علامہ ابتسام الہی ظہیر قوم کے دلوں کی آواز
یہ بات میں بہت دنوں سے عرض کرنا چاہ رہا تھا، ایک ویڈیو بھي بنائی ، لیکن پھر کسی وجہ سے اپلوڈ نہیں کی۔
کسی شخص کی اہلیت اور نا اہلی جانچنے کا ایک طریقہ الیکشن ہے، علامہ ابتسام الہی ظہیر جیسے لوگ جب اس ’نظام الیکشن‘ کی وجہ سے قوم کی خدمت کے لیے نااہل قرار دے دیے جائیں، تو ہمیں اس ’نظام جمہوریت‘ کے نااہل ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔
علامہ ابتسام صاحب جیسے اعلی تعلیم یافتہ، عالی اور شفاف کردار کے حامل شخص کے لیے قوم کے دل دھڑکتے ہیں، دنیا کی زندگی کو کل سمجھنے والے بہت سارے مادہ پرست علامہ جیسے مولویوں سے خفا ہوں گے، لیکن مملکت پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں تحفظ افکار و نظریات کے لیے فکر مند لوگوں کی ایک کثیر تعداد چاہتی ہے کہ علامہ ابتسام جیسے لوگ، حکومتی سیٹ اپ میں آئیں، جس طرح انہوں نے منبر و محراب اور میڈیا چینلز میں بیٹھ کر اسلام کی حقانیت بیان کی ہے، قوم قرآن وسنت سے مدلل اور حکمت و بصیرت سے مزین گفتگو پارلیمان کے اجلاسوں میں بھي سننا چاہتے ہیں۔
علامہ جس حلقے میں موجود تھے، نہ صرف وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کی والہانہ تائید کی ، بلکہ پورے ملک کے اہل علم و فکر نے حسب استطاعت علامہ کو ووٹ دینے کی تلقین کی۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ فیصل آباد کے مضافات میں موجود ایک معروف مدرسے کے ناظم صاحب نے والد صاحب کو فون کیا کہ آپ نے ووٹ علامہ ابتسام صاحب کو دینا ہے ۔
اور بھی کئی کبار اہل علم اور مشائخ کو جانتا ہوں، جو علامہ صاحب کے حوالے سے بہت فکر مند تھے۔
یہ سب صورت حال دیکھ کر یقین ہوگیا کہ علامہ صاحب اب کی بار ضرور جیتیں گے، لیکن افسوس کہ نتائج خلاف توقع سامنے آئے۔
یہاں ایک بات کا اور اضافہ کرنا چاہوں گا، مرکزی جمیعت اور جماعۃ الدعوۃ ہردو کے لوگ علامہ صاحب کی حمایت کر رہے تھے۔ اور انہیں کرنی بھی چاہیے تھی۔ لیکن اگر یہ افواہ صحیح ہے کہ اندر سے ان میں سے کسی نے علامہ ابتسام کے مخالفین کو ووٹ کی تلقین کی کہ انہوں نےکون سا جیتتا ہے، تو ہم ایسے کسی بھی امیر یا قائد یا ذمہ دار کے لیے کم سے کم لفظ ’ منافق‘ استعمال کریں گے، کیونکہ ایسے لوگوں کا رویہ بعینہ وہی ہے، جو مدینہ میں منافقین کا ذکر ہوا ہے۔
ہم اللہ کو گواہ بناکر یہ عقیدہ رکھتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں، کہ جس نظام میں علامہ ابتسام جیسے ’اسلام پسندوں‘ کی گنجائش نہیں، ہم اس نظام کو ’لادین‘ اور ’کافرانہ‘ سمجھتے ہیں، اور ہم ایک ایسے نظام کی اللہ سے التجا و خواہش رکھتے ہیں، جو واقعتا عدل و انصاف پر مبنی ہو، جہاں مسلمانوں کے لیے ان کے جذبات اور عقیدے کے مطابق سربراہ منتخب ہوں۔