• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : تکلیف پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں۔
1928: سیدنا عبد اللہ بن قیسؓ کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ سے زیادہ کوئی ایذا یا تکلیف پر صبر کرنے والا نہیں (باوجودیکہ ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے )۔ اللہ کے ساتھ لوگ شرک کرتے ہیں اور اس کے لئے بیٹا بتاتے ہیں (حالانکہ اس کا کوئی بیٹا نہیں سب اس کے غلام ہیں)۔ پھر بھی وہ ان کو تندرستی دیتا ہے ، روزی دیتا ہے اور ان کو (تمام نعمتیں) دیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔
1929: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی کو اپنی تعریف کرنا اتنا پسند نہیں ہے جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے (کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے اور سب میں عیب موجود ہیں تو تعریف کے قابل نہیں ہیں)، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی خود تعریف کی اور اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو عذر کرنا پسند نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کو یہ بہت پسند ہے کہ گنہگار بندے اس کے سا منے عذر کریں اور اپنے گناہ کی معافی چاہیں) اسی واسطے اس نے کتاب اتاری اور پیغمبروں کو بھیجا (اور توبہ کی تعلیم کی)۔

1930: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ غیرت کرتا ہے اور مومن بھی غیرت کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اس میں غیرت آتی ہے کہ مومن وہ کام کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سرگوشی اور بندے کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کے متعلق۔
1931: صفوان بن محرز کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرؓ سے کہا کہ تم نے رسول اللہﷺ سے سرگوشی کے بارے میں کیا سنا ہے ؟ (یعنی اللہ تعالیٰ جو قیامت کے دن اپنے بندے سے سرگوشی کرے گا) انہوں نے کہا کہ میں نے آپﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ مومن قیامت کے دن اپنے مالک کے پاس لایا جائے گا، یہاں تک کہ مالک اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور کہے گا کہ تو اپنے گناہوں کو پہچانتا ہے ؟ وہ کہے گا کہ اے رب! میں پہچانتا ہوں۔ پروردگار فرمائے گا کہ میں نے ان گناہوں کو دنیا میں تجھ پر چھپا دیا اور اب میں ان کو آج کے دن تیرے لئے بخش دیتا ہوں۔ پھر وہ نیکیوں کی کتاب دیا جائے گا اور کافر اور منافقوں کے لئے تو مخلوقات کے سامنے منادی ہو گی کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کافر اور منافق کا قیامت کے دن نعمتوں کا اقرار۔
1932: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم اپنے پروردگار کو قیامت کے دن دیکھیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں شک پڑتا ہے ٹھیک دوپہر کے وقت جب کہ بادل بھی نہ ہو؟ صحابہؓ نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کو دیکھنے میں تکلیف ہوتی ہے جب اس کے آگے بادل نہ ہو؟ صحابہؓ نے کہا کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پس قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تمہیں اپنے رب کے دیدار میں کوئی شبہ اور اختلاف یا تکلیف نہ ہو گی، مگر جیسے سورج یا چاند کو دیکھنے میں (یعنی جیسے چاند سورج کو دیکھنے میں اشتباہ نہیں ہے ، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں اشتباہ نہ ہو گا) پھر حق تعالیٰ بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ سچ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا؟ پس بندہ کہے گا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ہم بھی تجھے بھولتے ہیں (یعنی تیری خبر نہ لیں گے اور تجھے عذاب سے نہ بچائیں گے ) جیسے تو ہمیں بھولا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوسرے بندے سے حساب کرے گا تو کہے گا کہ اے فلاں! بھلا میں نے تجھے عزت نہیں دی تھی اور تجھے سردار نہیں بنایا تھا اور تجھے تیرا جوڑا نہیں دیا تھا اور گھوڑوں اور اونٹوں کو تیرا تابع نہیں کیا تھا اور تجھے چھوڑا کہ تو اپنی قوم کی سرداری (سیاست) کرتا تھا اور چوتھا حصہ لیتا تھا؟ تو بندہ کہے گا کہ اے میرے رب! سچ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بھلا تجھے معلوم تھا کہ تو مجھ سے ملے گا ؟ تو بندہ کہے گا کہ نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ پس یقیناً میں بھی اب تجھے بھلا دیتا ہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھولا تھا۔ پھر تیسرے بندے سے حساب کرے گا اور اس سے بھی اسی طرح کہے گا۔ بندہ کہے گا جہ اے رب! میں تجھ پر ایمان لایا اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر اور میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اور صدقہ دیا۔ اسی طرح اپنی تعریف کرے گا جہاں تک اس سے ہو سکے گا۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ دیکھ یہیں تیرا جھوٹ کھلا جاتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر حکم ہو گا کہ اب ہم تیرے اوپر گواہ کھڑا کرتے ہیں۔ بندہ اپنے جی میں سوچے گا کہ کون مجھ پر گواہی دے گا۔ پھر اس کے منہ پر مہر ہو گی اور اس کی ران، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کے لئے کہا جائے گا، اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کی گواہی دیں گی اور یہ گواہی اس واسطے ہو گی تاکہ اسی کی ذات کی گواہی سے اس کا عذر باقی نہ رہے۔ اور یہ شخص منافق یعنی جھوٹا مسلمان ہو گا اور اسی پر اللہ تعالیٰ غصہ کرے گا (اور پہلے دونوں کافر تھے۔ معاذ اللہ جب تک دل سے خالص اللہ کے لئے عبادت نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ لوگوں کو دکھانے کی نیت سے نماز یا روزہ رکھنا اور وبال ہے ، اس سے نہ کرنا بہتر ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قیامت کے دن انسان کے اعمال کے متعلق اس کے اعضاء کی گواہی
1933: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپﷺ مسکرائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں کس واسطے مسکرایا ہوں؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرما یا کہ میں بندے کی اس گفتگو کی وجہ سے مسکرایا ہوں جو وہ اپنے مالک سے کرے گا۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے مالک! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا ہے ؟ (یعنی تو نے وعدہ کیا ہے کہ ظلم نہ کروں گا) نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ ہاں! ہم ظلم نہیں کرتے۔ نبیﷺ نے فرما یا کہ پھر بندہ کہے گا کہ میں کسی کی گواہی کو اپنے اوپر سوائے اپنی ذات کے جائز نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا! تیری ہی ذات کی گواہی تجھ پر آج کے دن کفایت کرتی ہے۔ اور کراماً کاتبین کی گواہی۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر بندہ کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء (ہاتھ پاؤں) کو حکم ہو گا کہ بولو۔ وہ اس کے سارے اعمال بول دیں گے۔ پھر بندہ کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی تو بندہ اپنے اعضاء (ہاتھ پاؤں) سے کہے گا کہ چلو دُور ہو جاؤ، تم پر اللہ کی مار، میں تو تمہارے لئے جھگڑا کرتا تھا (یعنی تمہارا ہی دوزخ سے بچانا مجھے منظور تھا۔ پس تم آپ ہی گناہ کا قرار کر چکے ، اب دوزخ میں جاؤ)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کے عذاب سے سخت خوف رکھنے کے متعلق۔
1934: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، جب وہ مرنے لگا تو اپنے لوگوں سے بولا کہ (مرنے کے بعد) مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر آدھی راکھ جنگل میں اُڑا دینا اور آدھی سمندر میں اللہ کی قسم! اگر اللہ مجھے پائے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ کہ ویسا عذاب دنیا میں کسی کو نہیں کرے گا۔ جب وہ شخص مر گیا تو لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگل کو حکم دیا تو اس نے سب راکھ اکٹھی کر دی۔ پھر سمندر کو حکم دیا تو اس نے بھی اکٹھی کر دی۔ پھر اللہ نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا کہ اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیرے ڈر کی وجہ سے کیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی کے متعلق، جس نے گناہ کیا اور پھر اپنے رب سے بخشش مانگی۔
1935: سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب سے روایت کی کہ ایک بندہ گناہ کر بیٹھا تو کہا کہ اے اللہ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا پھر اس نے جان لیا کہ اسکا ایک مالک ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے مالک! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے ایک گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے گناہ کیا اور کہا کہ اے میرے پالنے والے ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ نے فرمایا کہ میرے بندے نے گناہ کیا اور اس نے یہ جان لیا کہ اس کا ایک اللہ ہے ، جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے۔ اے بندے ! اب تو جو چاہے عمل کر، میں نے تجھے بخش دیا۔ (راوئ حدیث) عبد الاعلیٰ نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ یہ "اب جو چاہے عمل کر" تیسری بار فرمایا یا چوتھی بار فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی کے متعلق جس نے گناہ کیا پھر وضو کیا اور فرض نماز پڑھی۔
1936: سیدنا ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تھے اور ہم لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے ، اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہﷺ! میں حد کے کام کو پہنچا ہوں، مجھے حد لگائیے۔ رسول اللہﷺ یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اس نے پھر کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے حد کا کام کیا ہے ، مجھے حد لگائیے۔ آپﷺ چپ ہو رہے۔ اتنے میں نماز کھڑی ہوئی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو کر چلے تو وہ شخص بھی رسول اللہﷺ کے پیچھے چلا اور میں بھی آپﷺ کے پیچھے یہ دیکھنے کو چلا کہ آپﷺ اس شخص کو کیا جواب دیتے ہیں۔ پھر وہ شخص رسول اللہﷺ سے ملا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے حد کا کام کیا ہے ، مجھے حد لگائیے۔ سیدنا ابو امامہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس وقت تو اپنے گھر سے نکلا تھا، تو نے اچھی طرح سے وضو نہیں کیا؟ وہ بولا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! آپﷺ نے فرمایا کہ پھر تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ وہ بولا ہاں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تیری حد کو یا تیرے گناہ کو بخش دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسلم کے بدلے ایک کافر بطور فدیہ جہنم میں ڈالا جائے گا۔
1937: سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ہر ایک مسلمان کو ایک یہودی یا نصرانی دے گا اور فرمائے گا کہ یہ تیرا جہنم سے چھٹکارا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: منافقین کے متعلق۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان "(اے محمدﷺ!) جب منافق لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو ... یہاں تک کہ یہ (خودبخود) بھاگ جائیں" کی تفسیر۔
1938: سیدنا زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ، جس میں لوگوں کو (کھانے اور پینے کی) بہت تکلیف ہوئی۔ عبد اللہ بن ابی (منافق) نے اپنے ساتھی منافقوں سے کہا کہ "تم ان لوگوں کو جو رسول اللہﷺ کے پاس ہیں، کچھ مت دو، یہاں تک کہ وہ آپﷺ کے پاس سے بھاگ نکلیں"۔ زہیر نے کہا کہ یہ اس شخص کی قرأت ہے جس نے مِنْ حَوْلِہ پڑھا ہے (اور یہی قرأت مشہور ہے اور قرأت شاذ مَنْ حَوْلَہ ہے ، یعنی یہاں تک کہ بھاگ جائیں وہ لوگ جو آپﷺ کے گرد ہیں) اور عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا کہ "اگر ہم مدینہ کو لوٹیں گے تو البتہ عزت والا (یعنی مردود نے اپنے آپ کو عزت والا قرار دیا) ذلت والے کو نکال دے گا" (یعنی مردود نے رسول اللہﷺ کو ذلت والا قرار دیا)۔ میں یہ سن کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے عبد اللہ بن ابی کے پاس کہلا بھیجا اور اس سے پچھوایا، تو اس نے قسم کھائی کہ میں نے ایسا نہیں کہا اور بولا کہ زید نے رسول اللہﷺ سے جھوٹ بولا ہے۔ اس بات سے میرے دل کو بہت رنج ہوا، یہاں تک کہ اللہ نے مجھے سچا کیا اور سورۂ "اذا جآءَ کَ الْمُنَافِقُوْنَ ' اتری۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کو دعائے مغفرت کے لئے بلایا، لیکن انہوں نے اپنے سر موڑ لئے (یعنی نہ آئے ) اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ "گویا وہ لکڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئیں" سیدنا زیدؓ نے کہا کہ وہ لوگ ظاہر میں خوب اور اچھے معلوم ہوتے تھے۔
 
Top