• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی۔
1839: طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے کئی صحابہ کو پایا وہ کہتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے یہاں تک کہ عاجزی اور دانائی بھی (یعنی بعض آدمی ہوشیار اور عقلمند ہوتے ہیں اور بعض بیوقوف اور کاہل ہوتے ہیں یہ بھی تقدیر سے ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : طاقت (کا مظاہرہ کرنے ) کا حکم اور (اپنے کو) عاجز ظاہر کرنے سے پرہیز کرنے کا حکم۔
1840: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن ضعیف مومن سے زیادہ اچھا اور محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور بھلائی ہے۔تم ان کاموں کی حرص کر جو تمہارے لئے مفید ہیں۔ (یعنی آخرت میں کام دیں) اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو اور جو تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا یا ایسا کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی، لیکن یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا اور اگر مگر کرنا شیطان کے لئے راہ کھولنا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پیدائش سے پہلے قدیر کا لکھا جانا۔
1841: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو آسمان اور زمین کے بنانے سے پچاس ہزار برس پہلے لکھا اور اس وقت اللہ تعالیٰ کاعرش پانی پر تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : تقدیر کے ثبوت میں اور سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ علیہما السلام کی آپس میں بحث کا بیان۔
1842: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدم اور موسیٰ علیہما السلام نے اپنے رب کے پاس بحث کی تو آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ تم وہی آدم ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، اپنی روح تم میں پھونکی اور تمہیں فرشتوں سے سجدہ کرایا (یعنی سلامی کا سجدہ نہ کہ عبادت کا اور سلامی کا سجدہ اس وقت جائز تھا اور ہمارے دین میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا) اور تمہیں اپنی جنت میں رہنے کو جگہ دی، پھر تم نے اپنی خطا کی وجہ سے لوگوں کو زمین پر اتار دیا۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم وہ موسیٰ ہو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغمبر کر کے اور کلام کر کے چن لیا اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے تورات شریف کی تختیاں دیں جن میں ہر بات کا بیان ہے اور تمہیں سرگوشی کے لئے اپنے نزدیک کیا اور تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات کو میرے پیدا ہونے سے کتنی مدت پہلے لکھا ہے ؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چالیس برس۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ تم نے تورات میں نہیں پڑھا کہ "آدم نے اپنے رب کے فرمان کے خلاف کیا اور بھٹک گیا"۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ کیوں نہیں میں نے پڑھا ہے۔ آدم علیہ السلام نے کہا کہ پھر تم مجھے اس کام کے کرنے پر ملامت کرتے ہو جو اللہ عزوجل نے میری تقدیر میں میرے پیدا ہونے سے چالیس برس پہلے لکھ دیا تھا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پس آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مقادیر کے سبقت لے جانے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ونفس و ما سواھا ...﴾ کی تفسیر کے بیان میں۔
1843: ابی الاسود دئلی کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمران بن حصینؓ نے کہا کہ تو کیا سمجھتا ہے کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اور مشقت اٹھا رہے ہیں، آیا وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی اگلی تقدیر کی رو سے یا آگے ہونے والی ہے رسول اللہﷺ کی حدیث سے اور حجت سے ؟ میں نے کہا کہ وہ بات فیصلہ پا چکی اور گزر گئی۔ عمران نے کہا کہ کیا یہ ظلم نہیں ہے ؟ (اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کی تقدیر میں جہنمی ہونا لکھ دیا تو پھر وہ اس کے خلاف کیونکر عمل کر سکتا ہے ) یہ سن کر میں بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ یہ ظلم اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہر ایک چیز اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اسی کی مِلک ہے ، اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا اور ان (لوگوں) سے پوچھا جائے گا۔ عمران نے کہا کہ اللہ تجھ پر رحم کرے ، میں نے یہ اس لئے پوچھا کہ تیری عقل کو آزماؤں۔ مزینہ قبیلہ کے دو شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ کیا فرماتے ہیں کہ آج جس کے لئے لوگ عمل کر رہے ہیں اور محنت اٹھا رہے ہیں، آیا فیصلہ ہو چکا اور تقدیر میں وہ بات گزر چکی یا آئندہ ہونے والا ہے اس حکم کی رو سے جس کو پیغمبر لے کر آئے اور ان پر حجت ثابت ہو چکی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب سے ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "قسم ہے جان کی اور قسم اس کی جس نے اس کو بنایا، پھر اس کو بُرائی اور بھلائی بتا دی" (الشمس: 7-8)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : تقدیر، بدبختی اور نیک بختی کے بارے میں۔
1844: سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ ہم بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے آپﷺ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپﷺ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپﷺ کے پاس ایک چھڑی تھی۔ آپﷺ سر جھکا کر بیٹھے اور چھڑی سے زمین پر لکیریں کرنے لگے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کا ٹھکانہ اللہ نے جنت میں یا جہنم میں نہ لکھ دیا ہو اور یہ نہ لکھ دیا ہو کہ وہ نیک بخت ہے یا بدبخت ہے۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اپنے لکھے پر کیوں بھروسہ نہ کریں اور عمل کو چھوڑ دیں (یعنی تقدیر کے روبرو عمل کرنا بے فائدہ ہے جو قسمت میں ہے وہ ضرور ہو گا)؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو نیک بختوں میں سے ہے وہ نیکوں والے کام کی طرف چلے گا اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختوں والے کاموں کی طرف چلے گا۔ اور فرمایا کہ عمل کرو۔ ہر ایک کو آسانی دی گئی ہے لیکن نیکوں کے لئے آسان کیا جائے گا نیکوں کے اعمال کرنا اور بدوں کے لئے آسان کیا جائے گا بدوں کے اعمال کرنا۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ "پس جس نے خیرات کی اور ڈرا اور بہتر دین (یعنی اسلام) کو سچا جانا، پس اس پر ہم نیکی کرنا آسان کر دیں گے اور جو بخیل ہوا اور بے پرواہ بنا اور نیک دین کو اس نے جھٹلایا توہم اس پر کفر کی سخت راہ کو آسان کر دیں گے " (اللیل: 5...10 )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (جن) اعمال (پر انسان کی زندگی کا) خاتمہ (ہوا، ان) کے متعلق۔
1845: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی مدت تک اچھے کام کیا کرتا ہے (یعنی جنتیوں کے کام)، پھر اس کا خاتمہ دوزخیوں کے کام پر ہوتا ہے اور آدمی مدت تک جہنمیوں کے کام کرتا ہے ، پھر اس کا خاتمہ جنتیوں کے کام پر ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اجل مقرر ہو چکی ہیں اور رزق تقسیم ہو چکے ہیں۔
1846: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا اللہ! تو مجھے میرے خاوند رسول اللہﷺ، میرے باپ ابو سفیانؓ اور میرے بھائی معاویہؓ سے فائدہ عطا کر۔ پس رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا کہ تو نے اللہ تعالیٰ سے ان باتوں کے لئے کہا جن کی میعادیں مقرر ہیں، اور قدم تک جو چلیں لکھے ہوئے ہیں، اور روزیاں بٹی ہوئی ہیں ان میں سے کسی چیز کو اللہ اس کے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دیر سے کرنے والا نہیں ہے۔ اگر تو اللہ سے یہ مانگتی کہ تجھے جہنم کے عذاب سے یا قبر کے عذاب سے بچائے تو بہتر ہوتا۔ ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! بندر اور سور ان لوگوں میں سے ہیں جو مسخ ہوئے تھے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو ہلاک کیا یا ان کو عذاب دیا ان کی نسل نہیں چلائی اور بندر اور سور تو ان لوگوں سے پہلے موجود تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (انسانی) پیدائش کس طرح ہوتی ہے اور شقاوت اور سعادت کے بارے میں۔
1847: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا اور آپﷺ (صادق المصدوق) سچے ہیں اور سچے کئے گئے ہیں (فرمایا کہ) بیشک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے ، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے ، پھر چالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے ، وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اس کو چار باتوں کا حکم ہوتا ہے۔ ایک تو اس کی روزی لکھنا (یعنی محتاج ہو گا یا مالدا)، دوسرے اس کی عمر لکھنا (کہ کتنا جئے گا)، اور تیسرے اس کا عمل لکھنا (کہ کیا کیا کرے گا) اور یہ لکھنا کہ نیک بخت (جنتی) ہو گا یا بدبخت (جہنمی)ہو گا۔ پس میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی اہل جنت کے کام کرتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اس میں اور بہشت میں بالشت بھر کا فاصلہ رہ جاتا ہے (یعنی بہت قریب ہو جاتا ہے ) پھر تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہو جاتا ہے ، پس وہ دوزخیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ اور کوئی آدمی عمر بھر دوزخیوں کے کام کیا کرتا ہے ، یہاں تک کہ دوزخ میں اور اس میں سوائے ایک ہاتھ بھر کے کچھ فرق نہیں رہتا کہ تقدیر کا لکھا اس پر غالب ہوتا ہے ، پس وہ بہشتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور پھر بہشت میں چلا جاتا ہے۔

1848: سیدنا حذیفہ بن اسیدؓ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ جب نطفہ چالیس یا پینتالیس رات رحم میں ٹھہر جاتا ہے تو فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اے رب! اس کو بدبخت لکھوں یا نیک بخت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے ویسا ہی لکھتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ مرد لکھوں یا عورت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے ویسا ہی لکھتا ہے اور اس کا عمل، اثر، عمر اور روزی لکھتا ہے پھر کتاب لپیٹ دی جاتی ہے ، نہ اس سے کوئی چیز بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے۔

1849: سیدنا عامر بن واثلہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن مسعودؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ بدبخت وہ ہے جو اپنی ماں کے پیٹ سے بدبخت ہے اور نیک بخت وہ ہے جو دوسرے سے نصیحت پائے۔عامر بن واثلہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے یہ سن کر رسول اللہﷺ کے ایک صحابی کے پاس آئے جن کو حذیفہ بن اسید غفاریؓ کہتے تھے ، اور ان سے عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول بیان کیا اور کہا کہ بغیر عمل کے آدمی کیسے بدبخت ہو گا؟ سیدنا حذیفہؓ بولے کہ تو اس سے تعجب کرتا ہے ؟ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ جب نطفہ پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے ، وہ اس کی صورت بناتا ہے اور اس کے کان، آنکھ، کھال، گوشت اور ہڈی بناتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! یہ مرد ہو یا عورت؟ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! اس کی عمر کیا ہے ؟ پھر اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے کہ اے رب! اس کی روزی کیا ہے ؟ پھر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہ حکم کرتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ فرشتہ اپنے ہاتھ میں یہ کتاب لے کر باہر نکلتا ہے اور اس (کتاب) سے نہ کچھ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا ہے۔اور ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ (فرشتہ پوچھتا ہے کہ) یہ تندرست اعضاء والا ہو یا عیب دار، پھر اللہ اس کو عیب سے پاک یا عیب والا پیدا کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : انسان کی تقدیر میں اس کا حصۂ زنا لکھ دیا گیا ہے۔
1850: سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: انسان کی تقدیر میں زنا سے اسکا حصہ لکھ دیا گیا ہے جس کو وہ خواہ مخواہ کرے گا۔ تو آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ، زبان کا زنا بات کرنا ہے ، ہاتھ کا زنا پکڑنا (اور چھونا) ہے ، پاؤں کا زنا (برائی کی طرف) چلنا ہے ، دل کا زنا خواہش اور تمنا ہے اور شرمگاہ ان باتوں کو سچ کرتی ہے یا جھوٹ۔
 
Top