Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب :جب (ناصح و معلم) کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو غضبناک انداز میں نصیحت و تلقین کر سکتا ہے۔
(۷۹) ۔ سیدنا ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (آ کر) کہا کہ یا رسول اللہ ! میں عنقریب نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پا سکوں گا۔ کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتا ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبیﷺ کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا : '' اے لوگو ! تم (ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے والے ہو (دیکھو ؟) جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (ہر رکن کے ادا کرنے میں) تخفیف کرے، اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی اور کمزور بھی ہیں اور ضروریات والے بھی۔ ''
(۸۰)۔ سیدنا زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک شخص نے گری پڑی (لا وارث) چیز کا حکم پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: '' اس کی بندش کو پہچان لے۔ ''یا یہ فرمایا : '' اس کے ظرف کو اور اس کو تھیلی کو (پہچان لے) پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے (یعنی اس کے اصل مالک کو تلاش کرے) پھر اس کے بعد (اگر کوئی مالک اس کا نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھا لے اور اگر اس کا مالک (سال بعد بھی) آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے۔ '' پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ (اگر ملے تو اس کو کیا کیا جائے) ؟تو آپﷺ غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا (راوی نے کہا کہ) آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپﷺ فرمایا : '' تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب ؟ اس کی مشک اور اس کا پاپوش اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچے گا (تو پانی پی لے گا) اور درخت (کے پتے) کھا لے گا، لہٰذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔ '' پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری (کا پکڑ لینا کیسا ہے) ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : '' (اس کو پکڑ لو کیونکہ وہ) تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا (اگر کسی کے ہاتھ نہ لگی تو) پھر بھیڑیے کی۔ ''
(۸۱)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبیﷺ سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے خلاف مزاج تھیں۔ (تو آپﷺ نے کچھ جواب نہ دیا مگر) جب (ان سوالات کی) آپ کے سامنے بھر مار کر دی گئی تو آپ کو غصہ آگیا اور آپﷺ نے فرمایا : '' جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ '' تو ایک شخص نے کہا کہ میرا باپ کون ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : '' تیرا باپ حذافہ ہے۔ '' پھر دوسرا شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : '' تیرا باپ سالم ہے، شیبہ کا غلام۔ '' پھر جب عمرؓ نے آپﷺ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم اللہ بزرگ وبرترسے توبہ کرتے ہیں (یعنی اب کبھی اس قسم کے سوالات آپﷺ سے نہ کریں گے) ۔
(۷۹) ۔ سیدنا ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (آ کر) کہا کہ یا رسول اللہ ! میں عنقریب نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پا سکوں گا۔ کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتا ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبیﷺ کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا : '' اے لوگو ! تم (ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے) نفرت دلانے والے ہو (دیکھو ؟) جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (ہر رکن کے ادا کرنے میں) تخفیف کرے، اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی اور کمزور بھی ہیں اور ضروریات والے بھی۔ ''
(۸۰)۔ سیدنا زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک شخص نے گری پڑی (لا وارث) چیز کا حکم پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: '' اس کی بندش کو پہچان لے۔ ''یا یہ فرمایا : '' اس کے ظرف کو اور اس کو تھیلی کو (پہچان لے) پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے (یعنی اس کے اصل مالک کو تلاش کرے) پھر اس کے بعد (اگر کوئی مالک اس کا نہ ملے تو) اس سے فائدہ اٹھا لے اور اگر اس کا مالک (سال بعد بھی) آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے۔ '' پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ (اگر ملے تو اس کو کیا کیا جائے) ؟تو آپﷺ غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا (راوی نے کہا کہ) آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپﷺ فرمایا : '' تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب ؟ اس کی مشک اور اس کا پاپوش اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچے گا (تو پانی پی لے گا) اور درخت (کے پتے) کھا لے گا، لہٰذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔ '' پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری (کا پکڑ لینا کیسا ہے) ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : '' (اس کو پکڑ لو کیونکہ وہ) تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا (اگر کسی کے ہاتھ نہ لگی تو) پھر بھیڑیے کی۔ ''
(۸۱)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبیﷺ سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے خلاف مزاج تھیں۔ (تو آپﷺ نے کچھ جواب نہ دیا مگر) جب (ان سوالات کی) آپ کے سامنے بھر مار کر دی گئی تو آپ کو غصہ آگیا اور آپﷺ نے فرمایا : '' جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ '' تو ایک شخص نے کہا کہ میرا باپ کون ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : '' تیرا باپ حذافہ ہے۔ '' پھر دوسرا شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : '' تیرا باپ سالم ہے، شیبہ کا غلام۔ '' پھر جب عمرؓ نے آپﷺ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم اللہ بزرگ وبرترسے توبہ کرتے ہیں (یعنی اب کبھی اس قسم کے سوالات آپﷺ سے نہ کریں گے) ۔