• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاک اللہ خیرا خضر حیات اخی!
قریب ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتا!!!
حفظک اللہ!
جزاک اللہ خیرا ً محترم خضر حیات بھائی!
قریب ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتا!!!
حفظک اللہ!
جزاک اللہ خیرا ً محترم خضر حیات بھائی!
قریب ہوتے تو آپ کا ماتھا چوم لیتا!!!
حفظک اللہ!
ابتسامہ ۔ حوصلہ افزائی پر جزاکم اللہ خیرا۔
اللہم لاتؤاخذنی بمایقولون و اغفرلی مما لایعلمون واجعلنی خیرا ممایظنون ۔
خضر حیات بھائی ان میں فرق کی وضاحت کر دیں
اصول حدیث اور فن رجال ، علم الجرح والتعدیل
اصول حدیث : سندو متن کی صحت و ضعف کے اعتبار سے تحقیق کے لیے بنائے گئے اصول و قواعد کو کہا جاتا ہے ۔ مثلا سند متصل ہے ، منقطع ہے ، وغیرہ ۔
علم الرجال : سے مراد راویوں کے نام ، کنیتیں ، القاب اور نسبتیں وغیرہ معلوم کرنا ، ان کے آپس میں تعلقات کے بارے میں جاننا وغیرہ ، مثلا معرفۃ الاخوۃ والاخوات وغیرہ۔
علم الجرح والتعدیل : راویوں کی اہلیت جاننا مثلا فلاں ثقہ ہے ، فلاں ضعیف ہے وغیرہ ۔
بعض دفعہ ’’ اصول حدیث ‘‘ سے مراد یہ سب چیزیں ہوتی ہیں ۔ علم الرجال اور علم الجرح والتعدیل بھی ایک ہی چیز ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ کے خیال میں ’’ کذبات ثلاثہ ‘‘ والی روایت کا انکار کرنے والے کو ’’ منکر حدیث ‘‘ کہاجاسکتا ہے کہ نہیں ؟
۔
محترم خضر حیات بھائی -

چند ایک احادیث نبوی پر متضاد اجتہادی نظریہ پیش کرنے سے انسان منکرین حدیث نہیں بن سکتا - صحابہ کرام اور آئمہ و محدثین کے دور میں بھی نبی کریم کے اقوال و افعال کو سمجھنے کے معاملے میں اکثر اجتہادی اختلاف ہوا- لیکن کسی کے لئے "منکرین حدیث" کی اصطلاح استمعال نہیں ہوئی - ہاں اگر کوئی کلّی طور پر احادیث نبوی کی اہمیت حجیت وغیرہ کا انکار کرتا ہے جیسے غامدی ، اصلاہی، فراہی، چکڑالوی، پرویزی، عثمانی وغیرہ- تو میرے خیال میں وہ منکرین حدیث کہلانے کے ہی لائق ہے-

"کذبات ثلاثہ" والی حدیث کو قبول کرنے کے معاملے میں کچھ نامور علماء نے بھی پس وپیش کیا ہے اور اس میں مغالطہ کھایا ہے- جن میں نامور عالم مولانا ابو اعلیٰ مودودی بھی شامل ہیں (دیکھیے تفیہم القرآن جلد سوم)- اب ظاہر ہے اگر اس حدیث پر انکار کرنے والے پر منکر حدیث کا الزام لگے گا تو "مولانا" بھی اسی صف میں شامل ہونگے- (واللہ اعلم)-
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
آپ کا کام ہی ہمشہ راے فرار اختیار کرنا ہے۔پہلے بہت اچھل کرد کرتے ہو آخرمیں بھاگ جاتے ہو
اگر ہمت ہے ۔ تو ڈٹ کر سامنا کر کے دکھاؤ اگر خود بحث نہیں کر سکتے تو اپنے کسی عالم کو لے آؤ
میرے محترم ! یہ کوئی مذہبی اکھاڑا نہیں ہے جہاں جنگ و جدال کی کیفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ میں نے قرآن کی آیت پیش کر کےحضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت کو ثابت کیا ہے مگر آپ حضرات ابھی تک لَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا کی مہمل کہانی کو لیے بیٹھے ہیں۔ اس روایت میں لفظ ”کذب“ ہی ایک جلیل القدر پیغمبر کے خلاف بہت بڑی جسارت ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا مطلب ”ذو معنی بات“ ہو یا ”توریہ“ یا ”جھوٹ“۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی دو باتوں کے متعلق لفظ ”کذب“ استعمال نہیں ہوا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان دو باتوں اور ایک اسرائیلی کہانی کے متعلق لفظ” کذب“ روایت میں کہاں سے آ گیا ؟
نبیﷺایسی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ اس لیے اس روایت میں ایسی غلطی نبیﷺسے منسوب کرنا جو بلا واسطہ قرآن سے ٹکراتی ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دینا کہاں تک درست ہو سکتا ہے ؟
حضرت ابراہیم ؑ کی شان پر غور کروکہ ان کو صادق نہیں بلکہ صدیق کہا گیا ہے مزید برآں درود میں سوائے حضرت ابراہیم ؑ کے اور کوئی پیغمبر شامل نہیں۔
میں نے اسی لیے کہا تھا کہ آپ لوگوں کی نظر میں یہ روایت ہے اور میری نظر میں قرآن کی آیت ہے۔ آپ کی نظر راوی کی ثقاہت پہ ہے تو مری نظر اللہ تعالٰی کی بات پر ہے۔ راوی چاہے بخاری کا ہو یا مسلم کا غیر معصوم ہے ،غلطی کر سکتا ہے ، انسان ہے خدا نہیں ہے۔جبکہ قرآن انسانی تصرف سے پاک ہے ، باطل اس میں اپنی ملاوٹ نہیں کر سکتا۔ جیسے آپ کو بخاری کے راوی کی ثقاہت محبوب ہے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت پہ صرف اس مہمل روایت کی کیا حیثیت اگر تمام کتبِ احادیث کو بھی غلط کہنا پڑا تو انہیں غلط کہیں گے ۔
جن کم سواد لوگوں کو رسول کے ”قول“ اور ”حدیث“ میں فرق کا پتہ نہ ہو ان کے لیے تو دونوں چیزیں یقینا ً ایک ہی درجے میں ہونی چاہیے۔
شیعہ حضرات نے بھی اسی روایت کی بناء پر اہلِ سُنت کو طعنہ دیا تھا کہ جب حضرت ابراہیم ؑ صدیق ہوتے ہوئے العیاذ باللہ تین جھوٹ بول سکتے ہیں تو سوچو صدیقِ اکبر ؓ نے کتنے جھوٹ بولے ہونگے ۔
امام رازی نے اس روایت کے متعلق کیا کہا ہے وہ بھی سلفی حضرات سے پوچھ لیں۔

جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرے محترم ! یہ کوئی مذہبی اکھاڑا نہیں ہے جہاں جنگ و جدال کی کیفیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ میں نے قرآن کی آیت پیش کر کےحضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت کو ثابت کیا ہے مگر آپ حضرات ابھی تک لَمْ يَکْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلَاثًا کی مہمل کہانی کو لیے بیٹھے ہیں۔ اس روایت میں لفظ ”کذب“ ہی ایک جلیل القدر پیغمبر کے خلاف بہت بڑی جسارت ہے قطع نظر اس کے کہ اس کا مطلب ”ذو معنی بات“ ہو یا ”توریہ“ یا ”جھوٹ“۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کی دو باتوں کے متعلق لفظ ”کذب“ استعمال نہیں ہوا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ان دو باتوں اور ایک اسرائیلی کہانی کے متعلق لفظ” کذب“ روایت میں کہاں سے آ گیا ؟
نبیﷺایسی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ اس لیے اس روایت میں ایسی غلطی نبیﷺسے منسوب کرنا جو بلا واسطہ قرآن سے ٹکراتی ہو اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دینا کہاں تک درست ہو سکتا ہے ؟
حضرت ابراہیم ؑ کی شان پر غور کروکہ ان کو صادق نہیں بلکہ صدیق کہا گیا ہے مزید برآں درود میں سوائے حضرت ابراہیم ؑ کے اور کوئی پیغمبر شامل نہیں۔
میں نے اسی لیے کہا تھا کہ آپ لوگوں کی نظر میں یہ روایت ہے اور میری نظر میں قرآن کی آیت ہے۔ آپ کی نظر راوی کی ثقاہت پہ ہے تو مری نظر اللہ تعالٰی کی بات پر ہے۔ راوی چاہے بخاری کا ہو یا مسلم کا غیر معصوم ہے ،غلطی کر سکتا ہے ، انسان ہے خدا نہیں ہے۔جبکہ قرآن انسانی تصرف سے پاک ہے ، باطل اس میں اپنی ملاوٹ نہیں کر سکتا۔ جیسے آپ کو بخاری کے راوی کی ثقاہت محبوب ہے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت ۔ حضرت ابراہیم ؑ کی صدیقیت پہ صرف اس مہمل روایت کی کیا حیثیت اگر تمام کتبِ احادیث کو بھی غلط کہنا پڑا تو انہیں غلط کہیں گے ۔
جن کم سواد لوگوں کو رسول کے ”قول“ اور ”حدیث“ میں فرق کا پتہ نہ ہو ان کے لیے تو دونوں چیزیں یقینا ً ایک ہی درجے میں ہونی چاہیے۔
شیعہ حضرات نے بھی اسی روایت کی بناء پر اہلِ سُنت کو طعنہ دیا تھا کہ جب حضرت ابراہیم ؑ صدیق ہوتے ہوئے العیاذ باللہ تین جھوٹ بول سکتے ہیں تو سوچو صدیقِ اکبر ؓ نے کتنے جھوٹ بولے ہونگے ۔
امام رازی نے اس روایت کے متعلق کیا کہا ہے وہ بھی سلفی حضرات سے پوچھ لیں۔

جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟
توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا حکم

سوال: توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

توریہ [ذو معنی بات ]کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی بات سے ایسا معنی مراد لے جو ظاہر کے خلاف ہو، یہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1- الفاظ اس معنی کا احتمال رکھتے ہوں

2- توریہ کی وجہ سے کسی پر ظلم نہ ہو

چنانچہ اگر کسی نے کہا کہ میں تو "وتد" پر ہی سوتا ہوں، وتد ایک لکڑی کو کہتے جسے دیوار میں ٹھونک کر سامان لٹکایا جاتا ہے، [جیسے ہک وغیرہ] اور وہ کہے کہ میری وتد سے مراد پہاڑ ہے، چنانچہ یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وتد کے دونوں معانی درست ہیں اور اس میں کسی پر ظلم بھی نہیں ہے۔

اسی طرح اگر کسی نے کہا کہ : "اللہ کی قسم میں سقف [چھت]کے نیچے ہی سوؤں گا" اور پھر چھت پر چڑھ کر سو گیا ، پھر وضاحت کی کہ میں نے سقف سے مراد آسمان لیا تھا، تو یہ بھی ٹھیک ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے آسمان کو قرآن مجید میں سقف کہا ہے، فرمایا: ( وجعلنا السماء سقفاً محفوظاً ) الأنبياء /32اور ہم نے آسمان کو محفوظ سقف [چھت] بنایا ۔

جبکہ توریہ اگر ظلم ڈھانے کیلئے کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا، جیسے کسی نے ایک آدمی کا حق ہڑپ کرلیا، اور مظلوم انسان قاضی کے پاس چلا گیا لیکن اسکے پاس کوئی گواہ یا دلیل نہیں تھی تو قاضی نے ملزم سے کہا کہ تم قسم دو کہ تمہارے پاس مدعی کی کوئی چیز نہیں ہے تو اس نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا: " والله ما له عندي شيء " ["ما" نفی کیلئے ہوتو اسکا معنی ہوگا: اللہ کی قسم اسکی کوئی چیز میرے پاس نہیں] تو قاضی نے ملزم کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے بری کردیا۔

تو ملزم کو لوگوں نے بتلایا کہ جو تم نے قسم اٹھائی ہے کہ یمین غموس ہے، اور جو بھی اس طرح کی قسم اٹھاتا ہے وہ جہنم میں جائے گا، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہے: (جس شخص نے بھی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کیا ، وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس غضبناک ہوگا)

تو ملزم جواب میں کہتا ہے کہ: میں نے تو نفی کی ہی نہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا تھا، اور "ما لہ"لفظ کا مطلب میری نیت میں یہ تھا کہ یہ "ما"اسم موصول ہے یعنی میرا مطلب تھا: "اللہ کی ذات کی قسم ! میرے پاس اسکی چیز ہے"

چنانچہ مذکورہ لفظ اس مفہوم کا احتمال تو رکھتا ہے لیکن یہ ظلم ہے اس لئے جائز نہیں ہوگا، یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ:

(تمہاری قسم اسی مفہوم میں معتبر ہوگی جس مفہوم میں قسم لینے والا سمجھے گا) اور اللہ کے ہاں اس قسم کی تأویل مفید نہیں ہوگی، اور ایسی صورت میں یہ قسم جھوٹی تصور ہوگی۔

ایسے ہی اگر ایک آدمی کی بیوی پر کسی نے تہمت لگادی حالانکہ وہ تہمت سے بری تھی ، تو اس آدمی نے کہہ دیا: "اللہ کی قسم یہ میری بہن ہے" اور یہاں پر بہن سے مراد اسلامی بہن لیا تو یہ توریہ درست ہوگا، کیونکہ وہ واقعی اسکی اسلامی بہن ہے جس پر ظلم کیا جا رہا تھا.

ماخوذ از: "مجموع دروس وفتاوى الحرم المكي" (3/367) از شيخ ابن عثيمين


http://islamqa.info/ur/45865
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
"توریہ" (ذو معنی بات )کرنا کس وقت درست ہوگا؟ اور اسکی ضرورت کب پڑتی ہے؟

ذو معنی بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو جھوٹ اور سچ کے درمیان رکھنا کب درست ہوتا ہے؟ اور اگر صرف ضرورت کے وقت ہی توریہ کیا جاسکتا ہو تو اس ضرورت کا معیار کیا ہوگا؟

الحمد للہ:

"توریہ" عربی زبان کا لفظ ہے جسکا لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کا ہے۔

جیسے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:

{ فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ }

ترجمہ: پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید رہا تھاتاکہ اس (قاتل) کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپا سکتا ہے۔ (کوے کو دیکھ کر) وہ کہنے لگا'': افسوس! میں تو اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا سکتا'' بعد ازاں وہ اپنےکئے پر بہت نادم ہوا۔ المائدة / 31


اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:

{ يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ }

ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی ہے اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں۔ الأعراف / 26


اور اصطلاحی طور پر ایسی بات کو توریہ کہا جاتا ہے جس میں کہنے والا ایک ایسی بات کرتا ہےجس سے سننے والا کچھ سمجھے لیکن بات کرنے والا اس سے کوئی اور ممکنہ معنی مراد لیتا ہو، مثلاً: کوئی یہ کہے کہ : میری جیب میں ایک درہم بھی نہیں ہے، سننے والا اس سے یہ سمجھے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کنگلا ہے بیچارہ، لیکن کہنے والے کا مقصد یہ ہو کہ میرے پاس چاندی کا درہم تو نہیں لیکن سونے کا دینار ہے، اسی کو "تعریض" اور "توریہ" کہا جاتا ہے۔

جب انسان کسی سے کچھ چھپانا چاہتا ہو اور اسکی کوشش ہو کہ میں جھوٹ بھی نہ بولوں اور مخاطب کو اصل حقیقت کا بھی پتہ نہ چلے تو "توریہ" ایسے مشکل حالات میں ایک شرعی حل ہے۔

توریہ شرعی مصلحت اور ضرورت کی بنا پر کرنا جائز ہے، لیکن ہمیشہ اسی پر عمل کرنا اور اپنی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، چنانچہ کسی کا حق مارنے کیلئے یا باطل کام کا دفاع کرنے کیلئے توریہ جائز نہیں ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"علماء کہتے ہیں کہ: توریہ کیلئے قاعدہ یہ ہے کہ اگر واضح شرعی مصلحت کی بنا پر مخاطب کو دھوکہ دینے کی ضرورت پڑ جائے، یا کوئی ایسی ضرورت آن پڑے کہ جھوٹ کے بنا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، تو اس وقت توریہ کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر کوئی ضرورت نہ ہو تو توریہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر توریہ کے ذریعہ کسی کا حق مارا جائے، یا کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے تو اس وقت توریہ حرام ہوگا"

" الأذكار " ( ص ‏380 )

بعض علماء نے بغیر کسی ضرورت اور حاجت کے بھی توریہ کو حرام قرار دیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی بات کو درست قرار دیتے ہیں۔

دیکھیں: الاختيارات صفحہ: 563

کچھ حالات ایسے ہیں جہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے توریہ کرنے کی راہنمائی ملتی ہے، مثال کے طور پر:

جب کسی آدمی کا نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اس پریشان کن حالت میں کیا کرے؟

اسکا جواب یہ ہے کہ اپنی ناک کو پکڑے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر صف سے نکل جائے۔

اسکی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی کا وضو نماز کے دوران ٹوٹ جائے تو اپنی ناک کو پکڑ کر صف میں سے نکل جائے)

سنن أبو داود ( 1114 ) ،اور یہ روایت " صحيح سنن أبو داود " ( 985 ) میں بھی ہے۔

طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تا کہ یہ محسوس ہو کہ اسکی نکسیر –ناک سے خون کا نکلنا-پھوٹ پڑی ہے، اور یہ جھوٹ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ عملی توریہ ہے، یہ کام کرنے کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ کہیں شیطان نمازی کے ذہن میں دیگر نمازیوں سے شرم دِلا کر اسے بے وضو حالت مٰن نماز جاری رکھنے پر نہ اکسائے" انتہی

" مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " ( 3 / 18 )

یہ ہے جائز توریہ کی شکل جس میں دیگر افراد کے ذہنوں میں کسی جائز کام کا تصور دیا جا رہا ہے، صرف اس لئے کہ نمازی کے ذہن میں کوئی خلفشار پیدا نہ ہو، اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ نمازی کی نکسیر پھوٹ گئی ہے۔۔۔ اسی طرح جب کسی مسلمان کو سخت حالات کا سامنا ہو، اور اسے ان حالات سے نکلنے کیلئے ، یا اپنی جان ، یا کسی بے گناہ کو بچانے کیلئے خلافِ حقیقت بات کرنے کی ضرورت پڑے تو اسکے لئے شرعی اور مباح طریقہ کار موجود ہے جسے "توریہ" کہا جاتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب الادب میں مستقل باب (116)قائم کیا، اور کہا: " باب المعاريض مندوحة عن الكذب " جھوٹ سے بچنے کیلئے کنایہ کرنے کا باب۔

درج ذیل میں ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب " إغاثة اللهفان "سے توریہ کی کچھ مثالیں ہم آپکی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

حماد رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کیاجاتا ہے کہ جب ان کے پاس کوئی ایسا شخص بیٹھ جاتا جس کے ساتھ وہ بیٹھنا پسند نہ کرتے تو وہ خود ساختہ درد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے: میری داڑھ!! میر ی داڑھ!! اور یہ کہتے ہوئے اس آدمی کے پاس سے اٹھ جاتے جس کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ایسے ہی ایک بار سفیان الثوری رحمہ اللہ کو خلیفہ مہدی کی مجلس میں لایا گیا، تو مہدی نے انکی بہت تعریف کی ، چنانچہ سفیان الثوری رحمہ اللہ نے اٹھ کر جانے کا ارادہ کیا تو خلیفہ نے انہیں شد ومد کے ساتھ بیٹھنے کیلئے کہا، جس پر انہوں نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا میں ابھی آرہا ہوں، اور جاتے ہوئے انہوں نے اپنی جوتی دروازے کے پاس چھوڑ دی، اور کچھ ہی دیر کے بعد آکر اپنی جوتی اٹھائی اور چلتے بنے، جب خلیفہ نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتلایا گیا کہ سفیان نے واپس آنے کیلئے قسم اٹھائی تھی تو وہ واقعی واپس آئے تھے اور اپنی جوتی لیکر چلے گئے۔

اسی طرح ایک بار امام احمد بن حنبل اپنے گھر میں تھے اور انکے ساتھ کچھ شاگرد بھی بیٹھے تھے جن میں مِروذی بھی تھے، ایک آدمی باہر سے آیا اور مِروذی کے بارے میں پوچھنے لگا، امام احمد نہیں چاہتے تھے کہ مِروذی انکی مجلس سے اٹھ کر جائے، تو امام احمد نے اپنی انگلی ہتھیلی پر رکھ کر کہا: مِروذی یہاں نہیں ہے، اور پھر یہاں مِروذی کا کیا کام ہے، اس ساری بات کا اشارہ امام احمد کی اپنی ہتھیلی کی طرف تھا، جبکہ باہر سے آنے والا آدمی اس کو نہ سمجھ پایا۔

توریہ کی مزید مثالوں میں یہ بھی ہے کہ :

آپ سے کسی کے بارے میں پوچھا گیا: کیا آپ نے فلاں شخص کو دیکھا ہے؟ اور آپ کو اندیشہ ہے کہ اگر میں نے اسکے بارے میں بتلا دیا تو یہ لوگ اسے قید میں ڈال دیں گے یا نقصان پہنچائیں گے، تو آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ میں نے اسے نہیں دیکھا، اور آپ کے دل میں یہ ہو کہ میں نے اسے ایک ہفتہ پہلے یا کسی خاص وقت میں نہیں دیکھا۔

اسی طرح کسی نے آپکو کہا کہ : تم مجھے قسم دو کہ فلاں شخص سے کلام نہیں کروگے، اور آپ نے اسے قسم دے دی، اور دل میں یہ سوچا کہ کلام سے مراد میں اسے زخم نہیں لگاؤں گا، کیونکہ کلام کا معنی لغت میں زخم لگانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔

ایسے ہی اگر کسی نے آپکو کفریہ بات کہنے پر مجبور کیا، تو آپ کو کوئی بھی ذو معنی بات کہنے کی اجازت ہے مثلاً عربی میں آپ کہو گے، "کفرتُ باللاھی" ھاء کو لمبا کرکے، جسکا معنی ہوگا، میں نے لہو ولعب کرنے والے کا انکار کیا۔

إغاثة اللهفان : ابن القيم 1/381 اور ایسے ہی جلد دوم میں 2/106-107۔

توریہ اور کنایہ کے بارے میں آپ ابن مفلح کی کتاب: "الآداب الشرعیہ" میں ایک مستقل فصل:" في إباحة المعاريض ومحلها " (1/14) بھی ملاحظہ کریں۔

مندرجہ بالا تفصیل کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایک مسلمان توریہ کا استعمال انتہائی شدید قسم کے حالات میں کرے ، اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

1- کثرت سے توریہ کرنے کی بنا پر انسان جھوٹ کی بیماری میں پڑ سکتا ہے۔

2- اسکی وجہ سے دوست احباب آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اعتماد کھو بیٹھے گے، کیونکہ ہر وقت توریہ کے عادی شخص کے بارے میں یہی سوچا جائے گا کہ کیا اس نے جو بات کی ہے اسکا یہی مطلب ہے جو ہم نے سمجھا یا کچھ اسکے پیچھے پوشیدہ ہے؟

3- جب توریہ کرنے والے کے بارے میں مخاطب شخص کو پتہ چلے گا تو وہ اسے جھوٹا شخص قرار دے گا، اور یہ شرعی طور درست نہیں کیونکہ انسان کو شریعت نے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے کام کرنے سے منع فرمایا ہے۔

4- اس کی وجہ سے توریہ کرنے والا شخص خود پسندی میں واقع ہوسکتا ہے، کہ اسکے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ میں لوگوں کو پاگل بنا دیتا ہوں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔

یہ اقتباس کتاب: " ماذا تفعل في الحالات الآتية ؟" سے لیا گیا ہے۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/27261
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
میں نےاس روایت کی حقیقت سب کو بتادی ہے جس میں اسحاق سلفی صاحب بھی شامل ہیں اگر کوئی جان بوجھ کر انجان بن رہا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ ایسی روایات آپ ہی کو مبارک ہوں ۔ اس لیے کہ ایسی روایات کی جگہ انہی کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔قرآن ایسے افتراء سے پہلے بھی پاک تھا اور آئندہ بھی پاک ہی رہے گا۔
یہ بھی خوب ہے کہ ایک شخص قرآن کی آیت پیش کرے تو اس کو حدیث دشمن کہہ کر مشہور کیا جائے، خیر کوئی بات نہیں ۔ آپ کو یہ روایت مبارک ہو اور مجھے قرآن کی آیت ۔
بھائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے سچے نبی تھے اور معاذاللہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے تھے یا جھوٹ بولتے تھے بس بعض جگہوں پر آپ علیہ السلام نے خلاف حیقیت بات کہی ہے تو اس مین صرف اور صرف کفار کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا ہے جیسا کہ بت تورنے کا واقعہ، بظاہر تو آپ علیہ السلام نے کافروں کو یہی کہا کہ میں نے بت نہین توڑے بلکہ ان کے بڑے سے پوچھو اس نے تو ڑے ہیں بظاہر تو یہ بات خلاف حقیقیت لگتی ہے لیکن اس میں ایک خاص پہلو موجود ہے جو ہے کفار کو یہ باور کروانا کہ بت نہ تو بول سکتے ہیں ، نہ تو کچھ اور کرسکتے ہیں۔
اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت توڑنے کا واقعہ تو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے آپ قرآن کریم کی آیات کیوں نہیں پیش کردیتے جو بت توڑنے کے متعلق ہیں ۔۔۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بھائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے سچے نبی تھے اور معاذاللہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے تھے یا جھوٹ بولتے تھے بس بعض جگہوں پر آپ علیہ السلام نے خلاف حیقیت بات کہی ہے تو اس مین صرف اور صرف کفار کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا ہے جیسا کہ بت تورنے کا واقعہ، بظاہر تو آپ علیہ السلام نے کافروں کو یہی کہا کہ میں نے بت نہین توڑے بلکہ ان کے بڑے سے پوچھو اس نے تو ڑے ہیں بظاہر تو یہ بات خلاف حقیقیت لگتی ہے لیکن اس میں ایک خاص پہلو موجود ہے جو ہے کفار کو یہ باور کروانا کہ بت نہ تو بول سکتے ہیں ، نہ تو کچھ اور کرسکتے ہیں۔
اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بت توڑنے کا واقعہ تو قرآن کریم نے خود ہی بیان کیا ہے آپ قرآن کریم کی آیات کیوں نہیں پیش کردیتے جو بت توڑنے کے متعلق ہیں ۔۔۔
میرے محترم !
لفظ ”کذب“ قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ کے لیے استعمال کیا ہے یا نہیں ؟ اسکا جواب عنایت فرمادیں، اور میری مندرجہ ذیل گزارشات پر بھی غور فرمائیں!
جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو
وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
T.K.H


میرے بھائی ہر پوسٹ موضوع کے مطابق ہے لیکن آپ ہر پوسٹ کو غیر متعلق کر دیتے ہیں اس کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ کے اندر حق بات سننے کی برداشت نہیں میرے بھائی جو بھی سلف سے کٹے گا اس کا شیطان گمراہ کر دے گا - یہی حال آپ جیسے لوگوں کا بھی ہیں - میرے بھائی دین کو جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہماء ، تعابین ، تبع تعابین ، اور محدثین نے سمجھا ھم کو بھی ان کی رہبری میں دین کو سمجھنا چاھیے نا کہ اپنی عقل سے

آخر میں اس کو بھی پڑھ لے بہترین نصیحت ہے @ابو جماز نے پوسٹ کی ہے

علمی اختلاف کرنے کے آداب میں سے ایک اہم ادب (ایک آپ بیتی)


عام طور پر آپ نے بھی اس بات کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اختلاف جب بھی کیا جاتا ہے چاہے وہ علمی ہو یا غیر علمی تو لڑائ جھگڑے تک بات ضرور پہنچتی ہے۔ اسکے بے شمار اسباب ہیں لیکن ایک اہم سبب اگلے کی رائے کو درست طریقہ سے نہ سمجھنا ہے اور یہی چیز اختلاف کو طول دیتی ہے۔ اسکی مثال آپ یوں سمجھیں کہ پچھلے دنوں ایک بھائ سے میرا کسی علمی مسئلہ میں اختلاف ہوگیا۔ میں جب اسکی رائے کو سن رہا تھا تو میں نے اپنے آپ میں تین چیزیں محسوس کیں:

1۔ اسکی گفتگو کے دوران میں دماغی طور پر بے چین تھا کیونکہ میرے ذہن میں ایک قسم کا ڈر تھا کہ کہیں وہ کوئ ایسی دلیل نہ دے دے جسکا میرے پاس کوئ جواب نہ ہو۔

2۔ جو بھی دلائل وہ دے رہا تھا اسکو سمجھنے کی کوشش کے بجائے میں اسکے جوابات سوچ رہا تھا۔

3۔ میں بار بار اسکو ٹوکتا کیونکہ مجھ سے اسکی پوری گفتگو سنی نہیں جارہی تھی۔

اللہ اللہ کرکے جب اسکی آدھے گھنٹے کی
طویل گفتگو ختم ہوئ تو میں نے ایک تحریری جواب لکھنا شروع کردیا۔ نماز کا وقت آیا تو مسجد کی طرف جانے لگا تو رستے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی وہ بات یاد آئ کہ کسی نازک مسئلہ کو سمجھنے اور اس پر غلطی سے بچنے کے لیے دمشق کی ایک پرانی سی مسجد میں چلے جایا کرتے اور علاّم العلوم کے سامنے سجدے میں گڑگڑاتے ہوئے مدد طلب کرتے۔ یہی سوچتے ہوئے دورانِ نماز اهدنا الصراط المستقيم پر زور دیا اور واپس آکر جواب لکھنا شروع کیا۔ اس بار جواب الزامی اور ناقدانہ ہونے کے بجائے ناصحانہ اور مدلل تھا۔ کیونکہ ان منفی احساسات کو ختم کرنے کے لیے پہلے اسکی گفتگو کے مثبت پہلوؤں کو لکھا اور پھر اختلافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا۔ اس بھائ کے ہم خیال لوگوں نے نہ صرف میری رائے کو مکمل پڑھا بلکہ پسند کرتے ہوئے اس پر دعائیہ کلمات بھی کہے اگرچہ وہ اس سے اختلاف ہی کیونہ کرتے ہوں۔

میں نے اس سے یہ بات سیکھی ہے کہ جب بھی ہم اپنے مخالف کی کوئ رائے سنتے ہیں تو سنتے وقت ہمارا دماغ اپنے اندر ایک (مدافعانہ) ڈیفنسو دیوار کھڑی کردیتا ہے جس سے بات ہماری عقل تک نہیں پہنچ پاتی۔ کیونکہ حق میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اگر وہ عقل تک اس دیوار سے بچ کر کسی طرح پہنچ جائے تو وہ اسکو متاثر ضرور کرتا ہے۔ اسی لیے بات کا انداز اگر ناصحانہ ہو اور الفاظ کا بہترین چناؤ ہو اور اسی طرح بات مثبت ہو تو اگلا اس طرح کی کوئ ڈیفنسو دیوار اپنے اندر کھڑی نہیں کرپاتا اور نتیجہ میں ہمیشہ فریقین میں سے ایک حق کو سمجھ جاتا ہے۔

اللہ ہمیں صحیح معنوں میں اختلاف کے آداب سیکھائے اور ہماری غلطیوں کی اصلاح فرمائے۔ آمین


http://forum.mohaddis.com/threads/علمی-اختلاف-کرنے-کے-آداب-میں-سے-ایک-اہم-ادب-ایک-آپ-بیتی.27259/
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
میرے محترم !
لفظ ”کذب“ قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ کے لیے استعمال کیا ہے یا نہیں ؟ اسکا جواب عنایت فرمادیں، اور میری مندرجہ ذیل گزارشات پر بھی غور فرمائیں!
جو جلیل القدر پیغمبر اپنے بیٹے کو بلا چون و چرا قربان کرنے کرنے کا جذبہ رکھتا ہو، اپنی بیوی کو جنگل بیا بان میں اللہ تعالٰی کے بھروسے چھوڑ آنے کےلیے تیار ہو، فقط محبتِ الہیٰ میں بے خوف و خطر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود جائے، ظالم وجابر نمرود کے سامنے جس کے قدم نہ لڑکھڑائیں تو
وہ بھلا اایک بادشاہ کے ڈر سے توریہ کیونکر کرنے لگا ؟
بھائی میں زیادہ بحث میں تو نہیں جاتا لیکن کچھ کام ایسے ہوتے جو انبیاء صرف اور صرف اپنی لوگوں کے لئے کردیتے ہین گر ورنہ انہیں تو خدا کی حمایت و نصرت ہوتی ہے ، مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ظلم و ستم سہ لیتے تھے لیکن جب ہجرت کا حکم ہوا تو آپ ایک غار مین جا چھپے اب جو اللہ تعالی کافروں کو اندہاکر کہ یا انہیں نیند مین ڈال کہ کر آپ کو نکال سکتا ہے وہ اللہ تعالی آپ کو بحفاظت مدینہ بھی پھنچا سکتا ہے لیکن آپ غار مین چھپے کیوں ، اور وہی معاملہ ابراہیم علیہ االسلام اور بادشام کے متعلق ہے۔ ہاں اگر آپ غار ثور کے واقعے کو ہی نہیں مانتے تو پھر میں کچھ نہین کہ سکتا ۔
اللہ تعالی آپ کا بھلا کرے
 
Top