• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ اول (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :غیر زمانۂ حیض میں زردی اور مٹیالے رنگ کا (سیال مادہ) دیکھنا (حیض میں شمار نہیں ہوتا)
(۲۱۹)۔ سیدہ ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ ہم مٹیالے پن کو اور زردی کو (حیض میں ) شمار نہیں کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :عورت (طواف) افاضہ کے بعد حائضہ ہو جائے (تو کیا حکم ہے ؟)
(۲۲۰)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ! صفیہ بنت حي حائضہ ہو گئی ہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' شاید وہ ہمیں روکیں گی ؟ کیا انھوں نے تم لوگوں کے ہمراہ طواف نہیں کیا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہاں (کیا تھا) تو آپﷺ نے فرمایا : '' پھر (کچھ حرج نہیں) چلو۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :نفاس والی عورت (کے جنازہ) پر نماز پڑھنا اور اس کا طریقہ
(۲۲۱) ۔ سیدہ سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت زچگی سے مر گئی تو نبیﷺ نے اس نماز پڑھی اور اس کے درمیان (کی سیدھ میں) کھڑے ہوئے۔

(۲۲۲)۔ ام المومنین میمونہؓ کہتی ہیں کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں تو نماز نہ پڑھتی تھیں اور رسول اللہﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ کے سامنے برابر لیٹی ہوتی تھیں۔ آپﷺ اپنی چادر پر نماز پڑھتے، جب سجدہ کرتے تو آپﷺ کا کچھ کپڑا مجھ سے لگ جاتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تیمم کا بیان

باب :اللہ تعالیٰ کا فرمان '' پس اگر تم پانی نہ پاؤ۔ ۔ ۔ ''
(۲۲۴)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم کسی سفر میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے، یہاں تک کہ جب ہم بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ (کر گر) گیا، تو رسول اللہﷺ نے اس کو ڈھونڈنے کے لیے قیام کیا اور لوگ بھی آپﷺ کے ہمراہ ٹھہر گئے اور اس مقام پر کہیں پانی نہ تھا، (اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا) لہٰذا لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ (ام المومنین) عائشہ (رضی اللہ عنہ) نے کیا کیا کہ رسول اللہﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہر ا لیا اور وہ بے آب مقام پر ہیں ؟ا ور نہ ہی ان کے ہمراہ پانی ہے۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہ کہیں،وہ انھوں نے کہہ ڈالا اور اپنے ہاتھ سے میری کو کھ میں کونچہ مارنے لگے، رسول اللہﷺ کا سرمبارک میری ران پر تھا اور آپ سو رہے تھے اس لیے میں درد کی شدت سے جنبش بھی نہ کر سکی پھر صبح کو رسول اللہﷺ اٹھ بیٹھے درآنحالیکہ آپ بغیر پانی والے (مقام) پر تھے چنانچہ اللہ بزرگ و برتر نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ پس سب نے تیمم کیا تو اسی دن سیدنا بن حضیرؓ نے کہا کہ اے آل ابوبکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ جس اونٹ پر میں تھی، اس کو اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔

(۲۲۵)۔ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : '' مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئی تھیں۔ (۱) ۔ مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعہ مدد دی گئی۔ (۲) پوری زمین میرے لیے مسجد بنا دی گئی اور پاک بنا دی گئی، پس میری امت میں سے جس شخص پر (جہاں بھی) نماز کا وقت ہو جائے اسے چاہیے کہ (اسی مقام پر) نماز پڑھ لے۔ (۳)۔ میرے لیے غنیمت کے مال حلال کر دیے گئے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی (نبی) کے لیے حلال نہ کیے گئے تھے۔ (۴) مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ (۵) ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :حضر میں جب پانی نہ پائے اور نماز کے جاتے رہنے کا خوف ہو تو تیمّم کرنا (ضروری ہے)
(۲۲۶)۔ سیدنا ابوجہیم بن حارث انصاریؓ نے کہا کہ نبیﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے اور آپﷺ کو ایک شخص (خود ابو جہیم) مل گیا اور اس نے آپ کو سلام کیا تو نبیﷺ نے اسے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آپ دیوار کی طرف آئے (اس پر ہاتھ مارا) ، اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا پھراسے سلام کا جواب دیا۔
وضاحت : اگرچہ سلام کے لیے وضو کی شرط نہیں لیکن آپﷺ کو یہ بات پسند (اپنے لیے) نہیں تھی کہ بے وضو اللہ کا ذکر کریں اس لیے پہلے تیمّم کیا پھر جواب دیا۔ سلام بھی اللہ کا ذکر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :تیمم میں مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر پھر (گرد تم کرنے کے لیے) ان کو پھونکنا
(۲۲۷)۔ سیدنا عمار بن یا سرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی اور میں (مٹی میں) الٹ پلٹ گیا اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے نبیﷺ سے اس کو بیان کیا تو نبیﷺ نے فرمایا: '' تجھے اس طرح کرنا کافی تھا۔ '' (یہ کہہ کر) آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک دیا پھر ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :پاک مٹی مسلمان کا وضو (وہ پانی جس سے وضو کیا جاتا) ہے اور اسے پانی سے کفایت کرتی ہے
(۲۲۸)۔ سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبیﷺ کے ہمراہ تھے اور ہم رات کو چلے، یہاں تک کہ جب اخیر رات (ہوئی تو اس وقت) میں ہم مقیم ہوئے اور سب سو گئے اور مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ پھر ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کیا، پس سب سے پہلے جو جاگا فلاں شخص تھا، پھر فلاں شخص، پھر سیدنا عمر بن خطابؓ چوتھے جا گنے والے ہوئے اور نبیﷺ جب سوتے تھے تو ان کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا یہاں تک کہ آپ خود بیدار ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کے لیے آپ کے خواب میں کیا ہو رہا ہے مگر جب سیدنا عمرؓ بیدار ہوئے اور انھوں نے وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج کے آدمی تھے تو انھوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے کہ تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آواز کے سبب سے نبیﷺ بیدار ہوئے۔ پس جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر پڑی تھی اس کی شکایت آپﷺ سے کی۔ تو آپ نے فرمایا : '' کچھ نقصان نہیں '' یا (یہ فرمایا کہ) '' کچھ نقصان نہ کرے گا، چلو (اس لیے کہ یہ عمداً نہیں تھا) ۔ '' پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے اور وضو کا پانی منگوایا، پھر وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو یکا یک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہ پڑھی تھی،تو آپ نے فرمایا : '' اے فلاں ! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ؟'' تو اس نے کہا کہ جنابت ہو گئی تھی اور پانی نہ تھا آپ نے فرمایا: '' تو لازم پکڑ مٹی کو (تیمم کر) وہ تجھے کافی ہے۔ '' پھر نبیﷺ چلے تو لوگوں نے آپﷺ سے پیاس کی شکایت کی، تو آپﷺﷺ پھر اتر پڑے اور ایک شخص کو بلایا اور سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو بلایا اور فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔ پس دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کی دو مشکوں کے درمیان اپنے اونٹ پر بیٹھی جا رہی تھی۔ تو ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں کل اسی وقت پانی پر تھی اور ہمارے مرد پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے کہا خیر اب تو چل۔ وہ بولی کہاں ؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس۔ اس نے کہا وہی شخص جسے بے دین کہا جاتا ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں ! وہیں جن کو (تم یہ خیال کرتی ہو) ، تو چل تو سہی۔ پس وہ دونوں اسے رسول اللہﷺ کے پاس لائے اور آپﷺ سے ساری کیفیت بیان کی۔ سیدنا عمرانؓ کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اسے اس کے اونٹ سے اتارا اور نبیﷺ نے ایک ظرف (یعنی برتن) منگوایا اور دونوں مشکوں کے منہ کھول کر اس میں سے کچھ پانی اس برتن میں نکالا۔ (اس کے بعد) ان کے اوپر والے منہ کو بند کر دیا اور نچلے منہ کو کھول دیا اور لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ پانی پیو اور (اپنے جانوروں کو بھی) پلا لو۔ جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا اور آخیر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو جنابت ہو گئی تھی اس کو ایک برتن پانی کا دیا اور آپ نے فرمایا : '' جا اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے۔ '' اور وہ عورت کھڑی ہوئی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور اللہ کی قسم (جب پانی لینا) اس کے مشکوں سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں، جب آپﷺ نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : '' کچھ اس کے لیے جمع کر دو۔ '' تو لوگوں نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ جمع کر دیے جہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا اس کے لیے جمع کر دیا اور اس کو ایک کپڑے میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر دیا اور کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔ پھر آپﷺ نے اس سے فرمایا : '' تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ کم نہیں کیا، لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا۔ '' پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی چونکہ وہ راہ میں روک لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ تجھے کس نے روک لیا تھا ؟ تو اس نے کہا (کہ عجیب بات ہوئی) مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جسے بے دین کہا جاتا ہے اور اس نے ایسا ایسا کام کیا۔ پس قسم اللہ کی ! یقیناً وہ شخص اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑا جادو گر ہے اور اس نے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا مراد اس کی آسمان و زمین تھی یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے۔ پس مسلمان اس کے بعد، اس کے آس پاس کے مشرکوں سے لڑتے رہے اور جس آبادی (بستی) میں وہ عورت رہتی تھی۔ تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بے شک یہ لوگ عمداً تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، پس کیا تمہیں اسلام میں کچھ (رغبت) ہے ؟ تو انھوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نماز کا بیان

باب :شب معراج میں نماز کس طرح فرض کی گئی ؟
(۲۲۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ابو ذرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' (ایک شب) میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرئیلؑ اترے اور انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکم و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ) کھول دو تو اس نے کہا یہ کون ہے ؟ وہ بولے کہ یہ جبرئیل ہے۔ پھر اس نے کہا کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی) ہے ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں ! میرے ہمراہ محمدﷺ ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں پس جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے۔ پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر (نظر پڑی) جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی دائیں جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب (بھی) کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے دائیں جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انھوں نے (مجھے دیکھ کر) کہا ''مرحبا (خوش آمدید) نیک پیغمبر اور نیک بیٹے '' میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ آدمؑ ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی سبب سے جب وہ اپنی دائیں جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی جیسے پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں پھر سیدنا ابوذرؓ نے ذکر کیا کہ آپﷺ نے آسمانوں میں آدم ؑ، ادریس، موسیٰ،عیسیٰ اور ابراہیمؑ کو پایا اور (اور ان کے ٹھکانے بیان نہیں کیے، صرف اتنا کہا کہ آپﷺ نے) آدمؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیمؑ کو چھٹے آسمان پر پایا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ جب جبرئیلؑ نبیﷺ کو لے کر ادریسؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی۔ '' (آپﷺ نے فرمایا کہ (میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا یہ ادریسؑ ہیں، پھر میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی '' میں نے (جبریل سے) پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہ موسیٰؑ ہیں، پھر میں عیسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی '' میں نے پوچھا یہ کہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہعیسیٰؑ ہیں، پھر میں ابراہیمؑ کے پاس گزرا تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے '' میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا کہ یہ ابراہیم ہیں۔
(راوی نے) کہا کہ سیدنا ابن عباس اور ابو حبہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں (فرشتوں کے) قلم (چلنے) کی آواز میں سنتا تھا۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پس میں ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب موسیٰؑ پر گزرا تو موسیٰؑ نے کہا کہ اللہ نے آپﷺ کے لیے آپﷺ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے (یہ سنکر) کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے، اس لیے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی) طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک معاف کر دیا ہے، پھر موسیٰؑ نے کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور) معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس لو ٹ کر آیا (اور بتایا) تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لو ٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا : '' (اچھا) یہ پانچ (مقرر کی جاتی) ہیں اور یہ (درحقیقت باعتبار ثواب کے) پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ '' پھر میں موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے۔ میں نے کہا (اب) مجھے اپنے پروردگار سے (بار بار کہتے ہوئے) شرم آتی ہے، (پھر جبرائیل مجھے لے کر چلے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا یا) اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، (میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے) ۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی مشک ہے۔

(۲۲۹)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو، دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں (بھی) اور سفر میں (بھی) ، تو سفر کی نماز (اپنی اصلی حالت پر) قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کر دی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :کپڑوں میں نماز کا وجوب
(۲۳۰)۔ سیدنا عمر بن ابی سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اس کے دونوں سروں کے درمیان تفریق کر دی تھی (یعنی الٹ کر کندھوں پر ڈال لیا)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایک کپڑے میں، (یعنی) اس کو لپٹ کر نماز پڑھنا (درست ہے)
(۲۳۱)۔ سیدہ ام ہانی بنت ابو طالبؓ کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبیﷺ نے ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت (چاشت کی) نماز پڑھی۔

(۲۳۲)۔ سیدہ ام ہانی اس روایت میں کہتی ہیں کہ آپﷺ نے (فتح مکہ کے دن) ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت نماز پڑھی، جب فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں کے بیٹے (سیدنا علیؓ) کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کو مار ڈالوں گا حالانکہ میں نے اسے پناہ دی ہے ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اے ام ہانی ! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ ام ہانی کہتی ہیں کہ یہ (نماز) چاشت تھی۔

(۲۳۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا پوچھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں ؟
 
Top