نماز کا بیان
باب :شب معراج میں نماز کس طرح فرض کی گئی ؟
(۲۲۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ابو ذرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' (ایک شب) میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرئیلؑ اترے اور انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکم و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ) کھول دو تو اس نے کہا یہ کون ہے ؟ وہ بولے کہ یہ جبرئیل ہے۔ پھر اس نے کہا کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی) ہے ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں ! میرے ہمراہ محمدﷺ ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں پس جب دروازہ کھول دیا گیا تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے۔ پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر (نظر پڑی) جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی دائیں جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب (بھی) کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے دائیں جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انھوں نے (مجھے دیکھ کر) کہا ''مرحبا (خوش آمدید) نیک پیغمبر اور نیک بیٹے '' میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ آدمؑ ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی سبب سے جب وہ اپنی دائیں جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی جیسے پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں پھر سیدنا ابوذرؓ نے ذکر کیا کہ آپﷺ نے آسمانوں میں آدم ؑ، ادریس، موسیٰ،عیسیٰ اور ابراہیمؑ کو پایا اور (اور ان کے ٹھکانے بیان نہیں کیے، صرف اتنا کہا کہ آپﷺ نے) آدمؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیمؑ کو چھٹے آسمان پر پایا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ جب جبرئیلؑ نبیﷺ کو لے کر ادریسؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی۔ '' (آپﷺ نے فرمایا کہ (میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا یہ ادریسؑ ہیں، پھر میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی '' میں نے (جبریل سے) پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہ موسیٰؑ ہیں، پھر میں عیسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی '' میں نے پوچھا یہ کہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہعیسیٰؑ ہیں، پھر میں ابراہیمؑ کے پاس گزرا تو انھوں نے کہا '' خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے '' میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا کہ یہ ابراہیم ہیں۔
(راوی نے) کہا کہ سیدنا ابن عباس اور ابو حبہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں (فرشتوں کے) قلم (چلنے) کی آواز میں سنتا تھا۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پس میں ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب موسیٰؑ پر گزرا تو موسیٰؑ نے کہا کہ اللہ نے آپﷺ کے لیے آپﷺ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے (یہ سنکر) کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے، اس لیے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی) طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک معاف کر دیا ہے، پھر موسیٰؑ نے کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور) معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس لو ٹ کر آیا (اور بتایا) تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لو ٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی) طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا : '' (اچھا) یہ پانچ (مقرر کی جاتی) ہیں اور یہ (درحقیقت باعتبار ثواب کے) پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ '' پھر میں موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے۔ میں نے کہا (اب) مجھے اپنے پروردگار سے (بار بار کہتے ہوئے) شرم آتی ہے، (پھر جبرائیل مجھے لے کر چلے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا یا) اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، (میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے) ۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی مشک ہے۔
(۲۲۹)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو، دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں (بھی) اور سفر میں (بھی) ، تو سفر کی نماز (اپنی اصلی حالت پر) قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کر دی گئی۔