• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث بک

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یہ لکیریں آج بھی مصنوعی ہیں، اگر ان لکیروں کے دونوں جانب چاک و چوبند افواج کے مسلح دستے نہ کھڑے ہوں اور ایک جانب سے دوسری جانب جانے والوں کو زبردستی نہ روکیں۔جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تو ان تمام سیکولر قومی ریاستوں کی ایک انجمن بنائی گئی جسے لیگ آف نیشنز کہتے تھے۔

اس ادارے کا بنیادی مقصد ان مصنوعی لکیروں کے تقدس، حرمت اور قانونی حیثیت کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کروانا تھا۔ اسی اصول کے تحت1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن، لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا۔1924ء تک ویزا ریگولیشن بنائے گئے اور پھر بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ہر سیکولر قومی ریاست کی لکیریں جنھیں عالمی سرحدیں کہا گیا تھا، ان کے تحفظ کے لیے بندوقیں تان لیں۔پوری دنیا انسانوں کے ایک بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ ہر ملک ایک بہت بڑا پنجرہ تھا، جس میں قید انسان اگر بغیر اجازت دوسرے پنجرے کی طرف گئے ،تو قید کر دیے گئے ، واپس دھکیل دیے گئے یا گولیوں سے بھون دیے گئے۔

ان پنجروں کو سیکولر بنیادوں پر اس لیے استوار کیاگیا، یا پھر یہ حدود سیکولر بنیادوں پر اس لیے زمین پر کھینچی گئیں، تاکہ انسانوں میں موجود نسل، رنگ ، زبان اور علاقے کا نفرت انگیز تعصب ابھر کر سامنے آئے اور وہ اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں سے اس قدر نفرت کریں کہ ان کو قتل کرنے، ان کے گھر اجاڑنے، کھیتوں کو آگ لگانے اور شہر برباد کرنے میں بھی سکون حاصل کریں۔ سیکولر قومی ریاستوں کے اس جذبہ نفرت و تعصب کا اظہار پہلی دفعہ جنگ عظیم اوّل میں ہوا۔

کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ سرحدوں کی حرمت اور تقدس کی قسمیں کھائی گئیں، لیکن صرف تیس سال بعد جنگِ عظیم دوم میں ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، ہزاروں شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، کروڑوں بے گھر اور خانماں برباد ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ریاستوں کو سیکولر کیوں رکھا گیا۔ اس لیے کہ اگر کہیں بھی انسانی اقدار، انسانی جان کا احترام اور انسانیت کی مدد کے اصول دستیاب ہیں تو وہ مذاہب میں ملتے تھے۔

عسیائیت ہو یا یہودیت، بدھ ہو یا جین مت، ہندو ازم ہو یا اسلام، ان سب کی کتابوں اور ان کی صدیوں کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد اور خیر خواہی کا درس ضرور موجود ہے۔ کم ازکم اپنے ہم مذہب بھائی کے لیے تو ہر مذہب میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔لیکن سیکولر قومی ریاست کا کمال یہ تھا کہ جرمن اور فرانس دونوں ایک کا کیشئن نسل سے تھے، ایک مذہب کے پیر وکار تھے، مدتوں ایک ہی رومی سلطنت کا حصہ تھے، لیکن سرحدوں کے تحفظ نے انھیں درندہ بنا دیا۔

سرحدوں کے تقدس اور سیکولر قومی ریاستوں کے تحفظ سے جنم لینے والی درندگی کی مثال اس وقت بحرہند کے سمندروں میں برما سے بھاگے ہوئے روہنگا مسلمانوں کی بھٹکتی ہوئی کشتی میں سوار عورتیں، مرد اور بچے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں سے گذرتے ہوئے یہ لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے تھے، جب بی بی سی کے ایک صحافی نے ان کی فلم بندی کی ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں برما اپنا شہری تصور نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش جن پر اپنے دروازے بند کر چکا۔ پیاس میں تڑپتے ہوئے بچے، بھوک سے نڈھال مرد اور عورتیں، جزائر انڈیمان کے نزدیک چودہ مئی کو انھیں دیکھا گیا۔

انڈونیشیا کی حکومت نے کہا کہ ان کو ساحل پر اترنے میں مدد دینے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ ایک کشتی تھی جس میں370مرد اور بچے سوار تھے۔اس وقت تقریباً اس طرح کی تیس کشتیاں جن میں دس ہزار لوگ سوار ہیں، سمندر میں سرگرداں ہیں کہ کسی ملک کی سرزمین انھیں پناہ دے۔ سات دن بعد اس ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو ملائیشیا نے اس شرط پر اترنے دیا کہ انھیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔

وہ برما جو انھیں اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا اور جہاں ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔
حامد کمال الدین
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
انسانی تہذیب کی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کی داستان بیان کرنے والے دانش ور، موجودہ سیکولر قومی ریاستوں کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ یہ قومی ریاستیں پہلی جنگِ عظیم کے آس پاس دنیا کے نقشے پر اس طرح ابھریں جیسے جھیل کا پانی خشک ہو جائے تو مٹی کی تہہ میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم سے پہلے کی دو تین صدیاں پانچ قوموں کی دنیا بھر پر یلغار کی صدیاں ہیں۔

ان میں تین اقوام، برطانیہ، فرانس اور اسپین تو وسیع علاقوں پر قابض رہیں جب کہ ہالینڈ اور پرتگال نے نسبتاً کم علاقے اپنے زیرنگیں کیے۔ان تمام اقوام نے آسٹریلیا سے لے کر امریکا کے مغربی ساحلوں تک ہر جگہ کبھی تجارت اور کبھی براہِ راست جنگ کے ذریعے علاقوں پر قبضہ کیا، ان کے وسائل کو لوٹا، وہاں سے انسانوں کی کثیر تعداد کو غلام بنا کر اپنے ملکوں میں لے جایا گیا اور اس لوٹ مار سے اپنے چھوٹے چھوٹے مغربی ممالک کو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تبدیل کر لیا ۔

جب یورپ کے یہ چھوٹے چھوٹے ملک دنیا بھر کی لوٹ مار سے ترقی کی منازل طے کر گئے تو پھر ایک خاص منصوبے کے تحت انسانوں کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کر کے زمین پر مصنوعی لکیریں کھینچ دی گئیں۔ یہ لکیریں آج بھی مصنوعی ہیں، اگر ان لکیروں کے دونوں جانب چاک و چوبند افواج کے مسلح دستے نہ کھڑے ہوں اور ایک جانب سے دوسری جانب جانے والوں کو زبردستی نہ روکیں۔جنگِ عظیم اوّل ختم ہوئی تو ان تمام سیکولر قومی ریاستوں کی ایک انجمن بنائی گئی جسے لیگ آف نیشنز کہتے تھے۔

اس ادارے کا بنیادی مقصد ان مصنوعی لکیروں کے تقدس، حرمت اور قانونی حیثیت کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کروانا تھا۔ اسی اصول کے تحت1920ء میں پاسپورٹ کا ڈیزائن، لیگ آف نیشنز میں پیش ہوا۔1924ء تک ویزا ریگولیشن بنائے گئے اور پھر بارڈر سیکیورٹی فورسز نے ہر سیکولر قومی ریاست کی لکیریں جنھیں عالمی سرحدیں کہا گیا تھا، ان کے تحفظ کے لیے بندوقیں تان لیں۔پوری دنیا انسانوں کے ایک بڑے چڑیا گھر میں تبدیل کر دی گئی۔ ہر ملک ایک بہت بڑا پنجرہ تھا، جس میں قید انسان اگر بغیر اجازت دوسرے پنجرے کی طرف گئے ،تو قید کر دیے گئے ، واپس دھکیل دیے گئے یا گولیوں سے بھون دیے گئے۔

ان پنجروں کو سیکولر بنیادوں پر اس لیے استوار کیاگیا، یا پھر یہ حدود سیکولر بنیادوں پر اس لیے زمین پر کھینچی گئیں، تاکہ انسانوں میں موجود نسل، رنگ ، زبان اور علاقے کا نفرت انگیز تعصب ابھر کر سامنے آئے اور وہ اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں سے اس قدر نفرت کریں کہ ان کو قتل کرنے، ان کے گھر اجاڑنے، کھیتوں کو آگ لگانے اور شہر برباد کرنے میں بھی سکون حاصل کریں۔ سیکولر قومی ریاستوں کے اس جذبہ نفرت و تعصب کا اظہار پہلی دفعہ جنگ عظیم اوّل میں ہوا۔

کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ سرحدوں کی حرمت اور تقدس کی قسمیں کھائی گئیں، لیکن صرف تیس سال بعد جنگِ عظیم دوم میں ایک بار پھر کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، ہزاروں شہر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے، کروڑوں بے گھر اور خانماں برباد ہوگئے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی ریاستوں کو سیکولر کیوں رکھا گیا۔ اس لیے کہ اگر کہیں بھی انسانی اقدار، انسانی جان کا احترام اور انسانیت کی مدد کے اصول دستیاب ہیں تو وہ مذاہب میں ملتے تھے۔

عسیائیت ہو یا یہودیت، بدھ ہو یا جین مت، ہندو ازم ہو یا اسلام، ان سب کی کتابوں اور ان کی صدیوں کی تعلیمات میں انسانوں کی مدد اور خیر خواہی کا درس ضرور موجود ہے۔ کم ازکم اپنے ہم مذہب بھائی کے لیے تو ہر مذہب میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔لیکن سیکولر قومی ریاست کا کمال یہ تھا کہ جرمن اور فرانس دونوں ایک کا کیشئن نسل سے تھے، ایک مذہب کے پیر وکار تھے، مدتوں ایک ہی رومی سلطنت کا حصہ تھے، لیکن سرحدوں کے تحفظ نے انھیں درندہ بنا دیا۔

سرحدوں کے تقدس اور سیکولر قومی ریاستوں کے تحفظ سے جنم لینے والی درندگی کی مثال اس وقت بحرہند کے سمندروں میں برما سے بھاگے ہوئے روہنگا مسلمانوں کی بھٹکتی ہوئی کشتی میں سوار عورتیں، مرد اور بچے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساحلوں سے گذرتے ہوئے یہ لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے تھے، جب بی بی سی کے ایک صحافی نے ان کی فلم بندی کی ۔ یہ وہ مسلمان ہیں جنھیں برما اپنا شہری تصور نہیں کرتا۔ بنگلہ دیش جن پر اپنے دروازے بند کر چکا۔ پیاس میں تڑپتے ہوئے بچے، بھوک سے نڈھال مرد اور عورتیں، جزائر انڈیمان کے نزدیک چودہ مئی کو انھیں دیکھا گیا۔

انڈونیشیا کی حکومت نے کہا کہ ان کو ساحل پر اترنے میں مدد دینے والے کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ ایک کشتی تھی جس میں370مرد اور بچے سوار تھے۔اس وقت تقریباً اس طرح کی تیس کشتیاں جن میں دس ہزار لوگ سوار ہیں، سمندر میں سرگرداں ہیں کہ کسی ملک کی سرزمین انھیں پناہ دے۔ سات دن بعد اس ایک کشتی کے تین سو ستر مسافروں کو ملائیشیا نے اس شرط پر اترنے دیا کہ انھیں واپس ان کے ملک برما بھیجا جائے گا۔

وہ برما جو انھیں اپنا شہری ہی تسلیم نہیں کرتا اور جہاں ان کا قتل عام ہو رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب برما کے ان روہنگا مسلمانوں کو ملائیشیا کے ساحل پر اتارا گیا تو اس میں بنگلہ دیش کے لوگ بھی شامل تھے۔ وہ بنگلہ دیش جسے ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کے عظیم دانش ور یہ کہتے تھے کہ مغربی پاکستان ان کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔

1971ء میں آزادی کے بعد اس بنگلہ دیش کی حالت یہ ہوئی کہ تقریباً نوے لاکھ بنگالی بھارت میں معمولی نوکری کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر آباد ہیں اور دس لاکھ بنگالی عورتیں دنیا کے بازاروں میں بیچی جا چکی ہے۔ ان بھٹکتی ہوئی کشتیوں میں نامعلوم کتنے بنگلہ دیشی ہوں گے جو خوف اورمعاشی مجبوری کے ہاتھوں پناہ ڈھونڈ رہے ہوں گے۔

دوسرا تماشہ اس سمندر میں لگا ہوا ہے جو مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، شام اور مراکش کو ایک جانب سے چھوتا ہے اور دوسری جانب اسپین، اٹلی، یونان اور یورپ کے ساحلوں پر ختم ہوتا ہے۔ یہ وہ سمندر جس کے ساتھ آباد ممالک سے کبھی امریکا اور یورپ کے سفاک انسانی اسمگلر افریقی غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کرلے جایا کرتے تھے اور اپنے ملکوں میں بیچ دیتے تھے۔ آج یورپی یونین نے اقوام متحدہ سے اجازت مانگی ہے کہ افریقہ اور مشرقِ وسطی سے آنے والی کشتیوں پر فوجی طاقت استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

اس سال اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ساٹھ ہزار افراد نے اس سمندر کو عبور کر کے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کی جن میں سے تیس ہزار کے قریب افراد سمندر کی لہروں کی نذر ہوگئے۔ جب کے International organization for migration کے مطابق2014میں تین ہزار دوسو اناسی(3279) افراد یہ سمندر عبور کرتے ہوئے لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ سب لوگ شام ،لیبیا، صومالیہ، اوسیٹریا، نائیجریا اور دیگر ممالک سے ہیں۔ یہ وہ تمام ممالک ہیں جنھیں سیکولر قومی ریاستوں کے نام پر تقسیم کیا گیا۔ افریقہ کے نقشے کو ایسے کاٹا گیا جیسے میز پر کیک رکھ کر کاٹا جاتا ہے۔

پھر ان ممالک پر خانہ جنگی مسلط کی گئی۔ انھیں معاشی طور پر لوٹ کر قحط کا شکار کیا گیا اور آج وہاں کے عوام اپنے ملکوں سے خوف ، بدامنی اور بھوک کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ان ممالک سے انسانوں کو ایسے پکڑا جاتا تھا جیسے جنگلوں میں جانوروں کو جال لگا کر پکڑا جاتا ہے۔پھر ان کو زنجیروں سے باندھ کر غلام بنا کر لے جایا جاتا تھا۔ ان لوگوں کی محنت سے امریکا کے مسس سپی کی زمینیں آباد ہوئیں اور یورپ کے شہروں کی رونقیں ان کے خون پسینے کی بدولت ہیں۔ آج یہ لوگ اسی یورپ کی جانب جاتے ہیں تو انھیںسمندر کی لہروں میں غرق کر دیا جاتا ہے۔ سیکولر قومی ریاستوں کا یہ خوفناک منظر، انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔

لیکن کیا ستاون اسلامی ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو اندازہ ہے کہ اگر روز حشر اللہ نے یہ سوال کر لیا کہ جس دن ہزاروں روہنگا مسلمان بھوک اور پیاس سے مجبور ہو کر سمندر میں دم توڑ رہے تھے اور تم آرام دہ کمروں میں بیٹھے، شاندار مرغن کھانوں سے لطف انداز ہو رہے تھے۔ جب ان کے بچے بھوک سے بلک رہے تھے اور تم اپنے بچوں کو زندگی کو آسائشوں سے بہرہ مند کر رہے تھے۔ ایسے میں حشر کی گرمی اور میزان عدل کی موجودگی میں ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے پاس کوئی جواب ہوگا۔سوچئے تو شاید اس بات کا جواب بھی مل جائے کہ ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں
اوریا مقبول جان
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
طہ عارف صاحب لمبی لمبی تحریریں ممنوع ہیں ، اس زمرے میں ، اور وہ بھی جب کاپی پیسٹ ہوں تو بالخصوص ۔ ابتسامہ ۔
ان تحریروں کو الگ تھریڈ شروع کرکے لگا لیا کریں ، اس میں کوئی حرج ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
تشریح :
ایک الگ اسلامی مملکت کا خواب دیکھنے والے علامہ محمد اقبال کے اس شعر میں اس مملکت کے کار پردازان کے لیے نصیحت ہے ، کہ عاصمہ جہانگیر ، حسن نثار ، ہود بھائی ، جاوید غامدی اور ان کی بولی بولنے والوں کو اس ’’ مملکت خداداد ‘‘ سے نکال باہر کیا جائے ۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اگر میں کہوں کہ "میں مہاجر ہوں" تو آپ بجا طور پر پوچھیں گے کہ بھائی کہاں سے ہجرت کر لی ہے؟؟ اب اگر اس پر میں یون جواب دیتا ہوں کہ:" حدیث میں آتا ہے "والمھاجر من ھاجر ما نھی اللہ عنہ" یعنی مہاجر وہ ہے جو اللہ کے منع کردہ کاموں سے رُک جائے۔ اب میں نے اللہ کے منع کردہ کاموں سے پرہیز کرنا شروع کر دیا ہے، توبۃ النصوحہ کرلی ہے اور اس طرح میں ''مہاجر" ہو گیا ہوں!" تو یقینی طور پر آپ سب مجھ پر ہنسیں گے،کچھ سمجھانے والے خیر خواہ سمجھائیں گے بھی کہ بھائی میاں! ہجرت،مہاجر ایک شرعی مفہوم رکھتے ہیں اور دین اسلام کے لیے گھر بار چھوڑنے کو ہجرت کہاجاتا ہے، اس حدیث میں ہجرت کا لفظ لغوی معنیٰ میں بیان ہوا ہے جس کا معنیٰ ہے 'ترک کر دینا' وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح اگر میں کہوں کہ میں نماز ادا کرنے لگا ہوں، اس کے بعد تھوڑی دیر منہ میں کچھ ذکر اذکار فرمانے کے بعد نماز سے فراغت کا نعرہ ماروں اور کوئی ٹوکے تو کہوں کہ میں نے نماز کے اصل معنیٰ کا انکار تو نہیں کیا لیکن لغت میں صلٰوۃ تو دعا کو 'بھی' کہتے ہیں تو کیا خیال ہے میں نمازی کہلاؤں گا؟؟؟

اسی طرح شہید کی اصطلاح ہے، کیا اعزازی طور پر شہید قرار دیے گئے لوگوں کا مرتبہ وہی ہے جو میدانِ معرکہ کے شہید کا ہے۔ پانی میں ڈوب کر فوت ہونے والے کے فضائل میں یہ حدیث سناوں کہ شہید کے لیے سات انعامات ہیں،اس کو عرش کا سایہ نصیب ہو گا، اللہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیں گے وغیرہ۔ دلیل میری یہ ہو کہ بھائی اللہ کے نبیﷺ نے اسے شہید قرار دیا ہے آپ کون ہوتے ہیں بات کرنے والے! آپ یقیناََ مسکرا دیں گے۔
۔
لیکن اگر میں منبر پر خطبہ ارشاد فرماؤں، اس کے بعد پرتکلف کھانے سے انصاف فرماؤں اور فرماؤں کہ آج تو 'جہاد' کا حق ادا ہوگیا! ۔۔۔۔۔۔ میں ایک جلوس یا ریلی نکالوں اور اس کو 'جہاد' قراردے دوں جو اسلام کی کوہان ہے۔۔۔۔۔ الیکشن میں ووٹ ڈالوں اور اس کو جہاد کا حصہ قراردوں کیونکہ یہ ایک 'جدوجہد' ہے اور لغت کی کتب میں جہاد کا معنی جدوجہد ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے نفس سے مجاہدے کی حدیث کو پیش کر دوں اور کہوں یہ ہے جہاد۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کل یہی ہورہا ہے، آسان طریقہ ہے بھی یہی فریضہ جہاد سے عہدہ برآ ہونے کا۔ بھئی انگلی تک نہ کٹے اور آپ مجاہدین میں بھی شامل ہو جائیں تو اور کیا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعجب ہوتا ہے جب ''جہاد'' کی اصطلاح کے ساتھ ایسا سلوک کوئی اور نہیں بہت سے علماء اور علم سے منسوب حضرات بھی کرتے ہیں۔ ان آیات اور احادیث کو جہاں لفظ 'جہاد' یا 'مجاہد' اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں ہوئے بلکہ لغوی معنیٰ میں آئے ہیں، ان کو لے کر دعوت و تبلیغ، کتابیں لکھنا، جمہوی جہدوجہد اور پتہ نہیں کیا کیا کو جہاد کے ذیل مین داخل فرما دیتے ہیں اور ہم لوگ ٹوکنا تو درکنار بلاتکلف ان کو داد و تحسین سے نوازتے ہیں۔

ایسے تمام حضرات اس آیت میں مجاہدین(لڑنے والے) اور قاعدین( بیٹھے رہنے والے) کے مفہوم پر غور فرمائیں اور سوچیں کہ اگر کتابیں لکھنے سے لے کر ووٹ ڈالنے تک سب کچھ جہاد ہی ہے تو میرے اللہ جی نے یہ تقسیم کیوں کی ہے۔ اس میں ہم سب کے لیے بڑی نصیحت ہے۔

لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّـهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
مسلمانوں میں سے جو لوگ کسی عذر کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو الله کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں دونوں برابر نہیں ہیں الله نے بیٹھنے والوں پر جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑھایا دیا ہے اگرچہ ہر ایک سے الله نے بھلائي کا وعدہ کیا ہے اور الله نے لڑنے والوں کو بیٹھنے والوں سے اجر عظیم میں زیادہ کیا ہے۔
(النساء۔95)
(ترجمہ ؛مولانااحمد علی لاہوری رحمہ اللہ)
عبداللہ آدم
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
یہ جاننا ضروری ہے کہ "كل وعد الله الحسنى " تب ہے جبکہ جہاد فرض عین نہ ہو.
اگر فرض عین ہوجائے اور پھر بھی انسان نہ نکلے تو پھر

" الا تنفروا يعذبكم عذابا اليما و يستبدل قوما غيركم " -- کی خوفناک وعید ہے

کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قصہ اس پر شاہد ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ہر ناکام مرد کا پیچھے اس کی امّاں کا ہاتھ ہوتا ہے
............اور ہر کامیاب مرد کے پیچھے اس کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے
....پروفیسر سٹار پلس
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
عثمانی خلافت میں 1922ء میں لاگو نکاح کا قانون ،،

کاش اسلامی نظریاتی کونسل اس قسم کا کوئی سنجیدہ اور متوازن بل پیش کرے ،،

1 ۔ شادی کی عمر 18 سال ہے، 25 سال کی عمر تک جس نے شادی نہیں کی ریاست اس کو شادی پر مجبور کرے گی۔

2 ۔ جو شخص کسی بیماری کا بہانہ کر کے 25 سال کے بعد بھی شادی نہ کرے تو ریاست اس کا میڈیکل چیک اپ کرے گی اگر قابل علاج بیماری ہو تو اس کا علاج کیا جائے گا اگر ناقابل علاج ہو تب اس کا عذر قبول کیا جائے گا۔

3 ۔ بغیر کسی عذر کے جو شخص 25 سال کی عمر کے بعد بھی شادی نہ کرے تو اس کو اپنے آمدن کا 25 ٪ ریاست کو دینا ہو گا جس کو ان لوگوں پر خرچ کیا جائے گا جو شادی تو کرنا چاہتے ہیں مگر پیسوں کی ضرورت ہے۔

4 ۔ جو بھی شخص 25 سال کی عمر کے بعد بھی غیر شادی شدہ ہو وہ کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے نااہل ہو گا اگر پہلے سے ملازم ہو برطرف کیا جائے گا۔

5 ۔ ہر وہ شخص جس کی عمر 50 سال سے اوپر ہو اور وہ صحتمند اور تندرست ہواور ایک ہی شادی کی ہواور مالی لحاظ سے بھی دوسری شادی کے قابل ہو تو اس کو دوسری شادی کی ذمہ داری دی جائے گی تاکہ وہ معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے میں کردار ادا کرے اگر وہ بلاوجہ دوسری شادی سے انکار کرے تو ایک سے تین فقراء کی کفالت کی ذمہ داری اس پر ڈال دی جائے گی۔

6 ۔ جو شخص 18 سے 25 سال کی عمر کے دوران شادی کرے اور وہ مالی لحاظ سے کمزور ہو تو ریاست اس کو اس کے گھر سے قریب تر جگہ میں 150 سے 300 "دونم"تک زمین مفت دے گی، ایک دونم 900 میٹر ہو تا ہے۔

7 ۔ اگر وہ کوئی ہنر مند یا صنعت کار ہو تو اس کو زمین کی بجائے 100 عثمانی لیرہ بلاسود تین سال کے لیے قرضہ دیا جائے گا۔

8 ۔ جو شخص 25 سال سے کم عمر میں شادی کرے اور اس کا کوئی اور تندرست بھائی بھی نہ ہو جو والدین کی خدمت کرتا ہو تو اس کو عسکری خدمت سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا، اسی طرح جس لڑکی کی شادی ہو جائے اور اس کے والدین کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کے شوہر کو عسکری خدمت سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔

9 ۔ ہر وہ شخص جو 25 سال سے کم عمر میں شادی کرے اور اس کے تین بچے بھی ہو جائیں تو ان کی تعلیم کا تمام خرچہ سرکار کا ہو گا اگر تین سے زیادہ ہوں تو تین کو مفت تعلیم باقی کو 13 سال کی عمر تک دس لیرہ ملے گا، جس عورت سے چا ر بیٹے پیدا ہوں اس کو اعزای 20 لیر ہ دیا جائے گا۔

10 ۔ جو شخص ریاست کے اندر یا باہر کہیں بھی تعلیم مکمل کرنے میں مصروف ہو اور شادی کو موخر کرنے کی درخواست کرے تو اس کو تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

11 ۔ جو شخص کسی بھی کام کے لیے بیرونی سفر پر جائے تو اپنی بیوی کو ساتھ رکھے گا ورنہ اس کو منا کرجائے گا اور اس ملک میں دوسری شادی کرے گا واپس آکر دونوں بیویوں کو ساتھ رکھے گا۔

عثمانی خلافت میں عائلی قوانین اور خاص کر شادی کا قانون بہت زبردست تھا۔ اکتوبر 1922 میں جس قانون کا اجرا کیا گیا اس کی چند شقیں نظر سے گزری جس کا خلاصہ پیش کیا ہے..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اوہ!!
کل رات فورم پر ایک مراسلے کا مطالعہ بذریعہ موبائل فون کر رہا تھا۔۔
مراسلہ بالکل فضول اور غیر متعلقہ تھا۔۔
بے اختیار بایاں انگوٹھا اُسے منتخب اور حذف کرنے کے لیے اُس پر جا ٹِکا۔۔
پھر بے اختیار منہ سے اوہ!! کی آواز نکلی۔۔
اور یاد آیا کہ یہ مراسلہ وٹس ایپ پر نہیں ہے۔۔ابتسامہ!
 
Top