Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : علم (کی باتوں) کا لکھنا (بدعت نہیں ہے)
(۹۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہﷺ اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب) وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ تو ڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کر ے) اور جس کسی کا کوئی (عزیز) قتل کیا جائے تو اسے (ان) دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔ '' اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھ دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : '' ابو فلاں کے لیے لکھ دو۔ '' پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) اذخر (گھاس) کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے) اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا ُ: '' (ہاں) اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے) ۔ ''
(۹۴)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا : '' میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تا کہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔ '' سیدنا عمر بن الخطابؓ نے کہا کہ نبیﷺ پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی نا ساز ہے) اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجو د ہے تو وہی ہمیں کا فی ہے۔ پھر صحابہؓ نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا : '' میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا) کر نے کا کیا کام ؟''
(۹۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہﷺ اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب) وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ تو ڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کر ے) اور جس کسی کا کوئی (عزیز) قتل کیا جائے تو اسے (ان) دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔ '' اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھ دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : '' ابو فلاں کے لیے لکھ دو۔ '' پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) اذخر (گھاس) کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے) اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا ُ: '' (ہاں) اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے) ۔ ''
(۹۴)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا : '' میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تا کہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔ '' سیدنا عمر بن الخطابؓ نے کہا کہ نبیﷺ پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی نا ساز ہے) اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجو د ہے تو وہی ہمیں کا فی ہے۔ پھر صحابہؓ نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا : '' میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا) کر نے کا کیا کام ؟''