• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث حدیث پراجیکٹ میں اصلاحات کی نشاندہی

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم @شاکر صاحب.
محترم @محمد نعیم یونس صاحب.

براہ کرم متوجہ ھوں.

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطِّبِّ (بَاب كَيْفَ الرُّقَى)
سنن ابو داؤد: کتاب: علاج کے احکام و مسائل (دم کیسے کیا جائے ؟ ۔)
3893 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنْ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ
حکم : حسن دون قوله وكان عبد الله
3893 . جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پر انہیں یہ کلمات سکھایا کرتے تھے «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» ” میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں ‘ اس کی ناراضی سے ‘ اس کے بندوں کی شرارتوں سے ‘ شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں ۔ “ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے سمجھدار بچوں کو یہ کلمات سکھا دیا کرتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے ‘ انہیں لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے ۔ (لنک)
خط کشیدہ الفاظ میں غور کریں. اور اگر غلطی ھے تو mohaddis.com پر تصحیح کر لیں.
جزاک اللہ خیرا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
حدیث حاشیہ: 1۔اگر سردار یا باسشاہ کسی کو پناہ دے تو اسے تکلیف دینا سردار یا بادشاہ کی توہین یا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔نمازی مسلمان اسی طرح اللہ کی پناہ میں ہے لہذا ازسے تکلیف دینا یا اسے قتل کرنا اللہ تعالی کی شان میں گستاخی اور بغاوت کے مترادف ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ 2۔بے نماز کو اللہ کی یہ پناہ حاصل نہیں۔ 3۔مسلمان کے قاتل کی سزا جہنم ہے لیکن اگر مقتول کے وارث خون بہا لے کر یا احسان کرتے ہوئے قاتل کو معاف کردیں تو ایسے مسلمان قاتکل کی سزا معاف ہوجائے گی۔ 4۔ کبیرہ گناہوں کے مرتکب جہنم میں جائیں گے پھر اپنے گناہوں کے مطابق سزا بھگتنے کے بعد انھیں رہائی مل جائے گی۔
(لنک)

محترم شیخ @قاری مصطفی راسخ صاحب
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
حدیث حاشیہ: 1۔اگر سردار یا باسشاہ کسی کو پناہ دے تو اسے تکلیف دینا سردار یا بادشاہ کی توہین یا بغاوت سمجھا جاتا ہے۔نمازی مسلمان اسی طرح اللہ کی پناہ میں ہے لہذا ازسے تکلیف دینا یا اسے قتل کرنا اللہ تعالی کی شان میں گستاخی اور بغاوت کے مترادف ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ 2۔بے نماز کو اللہ کی یہ پناہ حاصل نہیں۔ 3۔مسلمان کے قاتل کی سزا جہنم ہے لیکن اگر مقتول کے وارث خون بہا لے کر یا احسان کرتے ہوئے قاتل کو معاف کردیں تو ایسے مسلمان قاتکل کی سزا معاف ہوجائے گی۔ 4۔ کبیرہ گناہوں کے مرتکب جہنم میں جائیں گے پھر اپنے گناہوں کے مطابق سزا بھگتنے کے بعد انھیں رہائی مل جائے گی۔
(لنک)

محترم شیخ @قاری مصطفی راسخ صاحب
عمر اثری بھائی ان غلطیوں کی نشاندہی کرنے کا شکریہ:
دراصل ابھی تک ہم نے اس سائٹ کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے، انٹری مکمل ہو جانے پر اگلا کام یہی ہے۔ پروف ریڈنگ میں امید ہے اس طرح کے مسائل ختم ہو جائیں گے۔ان شاء اللہ
 
Last edited:

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم @شاکر صاحب.
محترم @محمد نعیم یونس صاحب.

براہ کرم متوجہ ھوں.

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الطِّبِّ (بَاب كَيْفَ الرُّقَى)
سنن ابو داؤد: کتاب: علاج کے احکام و مسائل (دم کیسے کیا جائے ؟ ۔)
3893 . حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَلِّمُهُمْ مِنْ الْفَزَعِ كَلِمَاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُعَلِّمُهُنَّ مَنْ عَقَلَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ لَمْ يَعْقِلْ كَتَبَهُ فَأَعْلَقَهُ عَلَيْهِ
حکم : حسن دون قوله وكان عبد الله
3893 . جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ڈر یا گھبراہٹ کے موقع پر انہیں یہ کلمات سکھایا کرتے تھے «أعوذ بكلمات الله التامة من غضبه وشر عباده ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» ” میں اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں ‘ اس کی ناراضی سے ‘ اس کے بندوں کی شرارتوں سے ‘ شیطانوں کے وسوسوں سے اور اس بات سے کہ وہ میرے پاس آئیں ۔ “ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے سمجھدار بچوں کو یہ کلمات سکھا دیا کرتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے ‘ انہیں لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیتے ۔ (لنک)
خط کشیدہ الفاظ میں غور کریں. اور اگر غلطی ھے تو mohaddis.com پر تصحیح کر لیں.
جزاک اللہ خیرا
اس میں عبد اللہ بن عمر (عربی ٹیکسٹ والا ) ہی درست ہے۔یہ سب پروف ریڈنگ کے مسائل ہیں جو پروف میں درست کئے جائیں گے۔ان شاء اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

ترجمہ میں غلطی ہے

صحيح مسلم: كِتَابُ الصِّيَامِ (بَابُ بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلَالَ بِبَلَدٍ لَا يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ)
صحیح مسلم: کتاب: روزے کے احکام و مسائل (باب: ہر علاقے کے لوگوں کے لیے اپنی رؤیت (معتبر )ہے اوراگر ایک علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو ان سے دو روالوں کے لیے اس کا حکم (کہ روزوں کا آغازہو گیا )ثابت نہیں ہو گا)
2528 . حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ، وَابْنُ حُجْرٍ، - قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ، بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ، فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ فَقَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي
حکم : صحیح
2528 . یحییٰ بن یحییٰ ،یحییٰ بن ایوب،قتیبہ،ابن حجر،یحییٰ بن یحییٰ،اسماعیل،ابن جعفر،محمد،ابن حرملہ حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ملک شام بھیجا میں شام میں پہنچا تو میں نے حضرت ام الفضل کا کام پورا کیا۔اور وہیں پر رمضان المبارک کا چاند ظاہر ہوگیا۔اور میں نے شام میں ہی جمعے کی رات چاند دیکھا پھر میں مہینے کے آخر میں مدینے آیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چاند کا ذکر ہوا تو مجھے پوچھنے لگے کہ تم نے چاند کب دیکھا ہے؟تو میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات چانددیکھا ہے ۔پھر فرمایا! تو نے خود دیکھاتھا؟میں نے کہا ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے اور انہوں نے روزہ رکھا۔اورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چاند دیکھنا اور ان کا روزہ رکھنا کافی نہیں ہے؟حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں!رسول اللہ نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ "ہم اکتفا نہیں کریں گے"کے الفاظ تھے یا"آپ اکتفا نہیں کریں گے"کے۔
لنک
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
سنن ترمذی حدیث نمبر 586 پر حکم جو لگا ہے وہ غلطی سے کسی اور کا لگ گیا ہے:
الحکم التفصیلی: (قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في "صحيحيهما". وقال الترمذي: " حسن صحيح ") . إسناده: حدثنا ابن نُفَيْلٍ وأحمد بن يونس قالا: ثنا زهير: ثنا سماك. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم (2/132) عن أحمد بن يونس... به. وأخرجه النسائي (1/199- 200) ، وأحمد (5/91) من طرق أخرى عن زهير... به. ومسلم أيضا، وأبو عوانة (2/23) ، والنسائي، والترمذي (2/480) ، وأحمد (5/88) من طرق أخرى عن سماك... به. وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ". وسيأتي في " الأدب " باب (25) بنحوه.
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
الله آپ لوگوں کو جنہوں نے احادیث کو لکھنے میں اور سافٹ ویئر بنانے میں مدد کی - یہ بہت اعلیٰ کام ہے -

اس میں کچھ خامیاں ہیں - ظاہر ہے جوں جوں چیزیں سامنے آ رہی ہیں - بتائی جا رہی ہیں - میں نے بھی ایک دو احادیث دیکھی ہیں جو کتابوں میں ہیں لیکن اس حدیث کے سافٹ ویئر میں نہیں ہیں - یہاں اس لئے بتا رہا ہوں کہ ٹائپنگ کرنے والے اور پروف ریڈنگ کرنے والے بھائی کو شائد نہ پتہ ہو -

ایک حدیث جس کا نمبر 4776 ہے - اور یہ نمبر دارلسلام سے چھپنے والی جلدوں کے ہیں - اور اس سافٹ ویئر میں انهی نمبروں کی ترتیب دی گئی ہے -

حدیث یہ ہے


راوی: زہیر بن حرب , اسحاق بن ابراہیم , اسحق , زہیر , جریر , اعمش , زید بن وہب , عبدالرحمن بن عبد رب
کعبہ

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَی إِلَی أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ

زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق ، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی الصلوة جامعة (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بے شک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔

اس حدیث کا نمبر 4776 ہے اور دارسلام والے ایڈیشن میں دیکھی جا سکتی ہے لیکن یہ حدیث اس سافٹ ویئر میں نہیں ہے -

خود دیکھ لیں
پلیز اس غلطی کی اصلاح کی جایے - یہ حدیث ابو داوود میں ہے -
اور الحمدللہ اس سافٹ ویئر میں بھی ابو داوود میں ہے - لیکن صحیح مسلم میں نہیں ہے - امید ہے کہ یہ غلطی صحیح کی جایے گی -
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
وجاہت بھائی نے صحیح نشاندہی کی ہے ۔
حدیث نمبر: 4776 ترقيم فواد عبدالباقي: 1844
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ زُهَيْرٌ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً، ‏‏‏‏‏‏فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِكَتِي ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ‏‏‏‏‏‏وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ أَنْشُدُكَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهُ:‏‏‏‏ هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا سورة النساء آية 29، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَكَتَ سَاعَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ "،‏‏‏‏​
عبدالرحمٰن بن عبد رب الکعبہ سے روایت ہے، میں مسجد میں گیا وہاں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کعبے کے سایہ میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے میں بھی گیا اور بیٹھا۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک سفر میں تو ایک جگہ اترے کوئی اپنا ڈیرہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا، کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے والے نے آواز دی نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر ضروری نہ ہو اپنی امت کو جو بہتر بات اس کو معلوم ہو بتانا اور جو بری بات ہو اس سے ڈرانا اور تمہاری یہ امت اس کے پہلے حصہ میں سلامتی ہے اور اخیر حصے میں بلا ہے اور وہ باتیں ہیں جو تم کو بری لگیں گی اور ایسے فتنے آئیں گے کہ ایک فتنہ دوسرے کو ہلکا اور پتلا کر دے گا۔ (یعنی بعد کا فتنہ پہلے سے ایسا بڑھ کر ہو گا کہ پہلا فتنہ اس کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے گا۔ اور ایک فتنہ آئے گا تو مومن کہے گا اس میں میری تباہی ہے پھر وہ جاتا رہے گا اور دوسرا فتنہ آئے گا مومن کہے گا اس میں میری تباہی ہے پھر جو کوئی چاہے جہنم سے بچے اور جنت میں جائے اس کو چاہیے کہ مرے اللہ تعالیٰ اور پچھلے دن پر یقین رکھ کر اور لوگوں سے سلوک کرے جیسا وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس سے کریں اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اس کو اپنا ہاتھ دے دے اور دل سے نیت کرے اس کی تابعداری کی تو اس کی اطاعت کرے اگر طاقت ہو۔ اب اگر دوسرا امام اس سے لڑنے کو آئے تو (اس کو منع کرو اگر نہ مانے بغیر لڑائی کے تو) اس کی گردن مارو۔ یہ سن کر میں عبداللہ کے پاس گیا اور ان سے کہا: میں تم کو قسم دیتا ہوں اللہ کی تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، انہوں نے کانوں اور دل کی طرف اشارہ کیا ہاتھ سے اور کہا: میرے کانوں نے سنا اور دل نے یاد رکھا میں نے کہا: تمہارے چچا کے بیٹے معاویہ ہم کو حکم کرتے ہیں ایک دوسرے کا مال ناحق کھانے کے لیے اور اپنی جانوں کو تباہ کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو! مت کھاؤ اپنے مال ناحق مگر راضی سے سوداگری کر کے اور مت مارو اپنی جانوں کو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے۔ یہ سن کر عبداللہ بن عمرو بن العاص تھوڑی دیر چپ رہے، پھر کہا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرو اس کام میں جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو اس میں معاویہ کا کہنا نہ مانو۔​
 
Top