• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث فورم اور بریلوی فورم

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حافظ ابن کثیر نے بعض سلف صالحین سے نقل کیا ہے کہ
’’هذا اكبر شرف لاصحاب الحديث لان امامهم النبي ‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد4، ص 164، الاسراء:71)
یہ آیت (آیت:71: سورۃ بنی اسرائیل) اصحاب الحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
سیوطی نے بھی لکھا ہے کہ
’’ ليس لاهل الحديث منقبة اشرف من ذلك لانه لا امام لهم غيره ‘‘ (تدریب الراوی جلد2، ص 126: نوع27)
اہل حدیث کےلیے اس سے زیاہ فضلیت والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرا کوئی امام (متبوع) نہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
حافظ ابن کثیر نے بعض سلف صالحین سے نقل کیا ہے کہ
’’هذا اكبر شرف لاصحاب الحديث لان امامهم النبي ‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد4، ص 164، الاسراء:71)
یہ آیت (آیت:71: سورۃ بنی اسرائیل) اصحاب الحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
سیوطی نے بھی لکھا ہے کہ
’’ ليس لاهل الحديث منقبة اشرف من ذلك لانه لا امام لهم غيره ‘‘ (تدریب الراوی جلد2، ص 126: نوع27)
اہل حدیث کےلیے اس سے زیاہ فضلیت والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرا کوئی امام (متبوع) نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
زبردست لیکن غیرمتعلق!

غیر متعلق بحث کرنے سے بہتر ہے کہ خاموش رہا جائے موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرنا خلط مبحث اور عالمانہ شان کے خلاف ہے۔
ان دو اقتباسات سے آپکا موقف کہ اہل حدیث نام غیر ضروری ہے اصل صرف منہج ہے کہاں ثابت ہوتا ہے؟ اسکے علاوہ اہل حدیث کا منہج اور فکر اختیار کرلینے کے بعد چاہے کوئی خود کو بریلوی کہے قادیانی یا پرویزی وغیرہ کچھ فرق نہیں پڑتا اسکا ثبوت ان مذکورہ بالا اقتباسات سے پیش کیجئے۔

اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حدیث لکھنے، سننے، روایت کرنے اور اس پر عمل کرنے والے کو ہی اہل حدیث کہا ہے اور یہ صفات کسی مخصوص گروہ میں نہیں بلکہ کسی بھی شخص یا گروہ میں پائی جاسکتی ہیں اور اسے اہل حدیث کہا جاسکتا ہے۔ تو ہمیں بتادیں کہ ایک مخصوص اہل حدیث گروہ کے علاوہ یہ خصوصیات کس گروہ میں پائی گئیں ہیں؟ اور ماضی میں کسی ایسے گروہ کو جو اہل حدیث کی مخصوص چھاپ نہیں رکھتا تھا سلف میں سے کسی نے ایسے گروہ کو مذکورہ بالا خصوصیات کی بنا پر اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے؟
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
قصہ مختصر یہ کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہے بلکہ خلف میں سے ایک گروہ کا مسلک و مذہب ہے کہ دعوتی مقصد کے لئے واضح طور پر اہل حدیث نام نہ لیا جائے۔ دراصل اس فکر کو بڑی حد تک تقویت ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کی خود کو اہل حدیث نام سے موسوم نہ کرنے کی حکمت عملی سے ملی ہے اور ڈاکٹر فرحت نسیم حاشمی صاحبہ بھی اسی فکر کی علم بردار ہیں وہ بھی کبھی اہل حدیث کا لفظ استعمال نہیں کرتیں۔ علماء کی اس جدید فکر سے متاثر ہوکر ایک گروہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو دعوت دین میں اہل حدیث کے نام کو رکاوٹ سمجھنے لگا ہے۔
بنیادی نکتہ طے ہو جائے تو بہتر ہے۔ فرض کیجئے ایک شخص منہج اہلحدیث پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس نے "مسلک اہلحدیث" کا نام بھی نہیں سنا۔ تو اسے اہلحدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے تحت جنتی گروہ کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ بھی اسی طریقہ پر ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔ اور یہ ہوا میں بات نہیں ہے۔ میں خود سعودی عرب اور ملائشیا میں ایسے لوگوں سے مل چکا ہوں، جنہیں اہلحدیث نام معلوم تک نہیں، لیکن منہج کے اعتبار سے ان کا طرز فکر وہی تھا جو ہمارا ہے۔
دوسری بات سعودی علمائے کرام بھی خود کو اہلحدیث کے بجائے سلفی وغیرہ کہلواتے ہیں۔ حالانکہ منہج کے اعتبار سے ہم ایک ہی ہیں۔ لیکن نام کے اعتبار سے غالبا دو سے زائد گروہوں میں ہم بٹے ہوئے ہیں۔
پھر مسلک کے ناموں کی حساسیت کے بارے میں یہ اقتباس مکرر ملاحظہ کیجئے:

مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔

بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ 'اصلی اہل حدیث' جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بنیادی نکتہ طے ہو جائے تو بہتر ہے۔
سبحان اللہ! ابھی بات بنیادی نکتہ پر ہی اٹکی پڑی ہے۔ جبکہ اس مسئلہ پر میری باذوق اور ابوالحسن علوی صاحبان سے ’’کیا اپنے ساتھ اہل حدیث نام لگانا ضروری ہے‘‘ تھریڈ میں طویل ترین بحث ہوئی جسے آپ نے بھی ملاحظہ فرمایا پھر صراط الہٰدی کے خصوصی زمرے میں بھی باذوق بھائی سے میری لمبی بحث ہوئی موضوع یہی تھا اس زمرے تک آپ کی بھی رسائی ہے امید ہے وہ بحث دیکھی ہوگی پھر اسی مسئلہ پر میں نے ایک طویل اور تحقیقی مضمون لکھا جو کہ یقیناً آپ کی نظروں سے گزرا ہوگا پھر یہاں بھی وہی بحث وتکرار جاری ہے لیکن اسکے باوجود بھی آپ وہ بنیادی نکتہ جس پر اختلاف ہے سمجھ نہیں پائے۔ اب بتائیں کہ میں کیا کروں؟ کیا بار بار اپنی باتوں کی تکرار کئے چلاجاؤں؟؟؟

فرض کیجئے ایک شخص منہج اہلحدیث پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس نے "مسلک اہلحدیث" کا نام بھی نہیں سنا۔ تو اسے اہلحدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے تحت جنتی گروہ کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ بھی اسی طریقہ پر ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔ اور یہ ہوا میں بات نہیں ہے۔ میں خود سعودی عرب اور ملائشیا میں ایسے لوگوں سے مل چکا ہوں، جنہیں اہلحدیث نام معلوم تک نہیں، لیکن منہج کے اعتبار سے ان کا طرز فکر وہی تھا جو ہمارا ہے۔
متعلقہ موضوع سے متعلق میری تحریریں پڑھنے کے بعد بھی یہ بات کرنا ظلم عظیم ہے بھلا کون جاہل ہوگا جو سمجھتا ہوگا کہ اہل حدیث کا صرف نام ہی نجات پانے کی گارنٹی ہے؟؟؟

یہ گروہ جو اہل حدیث کے منہج سے تو واقف بلکہ اس پر عمل پیرا ہے لیکن اہل حدیث نام سے واقف نہیں اس کا اور آپ اور آپ کی پارٹی کا حکم الگ الگ ہے۔ چونکہ وہ تو اہل حدیث نام سے واقف ہی نہیں اس لئے نام نہیں لیتے لیکن آپ کی پارٹی تو اپنا مسلک اہل حدیث جانتی اور مانتی ہے لیکن لوگوں کے سامنے اس مسلک کے نام کو دانستہ چھپالیتی ہے۔ بھلا دو گروہ کے ایک فعل کا ایک حکم کیسے ہو جبکہ ایک گروہ اس مسئلہ سے لاعلم ہے جبکہ دوسرا گروہ جان کر بھی انجان ہے۔ پہلا گروہ بے گناہ ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں آپ اور آپ کی پارٹی کے لوگ شامل ہیں دھوکہ دہی کا مرتکب ہے۔

چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں مسلمانوں کے فرقے نہیں تھے اور اب فرقے موجود ہیں اس لئے اہل حدیث نام کی پہلے ضرورت نہیں تھی لیکن اب ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں اپنے بارے میں یہ کہنا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر ہیں، درست نہیں۔ جب مسلمانوں کے درمیان پہلا فرقہ یعنی خوارج کا ظہور ہوا اور وہ بھی خود کو مسلمان کہتے تھے اور صحابہ بھی خود کو مسلمان کہتے تھے اس لئے پہلی بار ضرورت محسوس ہوئی کہ خارجیوں کے گمراہ فرقے سے امتیاز کے لئے کوئی صفاتی نام اختیار کیا جائے چناچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین خود کو خارجیوں کے مقابلے میں اہل سنت کہتے تھے۔

اگر آپ بھی اس دور میں جی رہے ہوتے جہاں فرقے نہیں تھے پھر تو خود کو اہل حدیث نہ کہنا آپ کو زیب دیتا تھا لیکن اب نہیں کیونکہ اب مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہیں جن سے امتیاز کے لئے کسی صفاتی نام کی سخت ضرورت ہے۔

اہل حدیث کا نام بہت پرانا ہے اور تمام محدیثین اپنے لئے اہل حدیث کا نام استعمال کرتے تھے کیا انہیں اس بات کی حاجت اور ضرورت نہیں تھی کہ وہ بھی خود کو اہل حدیث نہ کہلوا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر چلیں؟؟؟

دوسری بات سعودی علمائے کرام بھی خود کو اہلحدیث کے بجائے سلفی وغیرہ کہلواتے ہیں۔ حالانکہ منہج کے اعتبار سے ہم ایک ہی ہیں۔ لیکن نام کے اعتبار سے غالبا دو سے زائد گروہوں میں ہم بٹے ہوئے ہیں۔
آپ اہل حدیث اور سلفی ناموں کو ایک دوسرے جدا نہ سمجھیں میں نے اپنے مضمون میں ثابت کیا ہے کہ سلفی، محمدی وغیرہ اہل حدیث ہی کے زیلی صفاتی نام ہیں اور یہ تمام نام آپس میں باہم مترادف ہیں۔

پھر مسلک کے ناموں کی حساسیت کے بارے میں یہ اقتباس مکرر ملاحظہ کیجئے:

مسلمان کے علاوہ کسی گروہ یا جمعیت یا انجمن یا قبیلے کا نام رکھنے کی نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ان ناموں کے بارے حساسیت بڑھ جاتی ہے اور ان ناموں کا اسلام کا مترادف قرار دیے جانے کی سوچ بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ چیز شریعت اسلامیہ کی نظر میں مذموم ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب کے اقتباسات کو دل کے بجائے دماغ سے پڑھیں۔ مذکورہ اقتباس فرضی ہے۔ میں کسی مستند اہل حدیث عالم کو نہیں جانتا جو اہل حدیث کے صٍفاتی لقب کے بارے میں اتنا حساس ہوگیا ہو کہ اسے اسلام کے ہی مترادف قرار دینے لگا ہو اور لقب اہل حدیث پر ہی بھروسہ کرکے بیٹھ گیا ہو اور اس لقب کو نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو۔

میں بار بار بار بار عرض کرچکا ہوں کہ اگر کوئی خود کو اہل حدیث نہیں کہتا تو کوئی حرج نہیں لیکن جب اس سے اسکی مسلکی نسبت یا مسلکی پہچان پوچھی جائے اور وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولے کہ میرا کسی مسلک سے کوئی تعلق نہیں یہ بہت ہی گھٹیا حرکت ہے جو جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرہ میں آتی ہے جبکہ وہ باطن میں مسلک اہل حدیث کا ہی پیروکار ہو۔
اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں
اول: یا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو اور اپنے اہل حدیث ہونے پر شرمندہ ہو۔
دوم: لقب اہل حدیث کو دعوت دین میں رکاوٹ سمجھتا ہو۔
حالانکہ یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں۔

بہر حال یہ دلیل درست نہیں ہے کہ قادیانی یا منکرین حدیث بھی چونکہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لہذا مسلمان کے علاوہ بھی لازما کوئی سابقہ یا لاحقہ ہونا چاہیے۔ کل کلاں، بلکہ کل کیا آج ہی یہ ہو رہا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے اپنے آپ کو سلفی کہنا شروع کر دیا ہے اور وہ دن دور نہیں ہے کہ جب بریلوی اور دیوبندی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اہل حدیث کا اضافہ کر لیں گے تو پھر آپ کو ضرورت پڑے گی کہ آپ اپنے نام کے ساتھ اس سابقہ یا لاحقہ کا اضافہ کریں کہ 'اصلی اہل حدیث' جیسا کہ اصلی اہل سنت یا اصلی سلفی کی اصطلاحات تو معروف ہو چکی ہیں کیونکہ مدمقابل فکر رکھنے والوں نے بھی اپنے آپ کو ان ناموں سے معروف کر دیا تھا۔ پھر اصلی اہل حدیث میں بھی کئی ورژن آئیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس اقتباس میں بھی کچھ باتیں خلاف واقع اور کچھ فرضی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب بریلوی اور دیوبندی خود کو اہل حدیث کہیں گے۔ طویل ماضی سے آج تک ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ آئندہ کوئی ایسا امکان نظر آتا ہے۔ فرضی احتمالات پر آج کی حقیقت کو جھٹلا دینا کوئی اچھی بات نہیں۔

"اصلی سلفی" کی اصطلاح غیر معروف ہے بلکہ آج سے پہلے تک نہ کانوں نے سنی نہ نظروں سے گزری۔
دیوبندیوں نے خود کو سلفی کہنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن یہ کوشش بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے اور اسے دیوبندیوں میں بھی کوئی پذیرائی نہیں ملی لہٰذا آئندہ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ کوئی تحریک چلا کر خود کو سلفی مشہور کریں گے پھر خود کو سلفی کہنے والوں کو ’’اصلی سلفی‘‘ کی اصطلاح کی ضرورت محسوس ہوگی۔
لقب ’’اہل سنت‘‘ سے ضرور بریلویوں اور دیوبندیوں نے خود کو مشہور و معروف کرلیا ہے لیکن اہل حدیث نے اس سبب سے کہ یہ نام مقلدوں نے رکھ لیا ہے خود کومجموعی طور پر ’’اصلی اہل سنت‘‘ کے نام سے متعارف نہیں کروایا۔ کسی ایک آدھ جگہ رد عمل کے طور پر خود کو ’’اصلی اہل سنت‘‘ کہہ دینا علیحدہ بات ہے۔

شاکر بھائی @ابوالحسن علوی صاحب کی فرضی باتیں چھوڑ کر کوئی حقیقی بات کریں۔شکریہ
 
Last edited:

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
یہ گروہ جو اہل حدیث کے منہج سے تو واقف بلکہ اس پر عمل پیرا ہے لیکن اہل حدیث نام سے واقف نہیں اس کا اور آپ اور آپ کی پارٹی کا حکم الگ الگ ہے۔ چونکہ وہ تو اہل حدیث نام سے واقف ہی نہیں اس لئے نام نہیں لیتے لیکن آپ کی پارٹی تو اپنا مسلک اہل حدیث جانتی اور مانتی ہے لیکن لوگوں کے سامنے اس مسلک کے نام کو دانستہ چھپالیتی ہے۔ بھلا دو گروہ کے ایک فعل کا ایک حکم کیسے ہو جبکہ ایک گروہ اس مسئلہ سے لاعلم ہے جبکہ دوسرا گروہ جان کر بھی انجان ہے۔ پہلا گروہ بے گناہ ہے جبکہ دوسرا گروہ جس میں آپ اور آپ کی پارٹی کے لوگ شامل ہیں دھوکہ دہی کا مرتکب ہے۔
ارے بھائی آپ بات سمجھے بغیر دور تک الزامات عائد کر دیتے ہیں۔
اس بنیادی بات کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اہلحدیث نام سے واقف نہ ہونے کے باوجود، اس منہج پر عمل پیرا ہو تو ہمارے نزدیک (اور اب آپ کے بالا اقتباس کے مطابق آپ کے نزدیک بھی) وہ بھی "اہلحدیث" یا 'نجات یافتہ گروہ" میں شامل ہے۔ تو یہ بات مسلک یا گروہ کے اس محدود تصور کے منافی، بلکہ اس سے بہت اوپر کی چیز ہے، جو ہمارے مخالفین کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی بنا پر جب ہمارا مخالف خود کو دیوبندی، بریلوی کہہ کر متعارف کرواتا ہے، تو ہم فقط نام بتا کر اپنا مکمل تعارف پیش ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں مسلک کا جو محدود سا تصور ہے، وہ اپنے ہی بنائے سانچے میں "اہلحدیث" کا نام بھی فٹ کرتا ہے۔ کہ جیسے ہم مخصوص علماء اور مخصوص فقہ کی پیروی کرتے ہیں، یہ حضرات کسی دوسری طرح کے علماء اور فقہ کی پیروی کرتے ہوں گے

دیوبندی و بریلوی حضرات دیوبندی، بریلوی یا حنفی کب کہلاتے ہیں اور کب وہ اس مسلک سے "باہر" ہو جاتے ہیں، اس تعریف پر انطباق کر کے بھی دیکھیں، تو اہلحدیث پورے نہیں اترتے۔ وہ اپنے امام یا علماء کے مخالف کسی قول پر عمل ہی نہیں کر سکتے۔ جبکہ ہمارے لئے مسلک کی چار دیواری امام و علماء و فقہ سے نہیں بنتی، بلکہ کتاب و سنت اور فہم سلف صالحین سے بنتی ہے۔ مقصد ان کے اور اپنے منہج کا تقابل پیش کرنا نہیں، بلکہ تعارف کے وقت، مخالف کی ذہنی سوچ (جو ہمارے یہاں اکثر پائی جاتی ہے) کی عکاسی کرنا ہے کہ اسے فقط نام بتانے سے کبھی بھی وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے، جو اپنا منہج بتانے سے حاصل ہوتے ہیں۔

جیسے آپ اس بات کو "جاہلانہ" سمجھتے ہیں کہ آپ کی جانب فقط نام کی بنا پر نجات کی گارنٹی کو منسوب کیا جائے۔
اسی طرح ہمارے نزدیک بھی یہ بات "جاہلانہ" ہے کہ ہماری جانب "نام چھپانے" کی بات کو منسوب کیا جائے یا اہلحدیث نام کے استعمال نہ کرنے کو ہماری احساس کمتری یا دعوت دین میں رکاوٹ سمجھنے کی دلیل بنا لیا جائے۔

میں نے وضاحت سے دو ٹوک عرض کی تھی کہ:
میرے بھائی، مجھے خود کو اہلحدیث کہلوانے، لکھنے، کہنے پر ہرگز نہ کوئی ندامت محسوس ہوتی ہے نا ہی میں یہ انتساب چھپاتا ہوں، نا ہی اسے برا خیال کرتا ہوں۔
کیا آپ اس بات سے متفق نہیں کہ کوئی ہمارا تعارف پوچھے، ہمارے مسلک کی بابت دریافت کرے، تو ہم نام بتا کر بھی تعارف کروا سکتے ہیں اور منہج بتا کر بھی؟ یا منہج کے ساتھ نام بتانا بھی لازم و ضروری ہے؟

اور تعارف میں مسلک کے نام کے بجائے، اپنا منہج بتانا کیا دھوکہ دہی کی دلیل قرار دی جا سکتی ہے؟

اور معاف کیجئے گا اگر آپ کا تصور بھی یہی ہے کہ اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی، حنفی وغیرہ کی طرح کا کوئی مسلک ہے، فقط اس فرق کے ساتھ کہ وہ گمراہ ہیں اور ہم صراط مستقیم پر، تو اس تعریف کے مطابق میں خود کو اہلحدیث نہیں سمجھتا۔ ایسے اہلحدیث تو صرف پاکستان ہی میں ہیں۔ ہمارے منہج پر چلنے والے بہت ہیں اور مختلف ادوار میں، اور مختلف ممالک میں ان کے نام مختلف ہو سکتے ہیں، بلکہ تھے، لیکن منہج ان سب کا ایک ہی تھا۔ اس منہج پر چلنے والے آج بھی جاپان، ملائشیا، سنگاپور وغیرہ جیسے ممالک میں بھی مل جاتے ہیں۔ بلکہ ابھی حال ہی میں عمیر بھائی آسٹریلیا میں بھی ایسے احباب سے مل آئے ہیں جو اس منہج پر عمل پیرا ہیں، لیکن وہ "مسلک اہلحدیث" سے تعلق نہیں رکھتے۔

نہ تو ہمیں اہلحدیث کے صفاتی نام ہونے سے انکار ہے نہ اس صفاتی نام کو اختیار کرنے کی شریعت میں ممانعت کے ہم قائل ہیں کہ آپ کو اس پر دلائل پیش کرنے کی ضرورت ہو۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہم دعوت دین میں بعض جگہ یہ صفاتی نام استعمال کرنے کے قائل ہیں تو بعض جگہ صفاتی نام کے بجائے منہج پیش کر کے اپنا تعارف کروانے کے قائل ہیں۔ ہر دو صورتوں میں اگر کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ آپ اہلحدیث ہیں، تو ہم یہ نہیں کہتے کہ جی نہیں، میرا کسی مسلک سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اپنے آپ کو الحمدللہ بطور اہلحدیث ہی متعارف کرواتے ہیں۔ لیکن آپ ہی کے الفاظ میں بس ڈھنڈورا پیٹنے سے احتراز کرتے ہیں اور اگر گنجائش ہو اور کوئی مسلک پوچھے تو نام بتانے کے بجائے اپنا منہج بتا کر تعارف کروانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مثلا یوں کہ جی میرا مسلک تو کتاب و سنت ہے بس۔ جو قرآن میں آ گیا یا حدیث میں آگیا بس میں تو اسی کو مانتا ہوں، اور ایسے مانتا ہوں جیسے صحابہ نے سمجھا ہے۔ اب اس کی بنیاد پر آپ بتائیے کہ اس میں دھوکہ دہی، جھوٹ یا خیانت والی کیا بات ہو سکتی ہے بھلا؟


اگر آپ بھی اس دور میں جی رہے ہوتے جہاں فرقے نہیں تھے پھر تو خود کو اہل حدیث نہ کہنا آپ کو زیب دیتا تھا لیکن اب نہیں کیونکہ اب مسلمانوں کے بہت سے فرقے ہیں جن سے امتیاز کے لئے کسی صفاتی نام کی سخت ضرورت ہے۔
جی گمراہ فرقوں سے امتیاز نام بتا کر بھی ہو جاتا ہے اور منہج بتا کر بھی۔

اہل حدیث کا نام بہت پرانا ہے اور تمام محدیثین اپنے لئے اہل حدیث کا نام استعمال کرتے تھے کیا انہیں اس بات کی حاجت اور ضرورت نہیں تھی کہ وہ بھی خود کو اہل حدیث نہ کہلوا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر چلیں؟؟؟
یہ اپنا اپنا اجتہاد ہے۔ جسے نام بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہو، وہ نام بتائے، جو منہج بتا کر اپنا کام کر سکتا ہو، وہ منہج بتا کر کرے۔ مقصد تو دوسروں کو قائل کرنا ہے۔ خود تو ہمارے بیچ میں ایسا کوئی اختلاف نہیں ہے نا منہج پر نا ہی نام پر۔

آپ اہل حدیث اور سلفی ناموں کو ایک دوسرے جدا نہ سمجھیں میں نے اپنے مضمون میں ثابت کیا ہے کہ سلفی، محمدی وغیرہ اہل حدیث ہی کے زیلی صفاتی نام ہیں اور یہ تمام نام آپس میں باہم مترادف ہیں۔
اہلحدیث کے ذیلی صفاتی ناموں میں اگر سلفی، محمدی ہیں تو اہل سنت والجماعت بھی اسی کے تحت آئے گا۔ لیکن آج کے دور میں ہم فقط "اہل سنت" کے نام سے اپنا تعارف نہیں کروا سکتے۔ لوگ ہمیں اکثر بریلوی ہی سمجھیں گے۔ حالانکہ بات دھوکہ دہی کی نہیں ہوگی، بالکل سچ ہوگی کہ ہم ہی اہل سنت ہیں۔ لیکن آج کے دور کے حساب سے اس نام سے تعارف کروانا ممکن نہیں۔ یہ موجودہ دور کا اجتہاد ہے۔ اب کوئی سلف صالحین کے حوالے پیش کرنے لگ جائے کہ وہ کیوں "اہل سنت نہ کہلوا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طریقے پر چلے تھے؟"، تو یہ اُس کی موجودہ حالات سے بے خبری کی دلیل ہی قرار دی جا سکتی ہے۔

آپ سے درخواست ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب کے اقتباسات کو دل کے بجائے دماغ سے پڑھیں۔ مذکورہ اقتباس فرضی ہے۔ میں کسی مستند اہل حدیث عالم کو نہیں جانتا جو اہل حدیث کے صٍفاتی لقب کے بارے میں اتنا حساس ہوگیا ہو کہ اسے اسلام کے ہی مترادف قرار دینے لگا ہو اور لقب اہل حدیث پر ہی بھروسہ کرکے بیٹھ گیا ہو اور اس لقب کو نجات کے لئے کافی سمجھتا ہو۔
صرف نام پر بھروسہ کر کے اسے نجات کے لئے کافی سمجھنا، تو خیر الگ بات ہے۔ لیکن نام کے بارے میں حساسیت والی بات درست ہے۔پچھلی کسی پوسٹ میں آپ کہہ آئے ہیں:
اس کے برعکس میری ناقص تحقیق کے مطابق جو علماء اہل حدیث نام کو ضروری قرار دیتے ہیں وہ اہل حدیث کی فکر اور منہج کو نام سے زیادہ ضروری اور اہم سمجھتے ہیں کیونکہ صرف نام رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا منہج اور فکر اصل چیز ہوتی ہے
اور آپ جانتے ہیں، اہلحدیث کے نزدیک ضروری، لازم، واجب، فرض ایک ہی بات ہے۔ اس نام کو اختیار کرنے میں حرج نہیں، اسی طرح سے اس نام کو اختیار نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کے بارے میں زیادہ حساس ہونا ہی غلطی ہے۔
منہج اور فکر کے بغیر نام کو اہمیت شاید کوئی نہیں دیتا۔
لیکن منہج اور فکر کے ساتھ ساتھ نام کو بھی (منہج ہی کی مانند) ضروری قرار دینا عام ہے۔
اور اسی کی جانب ابوالحسن علوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔

میں بار بار بار بار عرض کرچکا ہوں کہ اگر کوئی خود کو اہل حدیث نہیں کہتا تو کوئی حرج نہیں لیکن جب اس سے اسکی مسلکی نسبت یا مسلکی پہچان پوچھی جائے اور وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولے کہ میرا کسی مسلک سے کوئی تعلق نہیں یہ بہت ہی گھٹیا حرکت ہے جو جھوٹ اور دھوکہ دہی کے زمرہ میں آتی ہے جبکہ وہ باطن میں مسلک اہل حدیث کا ہی پیروکار ہو۔
اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں
اول: یا تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو اور اپنے اہل حدیث ہونے پر شرمندہ ہو۔
دوم: لقب اہل حدیث کو دعوت دین میں رکاوٹ سمجھتا ہو۔
حالانکہ یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں۔
ایک تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دعوت دین کے لئے نام کے بجائے منہج بتانے کو زیادہ بہتر خیال کرتا ہو۔ باقی دونوں باتوں کے غلط ہونے پر میرا آپ کا اتفاق ہے۔ الحمدللہ۔


اس اقتباس میں بھی کچھ باتیں خلاف واقع اور کچھ فرضی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ دن کبھی نہیں آئے گا جب بریلوی اور دیوبندی خود کو اہل حدیث کہیں گے۔ طویل ماضی سے آج تک ایسا کچھ نہیں ہوا اور نہ آئندہ کوئی ایسا امکان نظر آتا ہے۔ فرضی احتمالات پر آج کی حقیقت کو جھٹلا دینا کوئی اچھی بات نہیں۔

"اصلی سلفی" کی اصطلاح غیر معروف ہے بلکہ آج سے پہلے تک نہ کانوں نے سنی نہ نظروں سے گزری۔
ایسا نہیں ہے۔ آپ انگلش لٹریچر پڑھیں۔ دیوبندی، یا بریلوی خود کو سلفی یا اہلحدیث کہیں یا نہ کہیں، سلفیوں کی جتنی اقسام ہیں اور جس طرح سے وہ آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ اس سے کون واقف نہیں۔ اسی فورم پر سرچ کر لیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اصلی سلفی سمیت کئی دیگر ذیلی ناموں سے لوگ خود کو منسوب کر رہے ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں۔ خود اہلحدیث میں کچھ لوگ خود کو دیگر ناموں سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ منہج میں ہمارا ان سے اتفاق ہے۔ لیکن مساجد کے نام تک الگ کر رکھے ہیں۔ ان سب باتوں کو کھولنا، اپنا ہی لباس اتارنا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طرف، لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ یہ سب ہوائی باتیں ہیں اور لوگ بس اہلحدیث، سلفی، محمدی ناموں تک محدود ہیں اور اس کی مزید ذیلی شاخیں نہیں بنا رہے ہیں۔یہ سب اسی دنیا میں اور ہمارے سامنے ہی ہو رہا ہے۔

بہرحال، آپ نے بھی اپنا مؤقف پیش کر دیا ہے اور میں نے بھی تفصیل سے عرض کر دیا ہے۔ اگر ہمارے بیچ کوئی اختلاف ہے بھی تو وہ فقط دعوت دین کے طریقے کا ہے۔ آپ نام کو استعمال کرنا بہتر سمجھتے ہیں اور ہم منہج کو۔ نا ہی آپ فقط نام کو نجات کے لئے کافی سمجھتے ہیں، اور نہ ہی ہم اہلحدیث نام سے خدانخواستہ متنفر ہیں۔ نجات بہرحال منہج اور اس پر عمل کی بنیاد پر ہونی ہے۔ چاہے خود کو کوئی لاکھ اہلحدیث کہے، منہج غلط یا اعمال غلط تو آخرت برباد۔ اور چاہے کوئی اہلحدیث نام تک سے واقف نہ ہو، منہج درست ہے اور عمل ان کے مطابق تو ان شاءاللہ دنیا بھی بہتر اور آخرت بھی۔ اس پر ہم سب متفق ہیں۔ اور یہی اتفاق زیادہ اہم ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا اہل حدیث نام رکھنا درست ہے؟

میں ہندوستان میں رہتا ہوں، اور میں نے سن 2008ء میں اسلام قبول کیا تھا، میرا تعلق رومن کیتھولک چرچ سے تھا، اور اب میں جس مسجد میں جاتا ہوں وہ اہل حدیث کی مسجد ہے، میرے علاقے میں لوگ اپنے مسلمان ہونے سے زیادہ اہل حدیث ہونے پر زیادہ زور دیتے ہیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جماعت جنت میں داخل ہوگی وہ قرآن وسنت کی اتباع کرتی ہوگی، مجھے وضاحت سے بتلائیں کہ کیا یہ جائز ہے کہ ہم اپنے کو اہل حدیث کہیں یا مسلمان ؟

الحمد للہ:

پہلی بات:

آپ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی، اور پھر آپ مسجد میں جاکر نماز ادا کرنے کی پابندی بھی کرتے ہیں اس سے اور زیادہ مسرت ملی، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپکو مزید ہدایت اور ثابت قدمی سے نوازے۔

دوسری بات:

کوئی مسلمان جماعت اپنے آپ کو اہل سنت یا اہل حدیث وغیرہ ناموں سے موسوم کرے جن سے صحیح منہج کی نشاندہی اور اتباعِ کتاب وسنت آشکار ہو تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، تا کہ دیگر بدعتی فرقوں سے امتیاز ہوسکے، جبکہ "مسلم" نام بلاشک وشبہ ایک عظیم اور اعلی نام ہے ، لیکن ۔۔۔ افسوس کہ مسلمان مختلف گروہوں میں بٹ چکے ہیں، یہ صوفی، وہ شیعی اور فلاں عقل پرست ۔۔۔

بلکہ اسلام کی طرف کچھ ایسے لوگ بھی نسبت کرتے ہیں جو حقیقت میں مسلمان ہی نہیں، جیسے بہائیت، اور بریلویت ۔

چنانچہ اگر کوئی مسلمان اپنے بارے میں یہ کہے کہ وہ اہل حدیث ہے، تو وہ اسکی بنا پر آپنے آپ کو ان گمراہ فرقوں سے جدا رکھنا چاہتا ہے، اور اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت میں سے ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"سلفی منہج کی طرف نسبت کرنے والے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے، بلکہ اگر کوئی نسبت ظاہر کرتا ہے تو اسے قبول کرنا چاہئے، اس بات پر سب کا اتفاق ہے، کیونکہ مذہبِ سلف حق ہی ہوسکتا ہے، اور اگر سلف کی طرف نسبت کا قائل شخص ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے سلف کے ساتھ اتفاق رکھتا ہو تو وہ ایسے مؤمن کی طرح ہے جو باطنی اور ظاہری طور پر حق پر ہے، اور اگر یہ شخص صرف ظاہری طور پر سلف کی موافقت کرتا ہے ، باطنی طور پر نہیں تو یہ شخص منافق کے درجہ میں ہے، اس لئے اسکی ظاہری حالت کو مان لیا جائے گا، اور دل کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے گا، کیونکہ ہمیں لوگوں کے دلوں کا بھید لگانے کاحکم نہیں دیا گیا کہ وہ اندر سے کیسے ہیں" ماخوذ از: " مجموع الفتاوى " ( 1 / 149)

شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:

"سلفی کہلوانا اگر حقیقت پر مبنی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر خالی دعوی ہو تو اس کیلئے اپنے آپ کو سلفی کہلوانا درست نہیں کیونکہ وہ سلف کے منہج پر ہی نہیں ہے" ماخوذ از: " الأجوبة المفيدة على أسئلة المناهج الجديدة " ( ص 13 )

یہ بات ذہن نشین رہے کہ "اہل حدیث"نام رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ قرآن مجید پر عمل نہیں کرتے، اور شاید آپکو اسی وجہ سے تعجب ہوا ہو ، بلکہ اہل حدیث قرآن و سنت پر عمل کرتے ہیں، یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے نقش قدم کی اتباع کرتے ہیں،

فرمانِ باری تعالی ہے:

(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)

ترجمہ: وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ التوبة/100
تیسری بات:

اللہ تعالی نے آپ پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ آپ اسلام کی نعمت پانے کے بعد اہل حدیث ، اہل سنت والجماعت میں رہتے ہیں، آپ اُنکے ساتھ مزید جُڑے رہیں، اور انہی کی اقتدا کرتے ہوئے انکے طریقے پر چلیں۔


واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/163503
 
Top