جی بہتر ، پہلے ہی گذارش کی گئی تھی کہ اس تھریڈ کو جاری رکھا جائے ۔موجودہ انتظامی شاگرد نے اس معاملے کو اتنی اہمیت نہیں دی ۔ نا خود سمجھا اور نا ہی کسی اور کو سمجھانے کا موقع فراہم کیا ۔ باقی اراکین کی طرف سے فضول پوسٹس ڈسٹرب کرتی رہیں ۔مقصد یہی تھا کہ ذلیل و خوار کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے ۔جس میں انتظامیہ کو کامیابی بھی ملی ۔ مبارک ہو ۔
دعا ہے اللہ اس ’ نوک جھونک ‘ کو ہمارے لیے واقعتا ’ باعث برکت ‘ بنادے ۔ تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں ۔
ادارہ محدث یا اعلی انتظامیہ میں اگر کوئی "المحترم"ہو گا ، جب وہ مداخلت کرے گا،اصولوں پر بات ہو گی ،تو حاظر ہوجائیں گے ان شاء اللہ ۔نہیں تو اس وقت کا انتطارکریں گے جب اللہ فیصلہ کا کوئی موقعہ فراہم کرے ۔
جیسے آپ مناسب سمجھیں ۔
عامیانہ زبان،اخلاقی رویہ، بگڑیاں ،اسوہ حسنہ، مذہبی طبقہ ، وغیرہ وغیرہ ۔ کماتدین دان ۔۔
جی اگر مزید کوئی کسر ہو تو بھی حاضر ہیں ، إن شاءاللہ ۔ آپ ہنر آزمائیں ، تیر آزمائیں ، ہم کوشش کریں گے کہ اپنے جگر کی آزمائش کرلیں ۔
برسبیل تذکرہ عظیم باپ کے طعنہ کا ہوا ہے ،کچھ تھوڑا سا تعلق ان کے ساتھ ہمارا بھی رہا ہے ۔خیر سے بتاتے چلیں ہمیں کچھ عرصہ قبل ہی ان کے بارے میں تفصیل سے جاننے کا موقع ملا ۔ واقعی عظیم آدمی تھے ۔رحمہ اللہ رحمتہ واسعتہ۔حیرت زدہ ہوں کہ جامعہ ر اور محدث فورم کے لوگ انہیں عظیم کہ رہے ہیں ۔
جی ، مجھے عربی زبان سے محبت ہے ، مولانا نے عربی زبان کے لیے بہت خدمات سر انجام دی ہیں ، اس لیے ان سے محبت رکھتا ہوں ، تفصیلی نظریات و افکار جاننے کا موقعہ نہیں ملا ، اگر کہیں کسی بات سے اختلاف ہوا تو اس پر بھی رائے کا اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا ۔
سوشل میڈیا پر ان کے بعض تبصروں سے اندازہ ہوا کہ ان کا مہداور علمی خدمات نا ان کی زندگی میں انہیں اور دوسرے مذہبی طبقہ کو ہضم ہویں اور نا مرنے کے بعد۔
شخصیات علمی ہوں یا غیر علمی ، تنقید سے ماورا نہیں ہوتیں ۔ جہاں تک محدث کی بات ہے تو محدث لائبریری میں مولانا بشیر صاحب کی کتب شامل ہیں ، ان کی وفات پر محدث پر ایک تھریڈ بھی لگایا ، جس میں حسب توفیق لوگوں نے شرکت کی ، بلکہ خود میری خواہش تھی کہ بعض کبار علماء کے مجموعات میں شیخ کے متعلق جن تاثرات کا اظہار کیاگیا ، ان کو یہاں نقل کردوں ، جامعہ اسلامیہ میں موجود اپنے دوستوں ، اہل علم کے گروپ میں اس طرف توجہ دلائی ، سب نے اس پر شکریہ ادا کیا ، لیکن افسوس جس طرح اور بہت سے اچھے کام رہ جاتے ہیں ، یہ بھی نہ ہوسکا ۔
ایک فرق تو کم ازکم سامنے آیا کہ مذہبی طبقہ اور بعض سلفی حضرات نے منافقت میں ماسٹرکی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں ، نا کسی کی علمی حیثیت قبول ہے اور نا ہی کسی کی سلفیت ۔کوشش ہے کہ جو راستے میں آئے اسے اپنے علمی رعب ودبدبہ سےدبا دیا جائے ۔یا ناصبی کہ کربدنام کیا جائے ۔حق کو دبایا جائے ۔ کسی کی فاش غلطیوں پر پردہ ڈالا جائے ۔ وغیرہ ۔۔
آپ کی علمی حیثیت کا مجھے پتہ نہیں ، لیکن بہر صورت مذہبی طبقہ لوگوں کو کتنا فائدہ دے رہا یا کتنا نقصان پہنچا رہا ہے ، اس میں آپ کی یا میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ، سب کے سامنے ہے ۔ منافقت کا تمغہ بھی آپ پتہ نہیں کن لوگوں کو دے رہے ہیں ، بہر صورت جس بات کو آپ درست سمجھتے ہیں ، وہ کہنے کا پورا حق رکھتے ہیں ، اور اس میں واقعتا کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ۔
ماضی میں اہل علم کے ساتھ یہی روا رکھا گیا ۔ ان کی عام مثالوں ممیں معروف اسکالر ڈاکٹر فرحت ہاشمی ،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔ اللھم زد فزد۔
شخصیات کے بارے میں ایک عامی تاثر یا جذباتی تاثر ہوتا ہے ، لیکن ظاہر ہے علماء و محققین اس عوامی تاثر کے پابند نہیں ہوتے ، اگر فرحت ہاشمی صاحبہ یا شیخ زبیر صاحب پر علماء و محققین نے تنقید کی ہے ، یا ان سے اختلاف کیا ہے تو اس میں اچھنبے والی کیا بات ہے ؟
باقی شیخ زبیر صاحب کے محدث فورم پر مضامین ، محدث لائبریری میں کتابوں کی موجودگی ، محدث مجلہ میں ان کے چھپنے والے مضامین اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ ان کی علمی و تحقیقی باتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کا انداز دعوتی ہے ، ان کے مخاطبین عوام ہیں ، میری معلومات کی حد تک اس پر انہیں ہمارے جیسے طالبعلم ہی نہیں ، علماء کرام بھی سراہتے ہیں ، اگر کسی نے کوئی اختلاف کیا ہے ، تو اسے دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں ۔ واللہ اعلم ۔