• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کی فضیلت کا بیان۔
1692: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ، ان پر گناہ نہیں اس کا جو کھا چکے ..." آخر تک، تو رسول اللہﷺ نے مجھ سے کہا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ تو ان لوگوں میں سے ہے (یعنی ایمان والوں اور نیک اعمال والوں میں سے )۔

1693: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرا بھائی دونوں یمن سے آئے تو ایک زمانے تک ہم عبد اللہ بن مسعود اور ان کی والدہ کو رسول اللہﷺ کے اہل بیت میں سے سمجھتے تھے۔ کیونکہ وہ آپﷺ کے پاس بہت جاتے اور آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔

1694: ابو الاحوص کہتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰؓ کے گھر میں تھے اور وہاں سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کے کئی ساتھی تھے اور ایک قرآن مجید دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں سیدنا عبد اللہؓ کھڑے ہوئے۔ابو مسعود نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہﷺ نے اپنے بعد قرآن کا جاننے والا اس شخص سے زیادہ کوئی چھوڑا ہو جو کھڑا ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ نے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو (توصحیح ہے ) اور ان کا یہ حال تھا کہ جب ہم غائب ہوتے تو یہ حاضر رہتے اور جب ہم روکے جاتے تو ان کو (رسول اللہ کے پاس جانے کی) اجازت ملتی۔

1695: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ "اور جو کوئی چیز چھپا رکھے گا، وہ اس کو قیامت کے دن لائے گا"(آلِ عمران:161) پھر کہا کہ تم مجھے کس شخص کی قرأت کی طرح قرآن پڑھنے کا حکم کرتے ہو؟ میں نے تو رسول اللہﷺ کے سامنے ستر سے زیادہ سورتیں پڑھیں اور رسول اللہﷺ کے اصحاب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سب میں اللہ کی کتاب کو زیادہ جانتا ہوں اور اگر میں جانتا کہ کوئی مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کو جانتا ہے تو میں اس شخص کی طرف سفر اختیار کرتا۔ شفیق نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کے اصحاب کے حلقوں میں بیٹھا ہوں، میں نے کسی کو سیدنا عبد اللہؓ کی اس بات کو رد کرتے یا ان پر عیب لگاتے نہیں سنا۔

1696: مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کے پاس تھے کہ ہم نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس سے میں (اس وقت سے ) محبت کرتا ہوں جب سے میں نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے۔ میں نے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ تم قرآن چار آدمیوں سے سیکھو۔ ایک اُمّ عبد کے بیٹے (یعنی سیدنا عبد اللہ بن مسعود) سے اور آپﷺ نے ان ہی سے شروع کیا اور ابی بن کعب سے اور سالم مولیٰ ابو حذیفہ سے اور معاذ بن جبل ث سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن حرامؓ کی فضیلت کا بیان۔
1697: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میرا باپ احد کے دن شہید ہوا تو میں اس کے منہ سے کپڑا اٹھاتا تھا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے منع کرتے تھے اور رسول اللہﷺ منع نہ کرتے تھے۔ اور عمرو کی بیٹی فاطمہ (یعنی میری پھوپھی) وہ بھی اس پر رو رہی تھی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو روئے یا نہ روئے ، تمہارے اسے اٹھانے تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا عبد اللہ بن سلامؓ کی فضیلت کا بیان۔
1698: سیدنا عامر بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والدؓ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کسی زندہ شخص کے لئے جو چلتا پھرتا ہو، یہ نہیں سنا کہ وہ جنت میں ہے مگر عبد اللہ بن سلامؓ کے لئے۔ (یہ ان کی اپنی معلومات ہیں ورنہ بہت سے صحابہ کرام ث کو جنت کی خوشخبری ملی ہے مثلاً عشرہ مبشرہ وغیرہ)۔

1699: خرشہ بن حر کہتے ہیں کہ میں مدینہ کی مسجد میں ایک حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، ایک خوبصورت بوڑھا بھی وہاں تھا، معلوم ہوا کہ وہ عبد اللہ بن سلامؓ ہیں۔ وہ لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کر رہے تھے۔ جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے ، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے ! تجھے کیا کام ہے ؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے ، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہاتو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہﷺ کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے ، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون، اسلام کا ستون ہے اور حلقہ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا۔ (اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے ، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
1700: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اور اس وقت سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ سامنے رکھا تھا، کہ ان کے واسطے پروردگار کا عرش جھوم گیا۔

1701: سیدنا براءؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا۔ تو آپﷺ کے صحابہ اس کو چھونے لگے اور اس کی نرمی سے تعجب کرنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس کی نرمی سے تعجب کرتے ہو؟ البتہ سعد بن معاذؓ کے رومال جنت میں اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو طلحہ انصاری اور ان کی زوجہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔
1702: سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو طلحہؓ کا ایک بیٹا جو سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا، فوت ہو گیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں خود نہ کہوں ابو طلحہ کو ان کے بیٹے کی خبر نہ کرنا۔ آخر سیدنا ابو طلحہؓ آئے تو سیدہ اُمّ سلیم شام کا کھانا سامنے لائیں۔ انہوں نے کھایا اور پیا پھر اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے ان کے لئے اچھی طرح بناؤ اور سنگھار کیا یہاں تک کہ انہوں نے ان سے جماع کیا۔ جب اُمّ سلیم نے دیکھا کہ وہ سیر ہو چکے اور ان کے ساتھ صحبت بھی کر چکے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ اے ابو طلحہ! اگر کچھ لوگ اپنی چیز کسی گھر والوں کو مانگے پر دیں، پھر اپنی چیز مانگیں تو کیا گھر والے اس کو روک سکتے ہیں؟ سیدنا ابو طلحہؓ نے کہا کہ نہیں روک سکتے۔ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اپنے بیٹے کے عوض اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو (کیونکہ بیٹا تو فوت ہو چکا تھا)۔ یہ سن کر ابو طلحہ غصے ہوئے اور کہنے لگے کہ تم نے مجھے چھوڑے رکھا یہاں تک کہ میں تمہارے ساتھ آلودہ ہوا (یعنی جماع کیا) تو اب مجھے بیٹے کے متعلق خبر دے رہی ہو۔ وہ گئے اور رسول اللہﷺ کے پاس جا کر آپﷺ کو خبر کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گزری ہوئی رات میں تمہیں برکت دے۔ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہو گئیں۔ کہتے ہیں رسول اللہﷺ سفر میں تھے اُمّ سلیم بھی آپﷺ کے ساتھ تھیں اور آپﷺ جب سفر سے مدینہ میں تشریف لاتے تو رات کو مدینہ میں داخل نہ ہوتے جب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو اُمّ سلیم کو دردِ زہ شروع ہوا اور ابو طلحہ ان کے پاس ٹھہرے رہے اور رسول اللہﷺ تشریف لے گئے۔ ابو طلحہ کہتے ہیں کہ اے پروردگار! تو جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب تیرا رسولﷺ نکلے تو ساتھ میں بھی نکلوں اور جب مدینہ میں واپس داخل ہو تو میں بھی ساتھ داخل ہوں، لیکن تو جانتا ہے میں جس وجہ سے رک گیا ہوں۔ اُمّ سلیم نے کہا کہ اے ابو طلحہ! اب میرے ویسا درد نہیں ہے جیسے پہلے تھا تو چلو۔ ہم چلے جب دونوں مدینہ میں آئے تو پھر اُمّ سلیم کو درد شروع ہوا اور انہوں نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ میری ماں نے کہا کہ اے انس! اس کو کوئی اس وقت تک دودھ نہ پلائے جب تک تو صبح کو اس کو رسول اللہﷺ کے پاس نہ لے جائے۔ جب صبح ہوئی تو میں نے بچہ کو اٹھایا اور رسول اللہﷺ کے پاس لایا میں آپ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آپﷺ کے ہاتھ میں اونٹوں کے داغنے کا آلہ ہے۔ آپﷺ نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا کہ شاید اُمّ سلیم نے لڑکے کو جنم دیا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپﷺ نے وہ آلہ ہاتھ مبارک سے رکھ دیا اور میں بچہ کو لا کر آپﷺ کی گود میں بٹھا دیا۔ آپﷺ نے عجوہ کھجور مدینہ کی منگوائی اور اپنے منہ مبارک میں چبائی، جب وہ گھل گئی تو بچہ کے منہ میں ڈال دی بچہ اس کو چوسنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا کہ دیکھو انصار کو کھجور سے کیسی محبت ہے۔ پھر آپﷺ نے اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کا نام عبد اللہ رکھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابی بن کعبؓ کی فضیلت کا بیان۔
1703: سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں چار شخصوں نے قرآن کو جمع کیا اور وہ چاروں انصاری تھے۔ سیدنا معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور ابو زید ث۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے سیدنا انسؓ سے کہا کہ ابو زید کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے چچاؤں میں سے ایک تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو ذر غفاریؓ کی فضیلت کا بیان۔
1704: سیدنا عبد اللہ بن صامت کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ میں، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے ) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے ) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے ، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلے ، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابو ذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! میں نے رسول اللہﷺ کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے ؟ سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے ، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لئے کہ طاقت ور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے )، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بے دین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (جب تو صابی کا پوچھتا ہے ) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے ! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا)۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے ) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے )، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے )۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے ) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہﷺ اور سیدنا ابو بکرؓ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔ اور رسول اللہﷺ تشریف لائے ، یہاں تک حجر اسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ اوّل میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ و علیک و رحمۃ اللہ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے ؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپﷺ نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے ) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپﷺ کو یہ کہنا بُرا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپﷺ کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپﷺ کے ساتھی (سیدنا ابو بکر ص) نے جومجھ سے زیادہ آپﷺ کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپﷺ نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے۔ پھر رسول اللہﷺ چلے اور سیدنا ابو بکرؓ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا، اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔(یثرب مدینہ کا نام تھا)، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے ، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے ، پھر رسول اللہﷺ مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ)اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے (قتل اور قید سے ) بچا دیا۔

1705: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابو ذرؓ کو رسول اللہﷺ کے مکہ میں مبعوث ہونے کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ سوار ہو کر اس وادی کو جا اور اس شخص کو دیکھ کر آ جو کہتا ہے مجھے آسمان سے خبر آتی ہے ، ان کی بات سن پھر میرے پاس آ۔ وہ روانہ ہوا، یہاں تک کہ مکہ میں آیا اور آپﷺ کا کلام سنا، پھر سیدنا ابو ذرؓ کے پاس لوٹ کر گیا اور بولا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا، وہ اچھی خصلتوں کا حکم کرتا ہے اور ایک کلام سناتا ہے جو شعر نہیں ہے۔ سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ مجھے اُس سے تسلی نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے خود زادِ راہ لیا اور پانی کی ایک مشک لی یہاں تک کہ مکہ میں آئے اور مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ وہاں رسول اللہﷺ کو ڈھونڈا اور وہ آپﷺ کو پہچانتے نہ تھے اور انہوں نے پوچھنا بھی مناسب نہ جانا، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور وہ لیٹ رہے۔ سیدنا علیؓ نے ان کو دیکھا اور پہچانا کہ کوئی مسافر ہے پھر ان کے پیچھے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہیں کی یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ پھر وہ اپنا توشہ اور مشک مسجد میں اٹھا لائے اور سارا دن وہاں رہے اور رسول اللہﷺ کو شام تک نہ دیکھا۔ پھر وہ اپنے سونے کی جگہ میں چلے گئے۔ وہاں سے سیدنا علیؓ گزرے اور کہا کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اس شخص کو اپنا ٹھکانہ معلوم ہو۔ پھر ان کو کھڑا کیا اور ان کو ساتھ لے گئے لیکن کسی نے دوسرے سے بات نہ کی۔ پھر تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اور سیدنا علیؓ نے ان کو اپنے ساتھ کھڑا کیا، پھر کہا کہ تم مجھ سے وہ بات کیوں نہیں کہتے جس کے لئے تم اس شہر میں آئے ہو؟ سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے عہد اور وعدہ کرتے ہو کہ راہ بتلاؤ گے تو میں بتاتا ہوں۔ سیدنا علیؓ نے وعدہ کیا تو انہوں نے بتایا۔ سیدنا علیؓ نے کہا کہ وہ شخص سچے ہیں اور وہ بیشک اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تم صبح کو میرے ساتھ چلنا، اگر میں کوئی خوف کی بات دیکھوں گا جس میں تمہاری جان کا ڈر ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا جیسے کوئی پانی بہاتا ہے (یعنی پیشاب کا بہانہ کروں گا) اور اگر چلا جاؤں تو تم بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آنا۔ جہاں میں گھسوں وہاں تم بھی گھس آنا۔ سیدنا ابو ذرؓ نے ایسا ہی کیا اور ان کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ سیدنا علیؓ رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے اور سیدنا ابو ذرؓ بھی ان کے ساتھ پہنچے۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ نے آپﷺ کی باتیں سنیں اور اسی جگہ مسلمان ہوئے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اپنی قوم کے پاس جا اور ان کو دین کی خبر کر یہاں تک کہ میرا حکم تجھے پہنچے۔ سیدنا ابو ذرؓ نے کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تو یہ بات (یعنی دین قبول کرنے کی) مکہ والوں کو پکار کر سنادوں گا۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ نکل کر مسجد میں آئے اور چلا کر بولے کہ "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور محمدﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں"۔ لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور ان کو مارتے مارتے لٹا دیا۔ سیدنا عباسؓ وہاں آئے اور سیدنا ابو ذرؓ پر جھکے اور لوگوں سے کہا کہ تمہاری خرابی ہو، تم نہیں جانتے کہ یہ شخص (قومِ) غفار کا ہے اور تمہارا سوداگری کا راستہ شام کی طرف (قومِ) غفار کے ملک پر سے ہے (تو وہ تمہاری تجارت بند کر دیں گے )۔ پھر سیدنا ابو ذرؓ کو ان لوگوں سے چھڑا لیا۔ سیدنا ابو ذرؓ نے دوسرے دن پھر ویسا ہی کیا اور لوگ دوڑے اور مارا اور سیدنا عباسؓ آئے اور انہیں چھڑا لیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کی فضیلت کا بیان۔
1706: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس تھا اور آپﷺ اس وقت مکہ اور مدینہ کے درمیان (مقامِ) جعرانہ میں تھے اور آپﷺ کے ساتھ سیدنا بلالؓ تھے پس رسول اللہﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ خوش ہو جا۔ وہ بولا کہ آپ بہت فرماتے ہیں کہ خوش ہو جا۔ پھر آپﷺ سیدنا ابو موسیٰ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کی طرف غصے کی حالت میں متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اس نے خوشخبری کو رد کیا اور تم قبول کرو۔ دونوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم نے قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھوئے اور اس میں لعاب دہن ڈال کر دونوں سے کہا کہ اس پانی کو پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لے کر ایسا ہی کیا۔ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پردہ کی آڑ سے آواز دی کہ برتن میں سے اپنی ماں کے لئے بھی کچھ پانی بچا لاؤ۔پس ان دونوں نے اس برتن میں کچھ پانی ان کے لئے بچا دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو موسیٰ اور ابو عامر اشعری رضی اللہ عنہما کی فضیلت کا بیان۔
1707: سیدنا ابو بردہ اپنے والد سیدنا ابو موسیٰؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابو عامرؓ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابو موسیٰؓ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہﷺ نے سیدنا ابو عامرؓ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابو عامرؓ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بے حیا! کیا تو عرب نہیں ہے ؟ ٹھہرتا نہیں ہے ؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابو عامرؓ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابو عامرؓ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابو عامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! تو رسول اللہﷺ کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابو عامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ نے کہا کہ ابو عامرؓ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے ، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا (صحیح روایت یہ ہے کہ فرش نہ تھا) اور بان کا نشان آپﷺ کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابو عامر نے آپﷺ سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہﷺ نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبیدابو عامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابو عامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! عبد اللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابو بردہؓ نے کہا کہ ایک دعا ابو عامر کے لئے کی اور ایک دعا ابو موسیٰ کے لئے کی۔ رضی اللہ عنہما۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو ہریرہ دوسیؓ کی فضیلت کا بیان۔
1708: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہﷺ کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپﷺ کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دیدے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے۔ میں رسول اللہﷺ کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہرا رہ۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابو ہریرہ! "میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں"۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی دعا قبول کی اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت کی تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ عزوجل سے دعا کیجئے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابو ہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے مجھے سنا ہو یا دیکھا ہو مگر اس نے مجھ سے محبت رکھی۔

1709: عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم ابو ہریرہ پر تعجب نہیں کرتے ؟ وہ آئے اور میرے حجرے کے ایک طرف بیٹھ کر رسول اللہﷺ سے حدیث بیان کرنے لگے میں سن رہی تھی لیکن میں نفل پڑھ رہی تھی اور وہ میرے فارغ ہونے سے پہلے چل دئیے۔ﷺ گر میں ان کو پاتی تو ان کا رد کرتی، کیونکہ رسول اللہﷺ اس طرح سے جلدی جلدی باتیں نہیں کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو۔
ابن شہاب نے ابن مسیب سے کہا کہ بیشک سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ نے بہت حدیثیں بیان کیں اور اللہ تعالیٰ جانچنے والا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین اور انصار ابو ہریرہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے ؟ عنقریب میں تم سے اس کا سبب بیان کرتاہوں۔ میرے انصاری بھائی جو تھے وہ اپنی زمین کی خدمت میں مشغول رہتے اور جو مہاجرین تھے ، وہ بازار کے معاملوں میں اور میں اپنآپیٹ بھر کر رسول اللہﷺ کے ساتھ رہتا۔ پس میں حاضر رہتا اور وہ غائب رہتے اور میں یاد رکھتا اور وہ بھول جاتے اور رسول اللہﷺ نے ایک دن فرمایا کہ تم میں سے کو ن اپنا کپڑا بچھاتا ہے اور میری حدیث سن کر پھر اس کو اپنے سینے سے لگائے تو جو بات سنے گا وہ نہ بھولے گا؟ میں نے اپنی چادر بچھا دی یہاں تک کہ آپﷺ حدیث سے فارغ ہوئے۔ پھر میں نے اس چادر کو سینے سے لگا لیا۔ اس دن سے میں کسی بات کو جو کہ آپﷺ نے بیان کی، نہیں بھولا اور اگر یہ دو آیتیں نہ ہوتیں جو کہ قرآن مجید میں اتری ہیں تو میں کسی سے کوئی حدیث بیان نہ کرتا کہ "جو لوگ چھپاتے ہیں جو ہم نے نشانیاں اتاریں اور ہدایت کی باتیں، توا ن پر لعنت ہے ......" آخر تک۔
 
Top