خرابی کی اصل جڑ یہی ہے کہ ’’ہر بات‘‘ لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ حالانکہ صرف صحیح بات لوگوں تک پہنچنی چاہیئے۔
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ علماء آپس میں مذاکرات کریں مقتدر شخصیت کی موجودگی میں۔ جس پر وہ متفق ہوں اسے لوگوں تک پہنچا دیا جائے اور بقیہ پر علماء کے درمیان مذاکرات جاری رہیں۔ ان اختلافی مسائل سے عوام کو دور رکھا جائے۔
بھائی جان بڑا عجیب حل پیش کیا ہے آپ نے
جو متفق ہے اس میں تو لڑائی ہی نہیں وہ تو ویسے ہی پینچ رہا ہے اصل لڑائی تو اختلافی مسائل کی ہی ہے
مثلا فرض کیا میں کہتا ہوں کہ جی اختلافی مسئلہ تقلید کا ہے تو کیا تقلید سے عوام کو دور رکھا جائے
فرض کیا میں کہتا ہوں کہ اختلافی مسئلہ رفع یدین نہ کرنے کا ہے تو کیا عوام کو رفع یدین نہ کرنے سے دور رکھا جائے
بھائی جی اسکا حل وہ نہیں جو آپ نے پیش کیا ہے کیونکہ یہ تو الٹا آپ کے ہی خلاف چلا جاے گا اسکا حل تو قرآن نے پیش کیا ہے کہ عوام کو ہر گروہ اپنی دلیل پہنچا دے جس کی دلیل مضبوط ہو گی عوام اس سے اپنی استطاعت کے مطابق حق بات کو پہچان لے گی جیسا کہ قرآن کہتا ہے
فَبَشِّر عِبادِ الَّذِینَ یَستَمِعُونَ القَولَ فَیَتَّبِعُونَ اَحسَنَه اُولئِكَ الَّذِینَ هَداهُمُ اللَّهُ وَ اُولئِكَ هُم اُولُوا الـاَلبابِ)
اللہ تو ان لوگوں کو خوشخبری دینے کا کہ رہا ہے اور ھدایت والے اور عقل مند کہ رہا ہے کہ جو بات تو سب کی سن لیتے ہیں اور پیروی اس میں سے بہترین بات کی کرتے ہیں