سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
یہ لکیریں آج بھی مصنوعی ہیں، اگر ان لکیروں کے دونوں جانب چاک و چوبند افواج کے مسلح دستے نہ کھڑے ہوں اور ایک جانب سے دوسری جانب جانے والوں کو زبردستی نہ روکیں۔جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تو ان تمام سیکولر قومی ریاستوں کی ایک انجمن بنائی گئی جسے لیگ آف نیشنز کہتے تھے۔
اس ادارے کا بنیادی مقصد ان مصنوعی لکیروں کے تقدس، حرمت اور قانونی حیثیت کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کروانا تھا۔ اسی اصول کے تحت1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن، لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا۔1924ء تک ویزا ریگولیشن بنائے گئے اور پھر بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ہر سیکولر قومی ریاست کی لکیریں جنھیں عالمی سرحدیں کہا گیا تھا، ان کے تحفظ کے لیے بندوقیں تان لیں۔پوری دنیا انسانوں کے ایک بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ ہر ملک ایک بہت بڑا پنجرہ تھا، جس میں قید انسان اگر بغیر اجازت دوسرے پنجرے کی طرف گئے ،تو قید کر دیے گئے ، واپس دھکیل دیے گئے یا گولیوں سے بھون دیے گئے۔
ان پنجروں کو سیکولر بنیادوں پر اس لیے استوار کیاگیا، یا پھر یہ حدود سیکولر بنیادوں پر اس لیے زمین پر کھینچی گئیں، تاکہ انسانوں میں موجود نسل، رنگ ، زبان اور علاقے کا نفرت انگیز تعصب ابھر کر سامنے آئے اور وہ اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں سے اس قدر نفرت کریں کہ ان کو قتل کرنے، ان کے گھر اجاڑنے، کھیتوں کو آگ لگانے اور شہر برباد کرنے میں بھی سکون حاصل کریں۔ سیکولر قومی ریاستوں کے اس جذبہ نفرت و تعصب کا اظہار پہلی دفعہ جنگ عظیم اوّل میں ہوا۔
کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ سرحدوں کی حرمت اور تقدس کی قسمیں کھائی گئیں، لیکن صرف تیس سال بعد جنگِ عظیم دوم میں ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، ہزاروں شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، کروڑوں بے گھر اور خانماں برباد ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ریاستوں کو سیکولر کیوں رکھا گیا۔ اس لیے کہ اگر کہیں بھی انسانی اقدار، انسانی جان کا احترام اور انسانیت کی مدد کے اصول دستیاب ہیں تو وہ مذاہب میں ملتے تھے۔
عسیائیت ہو یا یہودیت، بدھ ہو یا جین مت، ہندو ازم ہو یا اسلام، ان سب کی کتابوں اور ان کی صدیوں کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد اور خیر خواہی کا درس ضرور موجود ہے۔ کم ازکم اپنے ہم مذہب بھائی کے لیے تو ہر مذہب میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔لیکن سیکولر قومی ریاست کا کمال یہ تھا کہ جرمن اور فرانس دونوں ایک کا کیشئن نسل سے تھے، ایک مذہب کے پیر وکار تھے، مدتوں ایک ہی رومی سلطنت کا حصہ تھے، لیکن سرحدوں کے تحفظ نے انھیں درندہ بنا دیا۔
سرحدوں کے تقدس اور سیکولر قومی ریاستوں کے تحفظ سے جنم لینے والی درندگی کی مثال اس وقت بحرہند کے سمندروں میں برما سے بھاگے ہوئے روہنگا مسلمانوں کی بھٹکتی ہوئی کشتی میں سوار عورتیں، مرد اور بچے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں سے گذرتے ہوئے یہ لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے تھے، جب بی بی سی کے ایک صحافی نے ان کی فلم بندی کی ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں برما اپنا شہری تصور نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش جن پر اپنے دروازے بند کر چکا۔ پیاس میں تڑپتے ہوئے بچے، بھوک سے نڈھال مرد اور عورتیں، جزائر انڈیمان کے نزدیک چودہ مئی کو انھیں دیکھا گیا۔
انڈونیشیا کی حکومت نے کہا کہ ان کو ساحل پر اترنے میں مدد دینے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ ایک کشتی تھی جس میں370مرد اور بچے سوار تھے۔اس وقت تقریباً اس طرح کی تیس کشتیاں جن میں دس ہزار لوگ سوار ہیں، سمندر میں سرگرداں ہیں کہ کسی ملک کی سرزمین انھیں پناہ دے۔ سات دن بعد اس ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو ملائیشیا نے اس شرط پر اترنے دیا کہ انھیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔
وہ برما جو انھیں اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا اور جہاں ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔
حامد کمال الدین
اس ادارے کا بنیادی مقصد ان مصنوعی لکیروں کے تقدس، حرمت اور قانونی حیثیت کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کروانا تھا۔ اسی اصول کے تحت1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن، لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا۔1924ء تک ویزا ریگولیشن بنائے گئے اور پھر بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ہر سیکولر قومی ریاست کی لکیریں جنھیں عالمی سرحدیں کہا گیا تھا، ان کے تحفظ کے لیے بندوقیں تان لیں۔پوری دنیا انسانوں کے ایک بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ ہر ملک ایک بہت بڑا پنجرہ تھا، جس میں قید انسان اگر بغیر اجازت دوسرے پنجرے کی طرف گئے ،تو قید کر دیے گئے ، واپس دھکیل دیے گئے یا گولیوں سے بھون دیے گئے۔
ان پنجروں کو سیکولر بنیادوں پر اس لیے استوار کیاگیا، یا پھر یہ حدود سیکولر بنیادوں پر اس لیے زمین پر کھینچی گئیں، تاکہ انسانوں میں موجود نسل، رنگ ، زبان اور علاقے کا نفرت انگیز تعصب ابھر کر سامنے آئے اور وہ اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں سے اس قدر نفرت کریں کہ ان کو قتل کرنے، ان کے گھر اجاڑنے، کھیتوں کو آگ لگانے اور شہر برباد کرنے میں بھی سکون حاصل کریں۔ سیکولر قومی ریاستوں کے اس جذبہ نفرت و تعصب کا اظہار پہلی دفعہ جنگ عظیم اوّل میں ہوا۔
کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ سرحدوں کی حرمت اور تقدس کی قسمیں کھائی گئیں، لیکن صرف تیس سال بعد جنگِ عظیم دوم میں ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، ہزاروں شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، کروڑوں بے گھر اور خانماں برباد ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ریاستوں کو سیکولر کیوں رکھا گیا۔ اس لیے کہ اگر کہیں بھی انسانی اقدار، انسانی جان کا احترام اور انسانیت کی مدد کے اصول دستیاب ہیں تو وہ مذاہب میں ملتے تھے۔
عسیائیت ہو یا یہودیت، بدھ ہو یا جین مت، ہندو ازم ہو یا اسلام، ان سب کی کتابوں اور ان کی صدیوں کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد اور خیر خواہی کا درس ضرور موجود ہے۔ کم ازکم اپنے ہم مذہب بھائی کے لیے تو ہر مذہب میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔لیکن سیکولر قومی ریاست کا کمال یہ تھا کہ جرمن اور فرانس دونوں ایک کا کیشئن نسل سے تھے، ایک مذہب کے پیر وکار تھے، مدتوں ایک ہی رومی سلطنت کا حصہ تھے، لیکن سرحدوں کے تحفظ نے انھیں درندہ بنا دیا۔
سرحدوں کے تقدس اور سیکولر قومی ریاستوں کے تحفظ سے جنم لینے والی درندگی کی مثال اس وقت بحرہند کے سمندروں میں برما سے بھاگے ہوئے روہنگا مسلمانوں کی بھٹکتی ہوئی کشتی میں سوار عورتیں، مرد اور بچے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں سے گذرتے ہوئے یہ لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے تھے، جب بی بی سی کے ایک صحافی نے ان کی فلم بندی کی ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں برما اپنا شہری تصور نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش جن پر اپنے دروازے بند کر چکا۔ پیاس میں تڑپتے ہوئے بچے، بھوک سے نڈھال مرد اور عورتیں، جزائر انڈیمان کے نزدیک چودہ مئی کو انھیں دیکھا گیا۔
انڈونیشیا کی حکومت نے کہا کہ ان کو ساحل پر اترنے میں مدد دینے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ ایک کشتی تھی جس میں370مرد اور بچے سوار تھے۔اس وقت تقریباً اس طرح کی تیس کشتیاں جن میں دس ہزار لوگ سوار ہیں، سمندر میں سرگرداں ہیں کہ کسی ملک کی سرزمین انھیں پناہ دے۔ سات دن بعد اس ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو ملائیشیا نے اس شرط پر اترنے دیا کہ انھیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔
وہ برما جو انھیں اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا اور جہاں ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔
حامد کمال الدین