علامہ اقبال ایک دوسرے پہلو سے
علامہ کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے :
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
دنیاوی علوم کا طالبعلم ، ایک ایسی جگہ پر جاکر جہاں راتیں نائٹ کلبوں میں گزاری جاتی ہیں ، سخت سردی میں بھی ’ آداب سخر خیزی ’ کی پابندی کرتا ہے ، تو اس سے اس کی ایمانی قوت و حرارت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے .
دوسری طرف ہمارے جیسوں کے لیے اس میں دعوت فکر ہے ، کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں ؟ روز مرہ مصروفیات و مشاغل کیا ہیں؟ اور نوافل اور عبادات میں کتنے اوقات صرف کرتے ہیں ؟
کسی بزرگ سے پوچھا گیا ، مجھے کوئی ایسا نسخہ بتائیں کہ قیام اللیل کی توفیق عنایت ہوجائے ، فرمایا : دن کو اللہ کی معصیت سے جس قدر پرہیز کرو گے ، رات کو اس کے سامنے سر بسجود ہونے کے مواقع اسی قدر زیادہ ملیں گے ، کیونکہ یہ ایک عظیم شرف ہے ، اور اعلی مقام و مرتبہ ہے ، جو اللہ اپنے نیک اور مقرب بندوں کو ہی عنایت کرتا ہے .
قبال کو ایک محقق عالم دین کی بجائے ، ایک مخلص اور پڑھے لکھے شاعر اور مفکر کے طور پر دیکھنا چاہیے . جو عمومی طور پر فلسفہ اسلام سے واقف تھا . البتہ وہ جزئیات اور مسائل جن کی تحقیق کوئی عقیدے کا ماہر ، اصولی یا فقیہ اور محدث ہی کرسکتا ہے یہ اقبال کا میدان نہیں تھا . اس لیے تصوف ، انکار حدیث ، وحدۃ الوجود وغیرہ مسائل میں اقبال کے ذہن میں وہی کچھ تھا جو ایک عامی کے ذہن میں ہوسکتا ہے ... لیکن جونہیں انہیں ان مسائل کی حقیقت کا علم ہوتا گیا وہ ان میں درست موقف کی طرف رجوع کرتے رہے . دستیاب معلومات کے مطابق نماز روزہ ، قرآن وغیرہ دینی معاملات سے ان لگاؤ مثالی تھا ، تہجد کا ذکر گزرا ، اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اقبال جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو زار و قطار روتے تھے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو علم نافع ، عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے ۔