• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو دجانہ سماک بن خرشہؓ کی فضیلت کا بیان۔
1710: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اُحد کے دن تلوار پکڑی اور فرمایا کہ یہ مجھ سے کون لیتا ہے ؟ لوگوں نے ہاتھ پھیلائے اور ہر ایک کہتا تھا کہ میں لوں گا میں لوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا؟ یہ سنتے ہی لوگ پیچھے ہٹے (کیونکہ احد کے دن کافروں کا غلبہ تھا) سیدنا سماک بن خرشہ ابو دجانہؓ نے کہا کہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔پھر انہوں نے اس کو لے لیا اور مشرکوں کے سر اس تلوار سے چیرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا ابو سفیان صخر بن حربؓ کی فضیلت کا بیان۔
1711: ابو زمیل کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عباسؓ نے بیان کیا اور کہا کہ مسلمان ابو سفیان کی طرف دھیان نہ کرتے تھے اور نہ اس کے ساتھ بیٹھتے تھے (کیونکہ ابو سفیان کئی مرتبہ نبیﷺ سے لڑا تھا اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا)۔ ایک بار وہ رسول اللہﷺ سے بولا کہ اے نبی اللہﷺ! تین باتیں مجھے عطا فرمائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ ابو سفیان نے کہا کہ میرے پاس وہ عورت ہے کہ تمام عربوں میں حسین اور خوبصورت ہے ، اُمّ حبیبہ میری بیٹی، میں اس کا نکاح آپﷺ سے کر دیتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اچھا۔ دوسری یہ کہ میرے بیٹے معاویہؓ کو اپنا منشی بنائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ تیسرے مجھ کو کافروں سے لڑنے کا حکم دیجئے (جیسے اسلام سے پہلے ) مسلمانوں سے لڑتا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا۔ ابو زمیل نے کہا کہ اگر وہ ان باتوں کا سوال آپﷺ سے نہ کرتے تو آپﷺ نہ دیتے اس لئے کہ (آپﷺ کی عادت تھی) کہ جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا تو آپﷺ ہاں ہی کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا جلیبیبؓ کی فضیلت کا بیان۔
1712: سیدنا ابو برزہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک جہاد میں تھے ، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو (فتح کے ساتھ) مال غنیمت دیا۔ آپﷺ نے اپنے لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی غائب تو نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپﷺ نے پوچھا کہ کوئی اور تو غائب نہیں ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں فلاں فلاں شخص غائب ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اور تو کوئی غائب نہیں ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں جلیبیبؓ کو نہیں دیکھتا۔ لوگوں نے ان کو مُردوں میں ڈھونڈا تو ان کی لاش سات لاشوں کے پاس پائی گئی جن کو سیدنا جلیبیب نے مارا تھا۔ وہ سات کو مار کر شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ ان کے پاس آئے اور وہاں کھڑے ہو کر پھر فرمایا کہ اس نے سات آدمیوں کو مارا، اس کے بعد خود مارا گیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ پھر آپﷺ نے اس کو اپنے دونوں ہاتھوں پر رکھا اور صرف آپﷺ کے ہاتھ ہی اس کی چارپائی تھے۔ اس کے بعد قبر کھدوا کر اس میں رکھ دیا۔ اور راوی نے غسل کا بیان نہیں کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا حسان بن ثابتؓ کی فضیلت کا بیان۔
1713: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ سیدنا حسانؓ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے (معلوم ہوا کہ اشعار جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہو مسجد میں پڑھنا درست ہے )۔ سیدنا عمرؓ نے ان کی طرف (غصہ سے ) دیکھا۔ سیدنا حسانؓ نے کہا کہ میں تو مسجد میں (اس وقت بھی) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص (یعنی نبیﷺ) موجود تھے۔ پھر سیدنا ابو ہریرہؓ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہﷺ سے سناہے ؟ آپﷺ فرماتے تھے کہ اے حسان! میری طرف سے جواب دے ، اے اللہ اس کی روح القدس (جبریل ں) سے مدد کر۔ سیدنا ابو ہریرہؓ نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یا اللہ تو جانتا ہے۔

1714: سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ سیدنا حسان بن ثابتؓ سے فرماتے تھے کہ (کافروں کی) ہجو کر اور جبرئیل تیرے ساتھ ہیں۔ (کسی کی برائی بیان کرنے کو ہجو کہتے ہیں)۔

1715: مسروق کہتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابتؓ بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی۔ وہ شعر یہ ہے کہ: "پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے " (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے )۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسانؓ سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے )۔ مسروق نے کہا کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حسانؓ کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ "وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگانے ) کا بیڑا اٹھایا اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابتؓ ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی۔ پھر آپﷺ نے ان کو حد لگائی) اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرف سے کافروں کی جوابدہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا۔(اس لئے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں)۔

1716: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔پھر آپﷺ نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہؓ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپﷺ کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالکؓ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابتؓ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آگیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دُم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدانِ فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابو بکرؓ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابو بکرؓ کے پاس آئے ، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! سیدنا ابو بکرؓ نے آپﷺ کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے ، قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپﷺ کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفا دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا۔ حسان نے کہا کہ #
تو نے محمدﷺ کی بُرائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔
تو نے محمدﷺ کی بُرائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے۔
میرے باپ دادا اور میری آبرو محمدﷺ کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں۔
اگر کداء (مکہ کے دروازہ پر گھاٹی ) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں۔
ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، انکے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں
اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے ، انکے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں۔
اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔
نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے ، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں کچھ شبہ نہیں ہے۔
ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔
تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسولﷺ کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں۔
جبرائیل اللہ کے رسول ہم میں ہیں اور روح القدس جن کا کوئی مثل نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلیؓ کی فضیلت کا بیان۔
1717: سیدنا جریرؓ کہتے ہیں کہ جب سے میں مسلمان ہوا ہوں رسول اللہﷺ نے مجھے کبھیاندر آنے سے نہیں روکا، اور مجھے کبھی نہیں دیکھا مگر آپﷺ اپنے چہرے پر مسکراہٹ لئے ہوئے ہوتے تھے (یعنی خندہ روئی اور کشادہ پیشانی سے ملتے تھے )۔

1718: سیدنا جریرؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے فرمایا کہ اے جریر! تو مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں دیتا؟ اور ذوالخلصہ (قبیلہ) خثعم کا ایک بت خانہ تھا اس کو کعبہ یمانی بھی کہتے تھے۔ سیدنا جریرؓ نے کہا کہ میں ڈیڑھ سو سوار لے کر وہاں گیا اورمیں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے یہ بیان کیا تو آپﷺ نے اپناہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا کہ اے اللہ اس کو جما دے اور اس کو راہ دکھانے والا، راہ پایا ہوا کر دے۔ پھر سیدنا جریرؓ گئے اور ذوالخلصہ کو آگ سے جلا دیا۔ اس کے بعد ایک شخص جس کا نام ابو ارطاۃتھا خوشخبری کے لئے رسول اللہﷺ کے پاس روانہ کیا۔ وہ آپﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم ذوالخلصہ کو خارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آئے (خارشی اونٹ پر کالا روغن ملتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ بھی جل کر کالا ہو گیا تھا)۔ رسول اللہﷺ نے (قبیلہ) احمس کے گھوڑوں اور مَردوں کے لئے پانچ مرتبہ برکت کی دعا کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اصحابِ شجرہ ث کی فضیلت کا بیان۔
1719: سیدہ اُمّ مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے سنا، آپﷺ اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس فرماتے تھے کہ ان شاء اللہ اصحابِ شجرہ میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا۔ یعنی جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیوں نہ جائیں گے ؟ آپﷺ نے ان کو جھڑکا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "کوئی تم میں سے ایسا نہیں جو جہنم پر سے نہ جائے " (مریم: 71) پس نبیﷺ نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو ان کے گھٹنوں کے بل اس میں چھوڑ دیں گے " (مریم: 72)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شہدائے بدر کی فضیلت کا بیان۔
1720: سیدنا علیؓ نے کہا کہ ہمیں یعنی رسول اللہﷺ نے مجھے ، سیدنا زبیر صاور سیدنا مقدادؓ کو روضہ خاخ مقام پر بھیجا اور فرمایا کہ جاؤ اور وہاں تمہیں ایک عورت اونٹ پر سوار ملے گی، اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے کر آؤ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے اچانک وہ عورت ہمیں ملی تو ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ وہ بولی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ خط نکال یا اپنے کپڑے اتار۔ پس اس نے وہ خط اپنے جُوڑے سے نکالا۔ ہم وہ خط رسول اللہﷺ کے پاس لے کر آئے ، اس میں لکھا تھا حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے بعض مشرکین کے نام (اور اس میں) رسول اللہﷺ کی بعض باتوں کا ذکر تھا (ایک روایت میں ہے کہ حاطب نے اس میں رسول اللہﷺ کی تیاری اور فوج کی آمادگی اور مکہ کی روانگی سے کافروں کو مطلع کیا تھا) آپﷺ نے فرمایا کہ اے حاطب! تو نے یہ کیا کیا؟ وہ بولے کہ یا رسول اللہﷺ! آپ جلدی نہ فرمائیے (یعنی فوراً بولے کہ مجھے سزا نہ دیجئے میرا حال سن لیجئے )، میں قریش سے ملا ہوا ایک شخص تھا یعنی ان کا حلیف تھا اور قریش میں سے نہ تھا اور آپﷺ کے مہاجرین جو ہیں ان کے رشتہ دار قریش میں بہت ہیں جن کی وجہ سےﷺ ن کے گھر بارکا بچاؤ ہوتا ہے تو میں نے یہ چاہا کہ میرا ناتاتو قریش سے نہیں ہے ، میں بھی ان کا کوئی کام ایسا کر دوں جس سے میرے اہل و عیال والوں کا بچاؤ کریں گے اور میں نے یہ کام اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں کافر ہو گیا ہوں یا مرتد ہو گیا ہوں اور نہ مسلمان ہونے کے بعد کفر سے خوش ہو کر کیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا۔ سیدنا عمرؓ نے کہ کہ یا رسول اللہﷺ! آپ چھوڑئیے میں اس منافق کی گردن ماروں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ تو بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے بدر والوں کو جھانکا اور فرمایا کہ تم جو اعمال چاہو کرو (بشرطیکہ کفر تک نہ پہنچیں) میں نے تمہیں بخش دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ"۔ (الممتحنة: 1)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قریش، انصار اور ان کے علاوہ کی فضیلت کا بیان۔
1721: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قریش، انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار اور اشجع (سارے قبائل) دوست ہیں اور سوا اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسولﷺ کے ان کا کوئی حمایتی نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قریش کی عورتوں (کی فضیلت) کا بیان۔
1722: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے کہ قریش کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں جو اونٹوں پر سوار ہوئیں بچے پر سب سے زیادہ مہربان (جب وہ چھوٹا ہو) اور اپنے خاوند کے مال کی بڑی نگہبان ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) سیدنا ابو ہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ سیدہ مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا کبھی اونٹ پر نہیں چڑھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : انصار کے فضائل کا بیان۔
1723: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ یہ آیت کہ "جب تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہار دینے کا قصد کیا اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے " (آلِ عمران: 122) ہم لوگوں یعنی بنی سلمہ اور بنی حارثہ کے بارے میں اتری۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ آیت نہ اترتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اور اللہ ان دونوں کا دوست ہے "۔

1724: سیدنا زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو بخش دے اور انصار کے بیٹوں کو اور پوتوں کو (بھی معاف فرما دے )۔

1725: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے بچوں اور عورتوں کو شادی سے آتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ اے لوگو! تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ یعنی انصار کے لوگوں سے فرمایا۔

1725م: سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ انصار کی ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی تو آپﷺ نے اس سے تنہائی کی (شاید وہ محرم ہو گی جیسے اُمّ سلیم تھیں یا اُمّ حرام تھیں یا تنہائی سے مراد یہ ہے کہ اس نے علیحدہ سے کوئی بات آپﷺ سے پوچھی) اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم سب لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ تین بار یہ فرمایا۔

1726: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انصار کی بخشش کے لئے اور انصار کی اولاد اور ان کے غلاموں کے لئے بھی بحشش کی دعا کی۔

1727: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انصار میری انتڑیاں اور میری گٹھڑیاں ہیں (کپڑا رکھنے کی یعنی میرے خاص معتمد اور اعتباری لوگ ہیں)۔ اور لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے ، پس ان کی نیکی کو قبول کرو اور ان کی بُرائی سے درگزر کرو۔
 
Top