بَابُ مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
نماز میں کلام کاممنوع ہونا ثابت ہے
(624) عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ وَ هُوَ فِي الصَّلاَةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا وَ قَالَ إِنَّ فِي الصَّلاَةِ شُغْلاً *
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کو سلام کیا کرتے تھے حالانکہ آپ ﷺ نماز میں ہوتے تھے اور آپ ﷺ ہمیں جواب بھی دے دیا کرتے تھے۔ پھر جب ہم نجاشی (بادشاہ حبش) کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپ ﷺ کو نماز میں سلام کیا، تو آپ ﷺ نے ہمیں جواب نہ دیا اور نماز مکمل کرنے کے بعد فرمایا:”نماز میں (اللہ کے ساتھ ) مشغولیت ہوتی ہے ۔”اس لیے نماز میں اور کسی طرف مشغول نہ ہونا چاہیے)
(625) وَ فِي رِوَايَةٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ { حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَ قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ } فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ *
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں رسول اللہ ﷺ کے عہد میں پہلے کلام کیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کوئی شخص اپنی ضرورت اپنے پاس والے سے کہہ دیا کرتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :
“اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص کر درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو۔”(سورئہ بقرہ : ۲۳۸)
پس ہمیں نماز میں سکوت کا حکم دے دیا گیا ۔