یہ گروہ جو اہل حدیث کے منہج سے تو واقف بلکہ اس پر عمل پیرا ہے لیکن اہل حدیث نام سے واقف نہیں اس کا اور آپ اور آپ کی پارٹی کا حکم الگ الگ ہے۔ چونکہ وہ تو اہل حدیث نام سے واقف ہی نہیں اس لئے نام نہیں لیتے لیکن آپ کی پارٹی تو اپنا مسلک اہل حدیث جانتی اور مانتی ہے لیکن لوگوں کے سامنے اس مسلک کے نام کو دانستہ چھپالیتی ہے۔ بھلا دو گروہ کے ایک فعل کا ایک حکم کیسے ہو جبکہ ایک گروہ اس مسئلہ سے لاعلم ہے جبکہ دوسرا گروہ جان کر بھی انجان ہے۔ پہلا گروہ بے گناہ ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں آپ اور آپ کی پارٹی کے لوگ شامل ہیں دھوکہ دہی کا مرتکب ہے۔
ارے بھائی آپ بات سمجھے بغیر دور تک الزامات عائد کر دیتے ہیں۔
اس بنیادی بات کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اہلحدیث نام سے واقف نہ ہونے کے باوجود، اس منہج پر عمل پیرا ہو تو ہمارے نزدیک (اور اب آپ کے بالا اقتباس کے مطابق آپ کے نزدیک بھی) وہ بھی "اہلحدیث" یا 'نجات یافتہ گروہ" میں شامل ہے۔ تو یہ بات مسلک یا گروہ کے اس محدود تصور کے منافی، بلکہ اس سے بہت اوپر کی چیز ہے، جو ہمارے مخالفین کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی بنا پر جب ہمارا مخالف خود کو دیوبندی، بریلوی کہہ کر متعارف کرواتا ہے، تو ہم فقط نام بتا کر اپنا مکمل تعارف پیش ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں مسلک کا جو محدود سا تصور ہے، وہ اپنے ہی بنائے سانچے میں "اہلحدیث" کا نام بھی فٹ کرتا ہے۔ کہ جیسے ہم مخصوص علماء اور مخصوص فقہ کی پیروی کرتے ہیں، یہ حضرات کسی دوسری طرح کے علماء اور فقہ کی پیروی کرتے ہوں گے
دیوبندی و بریلوی حضرات دیوبندی، بریلوی یا حنفی کب کہلاتے ہیں اور کب وہ اس مسلک سے "باہر" ہو جاتے ہیں، اس تعریف پر انطباق کر کے بھی دیکھیں، تو اہلحدیث پورے نہیں اترتے۔ وہ اپنے امام یا علماء کے مخالف کسی قول پر عمل ہی نہیں کر سکتے۔ جبکہ ہمارے لئے مسلک کی چار دیواری امام و علماء و فقہ سے نہیں بنتی، بلکہ کتاب و سنت اور فہم سلف صالحین سے بنتی ہے۔ مقصد ان کے اور اپنے منہج کا تقابل پیش کرنا نہیں، بلکہ تعارف کے وقت، مخالف کی ذہنی سوچ (جو ہمارے یہاں اکثر پائی جاتی ہے) کی عکاسی کرنا ہے کہ اسے فقط نام بتانے سے کبھی بھی وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے، جو اپنا منہج بتانے سے حاصل ہوتے ہیں۔
جیسے آپ اس بات کو "جاہلانہ" سمجھتے ہیں کہ آپ کی جانب فقط نام کی بنا پر نجات کی گارنٹی کو منسوب کیا جائے۔
اسی طرح ہمارے نزدیک بھی یہ بات "جاہلانہ" ہے کہ ہماری جانب "نام چھپانے" کی بات کو منسوب کیا جائے یا اہلحدیث نام کے استعمال نہ کرنے کو ہماری احساس کمتری یا دعوت دین میں رکاوٹ سمجھنے کی دلیل بنا لیا جائے۔
میں نے وضاحت سے دو ٹوک عرض کی تھی کہ:
میرے بھائی، مجھے خود کو اہلحدیث کہلوانے، لکھنے، کہنے پر ہرگز نہ کوئی ندامت محسوس ہوتی ہے نا ہی میں یہ انتساب چھپاتا ہوں، نا ہی اسے برا خیال کرتا ہوں۔
کیا آپ اس بات سے متفق نہیں کہ کوئی ہمارا تعارف پوچھے، ہمارے مسلک کی بابت دریافت کرے، تو ہم نام بتا کر بھی تعارف کروا سکتے ہیں اور منہج بتا کر بھی؟ یا منہج کے ساتھ نام بتانا بھی لازم و ضروری ہے؟
اور تعارف میں مسلک کے نام کے بجائے، اپنا منہج بتانا کیا دھوکہ دہی کی دلیل قرار دی جا سکتی ہے؟
اور معاف کیجئے گا اگر آپ کا تصور بھی یہی ہے کہ اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی، حنفی وغیرہ کی طرح کا کوئی مسلک ہے، فقط اس فرق کے ساتھ کہ وہ گمراہ ہیں اور ہم صراط مستقیم پر، تو اس تعریف کے مطابق میں خود کو اہلحدیث نہیں سمجھتا۔ ایسے اہلحدیث تو صرف پاکستان ہی میں ہیں۔ ہمارے منہج پر چلنے والے بہت ہیں اور مختلف ادوار میں، اور مختلف ممالک میں ان کے نام مختلف ہو سکتے ہیں، بلکہ تھے، لیکن منہج ان سب کا ایک ہی تھا۔ اس منہج پر چلنے والے آج بھی جاپان، ملائشیا، سنگاپور وغیرہ جیسے ممالک میں بھی مل جاتے ہیں۔ بلکہ ابھی حال ہی میں عمیر بھائی آسٹریلیا میں بھی ایسے احباب سے مل آئے ہیں جو اس منہج پر عمل پیرا ہیں، لیکن وہ "مسلک اہلحدیث" سے تعلق نہیں رکھتے۔
نہ تو ہمیں اہلحدیث کے صفاتی نام ہونے سے انکار ہے نہ اس صفاتی نام کو اختیار کرنے کی شریعت میں ممانعت کے ہم قائل ہیں کہ آپ کو اس پر دلائل پیش کرنے کی ضرورت ہو۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہم دعوت دین میں بعض جگہ یہ صفاتی نام استعمال کرنے کے قائل ہیں تو بعض جگہ صفاتی نام کے بجائے منہج پیش کر کے اپنا تعارف کروانے کے قائل ہیں۔ ہر دو صورتوں میں اگر کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ آپ اہلحدیث ہیں، تو ہم یہ نہیں کہتے کہ جی نہیں، میرا کسی مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنے آپ کو الحمدللہ بطور اہلحدیث ہی متعارف کرواتے ہیں۔ لیکن آپ ہی کے الفاظ میں بس ڈھنڈورا پیٹنے سے احتراز کرتے ہیں اور اگر گنجائش ہو اور کوئی مسلک پوچھے تو نام بتانے کے بجائے اپنا منہج بتا کر تعارف کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مثلا یوں کہ جی میرا مسلک تو کتاب و سنت ہے بس۔ جو قرآن میں آ گیا یا حدیث میں آگیا بس میں تو اسی کو مانتا ہوں، اور ایسے مانتا ہوں جیسے صحابہ نے سمجھا ہے۔ اب اس کی بنیاد پر آپ بتائیے کہ اس میں دھوکہ دہی، جھوٹ یا خیانت والی کیا بات ہو سکتی ہے بھلا؟
اگر آپ بھی اس دور میں جی رہے ہوتے جہاں فرقے نہیں تھے پھر تو خود کو اہل حدیث نہ کہنا آپ کو زیب دیتا تھا لیکن اب نہیں کیونکہ اب مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہیں جن سے امتیاز کے لئے کسی صفاتی نام کی سخت ضرورت ہے۔
جی گمراہ فرقوں سے امتیاز نام بتا کر بھی ہو جاتا ہے اور منہج بتا کر بھی۔
اہل حدیث کا نام بہت پرانا ہے اور تمام محدیثین اپنے لئے اہل حدیث کا نام استعمال کرتے تھے کیا انہیں اس بات کی حاجت اور ضرورت نہیں تھی کہ وہ بھی خود کو اہل حدیث نہ کہلوا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر چلیں؟؟؟
یہ اپنا اپنا اجتہاد ہے۔ جسے نام بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہو، وہ نام بتائے، جو منہج بتا کر اپنا کام کر سکتا ہو، وہ منہج بتا کر کرے۔ مقصد تو دوسروں کو قائل کرنا ہے۔ خود تو ہمارے بیچ میں ایسا کوئی اختلاف نہیں ہے نا منہج پر نا ہی نام پر۔
آپ اہل حدیث اور سلفی ناموں کو ایک دوسرے جدا نہ سمجھیں میں نے اپنے مضمون میں ثابت کیا ہے کہ سلفی، محمدی وغیرہ اہل حدیث ہی کے زیلی صفاتی نام ہیں اور یہ تمام نام آپس میں باہم مترادف ہیں۔
اہلحدیث کے ذیلی صفاتی ناموں میں اگر سلفی، محمدی ہیں تو اہل سنت والجماعت بھی اسی کے تحت آئے گا۔ لیکن آج کے دور میں ہم فقط "اہل سنت" کے نام سے اپنا تعارف نہیں کروا سکتے۔ لوگ ہمیں اکثر بریلوی ہی سمجھیں گے۔ حالانکہ بات دھوکہ دہی کی نہیں ہوگی، بالکل سچ ہوگی کہ ہم ہی اہل سنت ہیں۔ لیکن آج کے دور کے حساب سے اس نام سے تعارف کروانا ممکن نہیں۔ یہ موجودہ دور کا اجتہاد ہے۔ اب کوئی سلف صالحین کے حوالے پیش کرنے لگ جائے کہ وہ کیوں "اہل سنت نہ کہلوا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر چلے تھے؟"، تو یہ اُس کی موجودہ حالات سے بے خبری کی دلیل ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب کے اقتباسات کو دل کے بجائے دماغ سے پڑھیں۔ مذکورہ اقتباس فرضی ہے۔ میں کسی مستند اہل حدیث عالم کو نہیں جانتا جو اہل حدیث کے صٍفاتی لقب کے بارے میں اتنا حساس ہوگیا ہو کہ اسے اسلام کے ہی مترادف قرار دینے لگا ہو اور لقب اہل حدیث پر ہی بھروسہ کرکے بیٹھ گیا ہو اور اس لقب کو نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو۔
صرف نام پر بھروسہ کر کے اسے نجات کے لئے کافی سمجھنا، تو خیر الگ بات ہے۔ لیکن نام کے بارے میں حساسیت والی بات درست ہے۔پچھلی کسی پوسٹ میں آپ کہہ آئے ہیں:
اس کے برعکس میری ناقص تحقیق کے مطابق جو علماء اہل حدیث نام کو ضروری قرار دیتے ہیں وہ اہل حدیث کی فکر اور منہج کو نام سے زیادہ ضروری اور اہم سمجھتے ہیں کیونکہ صرف نام رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا منہج اور فکر اصل چیز ہوتی ہے
اور آپ جانتے ہیں، اہلحدیث کے نزدیک ضروری، لازم، واجب، فرض ایک ہی بات ہے۔ اس نام کو اختیار کرنے میں حرج نہیں، اسی طرح سے اس نام کو اختیار نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کے بارے میں زیادہ حساس ہونا ہی غلطی ہے۔
منہج اور فکر کے بغیر نام کو اہمیت شاید کوئی نہیں دیتا۔
لیکن منہج اور فکر کے ساتھ ساتھ نام کو بھی (منہج ہی کی مانند) ضروری قرار دینا عام ہے۔
اور اسی کی جانب ابوالحسن علوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔
میں بار بار بار بار عرض کرچکا ہوں کہ اگر کوئی خود کو اہل حدیث نہیں کہتا تو کوئی حرج نہیں لیکن جب اس سے اسکی مسلکی نسبت یا مسلکی پہچان پوچھی جائے اور وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولے کہ میرا کسی مسلک سے کوئی تعلق نہیں یہ بہت ہی گھٹیا حرکت ہے جو جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرہ میں آتی ہے جبکہ وہ باطن میں مسلک اہل حدیث کا ہی پیروکار ہو۔
اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں
اول: یا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو اور اپنے اہل حدیث ہونے پر شرمندہ ہو۔
دوم: لقب اہل حدیث کو دعوت دین میں رکاوٹ سمجھتا ہو۔
حالانکہ یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں۔
ایک تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دعوت دین کے لئے نام کے بجائے منہج بتانے کو زیادہ بہتر خیال کرتا ہو۔ باقی دونوں باتوں کے غلط ہونے پر میرا آپ کا اتفاق ہے۔ الحمدللہ۔
اس اقتباس میں بھی کچھ باتیں خلاف واقع اور کچھ فرضی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب بریلوی اور دیوبندی خود کو اہل حدیث کہیں گے۔ طویل ماضی سے آج تک ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ آئندہ کوئی ایسا امکان نظر آتا ہے۔ فرضی احتمالات پر آج کی حقیقت کو جھٹلا دینا کوئی اچھی بات نہیں۔
"اصلی سلفی" کی اصطلاح غیر معروف ہے بلکہ آج سے پہلے تک نہ کانوں نے سنی نہ نظروں سے گزری۔
ایسا نہیں ہے۔ آپ انگلش لٹریچر پڑھیں۔ دیوبندی، یا بریلوی خود کو سلفی یا اہلحدیث کہیں یا نہ کہیں، سلفیوں کی جتنی اقسام ہیں اور جس طرح سے وہ آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ اس سے کون واقف نہیں۔ اسی فورم پر سرچ کر لیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصلی سلفی سمیت کئی دیگر ذیلی ناموں سے لوگ خود کو منسوب کر رہے ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں۔ خود اہلحدیث میں کچھ لوگ خود کو دیگر ناموں سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ منہج میں ہمارا ان سے اتفاق ہے۔ لیکن مساجد کے نام تک الگ کر رکھے ہیں۔ ان سب باتوں کو کھولنا، اپنا ہی لباس اتارنا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طرف، لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ یہ سب ہوائی باتیں ہیں اور لوگ بس اہلحدیث، سلفی، محمدی ناموں تک محدود ہیں اور اس کی مزید ذیلی شاخیں نہیں بنا رہے ہیں۔یہ سب اسی دنیا میں اور ہمارے سامنے ہی ہو رہا ہے۔
بہرحال، آپ نے بھی اپنا مؤقف پیش کر دیا ہے اور میں نے بھی تفصیل سے عرض کر دیا ہے۔ اگر ہمارے بیچ کوئی اختلاف ہے بھی تو وہ فقط دعوت دین کے طریقے کا ہے۔ آپ نام کو استعمال کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور ہم منہج کو۔ نا ہی آپ فقط نام کو نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں، اور نہ ہی ہم اہلحدیث نام سے خدانخواستہ متنفر ہیں۔ نجات بہرحال منہج اور اس پر عمل کی بنیاد پر ہونی ہے۔ چاہے خود کو کوئی لاکھ اہلحدیث کہے، منہج غلط یا اعمال غلط تو آخرت برباد۔ اور چاہے کوئی اہلحدیث نام تک سے واقف نہ ہو، منہج درست ہے اور عمل ان کے مطابق تو ان شاءاللہ دنیا بھی بہتر اور آخرت بھی۔ اس پر ہم سب متفق ہیں۔ اور یہی اتفاق زیادہ اہم ہے۔