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق ثم تناولها الثانية فأخذ مثلها أو أشد فقال : ادعي الله لي ولا أضرك فدعت الله فأطلق فدعا بعض حجبته فقال : إنك لم تأتني بإنسان إنما أتيتني بشيطان فأخدمها هاجر فأتته وهو قائم يصلي فأومأ بيده مهيم ؟ قالت : رد الله كيد الكافر في نحره وأخدم هاجر " قال أبو هريرة : تلك أمكم يا بني ماء السماء(حدیث نمبر 75 باب نمبر 42 کتاب النکاح بخاری)
اس حدیث پر اعتراض کرنے والے اصل میں اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ وہ تین جھوٹ جو ابراہیم علیہ سلام نے بولے تھے ان میں سے دو جھوٹ تو خود قرآن کریم میں موجود ہیں- لہذا اس بنا پراس حدیث کو جھٹلانا صحیح نہیں -- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جن واقعات پر لفظ "
کذب" کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ
توریہ اور تعریض کی شرط پر پورا اترتے ہیں نا کہ حقیقی جھوٹ کی شرط پرپورا اترتے ہیں۔ دیکھیے قرآن کی آیات جن میں واضح ہے کہ یہ جھوٹ (اصل میں توریہ) لئے بولے گئے -یعنی مشرکین کو نیچا دکھانے یا ان کو لاجواب کرنے کے لئے بولے گئے تھے - نہ کہ جان بوجھ کر گناہ کے طور پر بولے گئے -
١-
قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ -قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ سوره الانبیاء ٦٢-٦٣
کہنے لگے اے ابراھیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے-
کہا (ابراہیم نے) نہیں! بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سوان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں؟؟- (جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بت خود حضرت ابراہیم علیہ سلام نے توڑے تھے) -
٢-
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ -فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ سوره الصفات ٨٨-٨٩
پھر اس نے (ابراہیم علیہ سلام) نے ایک بار ستاروں کو دیکھا-
پھر کہا میں بیمار ہوں- (حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ سلام بیمار نہیں تھے - بلکہ اس انتظار میں تھے کہ ان کی قوم کے لوگ جب سالانہ جشن منانے چلے جائیں گے تو وہ ان کے پیچھے ان بتوں کو توڑ ڈالیں گے تا کہ قوم پر حجت اتمام ہو جائے کہ یہ پتھر کے بت کچھ نہیں کرسکتے)-
اور چوں کہ احدیث نبوی میں بیان دو کذب خود قرآن سے ثابت ہو رہے ہیں تو تیسرا کذب یعنی ابرہیم علیہ سلام کا "
اپنی زوجہ کو بہن قرار دینا" اس کو قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے - حدیث نبوی میں بیان ان تین جھوٹ کو محض ظاہری شکل و صورت کی مشابہت کی وجہ سے "کذب" کیا گیا ہے ورنہ دراصل وہ معاریض کلام ہیں۔ (واللہ اعلم)-