• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح بخاری - زین العابدین احمد بن عبداللطیف - حصہ اول (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم (کی باتوں) کا لکھنا (بدعت نہیں ہے)
(۹۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : '' اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر) کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہﷺ اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب) وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ تو ڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کر ے) اور جس کسی کا کوئی (عزیز) قتل کیا جائے تو اسے (ان) دو صورتوں میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔ '' اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھ دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : '' ابو فلاں کے لیے لکھ دو۔ '' پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!) اذخر (گھاس) کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے) اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا ُ: '' (ہاں) اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے) ۔ ''

(۹۴)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا : '' میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تا کہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔ '' سیدنا عمر بن الخطابؓ نے کہا کہ نبیﷺ پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی نا ساز ہے) اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجو د ہے تو وہی ہمیں کا فی ہے۔ پھر صحابہؓ نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا : '' میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا) کر نے کا کیا کام ؟''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رات کے وقت تعلیم و تلقین (درست ہے)
(۹۵)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ ایک رات نبیﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ سبحان اللہ آج کی رات کس قدر فتنے نازل کیے گئے ہیں اور کس قدر خزانے کھولے گئے ہیں۔ (اے لوگو!) ان حجرہ والیوں کو جگا دو (کہ کچھ عبادت کریں) کیونکہ بہت سی دنیا میں پہننے والی ایسی ہیں جو (اعمال نہ ہو نے کے سبب) آخرت میں برہنہ ہوں گی۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :رات کو علم کی باتیں کرنا (نا جائز نہیں)
(۹۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (ایک مرتبہ) اپنی اخیر عمر مبارک میں عشاء کی نماز پڑھائی پھر جب سلام پھیر چکے تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا : '' تم اپنی اس رات کو اچھی طرح یاد رکھنا (دیکھو) آج کی رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے باقی نہ رہے گا۔ ''

(۹۷) ۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ ام المومنین میمونہ بنت حارث زوجۂ نبیﷺ کے گھر میں سویا اور نبیﷺ (اس دن) ان کی شب میں انھیں کے ہاں تھے۔ پس نبیﷺ نے عشاء کی نماز (مسجد میں) پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چادر رکعتیں پڑھیں اور سور ہے پھر بیدار ہوئے اور فرمایا : '' چھوٹا لڑکا سو گیا ؟ '' یا اسی کی مثل کوئی لفظ فرمایا پھر (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا اور پانچ رکعتیں پڑھیں اس کے بعد دو رکعتیں (سنت فجر) پڑھیں پھر سو رہے یہاں تک کہ آپﷺ کے خراٹے لینے کی آواز میں نے سنی پھر آپ نماز (فجر) کے لیے (مسجد تشریف لے گئے) ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم (کی باتوں) کا یاد کرنا (نہایت ضروری ہے)
(۹۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے بہت سی حدیثیں یاد و بیان کیں اور اگر کتاب اللہ میں (یہ) دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک حدیث بھی نہ بیان کر تا، پھر پڑھتے تھے '' جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔ ۔ ۔ رحم و کرم کرنے والا ہوں۔ '' (البقرہ :۱۵۹، ۱۶۰) بیشک ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خریدو فروخت کرنے کا شغل رہتا تھا اور ہمارے انصاری بھائی اپنے مال کے کام میں مشغول رہے تھے اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) اپنا پیٹ بھر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور ایسے اوقات میں حاضر رہتا تھا کہ لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کر لیتا تھا جو وہ لوگ نہ یاد کرتے تھے۔

(۹۹) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں مگر انھیں بھول جاتا ہوں، تو آپ نے فرمایا : '' اپنی چادر پھیلاؤ۔ '' چنانچہ میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بنایا (اور ایک فرضی لپ اس چادر میں ڈال دی) پھر فرمایا : '' (اس چادر کو) اپنے اوپر لپیٹ لو۔ '' چنانچہ میں نے لپیٹ لی پھر اسکے بعد میں کچھ نہیں بھولا۔

(۱۰۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دو ظرف (علم کے، دو طرح کے علم) یا د کر لیے ہیں چنانچہ ان میں سے ایک تو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو اگر ظاہر کروں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :علماء (کی باتیں سننے) کے لیے چپ رہنا (چاہیے)
(۱۰۱)۔ سیدنا جریرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا : '' تم لوگوں کو چپ کر دو۔ '' (جب لوگ خاموش ہو گئے تو) اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : '' (اے لوگو !) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کو گردن زدنی کرنے لگے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :عالم کو کیا چاہیے کہ جب کہ اس سے پوچھا جائے کہ تم لوگوں میں زیادہ جاننے والا (عالم) کون ہے ؟ تو وہ علم کی نسبت اللہ کی طرف کر دے
(۱۰۲)۔ سیدنا ابی بن کعبؓ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے، آپﷺ فرماتے ہیں : '' موسیٰؑ (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی ؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰؑ کہنے لگے اے میرے پروردگار ! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰؑ چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ ؑاور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ ؑجب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی) ۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰؑ کے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لو ٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا) بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰؑ نے انھیں سلام کیا تو خضرؑ نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں) موسیٰ (علیہ السلام) ہوں۔ خضرؑ نے کہا بنی اسرئیل کے موسیٰ ؟ (علیہ السلام) انھوں نے کہا ''ہاں '' موسیٰؑ نے کہا کیا میں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھادو ؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہر گز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰؑ نے کہا ان شاء اللہ تم مجھے صبر کر نے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضرؑ راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کر ایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا ء میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰؑ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تا کہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا '' کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کرسکو گے۔ '' موسیٰؑ نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجیے نبیﷺ نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰؑ سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ایک بے گناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا : کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہر گز صبر نہ کرسکو گے ؟'' ابن عینیہ (راویِ حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت) اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰؑ نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبیﷺ نے (اس قدر بیان فرما کر) ارشاد فرمایا : '' اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰؑ صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :جس شخص نے کھڑے ہو کر کسی بیٹھے ہوئے عالم سے (کوئی مسئلہ) دریافت کیا
(۱۰۳)۔ سیدنا ابو موسیٰؑ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے ؟ اس لیے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب سے لڑتا ہے اور کوئی (ذاتی وگر وہی) حمیت کی خاطر جنگ کرتا ہے۔ پس آپﷺ نے اپنا سر (مبارک) اس کی طرف (متوجہ ہونے کے لیے) اٹھایا اور (راوی کہتا ہے کہ) آپﷺ نے سر اسی سبب سے اٹھایا چونکہ وہ کھڑا ہو ا تھا، پھر آپﷺ نے فرمایا : '' جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے (اور اس کا بول بالا ہو) تو وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :اللہ تعالیٰ کا فرمان '' اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔ '' (بنی اسرائیل : ۷۵)
(۱۰۴) ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی ایک چھڑی کو (زمین) پر ٹکا کر چل رہے تھے کہ اتنے میں یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے آپﷺ گزرے، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپﷺ سے روح کی بابت سوال کرو۔ اس پر بعض نے کہا کہ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ اس کے جواب میں آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار لگے۔ پھر بعض نے کہا کہ ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا کہ اور کہنے لگا کہ اے ابو القاسم ! روح کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے سکوت فرمایا۔ (ابن مسعودؓ کہتے ہیں) میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں کھڑا ہو گیا۔ پھر جب وہ کیفیت آپﷺ سے دور ہوئی تو آپ نے فرمایا : '' اور یہ لوگ آپ (ﷺ) سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، تو آپ انھیں جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔ ''
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :اس بات کو برا سمجھ کر کہ وہ لوگ نہ سمجھیں گے جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لیے مخصوص کر لیا۔
(۱۰۵)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے اس حال میں کہ سیدنا معاذؓ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمایا : '' اے معاذ بن جبل !'' انھوں نے عرض کی حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ ! اور مستعد ہوں۔ (پھر) آپﷺ نے فرمایا کہ '' اے معاذ''! انھوں نے عرض کی حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ اور مستعد ہوں۔ (پھر) آپ نے فرمایا : '' اے معاذ !'' انھوں نے عرض کی کہ حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ اور مستعد ہوں۔ '' تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) پھر آپﷺ نے فرمایا : '' جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں '' تو اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ '' معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کر دوں تاکہ وہ (بھی) خوش ہو جائیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : '' اس وقت (جب تم ان کو خبر کرو گے) تو لوگ (اسی پر) بھروسہ کر لیں گے (اور عمل سے باز رہیں گے) ۔ '' اور معاذؓ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت (علم کو چھپانے کے) گناہ خوف سے بیان کر دی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :علم میں شرما نا (بری بات ہے)
(۱۰۶)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ ام سلیم، رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ! اللہ حق بات سے نہیں شرماتا تو (یہ بتائیے کہ) کیا عورت پر جبکہ وہ محتلم ہو غسل (فرض) ہے ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا (ہاں) جب کہ وہ پانی (یعنی منی) کو (اپنے کپڑے یا شرمگاہ پر) دیکھے تو ام سلمہؓ نے (مارے شرم کے) اپنا منہ چھپا لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں تمہارا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو جائے (اگر عورت کی منی نہیں خارج ہوتی) تو اس کا لڑکا اس کے مشابہ کیوں ہوتا ہے ؟
 
Top