پرانے بزرگوں کےبارے سنا ہے ، وہ بعض دفعہ اپنی تصنیفات و تالیفات کو ضائع کردیا کرتے تھے ، بعض تحریروں کو لکھ کر اپنے پاس ہی رکھ لیتے تھے ۔
ہم میں اتنی ہمت تو نہیں ، کہ تحریریں لکھ لیں ، اور پھر اس ’ گوہر نایاب ‘ کو اپنے ہاتھوں ضائع کردیں ، البتہ فیس بک پر ’ آن لی می ‘ کرنا شروع کردیا ہے ۔ اللہ سے مزید حوصلہ اور ہمت کی دعا ہے ۔
ماضی قریب تک بھی تحریریں اتنی لاپروائی سے منظر عام پر نہیں آیا کرتی تھیں ، کم از کم ایک دفعہ رف لکھی جاتی تھی ، پھر اسے دوبارہ فائنل شکل میں لکھا جاتا تھا ، پھر ڈاک کے آںے جانے کے انتظار میں بھی کافی دیر گوشہ گمنامی میں رہتی تھی ، کسی مجلے کے لیے لکھی گئی ہے ، تو اس کے مدیر اور نگران کی چھلنی سے بھی گزرتی تھی ، یوں ایک اناڑی ، اور مبتدی کی تحریر بھی تین چار بندوں کی پانچ سات دفعہ نظر ثانی کے بعد جب منظر عام پر آتی ، تو لائق التفات ہوتی تھی ۔
اب ہمارے جیسوں کا حال یہ ہے ، ادھر تحریر لکھی ، ادھر ’ نشر ‘ ، ’ ارسال ‘ اور ’ جواب بھیجیں ‘ کا بٹن دبایا ، خود اپنے لکھے کی نظرثانی بھی پبلش ہونے کے بعد کی جاتی ہے ، یہی وجہ کے کچھ تحریریں لکھنے والے زیادہ ہیں ، لیکن انہیں پڑھنے والے تھوڑے ہیں ، بلکہ اس رواج کی وجہ سے اچھی بھلی تحریریں بھی پڑھنے سے رہ جاتی ہیں ۔
جلد باز اور بے صبرے ’لکھارئین‘ اور قارئین دونوں کو معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
صد فیصد درست
اب قارئین کم اور لکھاری زیادہ ہے
اب قارئین کم اور ویورز زیادہ ہیں
اب قارئین کم اور شیئر کرنے والے زیادہ ہیں۔
جب سے آن لائن اردو لکھنے کی سہولت میسر آئی ہے، تب سے ایسے لوگ بھی خود کو لکھاری کے روپ میں پیش کرنے لگے ہیں، جو درست املا اور قواعد کے ساتھ ایک پیراگراف بھی نہیں لکھ سکتے۔ ان جدید لکھاریوں کی دیکھا دیکھی، روایتی لکھاری بھی اس دور میں اس خوف سے شامل ہونے لگے ہیں کہ کہیں ہم بطور قلمکار بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔